فضائل القرآن (2) (قسط ہشتم)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
لفظ رحمٰن کی حقیقت
اصل بات یہ ہے کہ محققین یورپ کو یہ دھوکا قرآن کریم کی اس آیت سے لگا ہے کہ
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَ مَا الرَّحۡمٰنُ (الفرقان:61)
یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدائے رحمٰن کے سامنے سجدہ میں گر جائو تو وہ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمٰن کیا ہوتا ہے۔ معترضین کہتے ہیں۔ یہ آیت اس بات کی سند ہے کہ غیر زبان کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔ کیونکہ عرب کے لوگ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمٰن کیا ہوتا ہے۔ اگر یہ غیر زبان کا لفظ نہ ہوتا تو وہ کیوں ایسا کہتے حالانکہ معترضین اس آیت کے معنے ہی نہیں سمجھے۔ کفار کا اعتراض لفظ رحمٰن پر نہیں تھا بلکہ اس اصطلاح پر تھا جو قرآن نے رحمٰن کے لفظ کے ذریعہ پیش کی تھی۔ قرآن نے یہ نئی اصطلاح پیش کی تھی جو عربوں میں رائج نہ تھی۔ جیسے صلوٰۃ عربی لفظ ہے مگر اصطلاحی صلوٰۃ قرآن نے پیش کی ہے۔ اس کے متعلق بھی کفار کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں جانتے صلوٰۃ کیا ہوتی ہے۔
پس ان لوگوں کا اعتراض در حقیقت اسلامی اصطلاح پر تھا۔ اور انہوں نے یہ کہا کہ اس کا جو مطلب قرآن پیش کرتا ہے وہ ہم نہیں جانتے اور اصطلاح جدید علم جدید کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک طرف تو قرآن میں آتا ہے کہ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ (ابراہیم:5)یعنی ہم نے ہر ایک رسول کو اسکی قوم کی زبان میں ہی وحی دےکر بھیجا ہے۔ اور دوسری طرف سورۂ ہود میں آتا ہے۔ مخالفین نے حضرت شعیبؑ سے کہا۔
یٰشُعَیۡبُ مَا نَفۡقَہُ کَثِیۡرًا مِّمَّا تَقُوۡلُ (ہود:92)
اے شعیب! ہماری سمجھ میں تیری اکثر باتیں نہیں آتیں۔ اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کسی ایسی زبان میں باتیں کرتے تھے جسے وہ لوگ سمجھ نہ سکتے تھے بلکہ یہ ہے کہ جو دینی باتیں وہ بیان کرتے تھے اور جو جو مسائل وہ پیش کرتے تھے انہیں وہ لوگ نہیں سمجھتے تھے۔
اہل عرب میں رحمٰن کا استعمال
وہ الفاظ جو قرآن نے استعمال کئے ہیں وہ ان لوگوں میں پہلے سے موجود تھے۔ چنانچہ رحمٰن کا لفظ بھی ان میں استعمال ہوتا تھا۔ قرآن کریم میں آتا ہے۔
وَ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰہُمۡ (الزخرف:21)
یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمٰن کا یہی منشا ہوتا کہ ہم شرک نہ کریں تو ہم شرک نہ کرتے۔ غرض رحمٰن کا لفظ وہ بولا کرتے تھے مگر قرآن کریم نے رحمٰن اس ہستی کو قرار دیا ہے جو بغیر محنت کے انعام دیتی ہے۔ اور یہ بات وہ لوگ نہیں مانتے تھے کیونکہ اس کے ماننے سے ان کا شرک باطل ہو جاتا تھا۔ غرض وَمَا الرَّحْمٰنُ کے یہ معنی نہیں کہ عرب کے لوگ رحمٰن کا لفظ نہیں جانتے تھے بلکہ یہ ہیں کہ وہ اس اصطلاح کے قائل نہ تھے جو قرآن نے پیش کی۔ بہر حال قرآن کریم کی فصاحت اس کے حسن کا ایک روشن ثبوت ہے۔ اور پھر قرآن کریم کی یہ فصاحت ایسی بڑھی ہوئی ہے کہ آج تک علم ادب پر اس کا اثر ہے اور زبان عربی کی ترقی کو اس نے ایک خاص لائن پر چلا دیا ہے۔ حتیٰ کہ عرب مسیحی مصنف بھی قرآن کی تعریف کرتے تھے اور ان کے مدارس میں قرآن کریم کے ٹکڑے بطور ادب کے رکھے جاتے تھے۔ ایک جاہل ملک میں ایک کتاب کا لوگوں کو والہ وشیدا بنا دینا اور انہیں جاہل سے عالم کر دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
قرآن کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب
قرآن کریم کی دوسری ظاہری خوبی اس کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے۔ ترتیب کا اعلیٰ ہونا بذات خود روحانیت سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ مجرد ترتیب انسانی کلام میں بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ترتیب ایک ظاہری خوبی ہے جو کسی کلام کو خوبصورت بنا دیتی ہے۔ اور اس خوبی کے لحاظ سے بھی قرآن کریم تمام دوسری کتب سے افضل ہے۔ بظاہر وہ ایک بے ترتیب کلام نظر آتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب موجود ہے بلکہ جہاں سب سے بڑھ کر بے ترتیبی نظر آتی ہے وہاں سب سے زیادہ ترتیب ہوتی ہے۔ اور یہی اس کی بہت بڑی خوبی ہے۔ دنیا میں کوئی انسان ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا جو بظاہر تو بے ترتیب ہو مگر غور کرنے سے اس میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہو۔ پس اس حسن میں بھی قرآن کریم نہ صرف دوسری کتب کے مشابہ ہے بلکہ ان سے افضل ہے۔ اس وجہ سے کہ معروف ترتیب کی اتباع کرنا ایک عام بات ہے۔ ہر عقلمند ایسا کر سکتا ہے لیکن قرآن کریم کی ترتیب میں بعض ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری کتب میں نہیں اور وہ خصوصیات یہ ہیں۔
ترتیب قرآن کی چند خصوصیات
اول۔ اس کی ترتیب بظاہر مخفی ہے مگر غور اور تامل سے ایک نہایت لطیف ترتیب معلوم ہوتی ہے اور کسی انسانی کتاب میں اس قسم کی ترتیب کی مثال نہیں ملتی کہ بظاہر ترتیب نہ ہو لیکن غور کرنے پر ایک مسلسل ترتیب نظر آئے جو نہایت لطیف اور فلسفیانہ ہو۔
اس وقت میں قرآن کریم کی ترتیب کے متعلق مثالیں دینے سے معذور ہوں۔ کیونکہ جس مقام کی بھی میں ترتیب بیان کروں گا کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقام خاص طور پر چن لیا گیا ہے۔ میں نے بعض دوستوں سے کہا تھا کہ وہ کوئی مثال ایسی چن دیں جس کی ترتیب عام لوگوں کو معلوم نہ ہو اور جو بے جوڑ فقرے نظر آتے ہوں مگر افسوس ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع نہ تھا اس لئے وہ کوئی مثال پیش نہ کر سکے اور میں خود سردرد کی وجہ سے ایسا مقام نہ نکال سکا ورنہ بتاتا کہ قرآن کریم میں کیسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے۔
دوم۔ قرآن کریم بغیر اس کے کہ ترتیب کی طرف اشارہ کرے علم النفس کے ماتحت اپنے مطالب کو بیان کرتا ہے اور جو سوال یا جو ضرورت کسی موقع پر پیش آتی ہے اس کا اگلی عبارتوں میں جواب دیتا ہے۔ گویا اس کی ہر اگلی آیت میں پچھلی آیات کے مطابق جو سوال پیدا ہوتے ہیں ان کا جواب دیا جاتا ہے۔ اور یہ باریک ترتیب اور کسی کتاب میں نہیں ہے۔ بائیبل کے متعلق لوتھر لکھتا ہے:
’’The Gospels do not keep order in their account of miracles and deeds of jesus. This is of small moment. When there is dispute about Holy Writ and no comparison is possible let the matter drop.‘‘
Emile Ludwidg in his book ’’son of man‘‘ says ’’Almost all the contradictions arise out of the disorderly nature of the reports.‘‘
The Gospels, the four main sources of Knowledge, contradict one an other in many respects and are upon some points contradicted by the scanty non-Christian authorities.‘‘
Moreover there is confusion in serial arrangement, a confusion which has been deplored through-out centuries.‘‘
یعنی بائیبل میں ترتیب واقعات کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ پس اس کے بیانات کے بارہ میں جب کوئی جھگڑا پیدا ہو اور سلجھائو کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو اسے چھوڑ دینا چاہئے۔
ایمل لڈوگ (Emile Ludwidg)نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ بیان کرتا ہے کہ موجودہ انجیل ہمیں بالکل بے ترتیب نظر آتی ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’ابن آدم‘‘ میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انجیل میں ہمیں جو بھی تضاد نظر آتا ہے وہ واقعات کے بے ترتیبی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اناجیل جو ہمارے علم کے چار بڑے چشمے ہیں کئی امور میں ایک دوسرے کے مخالف بیانات کی حامل ہیں اور غیر عیسائی محققین نے بھی انہیں متضاد قرار دیا ہے، اس کے علاوہ ان کی ترتیب میں اس قدر الجھنیں ہیں کہ صدیوں سے خود مسیحی اس پر افسوس کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اسی طرح ویدوں کو پڑھا جائے تو وہاں بھی ترتیب کا کچھ پتہ نہیں لگتا اور یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ ایک واقعہ کا دوسرے واقعہ سے کیا جوڑ ہے۔
مختصر آیات میں حقائق و معارف کی کثرت
تیسری خوبی جو قرآن کریم کے ظاہری حسن کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کے مضامین کا باوجود اختصار کے مفصل ہونا ہے۔ چنانچہ ایک ایک آیت کئی کئی مطالب بیان کرتی چلی جاتی ہے۔ اور پھر اس میں علم کلام، علم تاریخ، علم اوامر اور علم نواہی سب ایک ہی وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور آئندہ کے لئے پیشگوئیاں بھی ہوتی ہیں۔ اس خوبی کی وجہ سے ایک طرف تو قرآن کریم نہایت مختصر ہے اور دوسری طرف جو اس میں عظیم الشان مطالب بیان ہیں وہ بائیبل اور دوسری الہامی کتب میں مل ہی نہیں سکتے۔ اس کی ایک مثال میں نے ابھی دی ہے کہ ایک چھوٹی سی آیت میں تین عظیم الشان پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں لیکن اس کے علاوہ قرآن کریم کا کوئی مقام لے لو یہ بات واضح ہو جائے گی۔ میں اس کے مزید ثبوت کےلئے پھر پہلی آیت کو ہی لے لیتا ہوں۔
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ کی لطیف تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ۔ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ۔ اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ۔ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ۔ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ (العلق:2-6)
ان چند آیات میں پہلے تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ فرمایا اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ۔ پڑھ اس کلام کو۔ مگر جب پڑھنے لگو تو یہ کہہ لینا کہ میں اللہ کا نام لے کر اسے پڑھتا ہوں۔ اس میں استثنا باب 18کی آیت 19،18کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ہے جو یہ ہے کہ ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا۔ اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرمائوں گا۔ وہ سب ان سے کہے گا۔ اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لونگا۔‘‘
پس بِاسۡمِ رَبِّکَ میں موسیٰؑ کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؐ کے مثیل ہونے موسیٰؑ کا دعویٰ پیش کیا گیا ہے اور نبوت کے تسلسل کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اِقۡرَاۡ میں تبلیغ کے واجب ہونے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کئی کلام ایسے ہوتے ہیں جو خود پڑھنے والے کے لئے ہوتے ہیں، دوسروں کو سنانے کیلئے نہیں ہوتے۔ مگر اس کلام کے متعلق فرمایا یہ ساری دنیا کے لئے ہے، جا اور اسے سنا۔ اس میں تبلیغ اسلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
تیسری رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ
میں یہ بتائی کہ اس کلام کے پیش کرنے میں تمہیں بہت سی مشکلات پیش آئیں گی مگر تو اس رب کا نام لے کر پڑھ جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس میں یہ اشارہ کیا کہ یہ کلام صرف بنی اسرائیل کےلئے یا اہل ہنود کےلئے نہیں یہ الانسان کےلئے ہے اور جب ایک قوم کو مخاطب کرنے والوں کو دکھ اور تکالیف اٹھانی پڑیں تو تم جو ساری دنیا کو مخاطب کر رہے ہو تمہیں کس قدر مشکلات پیش آئیں گی۔ مگر کسی بات سے ڈرنا نہیں یہ کلام تیرے رب کی طرف سے آیا ہے اور باوجود اس کے کہ ساری دنیا اس کی مخاطب ہے اور اس وجہ سے ساری دنیا تیری مخالف ہوگی تیرا رب تیرے ساتھ ہوگا۔ مگر یہ بھی یاد رکھنا کہ تیری آہستہ آہستہ ترقی ہوگی کیونکہ رب آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ ترقی دینے والے کو کہتے ہیں۔
چوتھی بات یہ بیان کی کہ
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ۔
اس میں ایک تو اس طرف توجہ دلائی کہ اے انسان! دیکھ تیری پیدائش کتنی ادنیٰ ہے پھر تو خیال بھی کس طرح کر سکتا ہے کہ اپنی کامیابی کے ذرائع خود معلوم کر لے گا۔ دوسرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس طرف توجہ دلا دی کہ انسان کو علق سے پیدا کیا گیا ہے یعنی اس میں قدرتی طور پر تعلق باللہ کا مادہ رکھا گیا ہے۔ اور یہ بات تمہاری معاون ہوگی۔ پس تمہیں گھبرانا نہیں چاہئے اور مایوسی کو کبھی اپنے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہئے۔
غرض ایک چھوٹی سی آیت میں تاریخ، علم کلام، تبلیغ، انسان کی پیدائش اور انسان کی مخفی طاقتوں کا ذکر کر دیا۔ اور ابھی یہ باتیں ختم نہیں ہوئیں اور بھی کئی علوم کا اس میں ذکر ہے۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭