حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

23؍مارچ یوم مسیح موعودکے حوالے سے امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بصیرت افروز ارشادات

یہ دن اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے

’’آج 23 مارچ ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آج کا دن جماعتِ احمدیہ کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ آج سے 118سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے اِذن سے بیعت کا آغازفرمایا تھا اور یوں جماعت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ دن اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍مارچ 2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل 2007صفحہ 5)

اللہ تعالیٰ نے وہ چاند روشن کرنے کے بارے میں اطلاع دی تھی جس نے سراج منیر سے روشنی پانی تھی

’’جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں …اس مہینے میں، 23مارچ کو قرآن کریم کی وہ عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺکو بڑی خوشخبری کی صورت میں عطافرمائی تھی۔ مسلم اُمّہکے ایک ہزار سال کے مسلسل اندھیروں میں ڈوبتے چلے جانے اور مسلمانوں کی اکثریت میں دینِ اسلام کا فقط نام رہ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وہ چاند روشن کرنے کے بارے میں اطلاع دی تھی جس نے سراج منیر سے روشنی پانی تھی۔ جس کے بارے میں آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ تاقیامت پھر وہ روشنی پھیلاتا چلا جائے گا اور اس کا سلسلہ بھی دائمی ہو گا اور اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے حُسن اور ضیاء سے اس کے تربیت یافتہ بھی ہمیشہ دنیا کے دلوں کو خوبصورتی اور روشنی بخشتے رہیں گے۔

پس آنحضرتﷺ کے اس عظیم فرزند کی قائم کردہ جماعت کا ایک دور 23 مارچ 1889ء کو شروع ہوا جب اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو الہاماً فرمایا کہ

اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہ۔ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَاوَوَحْیِنَا۔ اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔

(تذکرہ صفحہ 134 ایڈیشن چہارم۔ 2004ء)

آپؑ نے ازالہ اوہام میں اس کا ترجمہ یوں فرمایا کہ ’’جب تُو نے اس خدمت کے لئے قصد کر لیا تو خدائے تعالیٰ پر بھروسہ کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں کے رُوبرو اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں بلکہ خدا سے بیعت کریں گے۔ خدا کا ہاتھ ہو گا جو ان کے ہاتھ پر ہو گا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ565)

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’اس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفان ضلالت برپا ہے۔ تو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی تیار کر۔ جوشخص اس کشتی میں سوار ہو گا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گا اور جو انکار میں رہے گا اس کے لئے موت درپیش ہے۔‘‘

(فتح اسلام صفحہ 42-43۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ24-25)

بہرحال آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق 23 مارچ 1889ء کو بیعت لی اور سینکڑوں خوش قسمت اس روز اس کشتی میں سوار ہوئے اور یہ تعداد بڑھتے بڑھتے آپؑ کی زندگی میں ہی لاکھوں تک پہنچ گئی اور ان بیعت کرنے والوں نے اپنی بیعت کے حق بھی ادا کئے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اپنا ہاتھ ان پر رکھا اور وہ لوگ روحانی منازل طے کرتے چلے گئے۔ اُن پر بھی مخالفت کی خوفناک اور اندھیری آندھیاں چلیں۔ اپنوں اور غیروں کی دشمنی کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ آپؑ کی بیعت میں آنے کے جرم میں بعض کو شہید بھی کیا گیا۔ جن میں سب سے بڑے شہید، جن کو اذیت دے کے شہید کیا گیا، وہ صاحبزادہ سید عبداللطیفؓ شہید ہیں۔ جنہیں مولویوں کے فتوے پر بادشاہ کے حکم سے ظالمانہ طور پر پہلے زمین میں گاڑا گیا اور پھر سنگسار کرکے شہید کیا گیا اور ان واقعات نے قرونِ اولیٰ کے ان ظلموں کی یاد تازہ کر دی جو آنحضرتﷺ کے صحابہؓ پر روا رکھے گئے تھے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍مارچ 2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍اپریل 2009ءصفحہ5تا6)

اس دن اللہ تعالیٰ نے جو امت محمدیہ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا

23؍مارچ کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’یہ دن جماعت احمدیہ میں بڑا اہم دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے جو امت محمدیہ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے دَور کا آغاز ہوا۔یا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو اُس دن مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کے اعلان کی اجازت دی جنہوں نے جہاں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے براہین و دلائل پیش کرنے تھے وہاں دین اسلام کی برتری تمام ادیان پر کامل اور مکمل دین ثابت کرتے ہوئے ثابت کرنی تھی اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے دلوں کو بھرنا تھا۔

پس آج ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس دن کی اہمیت ہے، جماعت میں اس دن کی اہمیت کے مدّنظر یوم مسیح موعود کے جلسے بھی ہوتے ہیں اور آج سے دو دن پہلے بھی بہت سے جلسے ہوئے جن میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد اور آپ کی جماعت کے قیام اور اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی وہاں افرادِ جماعت نے شکر بھی ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مانتے ہوئے آنے والے مسیح موعود کو اور مہدی معہود کو ماننے اور اسے سلام پہنچانے کی توفیق بخشی۔

…جب 23؍مارچ کو ہم یوم مسیح موعود مناتے ہیں تو ہمیں ان باتوں کے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ یہ باتیں حضرت مسیح موعودؑ دنیا میں پیدا کرنے آئے تھے اور ہم جو آپ کے ماننے والے ہیں کیا ہم میں یہ باتیں پیدا ہو گئی ہیں یا کیا ہم اس انقلاب کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍ مارچ 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍اپریل 2016ءصفحہ5تا6)

اس دن حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جماعت احمدیہ کی باقاعدہ بیعت کے ذریعہ سے بنیاد رکھی

’’…23؍مارچ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بڑا اہم دن ہے کیونکہ اس دن حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جماعت احمدیہ کی باقاعدہ بیعت کے ذریعہ سے بنیاد رکھی۔آپؑ نے فرمایا کہ آنے والا مسیح موعود اور مہدی معہود جس کے آنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی وہ مَیں ہوں۔آپؑ نے فرمایا کہ مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں تا کہ توحید کا قیام کر کے محبت الٰہی دلوں میں پیدا کروں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ مارچ 2017ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اپریل 2017ءصفحہ5)

اس دن حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ میں ہی وہ مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی

’’کل 23؍مارچ ہے اور یہ دن جماعت میں یوم مسیح موعودؑ کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔اس تاریخ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جس مسیح و مہدی نے آخری زمانے میں آ کر اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا کو بتانا تھا اور پھیلانا تھا اور مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنا تھا بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانا تھا اس کا اعلان ہوا۔ یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ میں ہی وہ مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور یوں آپؑ نے اپنی بیعت کا آغاز فرمایا۔… آپؑ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ ؎

’’وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اَور کا وقت

میں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا‘‘

(درثمین صفحہ 160)

پس زمانے کی حالت متقاضی تھی کہ کوئی آئے جو اسلام کی ڈولتی کشتی کو سنبھالے لیکن بدقسمتی سے مسلمان علماء کی اکثریت نے جو پہلے اس انتظار میں تھے کہ کوئی مسیح آئے اور بڑی شدت سے یہ انتظار کر رہے تھے لیکن آپؑ کے دعوے کے بعد اکثریت نے مخالفت کی اور عامۃ المسلمین کو جھوٹی کہانیاں سنا کر، جھوٹی باتیں آپؑ کی طرف منسوب کر کے آپؑ کے خلاف اور آپؑ کی جماعت کے خلاف اس قدر بھڑکایا کہ قتل کے فتوے دیے جانے لگے۔ بلکہ آج تک احمدیوں پر بعض ملکوں اور جگہوں پر ظلم و بربریت دکھاتے ہوئے قتل و غارت گری کی ایسی ہولناک مثالیں قائم کی جا رہی ہیں یا کی گئیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا گیا جن کا اسلام کی حقیقت جاننے والے کبھی سوچ بھی نہیں سکتے اور کبھی ان سے ایسی حرکتیں عمل میں آ ہی نہیں سکتیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ22؍ مارچ 2019ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍اپریل 2019ءصفحہ5)

اسلام کا درد رکھنے والے اس انتظار میں تھے کہ کوئی مسیحا آئے اور اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو سنبھالے

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت

مَیں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا

(درثمین اردو صفحہ 160)

وہ زمانہ جس میں سے اُس وقت مسلمان گزر رہے تھے درد رکھنے والے مسلمانوں کے لئے انتہائی بے چین کرنے والا زمانہ تھا۔ لاکھوں مسلمان عیسائی ہو گئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایسی حالت ہو گئی تھی کہ ایمان ثریّا پر جا چکا تھا۔ عملاً مسلمانوں میں نہ دین باقی رہا تھا۔ نہ اسلام کی حقیقت باقی رہی تھی۔ اسلام کا درد رکھنے والے اس انتظار میں تھے کہ کوئی مسیحا آئے اور اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو سنبھالے۔ ان میں سے ایک بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی بھی تھے۔ ان کی شہرت بڑی دُور دُور تھی۔ بہت سے ان کے مرید تھے۔ ان کی بزرگی کی وجہ سے ایک دفعہ مہاراجہ جمّوں نے ان کو دعوت دے کر کہا کہ آپ جمّوں آ کر میرے لئے دعا کریں لیکن آپ نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر دعا کروانی ہے تو میرے پاس آ کر کرواؤ۔ بہرحال بڑے بڑے لوگ ان کے مرید تھے۔ حضرت صوفی احمد جان صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے شروع سے ہی بڑا عقیدت کا تعلق تھا۔ اُس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ نہیں کیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے پہلے ان کی وفات ہو گئی۔ انہوں نے ہی اُس وقت اس حالت اور اس زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عرض کیا تھا کہ

ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ

تم مسیحا بنو خدا کے لئے

بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے پہلے ان کی وفات ہو گئی تھی لیکن ان کو یہ یقین تھا کہ آپ ہی زمانے کے امام اور مسیح موعود ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنی اولاد کو، اپنے مریدوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ جب بھی دعویٰ ہو گا تم مان لینا۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 11 صفحہ 342-343 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1928ء)

بہرحال صاحبِ بصیرت لوگ بزرگ جانتے تھے کہ اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو اگر اس زمانے میں کوئی سنبھال سکتا ہے تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں کیونکہ آپ نے براہین احمدیہ لکھ کر اسلام کے مخالفین کے منہ بند کئے تھے۔ آپ کا ایسا لٹریچر موجود تھا جس کا مخالفینِ اسلام جواب نہیں دے سکتے تھے۔ جب تک آپ نے دعویٰ نہیں کیا بڑے بڑے علماء آپ کی اس بات کے معتقد تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے اِذن سے آپ نے دعویٰ کیا تو یہی علماء اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے آپ کی مخالفت بھی کرنے لگ گئے اور آج تک یہی مفاد پرست علماء ہیں جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں اور عامۃ المسلمین کے دلوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے خلاف نفرتیں پیدا کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی بیشمار تحریروں اور تقریروں اور مجالس میں اپنے دعوے کے سچے ہونے کی دلیلیں دیں۔ زمانے کی ضرورت کے مطابق مسیح موعود کے آنے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے آپ کے حق میں ہونے کے بارے میں بتایا۔ لیکن جو صاف دل تھے ان کو تو سمجھ آ گئی اور جن کے دلوں میں بُغض تھا، کینہ تھا، مفاد پرستی تھی، ان کو سمجھ نہیں آئی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍نومبر2017ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍دسمبر2017ءصفحہ5تا6)

اس جماعت میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے؟

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعض لوگوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ ہم اسلام کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں اور پہلے ہی جو اتنے فرقے ہیں تو پھر ایک نیا فرقہ بنانے کی کیا ضرورت ہے اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمارے احمدی بھی معترضین کی یہ باتیں سن کر خاموش ہو جاتے ہیں۔اُس زمانے میں اور آجکل بھی بعض ایسے ہیں جو خاموش ہو جاتے ہیں کہ کیا جواب دیں۔

آپ فرماتے ہیں کہ’’بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کی ضرورت کیا ہے؟ کیا ہم نماز روزہ نہیں کرتے ہیں؟ وہ اس طرح پر دھوکہ دیتے ہیں۔ اور کچھ تعجب نہیں کہ بعض لوگ جو ناواقف ہوتے ہیں ایسی باتوں کو سن کر دھوکہ کھا جاویں اور ان کے ساتھ مل کر یہ کہہ دیں کہ جس حالت میں ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور وِرد وظائف کرتے ہیں۔ پھر کیوں یہ پھوٹ ڈال دی؟‘‘(کہ نیا فرقہ بنا دیا۔ تو کیوں پھوٹ ڈال دی۔ہم نماز روزہ کر رہے ہیں تو تمہارے اندر شامل ہونے کی، ایک نیا فتنہ فساد پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو کہ ایسی باتیں کم سمجھی اور معرفت کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ میرا اپنا کام نہیں ہے۔یہ پھوٹ اگر ڈال دی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے جس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔‘‘(میں نے تو قائم نہیں کیا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔) ’’کیونکہ ایمانی حالت کمزور ہوتے ہوتے یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ ایمانی قوت بالکل ہی معدوم ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ حقیقی ایمان کی روح پھونکے جو اس سلسلہ کے ذریعہ سے اس نے چاہا ہے۔ایسی صورت میں ان لوگوں کا اعتراض بیجااور بیہودہ ہے۔پس یادرکھو کہ ایسا وسوسہ ہرگز ہر گز کسی کے دل میں نہیں آنا چاہئے اور اگر پورے غور اور فکر سے کام لیا جاوے تو یہ وسوسہ آہی نہیں سکتا۔ غور سے کام نہ لینے کے سبب ہی سے وسوسہ آتا ہے جو ظاہری حالت پر نظر کر کے کہہ د یتے ہیں کہ اور بھی مسلمان ہیں۔اس قسم کے وسوسوں سے انسان جلد ہلاک ہو جاتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’میں نے بعض خطوط اس قسم کے لوگوں کے دیکھے ہیں جو بظاہر ہمارے سلسلہ میں ہیں‘‘(بیعت کی ہوئی ہے) ’’اور کہتے ہیں کہ ہم سے جب یہ کہا گیا کہ دوسرے مسلمان بھی بظاہر نماز پڑھتے ہیں اور کلمہ پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور نیک معلوم ہوتے ہیں پھر اس نئے سلسلہ کی کیا حاجت ہے؟‘‘آپ فرماتے ہیں کہ’’یہ لوگ باوجود یکہ ہماری بیعت میں داخل ہیں ایسے وسوسے اور اعتراض سن کر لکھتے ہیں کہ ہم کو اس کاجواب نہیں آیا۔ایسے خطوط پڑھ کر مجھے ایسے لوگوں پر افسوس اور رحم آتا ہے کہ انہوں نے ہماری اصل غرض اور منشاء کو نہیں سمجھا۔وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ رسمی طور پر یہ لوگ ہماری طرح شعائرِ اسلام بجالاتے ہیں اور فرائض الٰہی ادا کرتے ہیں حالانکہ حقیقت کی روح ان میں نہیں ہوتی‘‘۔ (صرف فرضی طور پہ نہیں کرنا۔ ظاہری طور پر نہیں کرنا بلکہ حقیقی طور پر عبادت بھی ہونی چاہئے اور دوسرے فرائض بھی ادا ہونے چاہئیں۔) ’’اس لیے یہ باتیں اور وساوس سحر کی طرح کام کرتے ہیں۔‘‘ (وسوسے آجاتے ہیں اور جو باتیں کر رہے ہوتے ہیں اس کا اثر پھر ان پہ جادو کی طرح ہو جاتا ہے۔) ’’وہ ایسے وقت نہیں سوچتے کہ ہم حقیقی ایمان پیدا کر نا چا ہتے ہیں جو انسان کو گناہ کی موت سے بچا لیتا ہے اور ان رسوم وعادات کے پیرو لوگوں میں وہ بات نہیں۔ ان کی نظر ظاہر پر ہے حقیقت پر نگاہ نہیں۔ ان کے ہاتھ میں چھلکا ہے جس میں مغزنہیں۔‘‘(ملفوظات جلد 6 صفحہ 237 تا 239۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس بیشک ظاہری عمل تو مسلمان کرتے ہیں لیکن روح ان میں نہیں ہے۔ تقویٰ نہیں ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍مارچ2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل2018ءصفحہ8)

جماعت احمدیہ کی مخالفت اور فوق العادت ترقی

’’ہمارے مخالفین ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو مان کر نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو کم کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہمارے مخالفین اسمبلیوں میں یہ قراردادیں پاس کروا کر بڑا فخر کر رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے ساتھ، نام کے ساتھ خاتم النبیین کے لفظ کو لکھنا لازمی قرار دے کر آپؐ سے محبت کا اور آپؐ کے مقام کا کیسازبردست اظہار کیا ہے۔ اگر ان کے دل بھی حقیقت میں ان کی اس بات کی گواہی دے کر انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے والا بنا رہے ہیں تو یقیناً بڑی اچھی بات ہے لیکن ان کے عمل نے تو انہیں اس سے کوسوں دُور کر دیا ہے جو تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں واپس جاکر اس تعلیم اور اس اسوے کو اپنائیں جو آپؐ نے دی اور جس پر عمل کیا تو مسلمان مسلمانوں کی گردن کاٹنے والا نہ ہو۔پھر یہ لوگ زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادقؑ کی بیعت میں دوڑتے ہوئے آئیں۔یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خاتم النبیین کے لفظ کو لکھنا لازمی قرار دے کر عظیم کارنامہ انجام دے دیا ہے اور احمدیوں کے راستے میں کوئی روک کھڑی کر دی ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ نہیں پتہ کہ احمدی تو سب سے زیادہ خاتم النبیینؐ کے مقام کا ادراک رکھتے ہیں اور یہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے الفاظ میں وہ طاقت ہے جس کے قریب بھی یہ لوگ نہیں پھٹک سکتے۔آپؑ کے ہر ہر لمحہ اور عمل میں حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عشق و محبت کا اظہار ہے کہ ان لوگوں کی سوچیں بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتیں۔اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بےشمار ارشادات ہیں، تحریرات ہیں، فرمودات ہیں۔…اپنی بعثت کے مقصد اور سلسلے کی ترقی کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے آپؑ مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو جائیں۔وہ ایسے سچے مسلمان ہوں جو مسلمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے۔ کامل فرمانبرداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنا اور آپؑ نے فرمایا دوسرا مقصد کیا ہے؟ عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے۔دنیا اس کو بالکل بھول جاوے اور خدائے واحد کی عبادت ہو۔ فرمایا کہ میرے ان مقاصد کو دیکھ کر یہ لوگ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جوکام نفاقِ طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے۔ اگر میرے دل میں کوئی منافقت ہے، گند ہے تو پھر ایسے کاموں میں برکت نہیں پڑتی بلکہ ان کے نتیجے فوراً ظاہر ہو جاتے ہیں۔ وہ تو (پھر) ہلاک ہو جائیں گے، ختم ہو جائیں گے۔ فرمایا کہ کیا کاذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟

اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ (المؤمنون: 29)

کہ یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھا ہوا اور کذاب ہو، سخت جھوٹا ہو۔

اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ۔

فرمایا کہ کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے۔ جھوٹا بندہ ہے تو اس کا جھوٹ اس کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے لیکن جوکام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسولؐ کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لیے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو۔اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔بندوں کے کام نہیں ہیں۔جب اللہ تعالیٰ نے اس کام کو شروع کیا ہے تو اس کے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ کون ہے جو اس کو تلف کر سکے؟ چیلنج ہے یہ۔ جتنی مخالفت ہوتی ہےاتنی جماعت احمدیہ کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی ہوتی ہے۔ فرمایا کہ یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقینا ًاس کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔ فرماتے ہیں اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مددنہ دے۔تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا۔

فرمایا کہ مخالفت کی میں پروا نہیں کرتا، وہ تو ہوتی ہے۔ میں اس کو بھی اپنے سلسلہ کی ترقی کے لیے لازمی سمجھتا ہوں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چپ چاپ اسے قبول کر لیا ہو۔ دنیا کی تو عجیب حالت ہے۔ انسان کیسا ہی صدیق فطرت رکھتا ہو مگر دوسرے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے وہ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے سلسلہ کی ترقی فوق العادت ہو رہی ہے۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ دو سو سے زائد ممالک میں مخلصین موجود ہیں، آپؑ کی بیعت میں آنے والے موجود ہیں۔ جب آپؑ نے بیان فرمایا اس وقت سینکڑوں میں ہوتے تھے اور آج تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سال کے سال لاکھوں میں بیعتیں ہوتی ہیں۔ فرمایا کہ اس سلسلہ کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ لوگ دنیا کے گند سے نکلیں اور اصل طہارت حاصل کریں اور فرشتوں کی سی زندگی بسر کریں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 148تا149)

پس آپ علیہ السلام کے اس ارشاد کے مطابق ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی حالتوں کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالیں اور یہی دشمن کا منہ بند کرنے کا اور دشمن پر فتح یاب ہونے کا اصل طریق ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍جولائی 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍اگست2020ءصفحہ5تا6)

دور دراز کے علاقے جہاں تیس چالیس سال پہلے تک بھی احمدیت کے پہنچنے کا تصور نہیں تھا، نہ صرف وہاں پیغام پہنچا ہے بلکہ وہاں ایسے پختہ ایمان والے اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے

’’آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایک آواز جو ایک چھوٹی سی بستی سے اٹھی تھی دنیا کے 210ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اور یہی آپ کی سچائی کی دلیل بھی ہے۔ دور دراز کے علاقے جہاں تیس چالیس سال پہلے تک بھی احمدیت کے پہنچنے کا تصور نہیں تھا، نہ صرف وہاں پیغام پہنچا ہے بلکہ وہاں ایسے پختہ ایمان والے اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک واقعہ بھی بیان کرتا ہوں۔

بینن افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وہاں 2012ء میں ایک جماعت کا قیام عمل میں آیا۔وہاں کے ایک گاؤں کے ایک احمدی، ان کا نام ابراہیم صاحب ہے۔انہوں نے احمدیت قبول کی۔اس سے پہلے یہ مسلمان تھے اور کافی علم رکھنے والے تھے اور احمدیت قبول کرنے کے بعد انہوں نے اخلاص و وفا میں ترقی کرنی شروع کی۔اپنے رشتہ داروں کو بھائیوں وغیرہ کو تبلیغ کرنی شروع کی۔ ان کے بھائی نے ان کی تبلیغ سے تنگ آ کر کہ یہ تبلیغ کر کے ہمیں ہمارے دین سے ہٹا رہا ہے، ان سے لڑائی کرنی شروع کر دی لیکن یہ تبلیغ کرتے رہے۔لوگوں کو احمدیت کا پیغام، حقیقی اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے۔اور اس طرح ان کی کوششوں سے ارد گرد کے تین گاؤں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں شامل ہو گئے۔ تو ابراہیم صاحب کے بھائی نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا کہ یہ تو احمدیت کو پھیلاتا چلا جا رہا ہے اس لئے ایک ہی علاج ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ ابراہیم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ان کا بڑا بھائی اور اس کا دوست کوئی گڑھا کھود کر اس میں کچھ ڈال رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ خواب کے تین دن بعد ہی ان کے بڑے بھائی کا دوست اچانک بیمار ہوا اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس پر ان کے بھائی نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ احمدی جو ہے اس نے میرے دوست کو کوئی جادو ٹونہ کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد یہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر ایک خواب دیکھی کہ ان کا بھائی ایک درخت کے ساتھ لگ کر خود کو ماپ رہا ہے۔ اس علاقے میں یہ رواج ہے کہ جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کی قبر کھودنے کے لئے ایک درخت کے تنے کی چھال کے ساتھ میّت کو ماپا جاتا ہے تا کہ قبر اس کے سائز کے مطابق بنائی جائے۔ کہتے ہیں کچھ دن کے بعد بڑے بھائی کی حاملہ بیوی بیمار ہوئی اور دو دن کے اندر فوت ہو گئی۔ اور اس کے سارے بچے بیچارے بیمار ہونے شروع ہوئے۔ ان کو فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ ان کے بھائی نے مشہور کر دیا کہ یہ جادو ٹونہ کرنے والا شخص ہے اور وہاں کا جو مقامی بادشاہ تھا، چیف تھا اس کے پاس شکایت کی۔ اس کو مدد کے لئے کہا۔ اس نے کچھ پیسے مانگے کہ یہ لے کر آؤ تو مَیں اس کا علاج کرتا ہوں۔ خیر ان کے بھائی نے رقم ادا کر دی۔ بادشاہ نے ابراہیم صاحب کو بلایا اور جب یہ گئے تو بڑے غصے اور طیش میں اس نے کہا کہ تم نے یہ کیا تماشا بنایا ہوا ہے۔ یہ نیا مذہب اختیار کیا ہے۔ نیا دین شروع کر دیا ہے۔ اس کو فوراً چھوڑو اور توبہ کرو ورنہ کل کا سورج نہیں تم دیکھ سکو گے۔ تمہارے پر کل کا دن نہیں چڑھے گا۔ ابراہیم صاحب کہنے لگے کہ مذہب تو مَیں نے سچ سمجھ کر قبول کیا ہے اس کو تو مَیں چھوڑ نہیں سکتا اور رہی بات مرنے کی تو زندگی موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اس چیف نے یا بادشاہ نے کہا کہ اس علاقے کا خدا مَیں ہوں۔ میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تم لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کیا فیصلہ کرنے لگا ہوں اور جس کو میں یہ کہہ دوں کہ وہ کل تک مر جائے گا تو وہ ضرور مرتا ہے۔ ابراہیم صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے تم اپنے روایتی لوگوں کو کہتے ہو گے لیکن میں اس بات میں تمہیں کچھ نہیں کہتا۔ مگر مَیں دین نہیں چھوڑوں گا کیونکہ حقیقت یہی ہے اور سچا اسلام یہی ہے۔ اس پر چیف کو مزید غصہ آیا۔ اس نے اپنے لوگوں کو کہا ان کو لے جاکے کمرے میں بند کر دو۔ وہ لے کے جا رہے تھے تو ابراہیم صاحب نے ان لوگوں کو کہا کہ تم میرے بیچ میں نہ پڑو اور اس معاملے کو چھوڑو۔ مجھے بند کرنے کی بجائے جانے دو۔ خیر وہ لوگ بھی لالچی ہوتے ہیں کچھ رقم لے کے انہوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ اس بادشاہ نے یا چیف نے ان پر صبح کا سورج کیا طلوع کروانا تھا اگلے دن ہی اطلاع ملی کہ اس بادشاہ کو فالج ہو گیا اور وہ ہلنے جلنے کے قابل نہیں رہا اور دو دن بعد ہی وہ فوت ہو گیا۔ یہ دیکھ کر ان کے بڑے بھائی جو اُن کے مخالف تھے انہوں نے خاندان والوں سے کہا کہ ہماری صلح کرا دیں۔ انہوں نے کہا میری تو لڑائی کسی سے تھی ہی نہیں۔ ہم تو ایسے ہی صلح جُو ہیں اور اسلام کا حقیقی پیغام بھی یہی ہے۔ تو اس چیف کے مرنے کا یہ نشان دیکھ کر وہاں علاقے میں اس کا بہت اثر ہوا اور بڑا چرچا ہوا۔ احمدیت کی سچائی ثابت ہوئی۔ تو یہ چیزیں ہیں جو آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ثابت ہو رہی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍مارچ2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل2018ءصفحہ6تا7)

احمدیت کا مقصد فرقوں کا خاتمہ اور مسلمانوں کو دین واحد پر جمع کرنا

’’مسلمانوں میں سے ایک طبقہ تو ایسا ہے جو نام نہاد علماء جن کا کام فساد پیدا کرنا ہے اُن کے پیچھے چل کر بغیر سوچے سمجھے احمدیت کی مخالفت کرنے والا ہے۔ بعض ایسے ہیں اور بڑی کثرت سے ایسے ہیں جو مذہب سے لاتعلق ہیں۔ صرف عید کی نماز پڑھنے والے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کبھی کبھار جمعہ پڑھ لیا۔ کچھ ایسے ہیں جو باوجود مذہب میں کسی بھی قسم کی سختی کو ناپسند کرنے کے اور تکفیر کے فتووں سے جو ان علماء کی طرف سے لگائے جاتے ہیں بیزاری کا اظہار کرنے کے خوف کی وجہ سے چپ رہتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہے جو گو اسلام کا اور مذہب کا زیادہ علم تو نہیں رکھتے، دین کا زیادہ علم تو نہیں رکھتے لیکن خواہش رکھتے ہیں کہ غیر کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر جو انگلی اٹھتی ہے، اعتراضات ہوتے ہیں اُن کا تدارک کیا جائے۔اُن کو کسی طرح سے روکا جائے۔اُن کو جواب دیا جائے۔اُن کے منہ بند کروائے جائیں۔اُن کی خواہش ہے کہ اسلام کے تمام فرقے ایک ہو کر دشمنانِ اسلام اور دجالیت کا مقابلہ کریں۔اس گروہ میں پاکستان، ہندوستان کے رہنے والے مسلمان بھی ہیں، عرب ممالک کے رہنے والے مسلمان بھی ہیں اور دوسرے مسلمان ممالک کے رہنے والے مسلمان بھی ہیں۔ ان لوگوں کی طرف سے جو اسلام کو صرف اسلام کے نام سے جاننا چاہتے ہیں نہ کہ کسی فرقے کے نام سے، جماعت احمدیہ پر بھی یہ اعتراض ہوتا ہے اور مختلف موقعوں پر سوا ل اُٹھاتے ہیں کہ کیا پہلے اسلام میں فرقے کم ہیں جو آپ نے بھی ایک فرقہ بنا لیا۔ ہمیں کہتے ہیں کہ اگر آپ لوگ اسلام کے ہمدرد ہیں تو مسلمانوں کو فرقہ بندیوں سے آزاد کرانے کی کوشش کریں۔

سب سے پہلے تو مَیں ایسے سوال کرنے والوں کا اس لحاظ سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ کم از کم وہ ہمیں مسلمانوں کا ایک فرقہ تو سمجھتے ہیں، مسلمان تو سمجھتے ہیں۔ بلا سوچے سمجھے تکفیر کا فتویٰ نہیں لگا دیتے۔ایسے لوگوں سے مَیں یہ عرض کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلم اُمّہ پر رحم کھاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اور اپنے وعدے کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر اس لئے بھیجا ہے کہ فرقوں کا خاتمہ ہو۔جو مسلمان جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچا رہے ہیں وہ اسلام کے مختلف فرقوں میں سے آ کر فرقہ بندی کو ختم کرتے ہوئے حقیقی اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے لئے ہی جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن پر فضل کرتے ہوئے اُن کی بصیرت کی آنکھ کو کھولا ہے تو انہوں نے فرقہ بندی کو خیر باد کہہ کر حقیقی اسلام کو قبول کیا ہے۔ اُس حَکَم اور عَدَل کی بیعت میں آ گئے ہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی تا کہ جو غلط روایات، تعلیمات اور بدعات مختلف فرقوں میں راہ پا گئی ہیں اُن کو حقیقی قرآنی تعلیم کی روشنی کے مطابق دیکھا جائے اور حقیقی قرآنی تعلیم کے مطابق اُن کو اختیار کیا جائے اور اُن پر عمل کیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی اسلامی تعلیم کی حقیقی روشنی اور تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ جماعت احمدیہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھتی ہے۔ کسی مسلمان شخص کے لئے، کسی شخص کے مسلمان ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

کا اقرار کرتا ہو اور یہی حدیث سے ثابت ہے۔ (مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان و الاسلام والاحسان…حدیث نمبر93)۔ لیکن اس کے مقابلے پر دوسرے فرقوں کو دیکھیں تو ہر ایک دوسرے کے بارے میں تکفیر کے فتوے دیتا ہے۔

پس ان اسلام کا درد رکھنے والوں کی یہ غلط فہمی کہ امت مسلمہ پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے، جماعت احمدیہ نے ایک اور فرقہ بنا کر فساد کی ایک اور بنیاد رکھ دی ہے، قرآن و حدیث کے علم میں کمی کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی دوسرے فرقے کے لٹریچر کا مطالعہ کر لیں تو تکفیر کے فتووں کے انبار ایک دوسرے کے خلاف نظر آئیں گے۔ اگر جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کریں تو غیر مذاہب کے اسلام پر حملوں کا دفاع نظر آئے گا۔ یا مسلمانوں سے یہ درخواست نظر آئے گی کہ اس تکفیر بازی کے زہروں سے بچیں اور خدمتِ اسلام کے لئے کمربستہ ہو جائیں۔ یا یہ نظر آئے گا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ یا اس بات پر زور نظر آئے گا کہ دنیا میں محبت، پیار، صلح اور آشتی کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے اور نفرتوں کے انگاروں کو بجھانے کے لئے ہمیں کیا کوشش کرنی چاہئے۔ یا یہ نظر آئے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا مقام کیا تھا اور ہر ایک اُن میں سے ایک روشن ستارہ ہے جو قابلِ تقلید ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے۔

پس جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں تو یہ خوبصورت باتیں نظر آتی ہیں نہ کہ تکفیر کے فتوے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ تکفیر کے فتووں کے انبار ہیں، کسی بھی فرقے کے فتووں کی کتاب کو اُٹھا لیں ایک دوسرے کے خلاف فتوے نظر آئیں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ2؍دسمبر2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍دسمبر2011ءصفحہ5تا6)

آج ہمارے جائزہ اور محاسبہ کا دن ہے

’’آج جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی خوشی اور برکت کا دن ہے جس میں جمعہ کی برکات بھی شامل ہو گئی ہیں۔ کیونکہ آج کے دن آج سے قریباً 123سال پہلے قرآنِ کریم کی، اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے ایک عظیم پیشگوئی پوری ہوئی۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی، آپ کی بتائی ہوئی تفصیلات کے ساتھ پوری ہوئی اور مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور ہوا اور بیعت کے آغاز سے پہلوں سے ملنے والی آخرین کی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔اور پھر ہم بھی اُن خوش قسمتوں میں شامل ہوئے جو اس سے فیض پانے والے ہیں۔ پس ہر احمدی کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا دعویدار ہے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے۔اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ شروع ہوا، وہ آپ کے ماننے والوں پر بھی اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کا تقاضا کرتا ہے تا کہ ہم اُن برکات سے حصہ پاتے رہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔پس ہر سال جب 23؍ مارچ کا دن آتا ہے تو ہم احمدیوں کو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ آج ہم نے یومِ مسیح موعود منانا ہے، یا الحمد للہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔جماعت کے آغاز کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے ہم نے آگاہی حاصل کر لی ہے، اتنا کافی نہیں ہے، یا جلسے منعقد کر لئے ہیں، یہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے اس بیعت کا کیا حق ادا کیا ہے؟ آج ہمارے جائزہ اور محاسبہ کا دن بھی ہے۔ بیعت کے تقاضوں کے جائزے لینے کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر غور کرنے کا دن بھی ہے۔ اپنے عہد کی تجدید کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر عمل کرنے کی کوشش کے لئے ایک عزم پیدا کرنے کا دن بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے پر جہاں اللہ تعالیٰ کی بے شمار تسبیح و تحمید کا دن ہے وہاں حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزاروں لاکھوں درود و سلام بھیجنے کا دن ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ مارچ 2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍اپریل 2012صفحہ5)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button