متفرق مضامین

پریوں کے دیس بابوسر ٹاپ اور جھیل سیف الملوک کا تفریحی دورہ (قسط دوم۔ آخری)

(امجد گکھڑوی)

جھیل سیف الملوک

قبل ازیں جھیل سیف الملوک دیکھنے کے لیے ہمارا خیال تھاکہ اگلے دن صبح جائیں گے لیکن پھر احباب کے مشور ے سے طے پایاکہ آج ہی چلتے ہیں۔ اورکل صبح بالاکوٹ سید احمدشہید صاحب کے مزار پر دعا کرنے کے بعد مظفر آباد سے ہوتے ہوئے مری کی سیر کریں گے اوروہیں سے ربوہ کو واپسی ہوجائے گی۔ مکرم سندھوصاحب نے قائد صاحب سے عرض کی ان کی طبیعت ذراناساز ہے اس لیے وہ جھیل پرجانے کی بجائے ناران جاکر اپنے کمرے میں آرام فرمائیں گے۔ مکرم قائد صاحب نے اعلان کیا کہ جن دوستوں نے جھیل پرجاناہے وہ گاڑی میں سے اپنا ضروری سامان نکال لیں کیونکہ ہم گاڑی ہوٹل میں کھڑی کرکے بذریعہ جیپ سیف الملوک جائیں گے۔ چنانچہ مطلوب صاحب ناران پہنچنے پرباقی دوستوں کوجیپ سٹینڈ پر اُتار کر گیسٹ ہاؤس اپنے کمرے کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے چلے گئے۔ خاکسار اور سندھوصاحب بھی ساتھ تھے۔ سندھوصاحب کوڈرائیور صاحب نے کچھ ادویات دیں۔ اس کے بعد سندھوصاحب کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی اس لیے مطلوب صاحب کے ساتھ ہم دونوں جیپ سٹینڈ کی طرف چل پڑ ے۔ باقی تمام دوست جیپ میں بیٹھ چکے تھے اور اب تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ بہرحال ہم بھی کسی نہ کسی طرح اس میں سما ہی گئے۔ آسمان پر بادل پھر برسنے کوتیا ر تھے۔ ڈرائیور نے جیپ کی چھت کپڑے سے بند کی ہوئی تھی۔ سب دوستوں نے خان صاحب سے بھر پور اصرار کیا کہ چھت کھول دیں تاکہ ہم ذرا کھلے ہوکر بیٹھ جائیں اور وادی کا نظارہ بھی ہوجائے۔ لیکن خان صاحب نہیں مانے کہ موسم کا کوئی پتہ نہیں کہ کس وقت بارش شروع ہوجائے۔ بہرحال اللہ کا نام لے کر اس دُشوار گزار سفر کا آغاز ہوا۔ بارش شروع ہوچکی تھی اور بلند ترین پہاڑوں سے گزرنے والے کچے جیپ ٹریک پر شدید پھسلن تھی۔ راستے کی چوڑائی اتنی کم تھی کہ دوسری طرف سے کوئی جیپ یاگاڑی گزرتی تو بڑی احتیا ط سے گزرنا پڑتا کیونکہ پہاڑوں کی دوسری سائیڈ پر گہری کھائیاں تھیں جن کی طرف دیکھنے سے بھی خوف آتا تھا۔ سفر کی کامیابی کے لیے جتنی دعائیں یاد تھیں ہم نے کرڈالیں۔ ڈرائیور کی ہمت کی ہم داد دیتے ہیں کہ وہ اس خراب موسم میں بھی بڑے اعتماد سے گاڑی چلارہاتھا۔ بہرحال دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ لاحول کا ورد کرتے ہوئے اور گپ شپ لگاتے ہوئے ہم آخر کار جھیل سیف الملوک کے قریب پہنچ ہی گئے جہاں ملکہ پربت نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ اس وقت ہم اُس جھیل کے پاس کھڑے تھے جو دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ وہ حسین جھیل ہے جو وادی کاغان کے اختتام اور وادی ناران کے انتہائی قریب ہے۔ اس کا شمار پاکستان کی بلند ترین جھیلو ں میں ہوتا ہے۔ یہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ بے اختیارشعر یاد آگیا۔

کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا

بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

ہوٹلوں اور چائے خانوں سے گزر کر ہم جھیل کے کنارے کی طرف بڑھنے لگے۔ یہاں ٹھنڈی اور یخ بستہ ہواچل رہی تھی۔ تھوڑ ی دیر گزری تھی کہ بارش شروع ہوگئی۔ عزیزم مصلح الدین نے فوراًچھتری نکالی اور اس طرح بارش سے بچاؤ کا سامان پیدا ہوگیا۔ ہم نے بند بوٹ اور دودوکوٹ پہنے ہوئے تھے اس کے باوجود اتنی ٹھنڈ تھی کہ ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اوپر سے بارش اور جھیل کا حسین منظر ایک سحر انگیز کیفیت پیش کررہا تھا۔ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگ ان لمحات کو یادگار بنانے کے لیے انہیں اپنے کیمروں میں محفوظ کررہے تھے۔ انہی لمحات میں ہم نے دیکھا کہ ایک ماں اپنی بیٹی کو تصویر لیتے ہوئے دعا دے رہی تھی کہ خدا تمہیں سیف الملوک جیسا شہزادہ دے۔ اس جھیل کے بارے میں مختلف داستانیں مشہورہیں۔

جھیل سیف الملوک کے مناظر انتہائی حسین اور ہمارے سفر کے پُر لطف اور یادگار ترین لمحات تھے۔ یہاں بعض لوگ شہد بھی بیچ رہے تھے اور بقول اُن کے یہ خالص شہد تھا۔ ہم نے ریٹ پوچھا تو 900روپے فی شیشی بتایا گیا۔ ہم نے اپنے زعم میں ریٹ بہت کم کروایا اور 250روپے میں ایک شیشی خرید لی۔ اس کے بعد جو ریٹ ٹوٹا تو 110روپے فی شیشی پر آگیا چنانچہ دیگر دوستوں نے بھی شہد خرید لیا۔ آخری دو شیشیاں ملک صاحب نے خریدیں۔ ملک صاحب اس سے بھی کم کرواناچاہتے تھے لیکن شہد والا نہ مانا۔ آخرکار جب ہم واپس جارہے تھے اُس وقت وہ ہمارے پیچھے پیچھے جیپ سٹینڈ پر آگیا اور منت سماجت کرنے لگا۔ آخرکار ملک صاحب نے بھی شہد کی دو شیشیاں خرید لیں۔ خوش قسمتی سے واپسی پر بارش کی آنکھ مچولی رک چکی تھی اور موسم صاف ہوچکا تھا۔ ہم لوگ جیپ میں بیٹھنے لگے تو پھر جگہ کی تنگی کا احساس ہوا۔ اس موقع پرسندھوصاحب نے رضاکارانہ پیشکش کی کہ آپ لوگ آرام سے جیپ میں بیٹھ جائیں میں جیپ کے پیچھے لٹک جاتا ہوں۔ ہم سب نے منع کیالیکن وہ اس پرمصر رہے کہ میں اپنے دوستوں کے لیے یہ قربانی ضرور دوں گا۔ قائد صاحب نے ڈرائیور کے ساتھ پیچھے جاکر دیکھا توایک سیڑھی لگی ہوئی تھی جس پر لٹکا جاسکتا تھا۔ بادل نخواستہ انہیں اجازت دے دی گئی۔ لیکن راستے میں ہم باربار چیک کرتے رہے کہ سندھو صاحب خیریت سے ہیں۔ جب ہم انہیں آواز دیتے تو وہ جواب دے کر اپنی خیریت سے مطلع فرماتے۔ سفرجاری تھا اور ہمارے دل طاہر سندھوصاحب کے لیے وھڑک رہے تھے۔ جیپ کے عقب سے صرف ان کا ہاتھ نظر آرہا تھا جس سے انہوں نے سیڑھی کو پکڑا ہوا تھا۔ ہم جب ان کا ہاتھ دیکھتے تو تسلی ہوجاتی۔ اچانک ایک دوست نے توجہ دلائی کہ ایسانہ ہوکہ سندھوصاحب اپنا ہاتھ لٹکا کر خود کہیں اور چلے گئے ہوں۔ پھر ان کو آواز دی توان کا جواب آیا کہ میں خیریت سے ہوں۔ فکر نہ کریں۔ کچھ دیر آگے جاکر جیپ رک گئی۔ چند گاڑیا ں اور بھی کھڑی تھیں۔ پتہ چلاکہ یہاں کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہے جس کی وجہ سے راستہ عارضی طورپر بند ہے۔ چند منٹ بعد راستہ کھل گیا۔ اور ہم آگے روانہ ہوگئے۔ خطرناک اورپُر پیچ راستوں سے گزرتے ہوئے ہم ایک موڑ سے گزرے تو ایک گلیشئر نے ہمارااستقبال کیا۔ ہم نے جیپ سے اتر کر تصاویر بنانے کا ارادہ کیا۔ قائد صاحب نے ہدایت کی کہ گلیشئر کے بالکل نیچے نہ کھڑے ہوں بلکہ ایک سائیڈ پرکھڑے ہوکر تصویر بنائیں۔ کیونکہ یہاں گلیشئراچانک گرجانے کی وجہ سے حادثات ہوچکے ہیں۔ یہاں تصویروں کا شوق پورا کرنے کے بعد ہم چلتے چلتے اپنی منزل ناران پہنچ گئے۔ اپنے کمروں میں جاکر ہم نے آرام کیا۔ اس کے بعد جھیل سیف الملوک کے حسن وجمال پر تبصر ے ہوتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد شام ہوگئی تو بھو ک ستانے لگی۔ چنانچہ مصور صاحب نے حسب روایت لذیذ کھانا تیار کیا۔ کھانے کے بعد بعض دوستوں نے موجودہ ملکی سیاست اور حالات حاضرہ پر اپنے تبصرے پیش کیے۔

کھانے کے بعد ہم نے قائد صاحب کے ساتھ بازار کا رُخ کیا کیونکہ پہلے دن ہم بارش کی وجہ سے بازارنہ جاسکے تھے اور آج ناران میں ہمارا آخری دن تھا اس لیے موقع مل گیا۔ ہزاروں میٹر بلند پہاڑوں کی گود میں یہ وادی ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور شاپنگ مالز سے بھری پڑی ہے۔ ہر طرف سیاحوں کا ہجوم ٹھنڈے موسم کامزہ لیتے اور ناران کے صدر بازار میں شاپنگ کرتے ہوئے دکھائی دے گا۔ کھانے پینے کے شوقین افرادکے لیے ناران کسی بڑے شہر کی فوڈ سٹریٹ سے بالکل کم نہیں۔ ذائقے کے لحاظ سے ایسا کہ آپ چٹخارے لیتے رہ جائیں۔ وادی ناران کے بازار میں ہینڈی کرافٹس کی بے شمار دکانیں ہیں جن پر دور دور سے آنے والے سیاحوں کا جم غفیر نظر آتاہے۔ الغرض جتنی خوبصورت یہ وادی ہے اُتنے ہی خوبصورت دلوں والے لوگ آپ کے ٹور کو یادگار بنادیں گے جوآپ کے دماغ کے کینوس پر ساراسال نقش رہے گا۔

بازار کی سیر سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ واپس ہوٹل میں آگئے۔ قائد صاحب نے سب دوستوں کو ہدایت کی کہ صبح پونے پانچ بجے نماز فجر ادا کی جائے گی اس کے بعد ناران سے روانگی ہوگی۔ ناشتہ ہم راستے میں کریں گے۔ اس لیے اپنا سامان وغیرہ ابھی پیک کرلیں اور گاڑی میں رکھوادیں تاکہ صبح بروقت روانگی عمل میں آسکے۔

آخری دن

رات کو بازار کی سیر کے بعد واپس آکر ہم ایسے گھوڑے بیچ کر سوئے کہ صبح ساڑھے چار بجے عبدالستارصاحب نے دستک دی تو آنکھ کُھلی۔ نماز باجماعت سے فارغ ہوکر ہم نے وائنڈاپ شروع کردیا۔ تما م بستر وغیر ہ سمیٹ کر ہوٹل والوں کو بُلایا اور چابیاں ان کے سپرد کرکے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اب ہم اس خوبصورت وادی کو الوداع کہہ رہے تھے۔ گاڑی روانہ ہوئی اورآہستہ آہستہ یہ وادی ہم سے بہت پیچھے رہ گئی جس کی حسین یادیں ابھی تک دلوں میں نقش ہیں۔ صبح چھ بجے تک ہم بالاکوٹ پہنچ گئے۔ یہاں ایک عظیم بزرگ مدفون ہیں۔ 2005ء میں مظفرآباد اور ارد گرد کے علاقوں میں خوفناک زلزلے سے بہت تباہی ہوئی لیکن خدا نے اس مقام کو معجزانہ رنگ میں محفوظ رکھا۔ ہمارے قدم اس بزرگ کے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے جنہوں نے سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔ وہاں تصاویر بنوانے کاشرف حاصل کیا۔ اس کے بعد قریب ہی ایک معلق پُل ہے جس کے نیچے سے ایک نہر گزررہی ہے۔ یہ پُل بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ اب ہمیں بھوک ستانے لگی تو قریب ہی ایک اچھے سے ہوٹل میں ناشتہ کیا اور پھر گاڑی مظفرآباد کی طرف روانہ ہوگئی۔ راستے میں گڑھی حبیب اللہ کامقام آیا۔ اس کے بعد مظفر آباد کاتاریخی پُل آگیا۔ وہاں ہم نے تصاویر بنوائیں۔ یہ پل خوبصور تی میں اپنی مثال آپ ہے۔ مظفرآباد جسے 2005ء کے خوفناک زلزلے میں شدید نقصان پہنچا تھا پھر سے ایک خوبصورت شہر کا منظر پیش کر رہا تھا جس کی اونچی نیچی سڑکوں اور بل کھاتی ہوئی پہاڑیوں پر سفر کرنا بہت اچھا لگا۔ یہاں سڑک کے ایک جانب دریائے نیلم بہ رہا ہے اوراس کے اردگرد آبادی ہے جسے دیکھ کر باربار یہ خیال آتا ہے کہ آخر یہ لوگ اتنی مشکل جگہوں پر کیسے رہتے ہیں۔ سڑک سے اُتر کر آبادی تک میلوں دُور طالب علم، خواتین اورمرد حضرات روزانہ کس طرح آتے جاتے ہوں گے۔

مظفر آبا دکے راستے سے واپس جانے کا ایک یہ بھی فائدہ ہوا کہ ہمارے ایک پیارے بزرگ محترم میر صاحب بھی ان علاقوں کی سیر کے لیے آئے ہوئے تھے اس لیے ان سے ملاقات کا امکان بھی تھا۔ ہم نے میر صاحب کوفون کیاتو انہوں نے بتایا کہ پل کراس کرکے آگے آجا ئیں۔ تھوڑی دور جاکر ہم کشمیر لیک ویو ہوٹل کے پاس پہنچ گئے جہاں میر صاحب نے بنفس نفیس ہمار ا استقبال کیا۔ ہم نے اپنے دلچسپ سفر کی مختصر رپورٹ دی اور پھر میر صاحب کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ اس کے بعد میر صاحب کی طرف سے سب کو چائے او رسموسے پیش کیے گئے۔

اس کےبعد ہمارا اگلا سٹاپ مری تھا۔ ملکہ کوہسار مری پاکستان کے شمال میں ایک مشہور اور خوبصورت سیاحتی تفریحی مقام ہے جو اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پرواقع ہے۔ مری کا سفر سرسبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اور دوڑتےرقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں سے بھرپور ہے۔ اس کےعلاوہ گرمیوں میں سبزاور سردیوں میں سفید رہنےوالے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے بہت کشش کا باعث ہیں۔ جیسے ہی ہم مری کے قریب پہنچے، سیکیورٹی اہلکاروں نے ہمیں روک لیاکہ یہاں سے آگے گاڑی نہیں جائے گی۔ ہم نےگاڑی وہیں ایک سائیڈ پر پارک کی اور پیدل چل پڑے۔ دوپہر کے بارہ بج چکے تھے۔ قائد صاحب نے اس موقع پر اعلان کیا کہ سب دوست مری کی سیر کے بعد ٹھیک اڑھائی بجے واپس گاڑی کے پاس آجائیں۔ یہاں سے چلتےچلتےہم شہر کی اس مرکزی سڑک پر چلے گئے جسے مال روڈ کہاجاتا ہے۔ یہاں شہر کے مشہور تجارتی مراکز او رکثیر تعداد میں ہوٹل قائم ہیں۔ موسم گرما میں کشمیر کی برف پوش پہاڑیوں کا نظارہ بھی کیاجاسکتا ہے جبکہ بارشوں کے دنوں میں بادلوں کے کھیل تماشے اور سورج کے غروب ہونے کا منظر بھی نظر آتا ہے۔ بہر حال مری کی اپنی ہی کشش ہے۔ یہاں بھی سب دوستوں نے خوب انجوائے کیا اور شاپنگ کی۔ اس دوران سندھو صاحب حسب معمول مختلف جگہوں پر سیلفیاں لینے میں مصروف رہے۔

مری سے واپسی پر ہم نے ایک ہوٹل میں چائے پی کیونکہ اس کے بعد ایک لمبا سفر درپیش تھا۔ چائے کے بعد گاڑی ربوہ کے لیے روانہ ہوئی۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اچانک بشارت صاحب نے نعرہ لگایاکہ ملک ناصر صاحب کدھر ہیں۔ ان کے ساتھ والی سیٹ خالی تھی۔ پھر کیا تھا۔ سب پریشان ہوگئے۔ ملک صاحب کو فون کیا تو ان کاغصہ انتہائی حدوں کو چھور ہا تھا۔ وہ احتجاج کررہےتھے کہ آپ مجھے یہاں کیوں چھوڑ گئے ہیں۔ دراصل ہوٹل میں چائےپینےکے بعد وہ واش روم چلےگئےتھے۔ اسی اثنا میں گاڑی روانہ ہوگئی تو پتہ نہیں چلا۔ وہ توشکر ہے کہ بشارت صاحب کی نظر پڑگئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ملک صاحب کو واپس کیسے لایاجائےکیونکہ گاڑی بعض وجوہات کی وجہ سےواپس نہیں جاسکتی تھی۔ ہم نے ملک صاحب کو فون کیاکہ کسی گاڑی پر بیٹھ کرآجائیں لیکن وہ بضد تھے کہ میرےلیےگاڑی ہوٹل پر بھجوائی جائے۔ آخر کار جمیل صاحب نے ہمت کی اور اسلام آباد سے جانےوالی ایک گاڑی میں بیٹھ کر ہوٹل تک پہنچے اورملک صاحب کو مناکر واپس لائے۔ شروع میں تو ملک صاحب بہت گرم تھے لیکن دوستوں نے آہستہ آہستہ ان کو ٹھنڈا کیا۔ اس کے بعد ہم نےراستے میں ایک ہوٹل میں ملک ناصر صاحب کو چائے پلائی پھر ان کا موڈ ٹھیک ہوا اور ہم خوشگوار ماحول میں واپسی کا سفر طےکرتےہوئے بخیروعافیت ربوہ پہنچ گئے۔ محض خدا کے فضل سےیہ سفر نہایت کامیاب رہا جس میں ہم نے بہت حد تک فطرت کے حسین نظاروں کا مشاہدہ کیا۔ خداتعالیٰ کی مد د اور نصرت ہمارے شامل حال رہی۔ محترم قائد صاحب نے اس سفر کی کامیابی کے لیے ہمارےساتھ بہت تعاون فرمایا اور ہماری حوصلہ افزائی کی۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہم نے دودن میں اپنا ٹارگٹ مکمل کرلیاتھا۔ اس کےعلاوہ ہمارے پیارے بزرگان محترم میر صاحب اور محترم شمیم صاحب بھی ہمارے لیے نہ صرف دعائیں کرتےرہےبلکہ باربار دوران سفر فون کرکے ہمارا احوال دریافت فرماتے رہے۔ اللہ ان سب کو جزا دے اور ہمیں اپنے احسن الخالقین رب کا حقیقی شکرگزار بننے کی توفیق دےآمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button