’’ثابت قدم جہاں گرد‘‘
وسیع و عریض آسمان ہمیشہ سے اِنسان کے لیے توجہ کا حامل رہا ہے اور اِنسان ہمیشہ سے ستاروں پر کمند ڈالنے اور آسمان کے بھید اور اِسرار جاننے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ آج کے دور میں ہر ترقی یافتہ ملک کی کوشش ہے کہ کسی طرح آسمان پر اپنی حکمرانی ثابت کر سکے۔ کیونکہ آنے والے دور میں جس ملک و قوم کی پہنچ آسمان کی وسیع و طویل فضاؤں میں جس قدر بلند اور مضبوط ہوگی وہی حکمران ہوگا۔
جمعرات 18؍فروری2021ء ایک تاریخ ساز دن تھا جب ناسا کی محنت کی شاہکار اور سب سے بہترین مشینی خلائی لیبارٹری سیارہ مریخ کی سطح پر اُتری۔ اِس شاہکار مشین کا نام Perseverance, the rover (ثابت قدم جہاں گرد) ہے۔ یہ مشین قریباً سات ماہ خلا میں محوِ سفر رہی اور 472 ملین کلومیٹر سفر طے کرکے اپنی منزلِ مقصود مریخ جسے سُرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے پر بخیر و عافیت پہنچی۔ اور لینڈنگ کے چند لمحوں بعد ہی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر اپنے ناسا کے زمینی مرکز کو بھیجی۔ یہ تصویر ریڈیولہروں کے ذریعے 11منٹ میں زمین تک پہنچی۔ اِس خلائی لیبارٹری نے جس کے چھ پہیے ہیں جب سطح مریخ کو چھوا تو قائم مقام ناسا کے سربراہ Steve Jurczyk نے اپنے بیان میں کہا “میں بتا نہیں سکتا کہ میں کس قدر خوشی سے جذباتی ہو رہا ہوں”
دو سال کی محنت اور 2.7 بلین ڈالرز کی لاگت کے اِس مشن کا بنیادی مقصد مریخ پر اُن خوردبینی جرثوموں کی تلاش ہے جو قریباً 3 بلین سال پہلے پیدا ہوئے ہوں گے جب یہ سیارہ گرم مرطوب اور اِس کی فضا زندگی کے لیے موزوں ہوا کرتی ہوگی۔
قارئین کے لیے Red Planet یعنی مریخ کے متعلق کچھ دلچسپ حقائق پیشِ خدمت ہیں۔
سوویت یونین نے جب 1957ء میں اپنا خلائی سیارہ “اسپتنک” خلا میں بھیجا تب سے ہی اُن کی کوشش رہی کہ کسی طرح مریخ تک پہنچ سکیں۔ کچھ سالوں بعد سوویت یونین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ناسا نے بھی مریخ کے لیے اپنی کوششیں شروع کر دیں۔
10؍اکتوبر 1960ء کو سوویت یونین نے مریخ کے گرد چکر لگانے کے لیے “مارسنک1” خلا میں بھیجا جو کہ ناکام ہوا اور زمین کا مدار پار کرنے سے پہلے ہی فضا میں پھٹ گیا۔ 14؍اکتوبر 1960ء کو “مارسنک2” فضا میں چھوڑا اس کا حشر بھی وہی ہوا اور فضا میں پھٹ گیا۔ اِس کے بعد سوویت یونین نے مریخ کے لیے بہت سے مشن شروع کیے جو کبھی لانچ پیڈ پر پھٹ گئے اور کبھی فضا میں زمین کے مدار تک پہنچتے پہنچتے پھٹ کر تباہ ہوگئے۔
نومبر 1964ء کو ناسا نے “مارنیر3” لانچ کیا جو کہ اپنی پرواز کے ایک گھنٹے بعد تباہ ہوگیا۔ “مارنیر4” جو کہ ناسا نے 28؍ نومبر 1964ء کو خلا میں مریخ کے گرد چکر لگانے کے لیے بھیجا اور یہ کامیاب رہا اِس نے سات ماہ بعد 14؍جولائی 1965ء کو مریخ کے گرد پہلا چکر لگایا اورمریخ کی 21 تصاویر زمین پر بھیجیں۔
اِس کے بعد سوویت یونین اور امریکہ کی مریخ پہ پہنچنے کی ایک طویل اور مہنگی جدوجہد جاری رہی جس میں اربوں کھربوں ڈالرز لگائے گئے۔ پھر جاپان اور دیگر یورپی ممالک بھی شامل ہوگئے۔
مریخ کا نام رومن دیومالائی کہانیوں کے جنگجو خدا Mars کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ اپنے حجم کے لحاظ سے زمین سے نصف جسامت والا نظامِ شمسی کا چوتھا اور زمین کا ہمسایہ سیارہ ہے۔ اِسے سُرخ سیارہ اس کی سُرخی مائل رنگت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ مریخ سیارہ عطارد سے بڑا اور باقی تمام سیاروں سے چھوٹا ہے۔ سورج سے دُور ہونے کی وجہ سے اس کا درجہ حرارت منفی 140 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ نظامِ شمسی کے تمام سیاروں میں سے مریخ پر بلند ترین پہاڑیاں پائی جاتی ہیں۔ مریخ کے آتش فشاں پہاڑ Olympus Mons کی بلندی تقریباً 24 کلومیٹر ہے جو کہ ماؤنٹ ایورسٹ سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ مریخ پر دو چاند پائے جاتے ہیں۔ ایک کا نام Phobosہے اور دوسرے کا Deimos نام ہے۔
مریخ پر ایک دن 24 گھنٹے اور 37 منٹ طویل ہوتا ہے۔ اور اس کا ایک سال 687 زمینی دِنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جبکہ سائنسدانوں کو مریخ پر چند سال پہلے پانی کی موجودگی کے بھی واضح نشان ملے ہیں۔ اگر کسی چیز کا وزن زمین پر 100lbs ہو تو وہی چیز مریخ پر 38lbs وزنی ہوگی۔
ناسا کے “ثابت قدم جہاں گرد” مشن کی بدولت آنے والے دِنوں میں دُنیا بھر کے اہلِ علم کو مزید معلومات حاصل ہونگی۔ جو کہ بنی نوع انسان کے مستقبل کے لیے بنیاد کا درجہ ہونگے۔ اِس مشن کے متعلق اور مریخ پر اس مشن کی لینڈنگ کی ویڈیوز اور تازہ ترین تصاویر www.nasa.gov پر جا کر حاصل کی جا سکتی ہیں۔