احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
1860ء تا 1867ء
سیالکوٹ کا زمانہ
…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……
سیالکوٹ کے زمانہ سے متعلق
کچھ اہم واقعات
آپؑ کا انگریزی پڑھنا(حصہ دوم)
ابھی خاکسارنے لکھاتھا کہ حضرت اقدسؑ انگریزی زبان کے الہامات کولکھاہوادیکھتے یااس کی آوازسن کراس کوایک ملہَم کی طرح لکھ لیتے اوربعدمیں کسی انگریزی خواں سے اس کامفہوم ومضمون پوچھ لیاکرتے تھے۔ چنانچہ مذکورہ بالااقتباس کی ذیل میں مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کی ایک شہادت درج کی جاتی ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں:
’’بعد تحریر اِس جواب کے اُس دن (جس دن یہ جواب لکھا جاچکا تھا) جناب مؤلف اِس شہر بٹالہ میں جہاں میں اب ہوں تشریف لائے اور آپ کی ملاقات کا اتفاق ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا کہ انگریزی الہامات آپ کو کس طور پر ہوتے ہیں انگریزی حروف دکھائے جاتے ہیں انہوں نے جواب میں فرمایا کہ فارسی حروف میں انگریزی فقرات مکتوب دکھائے جاتے ہیں۔‘‘
حضرت اقدس علیہ السلام تحریرفرماتے ہیں:
’’علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایاگیاجوایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے۔ اس خط پرانگریزی زبان میں لکھاہواہے۔ آئی ایم کورلر اور عربی میں یہ لکھاہواہے ھَذَا شَاھِدٌنَزَّاغٌاوریہی الہام حکایتاً عن الکاتب القاکیاگیا اورپھروہ حالت جاتی رہی چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا۔ اس جہت سے پہلے علی الصباح میاں نوراحمدصاحب کواس کشف اورالہام کی اطلاع دے کراوراس آنے والے خط سے مطلع کرکے پھراسی وقت ایک انگریزی خوان سے اس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے تو معلوم ہواکہ اسکے یہ معنے ہیں …‘‘
[براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 563ح ح نمبر3]
حضرت اقدس علیہ السلام ایک اورجگہ لکھتے ہیں :
’’ ایک دفعہ کی حالت یادآئی ہے کہ انگریزی میں اول یہ الہام ہوا۔ آئی لویو،یعنی میں تم سے محبت رکھتاہوں۔ پھریہ الہام ہوا۔ آئی ایم وِد یویعنی میں تمہارے ساتھ ہوں پھرالہام ہوا۔ آئی شیل ہیلپ یویعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔ پھرالہام ہواآئی کین ویٹ آئی وِل ڈو۔ یعنی میں کرسکتاہوں جوچاہوں گا۔ پھربعداسکے بہت ہی زورسے جس سے بدن کانپ گیایہ الہام ہوا۔ وی کین ویٹ وی وِل ڈو۔ یعنی ہم کرسکتے ہیں جوچاہیں گے اوراس وقت ایک ایسالہجہ اورتلفظ معلوم ہواکہ گویاایک انگریزہےجوسرپرکھڑابول رہاہے اورباوجود پُر دہشت ہونے کے پھراسمیں ایک لذت تھی جس سے روح کومعنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفی ملتی تھی اور یہ انگریزی زبان کاالہام اکثرہوتارہاہے۔ایک دفعہ ایک طالبعلم انگریزی خوان ملنے کوآیا اس کے روبرو ہی یہ الہام ہوا۔ دس ازمائی اینیمی یعنی یہ میرادشمن ہے اگرچہ معلوم ہوگیاتھاکہ یہ الہام اسی کی نسبت ہے مگراسی سے یہ معنی بھی دریافت کئے گئے اورآخر وہ ایساہی آدمی نکلااوراس کے باطن میں طرح طرح کے خبث پائے گئے۔ ایک دفعہ صبح کے وقت بہ نظرکشفی چند ورق چھپے ہوئے دکھائے گئے کہ جو ڈاک خانہ سے آئے ہیں اور اخیرپران کے لکھاتھا آئی ایم بائی عیسیٰ یعنی میں عیسیٰ کے ساتھ ہوں۔ چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خوان سے دریافت کرکے دوہندوآریہ کوبتلایاگیا۔ ‘‘
[براہین احمدیہ ص 480-482،رخ1ص 571-574ح ح نمبر3]
بہرحال ان چندایک اقتباسات سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ حضرت اقدسؑ انگریزی زبان سے ناواقف اوراُمّی تھے۔
ملازمت سے استعفیٰ
جب حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہ سخت بیمارہوئیں توحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ نے حضور کو استعفیٰ دے کر واپس چلے آنے کا پیغام بھجوایا۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پیغام سنتے ہی فوراً سیالکوٹ سے روانہ ہوگئے۔ امرت سر پہنچے تو قادیان کے لئے تانگہ کا انتظام کیا۔ اسی اثنا میں قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپ کو لینے کے لئے امرت سر پہنچ گیا۔ معلوم ہوتاہے کہ یہ شخص میراں بخش حجام تھا اور جب حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہؓ وفات پاگئیں تو آپؑ کے والدماجدؓ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ جانتے تھے کہ آپؑ کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی اور آپؑ کی وفات کا یکلخت علم نہ ہونے پائے۔ اس لئےایک شخص قادیان سے روانہ کیا گیا تاکہ راستے میں وہ حضرت اقدسؑ کو حکمت سے آہستہ آہستہ وفات کی اطلاع دے۔ چنانچہ جس وقت بٹالہ سے یکہ لے کے قادیان کے لیے نکلے تو حضور کو حضرت والدہ صاحبہ کی علالت کی خبر دی گئی البتہ جب قادیان کی طرف آئے تو اس شخص نے یکہ والے کو کہا کہ بہت جلد لے چلو۔ حضرت نے پوچھا کہ اس قدر جلدی کیوں کرتے ہو؟اس نے کہا کہ ان کی طبیعت بہت ناساز تھی۔ پھر تھوڑی دور چل کر اس نے یکہ والے کو اور تاکید کی کہ بہت ہی جلدی لے چلو۔ تب پھر پوچھا۔ اس نے پھر کہا کہ ہاں طبیعت بہت ہی ناساز تھی کچھ نزع کی سی حالت تھی۔ خدا جانے ہمارے جانے تک زندہ رہیں یا فوت ہوجائیں۔ پھر حضرت خاموش ہوگئے۔ آخر اس نے پھر یکہ والا کو سخت تاکید شروع کی تو حضرت نے کہا کہ تم اصل واقعہ کیوں بیان نہیں کردیتے کیا معاملہ ہے۔ تب اس نے کہا کہ اصل میں مائی صاحبہ فوت ہوگئی تھیں اس خیال سے کہ آپ کو صدمہ نہ ہویک دم خبر نہیں دی۔ حضرت نے سن کر انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔
( ماخوذازحیات احمدجلداول ص219)
الغرض آپؑ ایک قابل قدرجوہر، ایک چمکتےہوئے ہیرے کی طرح سیالکوٹ شہرکی فضاؤں میں نورکی کرنیں بکھیرتے ہوئے جب تک کہ خداکی منشا تھی تب تک وہاں رہے اور پھر حسبِ منشائے الٰہی آپؑ قادیان واپس تشریف لے آئے۔ غالب امکان ہے کہ قادیان واپسی کا یہ سفر 18؍اپریل 1867ء کی تاریخ کوطے کیاگیاہوگا۔ جوکہ آپؑ کی والدہ ماجدہؒ کی وفات کادن تھا۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭