کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

اسلام کی جو حالت اِس وقت ہے وہ پوشیدہ نہیں… ایسی حالت میں خداتعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کی حمایت اور سرپرستی کروں اور اپنے وعدہ کے موافق بھیجا ہے کیونکہ اس نے فرمایا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ

میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو جائیں۔ وہ ایسے سچے مسلمان ہوں جو مسلمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے۔ اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہو ۔اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے۔ دنیا اس کو بالکل بھول جاوے۔ خدائے واحد کی عبادت ہو۔

میرے ان مقاصد کو دیکھ کر یہ لوگ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو کام نفاق طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے۔ کیا کاذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟

اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ (المؤمن: 29)

کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے۔ لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں۔ اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو۔ پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔ کون ہے جو اس کو تلف کر سکے؟ یاد رکھو ۔میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقینا ًاسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے۔ یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔ اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مددنہ دے تب بھی مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہو گا۔

مخالفت کی مَیں پروا نہیں کرتا۔ میں اس کو بھی اپنے سلسلہ کی ترقی کے لئے لازمی سمجھتا ہوں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چپ چاپ اسے قبول کر لیا ہو۔ دنیا کی تو عجیب حالت ہے۔ انسان کیسا ہی صدیق فطرت رکھتا ہو مگر دوسرے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ وہ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 148۔ ایڈیشن 1984ء)

اس بات کو بھی دل سے سنو کہ میرے مبعوث ہونے کی علّت غائی کیا ہے؟ میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی۔ ہرگز نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں آسکتی۔ قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔ اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوگیا۔ وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجودہیں اور انہیں فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔ اسلام کی جو حالت اِس وقت ہے وہ پوشیدہ نہیں۔ بالاتفاق مان لیا گیا ہے کہ ہر قسم کی کمزوریوں اور تنزل کا نشانہ مسلمان ہورہے ہیں ہر پہلو سے وہ گر رہے ہیں۔ ان کی زبان ساتھ ہے تو دل نہیں ہے اور اسلام یتیم ہوگیا ہے۔ ایسی حالت میں خداتعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کی حمایت اور سرپرستی کروں اور اپنے وعدہ کے موافق بھیجا ہےکیونکہ اس نے فرمایا تھا۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر: 10)۔

اگر اس وقت حمایت اور نصرت اور حفاظت نہ کی جاتی تو وہ اَور کون سا وقت آئے گا۔ اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہورہی ہے جو بدر کے موقعہ پر ہوگئی تھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ (آل عمران: 124)۔

اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا۔ پھر تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ اس نے اسلام کی نصرت کی؟ مجھے اِس بات کا افسوس نہیں کہ میرا نام دجّال اور کذّاب رکھا جاتا ہے اور مجھ پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ ضرور تھا کہ میرے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو مجھ سے پہلے فرستادوں کے ساتھ ہوا تا میں بھی اس قدیم سنت سے حصہ پاتا۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 245-246۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button