شکرگزاری کی عادت پُرسکون گھر کی ضمانت (قسط نمبر 2۔ آخری)
ہماری زندگی بے شمار نعمتوں سے بھری پڑی ہے
حدیث میں آتاہے کہ حضرت عبداللہ بن غنّام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ جس نے صبح کے وقت یہ کہا کہ اے اللہ جو بھی نعمت مجھے ملی وہ تیری ہی طرف سے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں اور تمام تعریفیں اور شکر تیرے ہی لیے ہیں تو گویا اس نے اپنے دن کا شکر ادا کردیا۔ اور جس نے اسی طرح شام کے وقت دعا کی تو اس نے اپنی رات کا شکر ادا کردیا۔
(سنن أبی داؤد، کتاب الأدب باب ما یقول اذا اصبح)
جیسا کہ خاکسار نے شروع میں بیان کیا تھا کہ دن کا آغاز دعا سے کرنا چاہیے ،دیکھیں جب ہم دن کا آغاز ہی اس بات سے کریں گے کہ اپنے رب کا شکر ادا کریں، اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے تو اپنے خالق کی محبت ہمارے دل میں پیدا ہوگی۔ اور اس کے بعد ادا کی جانے والی نماز میں انسان لذت محسوس کرتے ہوئے کھڑا ہوجاتاہے۔ اور رکوع وسجود میں شکرکرے گا ۔تو ایک کے بعد ایک نعمت ہمارے سامنے آکر ہمارے اندر قناعت کا جذبہ پیدا کرنے کا موجب ہوگی۔ اور ہماری خواہشات سے پیدا ہونے والی بے چینی کوختم کرنے کا سبب ہوگی ۔
اگر ہم اللہ کی عطا کی گئی نعمتوں کا شمار کرنے بیٹھیں تو ان کا شمار ممکن نہیں ۔ لیکن اگر اُن میں سے ایک دو پر ہی غور کرتے ہوئے شکرگزار ہوں جو ہم عموماً نہیں کرتے تو ہماری زندگی اطمینان سے بھر جائے گی ۔مثلاً اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کو ہی لے لیں ۔اپنے صحت مند تندرست بچوں کے لیے اللہ کے شکر گزار ہوں۔پھر ہم اگر اپنے سکون اور اطمینان کو دیکھیں تو یہ باتیں ہمیں خوش کریں گی۔خوشی کے لیے کسی بڑی چیز کا ہونا ضروری نہیں۔ ایسی بے شمار نعمتیں ہیںجو ہمارے رب نے بن مانگے ہمیں عطا کی ہیں جن کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔اپنےارد گردموجود چھوٹی چھوٹی نعمتوں پر شکر گزاری ہماری خوشیوں کو بڑھا نے کاسبب ہوتا ہے۔اور زندگی میں کوئی کمی ہو تو اس کے متعلق بھی مثبت نظریہ اختیار کرنا۔دراصل یہ بھی ہمیں اس شکرگزاری کی عادت کی وجہ سے نصیب ہوتا ہے۔شکرگزاری کاجذبہ یا عادت بھی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔یہ بھی خدا تعالیٰ کا احسان ہے جس کو عطافرمائے۔انسان اس کے لیے دعا کے ذریعہ کوشش کرسکتا ہے۔اور جتنا انسان اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کی لذت حاصل کرتا ہے تو شکر کا جذبہ بڑھتا ہی جاتا ہے ۔
اس کے برعکس ہم اپنے اردگردبعض ایسے لوگوں کو بھی دیکھتے ہیں جن کی ضرورتیں ہی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ہر دن کسی نئی خواہش کے ساتھ طلوع ہوکرا ن کی زندگی بے سکونی اور بے چینی کا باعث بنتی ہے اور وہ ایک سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری معمولی انسانوں کی شکرگزاری کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کی حمدکرتے ہوئے کہ ہماری پردہ پوشی فرمائی ہے کمیوں کو دورکیااورنہ صرف یہ کہ پردہ پوشی فرمائی بلکہ خود ہی ان کی اصلاح کرتے ہوئے ان کوششوں کے معیار بھی بہتر کر دیئے اور اتنے بہتر کر دیئے کہ انسانی کوششوں سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے پیدافرمائے۔ پس جب ہم اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کریں توپھر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو خوشخبری دیتاہے کہ تم میری حمد اور شکر گزاری کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے، میرے شکرگزاربنتے ہوئے، جو اچھے نتائج تم نے حاصل کئے ہیں انہیں میری طرف منسوب کرتے ہوئے جب اپنی سوچوں کے دائرے اس طرح چلاتے ہوتوپھرایسے لوگوں کو مَیں نوازتاہوں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا مضمون اللہ تعالیٰ کی قدرتوں، طاقتوں اور تمام صفات کا ادراک پیداکرنے والا ہے جسے ہمیں سمجھنے کی اور ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 27؍اگست تا 2؍ستمبر2010ءصفحہ5تا 8)
ایک عورت کے روزانہ معمول میں شکر کا اظہار
سارا دن کام کاج کے دوران اپنے معمولات کا جائزہ اور ان سے متعلق شکر گزاری کا اظہار ناشکری پیدا نہیں ہونے دیتا۔ مثلاً ہم گھر کے کام کاج جس میں صفائی ستھرائی،کھاناپکانا سب شامل ہے، کے دوران جائزہ لیںاور نعمتوں کو شمار کریں کہ کیا کیا چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہماری سہولت کے لیے ہمیںعطا فرمائی ہیں ۔جو کہ بہت سارے لوگوں کو میسر نہیں۔ اور یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ ہماری ایک فیملی ہے ،ابھی ہم جلدی جلدی سب کے لیے ،ان کے انتظار میں گھر کےکام ختم کررہے ہیں جب سب باری باری گھر آئیں گے تو گھر رونقوں سے بھر جائے گا۔ اور ہم بھر پور زندگی سے لطف اندوز ہوںگے۔جب اس سوچ کے ساتھ کام کریں گی، اپنے گھروں کو سجایںگی تو کوئی کمی نہیں لگے گی۔اور بدلے میںنہ صر ف پرسکون اور خوبصور ت ماحول پیدا ہوگا ہےبلکہ یہ شکر گزاری کی عادت ہماری شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔وہ اس طرح کہ گھر میںسب کی آمد پرایک خوش مزاج ہنستی کھیلتی ماں سب کو خوش آمدید کہےگی۔نہ کہ چھوٹی چھوٹی کمیوں کی شکایات کرنے والی ناراض ماں یا بیوی سے بچوں اور خاوند کا سامنا ہو کر اُن کی بے سکونی کا باعث بننے والی عورت سے۔ اس طرح ہم پورے خاندان کو ایک پر سکون ماحول فراہم کرتے ہیں، اور ہم خود بھی اعصابی تناؤ، ڈپریشن سے محفوظ اور صحت مندرہتے ہیں۔ ہماری خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوتاہے۔
رات کو سونے سے پہلے شکر گزاری
ہر انسان سارے دن کی مصروفیت کے بعد تھک کرسکون سے سوناچاہتا ہے۔ سونے سے پہلےبستر پر لیٹ کر دعاؤں کے ساتھ ہم ایک مرتبہ پھر سارے دن کے کاموں اور روٹین کو سوچیں تو بہت سی باتیں ہمیںخوش کرنے والی ہوتی ہیں۔ سارا دن ہم نے بغیر کسی تکلیف کے گزاراہےکسی دن ہم اپنے دوست یا بہن بھائیوں سے گپ شپ کرکے خوش ہوتے ہیں، بچوں کی باتیں شرارتیںیاد کرکے مسکراتے ہیں اور کبھی کسی ضرورت مند کی مدد کرنے کی وجہ سے ایک خوشی کا احساس ہوتاہے۔ اگر دن میں کسی کی کوئی بات پسند نہیں آئی تو بدلہ لینے کی بجائے درگزر سے کام لیں یہ بات بھی اطمینان کا باعث ہوتی ہے ،پھر اس سے انسان بلاو جہ کے شکوے شکایت اور منفی رویوں سے بھی بچتا ہے۔اور جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ سب رویوں کی صورت میں نعمتیں جو ہیں یہ محض اللہ کا احسان ہے،اگر ہم جماعتی خدمت کررہے ہیں کسی کی مدد کی توفیق ملی ہے یا کچھ بھی سوچ لیںاس میں ہماری ذاتی خوبی کا کوئی دخل نہیں تو یہ چیز پھرمزید شکرگزاری کے ساتھ محبت الٰہی کا موجب بنتی ہے۔
اس وقت اگر ہم یہ بھی سوچیں کہ ہمیں کیساآرام دہ گرمیوں میںٹھنڈا اور سردیوں میں گرم کمرہ اور گرم بستر میسر ہےاور اب سونے کے لیے کسی نیند کی گولی کی ضرورت نہیں۔
غرض شکر گزاری کے لیے اتنی ساری باتیں ہیں کہ جن کا شمار نہیں۔ شکر گزاری کے بہت سے فائدوں کے علاوہ دو فائدے یہ بھی ہیں کہ ایک تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جتنا ہم شکر کرتے ہیں اتنا وہ بڑھا کر دیتا ہے اور دوسرا ہم جتنا شکر کرتے ہیں اتنی ہماری عادت بڑھتی جاتی ہے۔ہم پہلے سے بڑھ کر اللہ کا اور ساتھ رہنے والوں کےشکر گزارہوتے ہیں جس سے ہماری روزمرہ زندگی پرسکون ہوتی ہے۔ مشکلات اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔بس ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری پردہ پوشی فرمائے ۔ہر آزمائش سے بچائے۔آمین
ایک موقع پرخواتین سے مخاطب ہوتےہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
’’بعض گھر اس لئے اُجڑ جاتے ہیں کہ مرد اُن کی خواہشات پوری نہیں کر سکتے۔ ڈیمانڈز بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ یا اگر اُجڑتے نہیں تو بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے۔ لیکن جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والے ہوں اُن کا کفیل خدا خود ہو جاتا ہے، اُن کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ایک عقلمند عورت وہی ہے جو یہ سوچے کہ میں نے اپنا گھریلو چین اور سکون کس طرح پانا ہے؟ اپنے گھر کو جنت نظیر کس طرح بنانا ہے؟ اگر دنیا کی طرف نظر رہے تو یہ سکون کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ حقیقی سکون خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ دنیاوی خواہشات تو بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری خواہش آتی چلی جاتی ہے جو بے سکونی پیدا کرتی ہے۔‘‘
پھر فرمایا :’’ اگر آپ جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ یقینا ًجو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ نیک اعمال کر رہی ہیں اُن کی زندگیوں میں جو سکون اور اطمینان ہے وہ دنیا دار عورتوں کی زندگیوں میں نہیں ہے۔ ایسی عورتوں کے گھروں میں بھی بے سکونی ہے جو دنیا داری والی ہیں۔ لیکن جو دین کو مقدم رکھنے والی ہیں، اُس کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہیں، اُنہیں گھروں میں بھی سکون ہے، اور ان کی عائلی زندگی بھی خوش و خرم ہے۔ اُن کے بچے بھی نیکیوں پر قائم ہیں اور جماعت کے ساتھ منسلک ہیں ۔‘‘( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍اکتوبر 2012ء)
اللہ تعالیٰ کی عطا کی گئی نعمتوں پر شکر ادا کرنا اللہ تعالیٰ کا بندے پر حق ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کواس کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر کرنے والااور حقیقی معنوں میں عبدشکور بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین