حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد وارد ہونے والی قدرتی آفات کا جائزہ (قسط اوّل)
دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں انبیاء کرام سے متعلق اپنی سنت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَہۡلَہَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَضَّرَّعُوۡنَ۔ ثُمَّ بَدَّلۡنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الۡحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوۡا وَّ قَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ۔ وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنۡ کَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ۔ اَفَاَمِنَ اَہۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ بَاۡسُنَا بَیَاتًا وَّ ہُمۡ نَآئِمُوۡنَ۔ اَوَ اَمِنَ اَہۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ بَاۡسُنَا ضُحًی وَّ ہُمۡ یَلۡعَبُوۡنَ۔ اَفَاَمِنُوۡا مَکۡرَ اللّٰہِ ۚ فَلَا یَاۡمَنُ مَکۡرَ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡخٰسِرُوۡنَ۔
(الاعراف:95تا100)
ترجمہ: ’’اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس کے رہنے والوں کو کبھی تنگی اور کبھی تکلیف سے پکڑلیا تاکہ وہ تضرّع کریں۔ پھر ہم نے بری حالت کو اچھی حالت سے بدل دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے (اُسے) نظرانداز کر دیا اور کہنے لگے کہ (پہلے بھی) ہمارے باپ دادا کو تکلیف اور آسانی پہنچا کرتی تھی۔ پس ہم نے ان کو اچانک پکڑلیا جبکہ وہ کوئی شعور نہ رکھتے تھے۔ اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے بھی برکتوں کے دروازے کھول دیتے اور زمین سے بھی۔ لیکن انہوں نے جھٹلا دیا۔ پس ہم نے ان کواس کی پاداش میں جو وہ کسب کیا کرتے تھے پکڑلیا۔ تو کیا بستیوں کے رہنے والے اس بات سے امن میں ہیں کہ ہمارا عذاب ان کو رات کے وقت آلے جبکہ وہ سوئے ہوئے ہوں۔ اور کیا بستیوں والے اس بات سے امن میں ہیں کہ ہمارا عذاب انہیں ایسے وقت آلے کہ سورج چڑھ آیا ہو اور وہ کھیل کود میں مصروف ہوں۔ پس کیا وہ اللہ کے منصوبہ سے امن میں ہیں۔ پس اللہ کے منصوبہ سے کوئی امن کے خیال میں نہیں رہتا سوائے نقصان اٹھانے والی قوم کے۔ ‘‘
(ترجمۃالقرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مرزاغلام احمد قادیانیؑ کو دین اسلام کی سر بلندی کے لیے حسبِ وعدہ ایک امتی نبی اور مسیح موعود و مہدیٔ معہود بنا کر مبعوث کیا لیکن انبیاء کی سنت کے مطابق آپ کا انکار اور تکذیب کی گئی۔ خدا تعالیٰ نے تمام انبیاء کے نشانات کو اس زمانہ میں دوبارہ دکھایا تا کہ لوگوں کے ایمان مضبوط ہوں لیکن مکفرین و مکذبین نے اپنی عادت کے مطابق انکار و تکذیب سے کام لیا۔ تب خدا تعالیٰ کا جوش و غضب بھی بھڑکا اور مخالفین کی پکڑ ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیات میں اس تمام نظام کا ذکر فرمایا اور حضرت مسیح موعودؑ کو نہ صرف مخالفین کے بد انجام کی خبر دی۔ بلکہ دنیا جو خدا سے دوری اختیار کرتی جا رہی ہے اسے خدائے واحد کی طرف نہ آنے کی صورت میں اپنے غضب اور جلال سے حصہ پانے کی بھی خبر دی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
’’میری تائید میں خدا تعالیٰ کے نشانوں کا ایک دریا بہہ رہا ہے جس سے یہ لوگ بے خبر نہیں ہیں اور کوئی مہینہ شاذو نادر ایسا گذرتا ہوگا جس میں کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔ ان نشانوں پر کوئی نظر نہیں ڈالتا۔ نہیں دیکھتے کہ خدا کیا کہہ رہا ہے۔ ایک طرف طاعون بزبانِ حال کہہ رہی ہے کہ قیامت کے دن نزدیک ہیں اور دوسری طرف خارق عادت زلزلے جو کبھی اس طور سے اِس ملک میں نہیں آئے تھے خبر دے رہے ہیں کہ خدا کا غضب زمین پر بھڑک رہا ہے اور آئے دن ایسی نئی نئی آفات نازل ہوتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے طور بدل گئے ہیں اور ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی بڑی آفت دکھلانی چاہتا ہے اور ہر ایک آفت جو ظاہر ہوتی ہے پہلے سے اس کی مجھے خبر دی جاتی ہے اور میں بذریعہ اخبار یا رسائل یا اشتہار کے اس کو شائع کر دیتا ہوں۔ چنانچہ میں بار بار کہتا ہوں کہ توبہ کرو کہ زمین پر اس قدر آفات آنے والی ہیں کہ جیسا کہ ناگہانی طور پر ایک سیاہ آندھی آتی ہے اور جیسا کہ فرعون کے زمانہ میں ہوا کہ پہلے تھوڑے نشان دِکھلائے گئے اور آخر وہ نشان دکھلایا گیا جس کو دیکھ کر فرعون کو بھی کہنا پڑا کہ
اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسۡرَآءِیۡلَ (یونس:91)
خدا عناصر اربعہ میں سے ہر ایک عنصر میں نشان کے طور پر ایک طوفان پیدا کرے گا اور دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے یہاں تک کہ وہ زلزلہ آجائے گا جو قیامت کا نمونہ ہے تب ہر قوم میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے اپنے وقت کو شناخت نہ کیا یہی معنی خدا کے اِس الہام کے ہیں کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ یہ پچیس 25برس کا الہام ہے جو براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور ان دنوں میں پوراہوگا۔ جس کے کان سننے کے ہیں وہ سنے۔‘‘
(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ199-200)
پھر فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے مجھے صرف یہی خبر نہیں دی کہ پنجاب میں زلزلے وغیرہ آفات آئیں گی کیونکہ میں صرف پنجاب کے لئے مبعوث نہیں ہوا بلکہ جہاں تک دنیا کی آبادی ہے ان سب کی اصلاح کے لئے مامور ہوں پس میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ آفتیں اور یہ زلزلے صرف پنجاب سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام دنیا ان آفات سے حصہ لے گی اور جیسا کہ امریکہ وغیرہ کے بہت حصے تباہ ہو چکے ہیں یہی گھڑی کسی دن یورپ کے لئے درپیش ہے اور پھر یہ ہولناک دن پنجاب اور ہندوستان اور ہر ایک حصہ ایشیا کے لئے مقدرہے جو شخص زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا۔‘‘
(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 200 حاشیہ)
پنجاب، ہر حصہ ایشیاء، یورپ اور امریکہ میں زلزلہ اور آفات کاذکر کرنے کے بعد ایسی تباہی کا ذکر فرمایا جس سے ہر قسم کا جاندار متاثر ہو گا۔ اسی کتاب میں پوری دنیا میں آفات و نشانات کے ظہور کو اپنی صداقت کی دلیل ٹھہراتے ہوئےآپؑ نے فرمایا کہ
’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناًسمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گاتب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا۔ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔ اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگا۔یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘
(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ268تا269)
ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی خدا سے دور ی اور دنیا داری، لہوو لعب اور سفلی زندگی گزارنے کی وجہ سےبنی نوع پر ہر قسم کے مصائب اور آزمائش کی خبر دی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد یہ سمجھنا کہ آپ کی حین حیات کے بعد سلسلۂ آزمائش بند ہو گیا ہے بالکل غلط ہے۔ آپ نے ہر اس جگہ کانام لے کر بتایا کہ خدا تعالیٰ ایک وقت تک مہلت دے گا اور پھر پہلی اقوام کا نمونہ دکھایاجائے گا۔ اور کوئی تدبیر ان کے کام نہیں آئے گی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ارضی و سماوی آفات کا بھی ذکر فرمایا جیسا کہ طاعون، زلازل، انسانوں اور چرند پرند میں مری کا پڑنا، طوفان، نوحؑ کا زمانہ، لوطؑ کی زمین کا واقعہ، عناصر اربعہ میں سے ہر عنصر کا عذاب۔ یہ تمام جائزہ ایک طویل مضمون کا متقاضی ہے۔ ذیل میں حسبِ موضوع وباؤں او رزلازل کا ایک جائزہ پیش ہےگو ہر نشان سے متعلق کئی فہرستیں دستیاب ہیں۔ لیکن اختصار کے پیشِ نظر بڑی بڑی وباؤں اور زلازل کا مختصر جائزہ ہدیہ قارئین ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ کبھی سیلابوں اور طوفانوں کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔
عالمگیر وبائیں
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خوفناک وباؤں نے کئی بار دنیا کا نظام درہم برہم کر کے چھوڑا۔ اور آج اس زمانہ میں ترقیات، تحقیق میں آسانی اور جلد ویکسین کے بنانے کی صلاحیت کے ساتھ گذشتہ وباؤں کے مقابل کورونا وائرس کی وبا کی کوئی حیثیت نہیں۔
ایشیائی یا رشین فلو1889ء۔ انسانی کورونا وائرس
19ویں صدی عیسوی کی آخری زبردست انفلوئنزا کی وبا نے 1889/ 1890ء میں دنیا کو متاثر کیا۔ یہ وبا بخارا سے پھوٹی اور دنیا بھر میں ایک ملین لوگ لقمۂ اجل بنے۔ اس وائرس کے بارے میں تحقیقات ہوتی رہیں۔ 2005ء میں ایک تحقیق میں بتایا گیاکہ یہ انفلوئنزاکی قسم نہیں بلکہ ہیومن کورونا وائرس OC43تھا۔ نومبر 2020ء میں ڈینش محققین نے ایک تحقیق میں بتایا کہCovid-19 اور انفلوئنزا 1889ء کی علامات میں مماثلت ہے۔
ہیضے کی وبا
گذشتہ دو صدیوں میں ہیضے کی 7وبائیں دنیا میں پھیلیں۔ 1817ء سے 1824ء میں کلکتہ ہندوستان سے یہ وبا جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ، یورپ، مشرقی افریقہ کے تجارتی رستوں سے پھیلی۔ دوسری وبا 1826ء سے 1837ء کے دوران شمالی امریکہ اور یورپ میں رسائل نقل و حمل کے بڑھنے، ہجرت اور فوجیوں کے آنے جانے کی وجہ سے پھیل گئی۔ تیسری بار 1846ء سے 1860ء کے دوران شمالی افریقہ اور جنوبی امریکہ میں بالخصوص برازیل میں پہلی بار پھیلی۔
چوتھی وبا 1863ءسے 1875ءمیں ہندوستان سے نکل کر نیپلز(اٹلی)، اور سپین میں پھیلی۔ 1873ء میں امریکہ میں ایک بار پھر اس وبا نے سر اٹھایا۔
پانچویں بار1881ءسے1896ءمیں اس وبا نے ہندوستان میں تباہی مچائی اور ایشیا، یورپ اور جنوبی امریکہ تک پھیل گئی۔
ہیضے کا چھٹا طویل آؤٹ بریک 1899ء سے 1923ء تک کے عرصہ میں ہندوستان میں بالخصوص محیط رہا۔ لیکن ہیضہ کی وبا کے بار بار نمودار ہونے اور قریباً ایک صدی سے اس کے جرثومہ پر کی جانے والی تحقیق سے ہیضے کی وبائی نوعیت اور ہیئت زیادہ مؤثر نہ تھی۔ اس عرصہ میں مصر، ایران، ہندوستان، اور فلپائن میں نہایت شدید پھیلاؤ سامنے آیا۔ 1892ءمیں جرمنی، 1910ء سے 1911ء کے دوران نیپلز میں خطرناک آؤٹ بریک رہا۔
ہیضہ کا ساتواں پھیلاؤ 1961ء میں انڈونیشیا سے شروع ہوا اور اب تک ترقی پذیر ممالک میں جاری ہے۔ اسے ’کولیراالطور‘ (El Tor)کہا جاتا ہے۔ یہ پھیلاؤ وہاں سے 1963ء میں مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش)، 1964ء میں بھارت، 1966ء میں سوویت یونین، 1973ء میں شمالی افریقہ سے ہوتا ہوا اٹلی جا پہنچا۔ 1970ء میں جاپان میں ہلکی سی وبائی صورت اختیار کی۔ 1970ء میں اڑیسہ اور آذر بائیجان کے علاقے Bakuمیں پھیلا۔ نیز 1970ء میں استنبول کے ایک علاقے میں بھی پھیل گیا اور یروشلم میں بھی کیسز سامنے آئے۔
اسی طرح جنوری 1991ء سے ستمبر 1994ء میں جنوبی امریکہ میں رپورٹ ہوا۔ جولائی 1994ء میں کانگو میں یہ وبا سامنے آئی اور کہا جاتا ہے کہ وبا کی شدت کے ایام میں روزانہ تین ہزار افراد جان گنواتے رہے۔ WHOکے مطابق 2000ء میں افریقی ممالک میں ایک لاکھ 40؍ہزار کیس رپورٹ ہوئے۔ جولائی سے دسمبر2007ء میں گندا پانی پینے کے سبب عراق میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی اور اس کے بعد یہاں اگست تا اکتوبر 2008ء ہیضے کے 644؍مصدقہ کیسز اور 8؍اموات بھی ہوئیں۔ اگست2007ء میں اڑیسہ، بھارت میں دوہزار افراد متاثرہوئے۔ مارچ، اپریل 2008ءمیں ویتنام کے20؍صوبہ جات میں 2؍ہزار 490؍افراد ڈائیریا کا شکار ہوئے جن میں سے 377؍ہیضہ میں مبتلا تھے۔ 2010ء میں نائیجیریا، ہیٹی، 2011ء میں وینزویلا، 13-2012ءشمالی افریقن اقوام، گھانا، 2012ء میں سیرالیون میں 290؍افراد کی موت کے ساتھ 21؍ہزار 500؍کیسزرپورٹ ہوئے۔ 2013ءمیں کیوبا، اکرا(گھانا)، 2015ءمیں تنزانیہ، 2017ء میں صومالیہ، یمن(خانہ جنگی کے باعث گندا پانی پینے سے) اور 2018ء زمبابوے میں ہیضہ کی وبا نے ڈیرہ ڈالا۔
طاعون (Indian Plague)
دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ خطرناک طاعون ایشیا میں ظاہر ہوئی۔ 1855ء میں چائنا کے شہر Yunnan سے پھوٹنے والی طاعون کی قسم Bubonic Plague یعنی گلٹیوں والی طاعون آہستہ آہستہ اردگرد کے ممالک میں پھیل گئی۔ اس سے ہلاک ہونے والوں کا اندازہ 12؍سے15؍ ملین لگایا جاتا ہے۔ ہندوستان بالخصوص پنجاب میں 10؍ملین سے زائد لوگوں کی اموات ہوئیں۔ پنجاب میں طاعون کی آمد کی خبر اللہ عزو جل نے پہلے ہی حضرت مسیح موعودؑ کو دے دی تھی اور آپ نے اس طاعون کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان ٹھہرایا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1960ء تک یہ طاعون موجود رہی اور200؍افراد سالانہ کی اموات کی شرح رہی جو اس کے بعد ہر سال کم ہوتی گئی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ طاعون 1855ء میں ظاہر ہوئی لیکن حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت اور خدا تعالیٰ کی جانب سے خبر دیے جانے تک ہندوستان میں داخل نہ ہوئی حالانکہ مشرقی ممالک میں یہ پھیل چکی تھی۔ اور1896ء میں جدہ اور غیر مصدقہ خبر کے مطابق 1898ء میں مکہ میں بھی ظاہر ہوئی تھی۔
اسی طرح 26؍اگست تا 18؍اکتوبر1994ء جنوب وسطی اور مغربی بھارت میں 693؍کیسز کے ساتھ 56؍ اموات رپورٹ ہوئیں۔ جن میں مہاراشٹرا، گجرات، اترپردیش، مدھیا پردیش اور نیو دہلی بھی شامل تھے۔ اس کی تحقیقاتی کمیٹی وبا کا منبع تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ وبا کے اختتام پر اعداد و شمار کے مطابق 78؍فیصدکیسز سورت کے گردو نواح کے تھے۔
ملیریا
ملیریا سب سے عام پائی جانے والی جان لیوا بیماری ہے۔ ملیریا کی بیماری کی تاریخ تو کافی پرانی ہے۔ لیکن اس پر تحقیق کا کام 18ویں صدی کے نصف آخر میں شروع ہوا اوراس پر تحقیقات کے باثمر نتائج 1880ء میں ملے جس پر 1907ء میں نوبیل انعام بھی دیا گیا۔ ہر سال لاکھوں لوگ اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2019ء میں دنیا بھر میں 229؍ملین کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ اموات 4؍لاکھ 9؍ہزار تھیں۔ جبکہ گذشتہ20؍سالوں میں 1.5؍بلین لوگ اس سے متاثر اور 7.6؍ملین لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ٹائیفائیڈ
ٹائیفائیڈ کی بیماری بھی ایک عام پائی جانے والی بیماری ہے جو عموماً کھانے اور پانی سے پھیلتی ہے۔ 1880ء میں ہی اس پر تحقیق سامنے آئی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق تخمیناً ہر سال 11؍سے 12؍ملین افراد متاثر جبکہ قریباً 1.5؍لاکھ اموات ریکارڈ ہوتی ہیں۔
پر اسرار نیند کی وبا
1915ء تا 1926ء تک جاری رہنے والی یہ وبا آسٹریا کے شہر Viennaسے ظاہر ہوئی اور اگلے تین سالوں میں دنیا بھرمیں پھیل گئی۔ گردن توڑ بخار سے مماثلت رکھنے والی اس بیماری کا جرثومہ دماغ پر حملہ کر کے مریض پر سخت غنودگی طاری کر دیتا تھا۔ دماغی سوزش کے Encephalitis lethargica نامی اس مرض سے مریض ایک بت کی مانند ہلنے جلنے اوربولنے سے قاصر ہو جاتا۔ اس وبا سے قریباً 5؍ملین افراد متاثر ہوئے جبکہ وبا نے 1.5؍ملین سے زائد لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ 1927ء میں یہ وبا جس طرح پراسرار طریق پر ظاہر ہوئی اسی غیر محسوس طریق پر غائب ہو گئی اور آج تک دوبارہ اس کا کوئی مریض سامنے نہیں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایڈولف ہٹلر کو بھی لڑکپن میں یہ مرض ہوا تھا۔ 1890ء میں اٹلی میں بھی انفلوئنزا کے بعد ایسی ہی ایک نیند کی بیماری حملہ آور ہوئی تھی۔
ہسپانوی فلو
جنگ عظیم اوّل کے سبب ملک فرانس سے نکلنے والی اور فروری 1918ء سے اپریل 1920ءتک دنیا کے مختلف علاقوں میں چار لہروں کی صورت میں ظاہر ہونے والی اس وبا سے دنیا کی اس وقت کی ایک تہائی آبادی یعنی 500؍ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے اور تخمیناً 17؍ملین سے 100؍ملین افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس کا پہلا کیس امریکہ میں رپورٹ ہوا جنگ عظیم اول میں چونکہ سپین غیر جانب دار تھا اور جنگ کی خبریں نہیں دے سکتا تھا اس لیے اس کے میڈیا سے فلو کی خبریں بتائی گئیں اور یہ سپینش فلو کے نام سے مشہور ہو گیا۔
ایشین فلو
1956ء کے اخیر یا اوائل 1957ءمیں جنوبی چین کے شہر Guizhou میں اس انفلوئنزا کے ابتدائی کیس رپورٹ ہوئے۔ چین اس وقت تک عالمی ادارہ صحت کا ممبر نہیں تھا اس لیے اس نے ادارہ اور دیگر ممالک کو اس سے متعلق بروقت آگاہ نہیں کیا۔ نتیجةً یہ ایشیا سے یورپ پہنچی اور وہاں بھی تباہی مچا دی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وبا نے 1؍سے 4؍ملین افراد کو ہلاک کیا۔
ہانگ کانگ فلو
13؍جولائی 1968ء کو برطانوی ہانگ کانگ میں انفلوئنزا ظاہر ہوا اور4؍ملین سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ چین کے علاقے ’مین لینڈ‘ میں یہ وبا پہلے پھوٹی تھی۔
رشین فلو
1977ءتا 1979ءسوویت یونین میں انفلوئنزا نے سر اٹھایا۔ اس سے قبل مئی 1977ء میں شمالی چین کے علاقے میں یہ وبا نمودار ہو چکی تھی۔ اس وبا نے 25؍سال سے کم عمر نوجوانوں بالخصوص پرائمری سکولز کے طلباء اور ملٹری اڈوں کو اپنا نشانہ بنایا اور دنیا بھر میں 7؍لاکھ سے زائد اموات ہوئیں۔ یہ وائرس 1946ءسے1957ءتک دنیا میں پائے جانے والے انفلوئنزا کے ایک وائرس کی کڑی تھا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ فلو کسی مصنوعی طریق پر لیبارٹری میں تیار کر کے عوام میں پھیلایا گیا۔
HIV اور ایڈز
یہ خیال کیاجاتا ہے کہ 1920ء میں مغربی افریقہ کےملک عوامی جمہوریہ کانگو کے شہرکنشاسامیں چمپنزیوں سےHIVکا وائرس انسانوں میں منتقل ہوا۔ 1980ء تک یہ ریکارڈ نہیں کیا گیا کہ HIVسے کتنے لوگ متاثر ہوئے اور کتنوں میں ایڈز کی شکل اختیار کر گیا۔ 1981ء سے اب تک 35؍ملین سے زائد افراد اس سے لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔
برڈ فلو (Avian Influenza)
انفلوئنزا Aٹائپ کی ایک قسم کا اس وائرس نے پرندوں پر اثر ڈالا جس سے انسان بھی متاثر ہوئے۔ یہ فلو انسانی فلو، سوائن فلو اور ہارس فلو جیسا ہے۔ خصوصاً جھنڈ کی شکل میں بسنے والے پرندوں، فارم میں رکھے جانے والے پرندوں میں زیادہ پھیلا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق انسان سے انسان کو اس بیماری کے لگنے کے شواہد نہیں ملے۔ جون 2008ء میں 5؍ممالک میں برڈ فلو کے 11؍آؤٹ بریک سامنے آئے جن میں چین، مصر، انڈونیشیا، پاکستان اور ویتنام شامل ہیں۔ جبکہ جون 2006ء میں 65؍اور جون2007ءمیں 55؍آؤٹ بریک سامنے آئے۔ مئی 2020ءمیں WHOکی رپورٹ کے مطابق 2003ء سے اب تک 916؍افراد ایوین فلو سے متاثر ہوئے جن میں سے 455؍اموات ہوئیں۔
سارس کورونا وائرس 2002ء
جنوبی چین میں سال 2002ء میں SARSیعنی Severe Acute Respiratory Syndrome نامی وائرس چمگاڈروں کے ذریعہ مشک بلاؤ(Civet) نامی جانورمیں اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا۔ مشک بلاؤ ایک ممالیہ جانور ہے جو چین کے بازاروں میں زندہ و گوشت کی صورت میں فروخت ہوتا ہے۔
سارس کورونا1(SARS-CoV-1) نامی اس وائرس سے یکم نومبر 2002ءسے 31؍جولائی 2003ء تک 29؍ ممالک میں 8,110؍کیسز رپورٹ ہوئے اور 811؍ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے بعد بھی مئی 2004ء تک کیس رپورٹ ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ دسمبر 2019ء میں SARS-CoV-2 نامی وائر س اپنی ہیئت تبدیل کرکے Covid-19 کی شکل میں ایک طاقتور عالمی وبا(Pandemic) بن گیا۔
سوائن فلو2009ء
جنوری 2009ء میں یہ وائرس ظاہر ہوا جسے پہلے سوائن فلو کا نام دیا گیا لیکن بعد میں عالمی وبا قرار دیا گیا۔ 19 ماہ تک رہنے والا یہ وائرس اندازے کے برعکس کئی گنا کمزور ثابت ہوا اور جلد ہی اگست 2010ء میں ویکسین کے ذریعہ اس پر قابو پا لیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق4؍لاکھ91؍ہزار382؍ افراد کے مصدقہ کیسز میں سے 18؍ہزار 499؍افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس وائرس کا 1920-1918ء کے انفلوئنزا کے ساتھ تعلق ہے۔ اسے انسانی فلو، برڈ فلو اور پگ (Pig)فلو کےمکسچر سے بننے والا نیا وائرس کہا جاتا ہے۔
ڈینگی بخار2010ء
50؍سے 100؍ملین افراد ہر سال متاثر ہوتے ہیں۔ جس میں سے ½ ملین افراد کو جان کا خطرہ بھی ہوتاہے۔ گو یہ بیماری 1960ءسے معلوم ہے لیکن 2010ء کے بعد اس میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہواہے۔ جس کا سبب آبادی میں اضافہ اور پھیلاؤ، عالمی آمد و رفت میں اضافہ اور گلوبل وارمنگ بتایا جاتاہے۔ یہ وائرس Aedes aegypti نامی مچھر جس کی ٹانگوں اور اطراف میں سفید نشان ہوتے ہیں، کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ اس مچھر کے کاٹنے سے ڈینگی بخار، چکن گونیا، زکا فیور اور ییلو فیور کی وبائیں بھی پھیلی ہیں۔
زیکا وائرس16-2015ء
16-2015ء میں برازیل سے پھوٹنے والی اس وبا نے جنوبی اور شمالی امریکہ کے کئی علاقوں سمیت بحر الکاہل کے جزائر اور جنوب مشرق ایشیا کو متاثر کیا۔ WHO نے فروری 2016ء میں اسے عالمی خطرہ برائے صحت جبکہ نومبر 2016ء میں زکا وائرس کے اختتام کا اعلان کیا۔ زکا وائرس حاملہ خاتون کے بچے میں بھی منتقل ہو سکتا تھا۔ عالمی سطح پر 711,381؍کیسز جبکہ18؍اموات رپورٹ ہوئیں۔ لیکن ایک رپورٹ کے مطابق صرف برازیل میں زیادہ سے زیادہ 14؍لاکھ 82؍ہزار 701؍کیسز رپورٹ ہوئے۔
ایبولا2016ء
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 1976ء سے 2012ء تک 24؍بار یہ وبا ظاہر ہوئی۔ 2387؍افراد متاثر ہوئے جن میں سے 1590؍افراد ہلاک ہوئے۔ اس وبا کا سب سے بڑا ظہور (outbreak) مغربی افریقہ کے ممالک خصوصاً گنی، سیرالیون اور لائبیریا میں دسمبر 2013ءسے جنوری 2016ء کے درمیان ہوا۔ جس میں 28,646؍کیسز اور 11,323؍اموات ہوئیں۔ نائیجیریا، مالی، سپین، یوکے اور یو ایس اے میں بھی محدود کیسز سامنے آئے۔ 29؍مارچ 2016ء کو ایبولا کی وبائی صورت حال پر ایمرجنسی ختم کر دی گئی۔ اس کے بعد18-2017ء میں عوامی جمہوریہ کانگو میں دوبارہ اس وبا نے سر اٹھایا اور عالمی ادارہ صحت نے اسے دنیا کے لیے ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا۔
کورونا وائرس 2019ء
2019ء میں چین کے شہر ووہان سے پھوٹنے والی Covid-19 نامی وبا نے دنیا کے ہر خطے کو متاثر کیا۔ اور اس وبا کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کی وجہ ذرائع نقل و حمل میں ترقی بھی ہے۔ مارچ 2021ء تک 2.6؍ملین سے زائد افراد اس وبا سے دارِ فانی سے کوچ کر گئے جبکہ متاثرین کی تعداد122,173,210ہے۔
گذشتہ صدی کی نئی بیماریاں
گذشتہ صدی میں قسما قسم کی بیماریاں دریافت ہوئیں۔ اور کچھ بیماریاں دورانِ علاج یا طریقہ علاج سے جنم لیتی رہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے مندرجہ ذیل پُر شوکت الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ آپ نے جو فرمایا وہ خدا تعالیٰ کی آواز تھی ۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’خدا کا غضب زمین پر بھڑک رہا ہے اور آئے دن ایسی نئی نئی آفات نازل ہوتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے طور بدل گئے ہیں اور ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی بڑی آفت دکھلانی چاہتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 199)
چند سال میں ہی کوئی نئی بیماری جنم لیتی ہے اور دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اس وقت کی سب سے عام بیماری ذیابیطس کی دریافت کا سال 1889ء ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں پولیو، ہیضہ، ٹائیفائیڈ، ملیریا جیسی بیماریوں کے حملہ آور ہونے کے بعد اس بارے میں تحقیق اور ویکسین بننے کا عمل جاری رہا اسی طرح 19ویں صدی میں الزائیمر، ہیپاٹائیٹس اے۔ بی۔ سی، ایچ آئی وی، 20ویں صدی میں انفلوئنزا کی ترقی کرتی اشکال اور پھر2003ء میں برڈ فلو، 2019ء میں سارس کورونا 2اور موجودہ زمانہ میں کورونا وائرس جیسی نئی بیماریاں سامنے آئیں۔
(یہ اعداد و شمار مختلف ویب سائٹس سے لیے گئے ہیں۔ خصوصا ًWHOکی ویب سائٹ کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ )
(جاری ہے)
٭…٭…٭