تین سلطنتوں کی دلچسپ کہانی: برطانوی، عثمانی اور آسمانی (قسط اوّل)
ہندوستان میں انگریز کس طرح وارد ہوئے اور وہاں اپنے قدم کس طرح جمائے اور کس طرح اسے سلطنتِ برطانیہ کی کالونی میں تبدیل کر لیا۔یہ ایک طویل داستان ہے جو سرِدست اس مضمون کا موضوع نہیں۔تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ 1857ء کے غدر سے لے کر آزادی و تقسیم ِ ہندوستان کا صدی بھر پر محیط عرصہ برطانوی سلطنت کے لیے کبھی بھی ایسا نہ تھا کہ وہ بے فکری سے بیٹھ کے حکومت کر سکے ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کی جغرافیائی و سیاسی حالت
اٹھارھویں اور انیسویں صدی کا زمانہ کئی سلطنتوں کے تصادم کا دور تھا۔ سبھی بڑی طاقتیں نوآبادیات کے قیام اور اپنی عملداری کے پھیلاؤ کے لیے سرگرمِ عمل تھیں۔انگریزوں نے فرانسیسی سلطنت سے نبردآزما ہو کر ہندوستان پر قبضہ حاصل کیا تھا۔برصغیر میں کوئی منظم مسلم سلطنت تو باقی نہ رہی تھی، مگر اپنی عظمتِ رفتہ کی یاد کہیں کہیں مخصوص مسلم طبقات میں مزاحمت کا رنگ رکھتی تھی۔ٹیپو سلطان کی مزاحمتی تحریک اسی عظمتِ رفتہ پر مبنی تھی۔
روس کسی بھی طرح وسطی ایشیا پر تسلط چاہتا تھا۔روس کے لیے یہ خطہ نہایت اہم تھا کہ یہ خطہ اس کی کسی بھی سمت میں پیش قدمی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔
سلطنتِ عثمانیہ اپنی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت میں مشرق و مغرب کے درمیان ایک فصیل بنی ہوئی تھی جو مغربی سلطنتوں کے پھیلاؤ، استحکام اور زوال میں اہم کردار ادا کرسکتی تھی۔ہندوستان جغرافیائی لحاظ سے سلطنتِ عثمانیہ کا پڑوسی تھا۔یوں ہندوستان پر عثمانیوں کی نظر تو تھی مگر وہاں انگریز کا تسلط ایسے خوابوں کے شرمندۂ تعبیر ہونے میں ایک بڑی روک تھا۔
آگے چل کر ہم جن حقائق پر نظر ڈالیں گے، ان کے بیان سے پہلے یہ یاد رکھ لینا ضروری ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کی پڑوسی سلطنتوں میں مشرق میں برطانوی ہندوستان، شمال میں روس، مغرب میں جرمنی اور جنوب میں افریقہ کی فرانسیسی نوآبادیات تھیں۔
ہم برطانوی ہندوستان کےجس دَور پر آج بات کریں گے، اس دور کے عالمی سیاسی اکھاڑے میں مذکورہ بالا طاقتوں کا دنگل جاری تھا۔
برطانیہ عثمانیہ اتحاد
برطانوی راج سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی ایک ارہاص کے طور پرہندوستان آئی اور اقتصادیات کے ذریعہ برصغیر ہندوستان کو اپنے زیرنگیں کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔انہیں جنوبی ہند میں مقامی باشندوں کی طرف سے جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، ان میں سب سے اہم ٹیپو سلطان کی مزاحمت تھی جسے نپولین بونا پارٹ اور اس کی فرانسیسی افواج کی پشت پناہی حاصل تھی۔وہ جنگیں جو Anglo-Mysore Wars کے نام سے موسوم ہیں، اسی مزاحمتی؍عسکری تحریک کے زیر اثر لڑی گئیں۔
ایسے میں ہندوستان میں تعینات انگریز فوجی اہلکارArthur Wellesley (جو بالعموم Duke of Wellington کے نام سے جانے جاتے ہیں)، اپنی عسکری قابلیتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور کو بھی بروئے کار لائے اور ترکی کے سلطان سلیم ثالث سے ٹیپو سلطان پر دباؤ ڈلوایا۔ سلطان سلیم ثالث نے 20؍ستمبر 1798ء کو ٹیپو سلطان کو خط تحریر کیا اور اسے فرانسیسیوں کے مسلمانوں پر مظالم کی یاددہانی کروا کر ان کی پشت پناہی کو ترک کرنے اور انگریزوں کے خلاف جنگ نہ کرنے کی تلقین کی۔سلطان سلیم ثالث نے سلطنتِ عثمانیہ اور سلطنتِ برطانیہ کے خیرسگالی مراسم کو برقرار رکھنے میں ٹیپو سلطان سے تعاون کی درخواست کرتے ہوئے اس خیرسگالی کو ’’مذہبی فریضہ‘‘قرار دیا۔
(تفصیل کے لیے Britain, India and the Turkish Empire، مصنفہ Ram Lakhan Shukla، نئی دہلی، 1973ء)
سلطانِ ترکی کو برطانیہ سے دوستانہ مراسم اتنے عزیز کیوں تھے، اس کی سیاسی وجوہات تفصیل طلب ہیں، مگر اختصار سے یہ بیان کردینا ضروری ہے کہ روس جن وسط ایشیائی ریاستوں پر تسلط چاہتا تھا، وہ سلطنتِ عثمانیہ کی عملداری میں تھیں۔چونکہ اس تسلط کو روکنے میں برطانیہ اور ترکی کے مفادات مشترک تھے، لہٰذا ترکی کوبرطانیہ سے دوستانہ مراسم رکھنے میں ہی خیر نظر آتی تھی۔
چونکہ ٹیپو سلطان کے زور کو توڑنے میں سلطانِ ترکی نے اہم کردار ادا کیا، لہذا برطانیہ کو سلطنتِ عثمانیہ کے مفادات میں شامل ہونا پڑا۔
سلطنتِ برطانیہ اور ہندوستانی مسلمانوں کی ہمدردی کا حصول
یاد رہے کہ اس سیاسی دنگل میں ممنونیتِ محض نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ سب کچھ سیاسی مفادات کے گرد گھومتا تھا۔برطانیہ خود روس کی وسطی ایشیا کی طرف پیش قدمی کا سدِ باب چاہتا تھا کیونکہ وسطی ایشیا کا روس کے دامن میں جا گرنے کا مطلب تھا افغانستان کی طرف پیش قدمی اور افغانستان گویا ہندوستان کا پھاٹک تھا، جسے یوں روس کے لیے کھولا نہیں جاسکتا تھا۔
یوں سلطنتِ عثمانیہ کے لیے وسطی ایشیا (یعنی اپنی سلطنت کے ایک بڑے حصے )کو روس کے آگے ہارجانا اور سلطنتِ برطانیہ کے لیے ہندوستان کی طرف روس کی پیش قدمی کی راہیں ہموار کردینا ایک مشترک تشویش تھی جو سلطنتِ عثمانیہ اور سلطنتِ برطانیہ کے اتحاد کی وجہ بنی رہی۔(تفصیل:ایضاً)
مگر ایک بڑی وجہ اس اتحاد کی یہ بھی تھی کہ انگریز کو معلوم تھا کہ سلطانِ ترکی کا یہ اثر ورسوخ جو انہوں نے ٹیپو سلطان پر استعمال کیا تھا، وہ ہم مذہب ہونے کے باعث تھا۔سلطانِ ترکی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم حیثیت رکھتا تھا جس کی ایک وجہ اس کی سلطنت کے ذریعہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کا اظہار تھا، اور حرمین شریفین کا والی ہونا بھی۔دنیا بھر سے عازمینِ حج اسی سلطنت میں جاتے اور یوں ایک مذہبی اور جذباتی لگاؤ بھی محسوس کرتے۔
(تفصیل: Empire and the Hajj: Pilgrims, Plagues, and Pan-Islamism، مصنفہ Michael Christopher Low، مضمون مطبوعہ International Journal for Middle East Studies، شمارہ 40، 2008ء)
یوں برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی رجحانات پر سلطانِ ترکی کس طرح اثر انداز ہوسکتا تھا، برطانیہ اس سے کبھی غافل نہ ہوا۔اور اس مذہبی؍جذباتی لگاؤ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشاں رہا۔برطانیہ کےخود کو greatest Muslim empire کہنے کے پیچھے بھی یہی سیاسی سوچ کارفرما تھی۔
کریمین جنگ (Crimean War) ( ۔ 1853۔1856)
میں برطانیہ نے سلطنتِ عثمانیہ کے اتحادی کے طور پر روس کو شکست دی اور مسلمانوں کے دلوں میں خاص جگہ بنالی۔ہندوستانی مسلمانوں کے اکثر حلقے انہیں سلطان کا دوست اور اسلام کا خیرخواہ سمجھنے لگے۔
اس جنگ کے دوران لارڈ ڈلہوزی (Lord Dalhousie) نے مسلمانانِ ہند میں انگریزکے لیے بڑھتی ہوئی ہمدردی کو محسوس کرلیا۔اگرچہ اس نے کبھی اس حقیقت کو فراموش نہ ہونے دیا کہ برطانیہ کی طرف سے ترکی کی پشت پناہی دینِ اسلام کے تحفظ کے لیے نہ تھی بلکہ ایک خالصۃً سیاسی حربہ تھا جس کا مقصد روس کو مشرق میں بالادستی حاصل کرنے سے روکنا تھا۔
(تفصیل: Private Letters of the Marquess of Dalhousie مولفہ J.G.A. Baird، مطبوعہ William (Blackwood & Sons, London, 1910
کریمین جنگ میں مسلمان فوجی دستے ہندوستان سے اس نعرے کے ساتھ روانہ کیے گئے کہ وہ اپنے ’’اسلامی بھائیوں‘‘کی مدد کو نکلیں۔یوں برطانیہ کو مسلمانوں میں انگریز حکمران کے لیے قبولیت کا ثبوت بھی مل گیا اور انگریز کے اسلام دوست ہونے کا تاثر مزید مستحکم بھی ہوگیا۔
(تفصیل: Relations of the Ottoman Empire with the Indian Rulers، شمشاد علی، مقالہ برائے پی ایچ ڈی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، 1988ء)
کریمین جنگ کا اختتام ہوا ہی تھا کہ ہندوستان میں غدر کے بادل منڈلانے لگے۔اس دوستانہ تعلق کو قائم رکھنے کی خاطر 1857ءکے غدر میں سلطانِ ترکی نےمسلمانانِ ہند کے نام اپنے شاہی فرمان میں یہ باور کرایا کہ وہ انگریز کے خلاف مزاحمت سے باز رہیں ورنہ وہ سلطان کی نافرمانی کے مرتکب ہو کر اس کی نظر سے گر جائیں گے۔اس فرمان میں بھی سلطانِ ترکی (عبدالمجید اوّل)نے کریمین جنگ میں برطانیہ کی خدمات کا تذکرہ کیا اور مسلمانانِ ہند کے دل میں انگریز کے خلاف اشتعال کو سرد کرنے کی کوشش کی۔
جب انگریز غدر میں ملوث مسلمان طبقات پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے، تو سلطانِ ترکی نے غدر کے نقصانات کے ازالہ کے لیے ایک ہزار پاؤنڈ ہندوستان کی برطانوی حکومت کو عطیہ کیے۔
یوں سلطانِ ترکی کی مدد سے انگریز کے خلاف جہاد کا وہ فتویٰ بھی گویا کالعدم ہوگیا جو 34؍علمائے اسلام (بشمول فضلِ حق خیر آبادی) کے دستخط کے ساتھ ’’اردو اخبار‘‘دہلی نے 26؍جولائی 1857ء کو شائع کیا تھا اور اس کی نقول دیگر مسلم اخبارات (مثلاً صادق الاخبار، دہلی) نے شائع کی تھیں۔
(تفصیل: Pan-Islamism in British Indian Politics از نعیم قریشی، , Brill, 1999)
(آگے چلنے سے پہلے قارئین یہ نوٹ فرمالیں کہ انگریز کے خلاف جنگ نہ کرنے کا سب سے پہلا فرمان سلطانِ ترکی کی طرف سے آیا تھا، جو اکثر امتِ مسلمہ کی نظر میں خلیفۃ المسلمین کا مقام رکھتے تھے اور واجب الاطاعت تھے)۔
1867ء میں سلطان عبدالعزیز پہلا سلطانِ ترکی تھا جس نے انگلستان کا دورہ کیا۔انگریز حکومت نے اس دورہ کو سرکاری اعزاز سے نوازا اور خوب آؤ بھگت کی۔بعد میں اس ساری تواضع کے اخراجات India Office کے بجٹ میں ڈال کر وہاں سے وصول کیے گئے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس ساری مہمان نوازی کا اصل سبب ہندوستانی مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنا تھا۔
(بحوالہ اخبارFriend of India، یکم اگست 1867ء)
سلطان ترکی اس دورے سے واپس آئے تو ایشیا کی صورت حال کچھ ایسی شکل اختیار کرچکی تھی جس میں روسی سلطنت کا ایشیا میں پھیلاؤ ناگزیر نظر آرہا تھا۔ایسے میں برطانوی سلطنت کا ترکی سلطنت کے ساتھ متحد رہنا بھی ناگزیر ہوگیا۔نیز برطانوی ہندوستان کی افواج میں مسلمان سپاہیوں کی بھرتی کی ضرورت بھی ایک اہم ضرورت تھی۔اس ضرورت کا پورا ہونامسلمانانِ ہند میں انگریز کے لیے نرم گوشہ پیدا کیے بغیر ممکن نہ تھا۔لہٰذا برطانوی حکومت نے ایک ایسی پالیسی ترتیب دی جس کے ذریعہ مسلمانانِ ہند کے دل میں یہ خیال راسخ کرنا تھا کہ برطانیہ سلطنتِ عثمانیہ کا خیرخواہ ہے اور یوں مسلمانوں کے مذہبی مفادات کا محافظ بھی۔
سلطنتِ عثمانیہ کے وزیرِ اعظم علی پاشا نے اپنے ایک مکتوب میں مسلمانانِ ہند کو مبارکباد دی کہ وہ انگریزحکومت کے تحت زندگی گزارتے ہیں جو انہیں ہر طرح کی مذہبی آزادی دیتی ہے۔ یہ بھی باور کرایا کہ سلطانِ ترکی کی حکومت کبھی مسلمانانِ ہند کی کسی ایسی حرکت کو قبول نہ کرے گی جو حکومتِ انگلستان کے خلاف کی جائے۔
(بحوالہ: انڈیا آفس ریکارڈ،FD Secret H, Progs. Vol, 1869, No. 111 بعنوان British ambassador at Constantinople to foreign secretary, 9October 1869)
دوسری طرف ہندوستان میں بارسوخ مسلمان مثلاً سر سید احمد خان سلطانِ ترکی کے گُن گاتے تھے اور مسلمانوں کے دل میں ترکی سے وابستگی پیداکرتے تھے۔دورِ حاضر کے متعصب مورخین جب سر سید احمد خان کو بین الاسلامیت (Pan-Islamism)کے سرخیلوں میں نمایاں مقام دیتے ہیں، تو وہ اس بات کا ذکر تو بہت شدو مد سے کرتے ہیں کہ سر سید نے علیگڑھ میں ترکی ٹوپی تک کے استعمال کو رواج دیا، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ سر سید ایسا صرف انگریز پالیسی کو دیکھتے ہوئے کرتے تھے۔جہاں انگریزوں کا نقطہ نظر سلطانِ روم سے متضاد ہوتا، وہا ں سر سید یا تو خاموش رہتے یا مسلمانانِ ہند کی حمایتِ ترکیہ کو غلط قرار دیتے۔
(تفصیل: تحریک اتحادبین المسلمین، از خالد امین، مطبوعہ تحقیقی مجلہ ’’تحصیل‘‘، جولائی 2018ء)
سلطنتِ عثمانیہ کے ہندوستان میں سفارت خانے
برطانیہ اور عثمانیہ سلطنتوں کے درمیان ان دوستانہ مراسم میں ایک اہم موڑ تب آیا جب برطانیہ نے ترکی سفیروں کو ہندوستان کی سرزمین پر سفارت خانے قائم کرنے کی اجازت دی۔ترکی کے پہلے سفارت کار 1849ء میں کلکتہ اور بمبئی کے لیے روانہ کیے گئے اور شاہی فرمان میں ان کا مقصد ’’ہمارے لوگوں اور بحری تاجروں کے معاملات کو دیکھنا‘‘ اور ’’ان کے اموال و املاک کی حفاظت میں ان کے مفادات کا تحفظ‘‘ بیان کیا گیا۔
(تفصیل: Pan-Islamism: Indian Muslims, the Ottomans and Britain، مصنفہ Azmi Ozcan، مطبوعہ Brill, 1997)
ہندوستان سے جانے والے عازمین حج بھی ان قونصل خانوں سے استفادہ کرتے اور یوں مسلمانانِ ہندوستان کثرت سے بحری سفر اختیار کرتے ہوئے سرزمینِ عثمانیہ میں وارد ہونے لگے۔ حرمین شریفین اسی سرزمین پر واقع ہونے کے سبب مسلمانوں کا اس سلطنت کی طرف رجحان فطری امر تھا، مگر دراصل وہاں قائم مسلم سلطنت انہیں اسلام کی عظمت کی آخری نشانی محسوس ہوتی۔یوں نسلاً تشکیل پانے والی collective psyche بھی سلطنتِ عثمانیہ سے وابستگی میں اہم کردارادا کرتی رہی۔
قونصل خانوں کے قیام اور مسلمانانِ ہند کا کثرت سے ترکی کی عملداری میں جانا آنا ہندوستان کے انگریز حکمرانوں کو نئے اندیشوں سے دوچار کرنے لگا۔
Pan-Islamism میں ہندوستانی مسلمانوں کی دلچسپی
1870ء تک پہنچتے پہنچتے ہندوستانی مسلمانوں میں سلطنتِ عثمانیہ سے وابستگی منظم شکل اختیار کرچکی تھی۔اس کے بنیادی عوامل میں خود انگریزوں کی کوشش بھی تھی (جس کا اوپر ذکر آچکا ہے)۔مگر ساتھ ایک مسلم سلطنت کی موجودگی، ایک ’’خلیفہ‘‘کی سربراہی، اتحادبین المسلمین کے ذریعہ اسلام کے دورِ اوّل کی نشأۃ ثانیہ کا خواب اور ایک ’’کافر‘‘حکمران کے تسلط سے نجات کے جذبات بھی کارفرما تھے۔
سلطانِ روم کو خود بھی احساس ہوچکا تھا کہ اگر دوسری سلطنتوں میں بطور رعایا رہنے والے مسلمان اب بھی اسے ’’خلیفہ‘‘ کے روحانی منصب پر قبول کرنے کو تیار ہیں اور اس کے فرمان کو واجب الاطاعت خیال کرتے ہیں، تو وہ ان مسلمانوں کو ایک زبردست سیاسی طاقت کے طور پر اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
ان بڑھتےہوئے مراسم پر انگریز حکومت نے گہری نظر رکھنا شروع کی اور ترک سفارت کاروں کی ہر حرکت و سکون کی رپورٹ حاصل کی جانے لگی۔
(تفصیل: Azmi Ozcanکی مذکورہ بالا کتاب؛ نیز Contested Subjects از فائز احمد، مشمولہJournal of the Ottoman and Turkish Studies Association، جلد3، 2016ء)
اسی طرح ہندوستان سے ترکی جانے والے مسلمانوں کی حرکات پر گہری نظر رکھی جانے لگی اور وہاں ان کی مصروفیات پر مفصل رپورٹ مخبروں کے ذریعہ حاصل کی جاتیں۔
1880ء کی دہائی تک سلطانِ روم کو مسلمانانِ ہند کی سیاسی طاقت کا رخ اپنی طرف موڑنے میں خاصی کامیابی حاصل ہوگئی۔اسے احساس تھا کہ انگریز کا اتحاد محض سیاسی بنیادوں پر ہے اور کسی بھی طرح دیرپا نہیں۔ مسلمانانِ ہند بھی اپنی مذہبی شناخت کی تلاش میں سلطنتِ روم سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔
اسی دہائی میں بااثر مسلمانوں نے سلطانِ روم کے پاس حاضری دینا شروع کی اور ہندوستان کے مسلمانوں میں اتحاد بین المسلمین (Pan-Islamism) کے ترکی ایجنڈے میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ مئی 1880ء میں ترکی سے ایک اردو اخبار ’’پیکِ اسلام‘‘ کا اجرا ہوا جو کثرت سے ہندوستانی مسلمانوں تک پہنچایا جاتا۔بالخصوص ہندوستان کی خودمختار مسلم ریاستوں کےسربراہوں کو جہاں سے اتحاد مسلمین کے بہتر نتائج کی توقع تھی۔
(تفصیل: قیام الدین احمد، A Study of the Attempts for Indo-Turkish Collaboration against the British، مطبوعہ Journal of International History)
1870ءکی پوری دہائی میں بمبئی میں تعینات ترک سفارت کار حسیب آفندی کی کارگزاری پر کڑی نظر رکھی گئی اور اس کا اپنے مفوضہ فرائض سے ہٹ کر مسلمانوں سے میل جول انگریز کی نظر میں کھٹکنے لگا۔خفیہ رپورٹوں میں اس کا مسلمان رہائشی علاقوں کے قریب منتقل ہوجانا، وہاں جمعہ کی نماز ادا کرنا اور مسجد میں سلطانِ روم کے نام کا خطبہ پڑھوانا سب محلِ نظر سمجھا گیا۔(تفصیل: Azmi Ozcanکی محولہ بالا کتاب)
تاہم سلطنتِ عثمانیہ کے لیے حسیب آفندی کا مسلمانانِ ہند میں ترکی سے وفاداری کی خفیہ مہم چلانا ستائش کی نظر سے دیکھا گیا اور اس طرز پر اس مہم کو بڑھانے کے لیے ترکی نے برطانیہ سے ہندوستان کے مختلف شہروں میں سفارت خانے کھولنے کی اجازت چاہی۔
(تفصیل:محولہ بالا مضمون بعنوانContested Subjects)
انگریز حکومت نے ایسی متواتردرخواستوں کو اس بنیاد پر ہر بار ردّ کیا کہ ترکی سفارت کاروں کی ذمہ داریاں بندرگاہوں تک محدود ہیں اور انہیں بندرگاہوں پر سفارت خانے میسر ہیں، لہٰذا ملک کے اندر ان کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔انگریز حکومت کا کہنا تھا کہ بمبئی اور کلکتہ کی بندرگاہوں پر ترک سفارت خانے اپنا مبینہ مقصد حاصل کررہے ہیں اور اندرونِ ملک مزید سفارت خانوں کی ضرورت بے بنیاد ہے۔
(بحوالہ:National Archives of India, FD/Secret/March 1878/6-63)
سلطانِ روم کا اصرار تھا کہ انہیں حیدرآباد (دکن)، دہلی، لاہور، پشاور اور کراچی میں سفارت خانے کھولنے کی اجازت دی جائے۔جیسا کہ ظاہر ہے، یہ تمام شہر مسلم اکثریت کے شہر تھے۔باقی شہروں کو مسترد کرتے ہوئے، انگریز حکومت نے بندرگاہ ہونے کے سبب صرف کراچی میں ایک اور سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی۔
(بحوالہ: سلطنتِ عثمانیہ آرکائیو استنبول، Irade Hariciye, 19941, lef 1,3 and 20995 lef 3)
کراچی میں ترکی سفارت کار
1890ء کے اوائل میں کراچی میں ترکی سفارت خانہ قائم کیا گیا۔یہ سلطان عبدالحمید ثانی کا زمانہ تھا جو جدید مغربی ذرائع ابلاغ سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنی سلطنت کے سیاسی و جغرافیائی بقا کے لیے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ سلطان عبدالحمید کے دَور میں اخبارات بھی کثرت سے شائع ہونے شروع ہوئے۔ان اخبارات میں شائع ہونے والا مواد چونکہ اتحاد بین مسلمین کی ترغیب دیتا تھا، لہٰذا انگریز حکومت نے ان اخبارات کی ہندوستان میں ترسیل پر قانونی پابندی عائد کردی۔(تفصیل: رام لکھن شکلا کی محولہ بالا کتاب)
سلطان عبد الحمید نے ہندوستان میں موجود سفارت کاروں کو اتحاد بین المسلمین کے رجحانات کو ہندوستانی مسلمانوں میں عام کرنے کے لیے استعمال کیا۔
( تفصیل : Survey of International Affairs 1925, مرتبہ Arthur J Toynbee، مطبوعہOxford University Press، لندن، 1927)
سلطان عبدالحمید نے 1896ء میں حسین کامی کی کراچی میں تعیناتی اسی مقصد کے تحت کی۔ حسین بِک کامی آفندی نے ہندوستان پہنچتے ہی ہندوستان کے طول و عرض کے دوروں کا سلسلہ شروع کر دیا جس میں وہ عام مسلمانوں، مسلم انجمنوں اور مسلم مسالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کرتا اور انہیں سلطنتِ ترکیہ کی حمایت کی ترغیب دیتا۔
(تفصیل: Azmi Ozcan)
معلوم ہوتا ہے کہ حسین کامی مسلمانانِ ہند کو انگریز کے خلاف بغاوت پر ابھارنے کے مشن کی پوری تیاری کے ساتھ وارد ہوا تھا۔ 1857ء کے بعد سے مسلمانوں میں مختلف انجمنیں قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جن کے ذریعہ ہم خیال مسلمانوں کو اپنے جذبات اور خیالات کے اظہارکا موقع مل جاتا۔
(تفصیل: Role of the Anjumans for the Promotion of Education in Colonial Punjab از مقبول احمد اعوان، مطبوعہBulletin of Education and Research، جلد 41، 2019ء)
ایسی انجمنوں میں سب سے پہلی قابلِ ذکر انجمنِ اسلامیہ لاہور تھی جو خان بہادر برکت علی کی کوششوں سے 1866ء میں قائم ہوئی۔ اکثر انجمنیں اسی سے متاثر ہو کر قائم ہوئیں مگر اس انجمن کو مسلمانانِ ہند کے سیاسی شعور کی تشکیل میں ممتاز مقام حاصل رہا۔اس انجمن کا صدر مقام خان بہادر برکت علی خان کی رہائش واقع موچی دروازہ لاہور رہی۔1888ءمیں ان کی رہائش سے ملحق محمڈن ہال کی تعمیر سے انجمن کی کارروائیاں وہاں منتقل ہوگئیں۔
اگرچہ اور انجمنیں بھی قائم ہوچکی تھیں، مگر خان بہادر برکت علی اور ان کی انجمن اسلامیہ لاہور کو گویا ان انجمنوں کے سرپرست کی حیثیت حاصل تھی۔ (ایضاً)
حسین کامی جب برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کے دورے پر لاہور وارد ہوا، تو خان بہادر برکت علی ہی کے ہاں فروکش رہا۔یہیں اس نے پنجاب کی سرکردہ مسلم قیادتوں سے ملاقاتیں کی اور یہیں جماعت احمدیہ کے بعض احباب نے اس سے مل کر اسے سلسلہ احمدیہ سے متعارف کروایا۔
(جاری ہے)