خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍مارچ2021ء
’’میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
23؍ مارچ ۔ یومِ مسیح موعود کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریراتِ مبارکہ سے حضورؑ کی بعثت کی ضرورت، مقصد اور آپؑ کی صداقت کا بیان
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد قرآنی پیشگوئیوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق تجدیدِ دین کرنا اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا ہے
’’وہ خدا کی وحی جو میرے پر نازل ہوئی ایسی یقینی اور قطعی ہے کہ جس کے ذریعہ سے میں نے اپنے خدا کو پایا اور وہ وحی نہ صرف آسمانی نشانوں کے ذریعہ مرتبہ حق الیقین تک پہنچی بلکہ ہر ایک حصہ اس کا جب خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر پیش کیا گیا تو اس کے مطابق ثابت ہوا اور اس کی تصدیق کے لئے بارش کی طرح نشان آسمانی برسے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
’’مَیں اللہ جل شانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مَیں مفتری نہیں ،کذاب نہیں۔ اگر تم مجھے خدا تعالیٰ کی قسم پر بھی اور ان نشانات کو بھی جو اس نے میری تائید میں ظاہر کئے دیکھ کر مجھے کذاب اور مفتری کہتے ہو تو پھر مَیں تمہیں خدا تعالیٰ کی قَسم دیتا ہوں کہ کسی ایسے مفتری کی نظیر پیش کرو کہ باوجود اس کے ہر روز افترا اور کذب کے جو وہ اللہ تعالیٰ پر کرے پھراللہ تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت کرتا جاوے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
آج دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ اس بات کی واضح ثبوت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ ہیں!
’’اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جوکدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہوچکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک۔ احمدیوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے ہوئے خدا سے خاص تعلق جوڑنے کی تلقین۔
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍مارچ2021ء بمطابق 26؍امان 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۔ (الجمعۃ:3)
وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناًً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔
وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (الجمعۃ:4)
اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبے والا اور صاحب حکمت ہے۔
دو تین دن پہلے 23؍ مارچ کا دن گزرا ہے۔ جماعت احمدیہ میں یہ دن اس وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے کہ اس دن جماعت کی بنیاد پڑی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لی۔ پس ہمیں یہ دن ہر سال یہ بات یاد دلانے والا ہونا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد قرآنی پیشگوئیوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق تجدیدِ دین کرنا اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا ہے۔ اور ہم جو آپ کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہم نے بھی اس اہم کام کی سرانجام دہی کے لیے اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس میں حصہ دار بننا ہے اور بھٹکی ہوئی انسانیت کا تعلق خدا تعالیٰ سے جوڑنا ہے اور بندوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانی ہے اور ظاہر ہے اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہو گی۔ بہر حال اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض حوالے پیش کروں گا جن میں آپؑ کے آنے کی ضرورت، مقصد اور کس طرح پیشگوئیاں پوری ہوئیں اور ہو رہی ہیں جو پہلے کی گئی تھیں، قرآنی پیشگوئیاں بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں بھی، جن سے آپ کی صداقت کا ثبوت ملتا ہے اور پھر جماعت میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہونے کے بارے میں بھی ذکر کروں گا جو آپؑ نے بتایا، جو آپؑ نے فرمایا، جو پاک تبدیلیاں صحابہؓ میں پیدا ہوئی تھیں اور آپؑ نے ان تکلیفوں کا بھی ذکر فرمایا جن سے صحابہ گزرے تھے اور جماعت کے افراد بھی گزر رہے ہیں۔ پس ہمیں ہر وقت ان باتوں کو سامنے رکھنا چاہیے تا کہ من حیث الجماعت ہم ترقی کرنے و الے ہوں نہ کہ نیچے گرنا شروع ہو جائیں۔ آپؑ نے اپنی بعثت اور صداقت کے بارے میں خدا کو گواہ بنا کر اعلان فرمایا ہے جو یقیناً ہمارے ایمانوں کو تقویت بخشتا ہے۔ اگر ہم ان باتوں کی جگالی کرتے رہیں اور ہر وقت سامنے رکھیں تو یقیناً یہ ہمارے ایمان میں ترقی کا باعث بنتی رہیں گی اور ہمیں اپنے مقصد کی طرف توجہ دلاتی رہیں گی۔ بہرحال اب میں جیسا کہ میں نے کہا حوالے پیش کرتا ہوں جو اپنوں کے لیے بھی ہیں اور غیروں کے لیے بھی، جو ان کو دعوت دے رہے ہیں، جو آپؑ کے مسیح موعود ہونے کو روز روشن کی طرح کھولتے ہیں۔
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں اس کی وضاحت میں ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خدا وہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علومِ حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل ِنفس ہو اور نفوسِ انسانیہ علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہو گئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔ یعنی خدا اور اس کی صراطِ مستقیم سے بہت دور جا پڑے تھے۔ تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول اُمّی بھیجا۔ اور اس رسول نے ان کے نفسوں کو پاک کیا اور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملو کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقینِ کامل تک پہنچایا۔ اور خدا شناسی کے نور سے ان کے دلوں کو روشن کیا۔ اور پھر فرمایا کہ ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہو گا۔ وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دور ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہؓ کے رنگ میں لائے گا۔ یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا۔ یہاں تک کہ ان کا صدق اور یقین بھی صحابہؓ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا۔‘‘
پس یہ ہے یقین جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر آپؑ کی صداقت پر ہونا چاہیے اور ایمان کی حالت یہ ہونی چاہیے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور اسلام کی صداقت پر ایمان اور یقین ہمیں وہ ہونا چاہیے جو صحابہؓ کا تھا جیسا کہ آج کل صحابہؓ کے حالات میں مَیں خطبات میں بھی بیان کر رہا ہوں اور مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’اور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسیؓ کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا۔
لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس۔
یعنی اگر ایمان ثریا پر یعنی آسمان پر بھی اٹھ گیا ہو گا تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اس کو واپس لائے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہو گا۔ اس زمانہ میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے۔‘‘ یعنی اسلامی تعلیم، قرآن کی تعلیم بالکل بھول جائے گی ’’اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے ۔کیونکہ صلیبی حملہ جس کے توڑنے کے لئے مسیح موعود کو آنا چاہئے وہ حملہ ایمان پر ہی ہے اور یہ تمام آثار صلیبی حملہ کے زمانہ کے لئے بیان کئے گئے ہیں اور لکھا ہے کہ اس حملہ کا لوگوں کے ایمان پر بہت برا اثر ہو گا۔‘‘ اور اس زمانے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ تھا آپؑ کی زندگی میں یہ شدید حملے ہو رہے تھے بلکہ بہت عرصہ بعد تک یہ شدید حملے جاری رہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے۔ فرمایا کہ ’’وہی حملہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دجالی حملہ کہتے ہیں۔ آثار میں ہے کہ اس دجال کے حملہ کے وقت بہت سے نادان خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ دیں گے اور بہت سے لوگوں کی ایمانی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور مسیح موعود کا بڑا بھاری کام تجدید ایمان ہو گا کیونکہ حملہ ایمان پر ہے اور حدیث لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ سے جو شخص فارسی الاصل کی نسبت ہے یہ بات ثابت ہے کہ وہ فارسی الاصل ایمان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے آئے گا۔ پس جس حالت میں مسیح موعود اور فارسی الاصل کا زمانہ بھی ایک ہی ہے اور کام بھی ایک ہی ہے یعنی ایمان کو دوبارہ قائم کرنا اس لئے یقینی طور پر ثابت ہوا کہ مسیح موعود ہی فارسی الاصل ہے اور اسی کی جماعت کے حق میں یہ آیت ہے ۔
وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۔
اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دو ہی گرو ہ ہیں۔ اول صحابۂ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبوی پایا اور معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے ان میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک روح رہ گئے۔ دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہؓ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے ۔کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا۔ اور آیت اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ میں جو اس گروہ کو مِنْهُمْ کی دولت سے یعنی صحابہؓ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
فرمایا ’’……چنانچہ آج کل ایسا ہی ہوا کہ تیرہ سو برس بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا دروازہ کھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ خسوف کسوف رمضان میں موافق حدیث دارقطنی اور فتاویٰ ابن حجر کے ظہور میں آ گیا یعنی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان میں ہوا اور جیسا کہ مضمون حدیث تھا۔ اسی طرح پر چاند گرہن اپنے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات میں اورسورج گرہن اپنے گرہن کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں وقوع میں آیا۔ ایسے وقت میں کہ جب مہدی ہونے کا مدعی موجود تھا۔ اور یہ صورت جب سے کہ زمین اور آسمان پیدا ہوا کبھی وقوع میں نہیں آئی کیونکہ اب تک کوئی شخص نظیر اس کی صفحہ ٔتاریخ میں ثابت نہیں کر سکا۔ سو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا جو لوگوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پھر ذو السنین ستارہ بھی جس کا نکلنا مہدی اور مسیح موعود کے وقت میں بیان کیا گیا تھا ہزاروں انسانوں نے نکلتا ہوا دیکھ لیا۔ ایسا ہی جاوا کی آگ بھی لاکھوں انسانوں نے مشاہدہ کی۔ ایسا ہی طاعون کا پھیلنا اور حج سے روکے جانا بھی سب نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا۔ ملک میں ریل کا تیار ہونا، اونٹوں کا بے کار ہونا، یہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے جو اس زمانہ میں اسی طرح دیکھے گئے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے معجزات کو دیکھا تھا۔ اسی وجہ سے اللہ جل شانہ نے اس آخری گروہ کو مِنْهُمْکے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہؓ کے رنگ میں ہی ہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاجِ نبوت کا اور کس نے پایا۔ اِس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اِس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے دیکھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نُور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے حاصل کی۔‘‘ یہ بڑی اہم بات ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرنی ہے۔ قرآن کریم پر غور کرنا ہے اور یہ بڑا ضروری ہے۔
فرمایا ’’بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیساکہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے۔ بہتیرے ان میں ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہام الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے۔ بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔ ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے۔‘‘ یہ بھی بڑی اہم بات ہے موت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ ’’اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں۔‘‘ پس یہ بڑی اہم باتیں ہیں جو آپ نے بیان فرمائیں جس کو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ ’’جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے۔‘‘ پس ہمیں ٹٹولنا چاہیے۔ کیا یہ سب باتیں ہمارے اندر بھی پیدا ہو رہی ہیں؟ ’’اور آسمانی نشانوں سے اُن کو اپنی طرف کھینچ رہا ہےجیساکہ صحابہ ؓ کو کھینچتا تھا۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْکے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں۔ اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا!!!‘‘
(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد14 صفحہ304-307)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ مختلف فرقوں کو ایک قوم بنادے۔ اور ان مذہبی جھگڑوں کو ختم کر کے آخر ایک ہی مذہب میں سب کو جمع کردے۔ اور اسی زمانہ کی نسبت جو تلاطمِ امواج کا زمانہ ہے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے۔
وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا (الکہف:100)
اس آیت کو پہلی آیتوں کے ساتھ ملا کر یہ معنے ہیں کہ جس زمانہ میں دنیا کے مذاہب کا بہت شور اٹھے گا اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر ایسا پڑے گا جیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے اور ایک دوسرے کو ہلاک کرنا چاہیں گے۔ تب آسمان و زمین کا خدا اِس تلاطمِ امواج کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے بغیر دنیوی اسباب کے ایک نیا سلسلہ پیدا کرے گا اور اس میں ان سب کو جمع کرے گا جو استعداد اور مناسبت رکھتے ہیں۔ تب وہ سمجھیں گے کہ مذہب کیا چیز ہے اور ان میں زندگی اور حقیقی راستبازی کی روح پھونکی جائے گی اور خدا کی معرفت کا ان کو جام پلایا جائے گا اور ضرور ہے کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ یہ پیشگوئی کہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قرآن شریف نے دنیا میں شائع کی ہے پوری نہ ہو جائے۔ اور خدا نے اس آخری زمانہ کے بارہ میں جس میں تمام قومیں ایک ہی مذہب پر جمع کی جائیں گی صرف ایک ہی نشان بیان نہیں فرمایا بلکہ قرآن شریف میں اور بھی کئی نشان لکھے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ کہ اُس زمانہ میں دریاؤں میں سے بہت سی نہریں نکلیں گی اور ایک یہ کہ زمین کی پوشیدہ کانیں یعنی معدنیں بہت سی نکل آویں گی۔ اور زمینی علوم بہت سے ظاہر ہو جائیں گے اورایک یہ کہ ایسے اسباب پیداہو جائیں گے جس کے ذریعہ سے کتابیں بکثرت ہو جائیں گی…… اور ایک یہ کہ اُن دنوں میں ایک ایسی سواری پیدا ہو جائے گی کہ اونٹوں کو بیکار کردے گی۔ اور اس کے ذریعہ سے ملاقاتوں کے طریق سہل ہو جائیں گے۔ اور ایک یہ کہ دنیا کے باہمی تعلقات آسان ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کو بآسانی خبریں پہنچا سکیں گے۔‘‘ (اور آج کل کے زمانے میں تو اَور بھی زیادہ سہولتیں پیدا ہوتی چلی جا رہی ہیں) ’’اور ایک یہ کہ ان دنوں میں آسمان پر ایک ہی مہینہ میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا۔ اور ایک یہ کہ اس کے بعد زمین پرسخت طاعون پھیلے گی یہاں تک کہ کوئی شہر اور کوئی گاؤں خالی نہ رہے گا جوطاعون سے آلودہ نہ ہو اور دنیا میں بہت موت پڑے گی۔ اور دنیا ویران ہو جائے گی۔ بعض بستیاں تو بالکل تباہ ہو جائیں گی۔ اور ان کا نام و نشان نہ رہے گا اور بعض بستیاں ایک حد تک عذاب میں گرفتار ہو کر پھر ان کو بچایا جائے گا۔ یہ دن خدا کے سخت غضب کے دن ہوں گے اس لئے کہ لوگوں نے خدا کے نشانوں کو جو اُس کے فرستادہ کے لئے اس زمانہ میں ظاہر ہوئے قبول نہ کیا اور خدا کے نبی کو جو اصلاحِ خلق کے لئے آیا ردّ کر دیا اور اس کو جھوٹا قرار دیا۔ یہ سب علامتیں اِس زمانہ میں‘‘ جس میں ہم ہیں ’’پوری ہوگئیں۔ عقلمند کے لئے صاف اور روشن راہ ہے کہ ایسے وقت میں خدا نے مجھے مبعوث فرمایا جب کہ قرآن شریف کی لکھی ہوئی تمام علامتیں میرے ظہور کے لئے ظاہر ہوچکی ہیں۔‘‘
(لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ182-184)
اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ ساری باتیں آپؑ کے زمانے میں پوری ہوئیں اور بعض ان میں سے اب تک پوری ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے تب میں نے اُس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں اور پھر جب اس پر چند سال گزرے تو بذریعہ وحی الٰہی میرے پر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس امت کے لئے ابتدا سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنےو الا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ میں ہی ہوں اور مکالمات الٰہیہ اور مخاطبات رحمانیہ اس صفائی اور تواتر سے اس بارے میں ہوئے کہ شک و شبہ کی جگہ نہ رہی۔ ہر ایک وحی جو ہوتی ایک فولادی میخ کی طرح دل میں دھنستی تھی اور یہ تمام مکالمات الٰہیہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے تھے کہ روز روشن کی طرح وہ پوری ہوتی تھیں اور ان کے تواتر اور کثرت اور اعجازی طاقتوں کے کرشمہ نے مجھے اس بات کے اقرار کے لئے مجبور کیا کہ یہ اسی وحدہ ٗلاشریک خدا کا کلام ہے جس کا کلام قرآن شریف ہے اور میں اس جگہ توریت اور انجیل کا نام نہیں لیتاکیونکہ توریت اور انجیل تحریف کرنے والوں کے ہاتھوں سے اس قدر محرف و مبدل ہو گئی ہیں کہ اب ان کتابوں کو خدا کا کلام نہیں کہہ سکتے۔ غرض وہ خدا کی وحی جو میرے پر نازل ہوئی ایسی یقینی اور قطعی ہے کہ جس کے ذریعہ سے میں نے اپنے خدا کو پایا اور وہ وحی نہ صرف آسمانی نشانوں کے ذریعہ مرتبہ حق الیقین تک پہنچی بلکہ ہر ایک حصہ اس کا جب خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر پیش کیا گیا تو اس کے مطابق ثابت ہوا اور اس کی تصدیق کے لئے بارش کی طرح نشان آسمانی برسے۔ انہی دنوں میں رمضان کے مہینہ میں سورج اور چاند کا گرہن بھی ہوا جیسا کہ لکھا تھا کہ اس مہدی کے وقت میں ماہ رمضان میں سورج اور چاند کا گرہن ہو گا اور انہی ایام میں طاعون بھی کثرت سے پنجاب میں ہوئی جیسا کہ قرآن شریف میں یہ خبر موجود ہے اور پہلے نبیوں نے بھی یہ خبر دی ہے کہ ان دنوں میں مری بہت پڑے گی اور ایسا ہو گا کہ کوئی گاؤں اور شہر اس مری سے باہر نہیں رہے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہو رہا ہے اور خدا نے اس وقت کہ اس ملک میں طاعون کا نام و نشان نہ تھا قریباً بائیس برس طاعون کے پھوٹنے سے پہلے مجھے اس کے پیدا ہونے کی خبر دی۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ3-4)
پھر اپنے دعوے کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں :
’’میں وہ شخص ہوں جو عین وقت پر ظاہر ہوا جس کے لئے آسمان پر رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو قرآن اور حدیث اور انجیل اور دوسرے نبیوں کی خبروں کے مطابق گرہن لگا اور میں وہ شخص ہوں (کہ) جس کے زمانہ میں تمام نبیوں کی خبر اور قرآن شریف کی خبر کے موافق اس ملک میں خارق عادت طور پر طاعون پھیل گئی اور میں وہ شخص ہوں جو حدیث صحیح کے مطابق اس کے زمانہ میں حج روکا گیا اور میں وہ شخص ہوں جس کے عہد میں وہ ستارہ نکلا جو مسیح ابن مریم کے وقت میں نکلا تھا اور میں وہ شخص ہوں جس کے زمانہ میں اس ملک میں ریل جاری ہو کر اونٹ بیکار کئے گئے اور عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ بہت نزدیک ہے جبکہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہو کر وہ تمام اونٹ بیکار ہو جائیں گے۔‘‘ پہلے تو سڑکوں کے ذریعہ سے رابطہ تھا۔ اب وہاں بھی ریل کے ذریعہ سے ہو چکا ہے۔ ’’وہ تمام اونٹ بیکار ہو جائیں گے جو تیرہ سو برس سے یہ سفر مبارک کرتے تھے۔ تب اس وقت ان اونٹوں کی نسبت وہ حدیث جو صحیح مسلم میں موجود ہے صادق آئے گی یعنی یہ کہ
لَیُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا
یعنی مسیح کے وقت میں اونٹ بیکار کئے جائیں گے اور کوئی ان پر سفر نہیں کرے گا۔ ایسا ہی میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صدہا نشان ظاہر ہوئے۔ کیا زمین پر کوئی ایسا انسان زندہ ہے کہ جو نشان نمائی میں میرا مقابلہ کر کے مجھ پر غالب آ سکے۔ مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اب تک دو لاکھ سے زیادہ میرے ہاتھ پر نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور شاید دس ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ لوگوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ نے میری تصدیق کی اور اس ملک میں جو بعض نامی اہل کشف تھے جن کا تین تین چار چار لاکھ مرید تھا ان کو خواب میں دکھلایا گیا کہ یہ انسان خدا کی طرف سے ہے اور بعض ان میں سے ایسے تھے کہ میرے ظہور سے تیس برس پہلے دنیا سے گزر چکے تھے جیسا کہ ایک بزرگ گلاب شاہ نام‘‘ گلاب شاہ جس کا نام تھا ’’ضلع لدھانہ میں تھا جس نے میاں کریم بخش مرحوم ساکن جمال پور کو خبر دی تھی کہ عیسیٰ قادیان میں پیدا ہو گیا اور وہ لدھانہ میں آئے گا۔ میاں کریم بخش ایک صالح موحد اور بڈھا آدمی تھا اس نے مجھ سے لدھانہ میں ملاقات کی اور یہ تمام پیشگوئی مجھے سنائی۔ اس لئے مولویوں نے اس کو بہت تکلیف دی مگر اس نے کچھ پروا نہ کی۔ اس نے مجھے کہا کہ گلاب شاہ مجھے کہتا تھا کہ عیسیٰ بن مریم زندہ نہیں وہ مر گیا ہے وہ دنیا میں واپس نہیں آئے گا۔ اس امت کے لئے مرزا غلام احمد عیسیٰ ہے جس کو خدا کی قدرت اور مصلحت نے پہلے عیسیٰ سے مشابہ بنایا ہے اور آسمان پر اس کا نام عیسیٰ رکھا ہے اور فرمایا کہ اے کریم بخش! یعنی اپنے اس مرید کو ’’فرمایا کہ اے کریم بخش! جب وہ عیسیٰ ظاہر ہو گا تو تُو دیکھے گاکہ مولوی لوگ کس قدر اس کی مخالفت کریں گے۔ وہ سخت مخالفت کریں گے لیکن نامراد رہیں گے‘‘ اور آج تک نامراد رہ رہے ہیں۔ ’’وہ اس لئے دنیا میں ظاہر ہوگا کہ تا وہ جھوٹے حاشیے جو قرآن پر چڑھائے گئے ہیں ان کو دور کرے اور قرآن کا اصل چہرہ دنیا کو دکھا وے۔ اس پیشگوئی میں اس بزرگ نے صاف طور پر یہ اشارہ کیا تھا کہ تُو اس قدر عمر پائے گا کہ اس عیسیٰ کو دیکھ لے گا۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد20 صفحہ35-37)
یعنی یہ پیشگوئی اپنے اس مرید کی عمر کے بارے میں بھی تھی۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو خدا تعالیٰ کا نام غفور ہے۔ پھر کیوں وہ رجوع کرنے والوں کو معاف نہ کرے؟ اِس قسم کی غلطیاں ہیں جو قوم میں واقع ہوگئی ہیں۔ انہیں غلطیوں (میں) سے جہاد کی غلطی بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جب میں کہتا ہوں کہ جہاد حرام ہے تو کالی پیلی آنکھیں نکال لیتے ہیں حالانکہ خود ہی مانتے ہیں کہ جو حدیثیں خونی مہدی کی ہیں وہ مخدوش ہیں۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس باب میں رسالے لکھے ہیں۔‘‘ تسلیم کیا ہے حدیثوں کے مخدوش ہونے کے بارے میں۔ ’’اور یہی مذہب میاں نذیر حسین دہلوی کا تھا۔‘‘ آجکل بھی بعض علماء اب یہی کہنے لگ گئے ہیں۔ ’’وہ ان کوقطعی صحیح نہیں سمجھتے۔ پھر مجھے کیوں کاذب کہا جاتا ہے۔ سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا اور قلم، دعا، توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا۔‘‘ پس یہ قلم اور دعا اور توجہ یہی کام اب آج آپ کے ماننے والوں کا بھی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اور افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے دین کی طرف نہیں۔‘‘ ہمیں بھی اپنی حالتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ماننے کے بعد کہیں ہماری توجہ دوبارہ دنیا کی طرف تو بہت زیادہ نہیں ہو گئی۔ فرمایا ’’دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہو کر یہ امید کیونکر کر سکتے ہیں کہ ان پر قرآنِ کریم کے معارف کھلیں۔ وہاں تو صاف لکھا ہے ۔
لَا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعۃ:80)
اس بات کو بھی دل سے سنوکہ میرے مبعوث ہونے کی علتِ غائی کیا ہے؟‘‘ کیا بنیادی مقصد ہے میرے مبعوث ہونے کا۔ ’’میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی۔ ہرگز نہیں اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں آسکتی۔ قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔ اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوگیا۔ وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہیں فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔ اسلام کی جو حالت اس وقت ہے وہ پوشیدہ نہیں۔ بالاتفاق مان لیا گیا ہے کہ ہر قسم کی کمزوریوں اور تنزل کا نشانہ مسلمان ہورہے ہیں ہر پہلو سے وہ گر رہے ہیں۔‘‘ اور آج کل تو اَور بھی زیادہ بُری حالت ہم دیکھ رہے ہیں ’’ان کی زبان ساتھ ہے تو دل نہیں ہے اور اسلام یتیم ہوگیا ہے۔ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کی حمایت اور سرپرستی کروں اور اپنے وعدہ کے موافق بھیجا ہے کیونکہ اس نے فرمایا تھا
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10)
اگر اس وقت حمایت اور نصرت اور حفاظت نہ کی جاتی تو وہ اور کونسا وقت آئے گا؟ اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہورہی ہے جو بدر کے موقعہ پر ہوگئی تھی۔ جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ (اٰل عمران:124)
اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا۔ پھر تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ اس نے اسلام کی نصرت کی؟‘‘
پھر اپنے خلاف مخالفین کی دریدہ دہنی کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’مجھے اِس بات کا افسوس نہیں کہ میرا نام دجّال اور کذّاب رکھا جاتا ہے اور مجھ پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ ضرور تھا کہ میرے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو مجھ سے پہلے فرستادوں کے ساتھ ہوا تا میں بھی ایک قدیم سنت سے حصہ پاتا۔ میں نے تو ان مصائب اور شدائد کا کچھ بھی حصہ نہیں پایا لیکن جو مصیبتیں اور مشکلات ہمارے سید ومولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں آئیں اس کی نظیر انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں کسی کے لئے نہیں پائی جاتی۔ آپؐ نے اسلام کی خاطر وہ دکھ اٹھائے کہ قلم ان کے لکھنے اور زبان ان کے بیان سے عاجز ہے۔ اور اِسی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے جلیل الشان اور اولو العزم نبی تھے۔ اگر خدا تعالیٰ کی تائید اورنصرت آپؐ کے ساتھ نہ ہوتی تو ان مشکلات کے پہاڑ کو اٹھانا ناممکن ہو جاتا اور اگر کوئی اور نبی ہوتا تو وہ بھی رہ جاتا۔ مگر جس اسلام کو ایسی مصیبتوں اور دکھوں کے ساتھ آپ نے پھیلایا تھا آج اس کا جو حال ہوگیا ہے وہ میں کیونکر کہوں؟‘‘
(لیکچر لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ279-280)
مسلمانوں نے اسلام کا کیا حال کردیا ہے اور جو آنے والا ہے اس کو ماننے کو تیار نہیں۔ جو تجدید دین کے لیے آیا ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’میں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ پورے طور پر اس طریق کو پیش کیا ہے جو اسلام کو کامیاب اور دوسرے مذاہب پر غالب کرنے والا ہے۔ میرے رسائل امریکہ اور یورپ میں جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اس قوم کو جو فراست دی ہے انہوں نے اس خداداد فراست سے اس امر کو سمجھ لیا ہے لیکن جب ایک مسلمان کے سامنے میں اِسے پیش کرتا ہوں تو اس کے منہ میں جھاگ آجاتی ہے گویا وہ دیوانہ ہے یا قتل کرنا چاہتا ہے۔‘‘ اور عملاً آج کل تو یہ لوگ احمدیوں کے ساتھ یہ کر بھی رہے ہیں۔ ’’حالانکہ قرآن شریف کی تعلیم تو یہی تھی
اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ (حم السجدۃ:35)
یہ تعلیم اس لئے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو وہ اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جاوے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ سن لے۔ مَیں اللہ جل شانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مَیں مفتری نہیں ،کذاب نہیں۔ اگر تم مجھے خدا تعالیٰ کی قَسم پر بھی اور ان نشانات کو بھی جو اس نے میری تائید میں ظاہر کئے دیکھ کر مجھے کذاب اور مفتری کہتے ہو تو پھر مَیں تمہیں خدا تعالیٰ کی قَسم دیتا ہوں کہ کسی ایسے مفتری کی نظیر پیش کرو کہ باوجود اس کے ہر روز افترا اور کذب کے جو وہ اللہ تعالیٰ پر کرے پھراللہ تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت کرتا جاوے۔‘‘ دکھاؤ تو سہی کہ ایسا جھوٹا آدمی جو اللہ تعالیٰ پر افترا کر رہا ہے، جھوٹ بول رہا ہے پھر اللہ تعالیٰ تائیدات بھی فرما رہا ہے۔ آج دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ اس بات کی واضح ثبوت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ ہیں! فرمایا کہ ’’چاہئے تو یہ تھا کہ اسے ہلاک کرے‘‘ چاہیے تو تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسے جھوٹے آدمی کو ہلاک کر دیتا ’’مگریہاں اس کے برعکس معاملہ ہے۔ مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں صادق ہوں اس کی طرف سے آیا ہوں مگر مجھے کذاب اور مفتری کہا جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ہر مقدمہ اور ہر بلا میں جو قوم میرے خلاف پیدا کرتی ہے مجھے نصرت دیتا ہے اور اس سے مجھے بچاتا ہے اور پھر ایسی نصرت کی کہ لاکھوں انسانوں کے دل میں میرے لیے محبت ڈال دی۔‘‘ معنی یہ کہ اس وقت تو صرف ہندوستان تک ہی تھی۔ پھر دور و نزدیک تک یورپ میں بھی، امریکہ میں بھی، افریقہ میں بھی، ساؤتھ امریکہ میں، جزائر میں، آسٹریلیا میں، عرب ممالک میں لاکھوں انسانوں کے دلوں میں ،آپ فرماتے ہیں کہ میری محبت ڈال دی۔ عجیب معاملہ ہے یہ کہ جھوٹے کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے۔ ’’مَیں اس پر اپنی سچائی کو حصر کرتا ہوں۔‘‘ یہی میری سچائی کی دلیل ہے۔ ’’اگر تم کسی ایسے مفتری کا نشان دے دو کہ وہ کذاب ہو اور اللہ تعالیٰ پر اس نے افترا کیا ہو اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی نصرتیں کی ہوں اور اس قدر عرصہ تک اسے زندہ رکھا ہو اور اس کی مرادوں کو پورا کیا ہو۔ دکھاؤ۔‘‘
(لیکچر لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ275-276)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کو چاہئے کہ جو انوار و برکات اس وقت آسمان سے اتر رہے ہیں وہ ان کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ وقت پر ان کی دستگیری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اس مصیبت کے وقت ان کی نصرت فرمائی۔ لیکن اگر وہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہ کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کی کچھ پروا نہ کرے گا۔ وہ اپنا کام کرکے رہے گا مگر ان پر افسوس ہوگا۔
میں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے۔ اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کرے۔وہ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ (البروج:17)ہے۔ مسلمانو!یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں یہ خبر (دے )دی ہے اور مَیں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ہے۔ اب اس کو سننا نہ سننا تمہارے اختیار میں ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو موعود آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں اور یہ بھی پکی بات ہے کہ اسلام کی زندگی عیسیٰ کے مرنے میں ہے۔‘‘
(لیکچر لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ290)
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’میرے نادان مخالفوں کو خدا روز بروز انواع و اقسام کے نشان دکھلانے سے ذلیل کرتا جاتا ہے اور میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم ؑسے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحٰقؑ سے اور اسمٰعیل ؑسے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسیٰؑ سے اور مسیح ؑابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی۔ ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اِسی بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں۔ وہی نبوتِ محمدیہؐ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے۔ اور چونکہ میں محض ظلّ ہوں اور امتی ہوں اس لئے آنجنابؐ کی اِس سے کچھ کسرِِ شان نہیں۔‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کچھ کسرِ ِشان نہیں ’’اور یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر میں ایک دم کے لئے بھی اِس میں شک کروں تو کافر ہوجاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔ وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے۔ اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کرکوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ۔روحانی خزائن جلد20 صفحہ411-412)
پھر فرماتے ہیں ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جوکدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہوچکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو خدا نے اپنے ہاتھ سے میری تربیت فرما کر اور مجھے اپنی وحی سے شرف بخش کر میرے دل کو یہ جوش بخشا ہے کہ میں اس قسم کی اصلاحوں کے لئے کھڑا ہو جاؤں۔ اور دوسری طرف اس نے دل بھی تیار کر دیئے ہیں جو میری باتوں کے ماننے کے لئے مستعد ہوں۔میں دیکھتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے دنیا میں مامور کر کے بھیجا ہے اسی وقت سے دنیا میں ایک انقلاب عظیم ہورہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی خدائی کے دلدادہ تھے اب ان کے محقق خود بخود اس عقیدہ سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں۔‘‘ اور اب تو بےشمار لوگ ایسے ہو گئے ہیں جو اس عقیدے کی نفی کرنے والے ہیں۔ ’’اور وہ قوم جو باپ دادوں سے بتوں اور دیوتوں پر فریفتہ تھی بہتوں کو ان میں سے یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ بت کچھ چیز نہیں ہیں اور گو وہ لوگ ابھی روحانیت سے بے خبر ہیں اور صرف چند الفاظ کورسمی طور پر لئے بیٹھے ہیں لیکن کچھ شک نہیں کہ ہزارہا بیہودہ رسوم اور بدعات اور شرک کی رسیاں انہوں نے اپنے گلے پر سے اتار دی ہیں اور توحید کی ڈیوڑھی کے قریب کھڑے ہوگئے ہیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ کچھ تھوڑے زمانہ کے بعد عنایاتِ الٰہی ان میں سے بہتوں کو اپنے ایک خاص ہاتھ سے دھکا دے کر سچی اور کامل توحید کے اس دارالامان میں داخل کر دے گی جس کے ساتھ کامل محبت اور کامل خوف اور کامل معرفت عطا کی جاتی ہے۔ یہ امید میری محض خیالی نہیں ہے بلکہ خدا کی پاک وحی سے یہ بشارت مجھے ملی ہے۔ اس ملک میں خدا کی حکمت نے یہ کام کیا ہے تا جلد تر متفرق قوموں کو ایک قوم بنا دے اور صلح اور آشتی کا دن لاوے۔ ہر ایک کو اس ہوا کی خوشبو آرہی ہے کہ یہ تمام متفرق قومیں کسی دن ایک قوم بننے والی ہے۔‘‘
(لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ180-181)
اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیا میں بسنے والے لوگ خاص طور پر مسلمان اس حقیقت کو سمجھنے والے ہوں۔ آپؑ کے دعوے کو سمجھنے والے ہوں اور جلد وہ اس مسیح و مہدی کی بیعت میں آ جائیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے دنیا میں بھیجا ہے اور ہمیں بھی اپنا حقِ بیعت ادا کرنے والا بنائے۔
پاکستان کے احمدیوں کے لیے، الجزائر کے احمدیوں کے لیے بھی دوبارہ مَیں دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔ وہاں حالات دوبارہ کافی بگڑتے جا رہے ہیں یا اوپر نیچے ہو تے رہتے ہیں اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی مکمل امن اور سکون آ گیا ہے۔ پاکستان میں بھی ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح الجزائر میں بھی حکومت کے بعض اہلکاروں کی نیت نیک نہیں لگ رہی۔ دوبارہ کیس کھولنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو پاکستان میں بھی، الجزائر میں بھی اور دنیا کے ہر ملک میں جہاں بھی کوئی احمدی کسی بھی قسم کی تکلیف میں ہے اپنی حفاظت میں رکھے لیکن ساتھ ہی احمدیوں کو بھی توجہ کرنی چاہیے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں۔ اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے والے ہوں اور حقوق العباد کو بھی ادا کرنے والے ہوں۔ اپنی حالتوں کو بہتر کرنے والے ہوں اور خدا سے خاص تعلق جوڑنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 16؍اپریل 2021ء صفحہ 5تا9)