جماعت احمدیہ سیرالیون کے سو سال پورے ہونے پر ایک خصوصی تقریب
نائب صدر مملکت سیرالیون کی شرکت
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جماعت احمدیہ سیرالیون کے سو سال مکمل ہونے کی خوشی میں ایک تقریب کاانعقاد کیا گیا۔ تقریبات کا آغاز تو ماہ فروری سے ہو گیا تھا لیکن ان تقریبات کے باقاعدہ آغاز کے لیے اس تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
اس تقریب کے انعقاد سے قریباً دو ہفتے قبل تمام اعلیٰ افسران اور اہم حکومتی شخصیات کو باقاعدہ دعوت نامے بھجوائے گئے اور بار بار یادد ہانی بھی کروائی گئی۔ اس تقریب میں نائب صدر مملکت سیرالیون شامل ہوئے اور ان کے ساتھ بڑی تعداد میں منسٹرز، سابق منسٹرز، ججز، اعلیٰ سرکاری عہدیداران، اعلیٰ فوجی و پولیس افسران بھی شامل ہوئے۔
مورخہ 23؍مارچ کوپروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم الحاجی ابوبکر بنگورا صاحب نے کی اور اس کا ترجمہ بھی پیش کیا۔ اس کے بعد جامعۃ المبشرین سیرالیون کے طلبہ نے رسول کریمﷺ کی مدح میں قصیدہ، یاعین فیض اللّٰہ والعرفان، بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع اردو و انگریزی ترجمہ نہایت ترنم کے ساتھ پیش کیا۔
پھرمکرم موسیٰ میوا صاحب نے پروگرام میں شامل ہونے والے معزز مہمانوں کا تعارف کروایا۔ مکرم سعیدالرحمٰن صاحب، امیر و مشنری انچارج سیرالیون، نے افتتاحی کلمات ادا کیےجن میں آپ نے 23؍مارچ کے دن کی جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اہمیت کو بیان کیا کہ آج کے دن 40 افراد نے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اسی طرح 1891ء میں منعقد ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ کا بھی ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لیے جلسہ منعقد کیا جس میں 75افراد نے شمولیت اختیار کی۔ جبکہ آج کے دن ہم دیکھتے ہیں کہ 212 سے زائدممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے اورہر سال ہم کئی ہزار لوگوں کو جلسہ سالانہ میں شامل دیکھتے ہیں اور اس سال جو کہ جوبلی کا سال ہے ہمارا اندازہ تھا کہ جلسہ سالانہ سیرالیون میں شاملین کی تعداد 50 ہزار کے قریب ہوگی۔ اسی طرح مکرم امیر صاحب نے رسول کریم ﷺ کی بیان فرمودہ پیشگوئیاں بابت آمد مسیح موعود و مہدی معہود اور اس کی ضرورت کا بھی ذکر کیا۔ اسی طرح آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ یہ کیسے پوری ہوئی۔ اسی طرح آپ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اس پیشگوئی کے تناظر میں حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام 1921ء میں سیرالیون کی سرزمین پر پہنچا جب حضرت مسیح موعودؑ کے ایک نامور صحابی حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب رضی ا للہ عنہ نے یہ پیغام پہنچایا۔ سیرالیون کی جماعت بہت خوش قسمت ہے کہ اس کی بنیاد حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی نے رکھی اور ان کے بعد جو دوسرے مبلغ یہاں آئے یعنی حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحب وہ بھی حضرت مسیح موعودؑ کے قریبی ساتھی تھے۔ ان کے بعد مولوی الحاجی نذیر احمد علی صاحب تشریف لائے جنہوں نے یہاں باقاعدہ جماعت کی بنیاد رکھی اور 1938ء میں پہلا اسلامی سکول بھی Rokupr میں قائم کیا۔ اس وقت لوگوں نے سکول بنانے کی بہت مخالفت بھی کی لیکن آپ کی کوششوں سے یہ سکول قائم ہوا اور یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء نے بہت ترقی بھی کی۔ چنانچہ سکول کا پہلا رول نمبر مسٹر ایس آئی کروما کا تھا جو بعد میں اس ملک کے پہلے نائب صدر بنے۔ مکرم امیر صاحب نے ایک ابتدائی احمدی پرنسپل مکرم عبدالسلام ظافر صاحب کی مثال دی جنہیں Jawiنامی جگہ پر سکول شروع کرنے کے لیے بھجوایا گیا۔ انہوں نے بڑی محنت اور مشکلات سے گزر کر، بہت محدود وسائل ہونے کے باوجود Jawi میں سکول قائم کیا۔ اسی طرح ہمارے بہت سارے ڈاکٹرز بھی یہاں خدمت کےلیے آئے۔Boajibu اس وقت سیرالیون اور لائبیریا میں بہت مشہور تھا کیونکہ یہاں پر لندن کے کنگز کالج سے پڑھ کر ڈاکٹر امتیاز احمد چودھری صاحب تشریف لائے تھے۔ اور انہوں نے لمبا عرصہ یہاں خدمت کی تھی۔
آج جب ہم سو سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں توہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے اسی طرح قربانیاں کر کے بہت سارے محنتی اور قابل بھروسہ لوگ پیدا کرنے ہیں۔ اور آج یہاں پر موجود ہر احمدی کو اس بات کا پختہ عہد کرنا چاہیے۔ آخر پر آپ نے شامل ہونے والے پیراماؤنٹ چیفس اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے بعد مکرم نذیر احمد علی کمانڈا بونگے صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جانب سے بھجوایا گیا پر شفقت پیغام پڑھ کر سنایا ۔ (حضورِ انور کے انگریزی پیغام کا اردو ترجمہ الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ 16؍مارچ 2021ء میں شائع کیا جاچکا ہے)
اس کے بعد مختلف مہمانوں نے اس موقع پر خوشنودی کے پیغامات دیے۔ سب سے پہلے مکرم الحاجی مرتضیٰ سیسے صاحب نے خوشنودی کا پیغام دیا۔ موصوف بطور چیئرمین حج کمیٹی سیرالیون خدمت بجا لا رہے ہیں اسی طرح انٹر ریلیجیس کونسل سیرالیون کے نائب صدر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’آج کا دن ہمارے ملک اور جماعت احمدیہ سیرالیون کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے آج کے دن ہم جماعت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ یہ سو سال دراصل ملکی ترقی میں اہم کردار، تعلیمی میدان میں اعلیٰ خدمت، طبی میدان میں خدمت اور روحانی اسلامی ترقی کے سو سال ہیں۔ اور یقیناً ان خدمات اور ترقیات کے پیچھے کئی لوگوں کی سخت محنت ہے اور ہم ان ترقیات پر اللہ تعالیٰ کے مشکور ہیں۔ میں آج کے دن جماعت احمدیہ کو سو سال مکمل کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس موقع پر ہمیں ابتدائی خدمت گذاروں اور موجودہ خدمت کرنے والوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ جیسا کہ1937ء میں مکرم الحاجی نذیر احمد علی صاحب مغربی افریقہ کے ایک مشکل سفر کے بعد باقاعدہ مشنری کے طور پر سیرالیون تشریف لائے اور پھر خدمت کرتے کرتے یہاں ہی وفات پائی۔
دوسرا پیغام جناب Hon. Kandeh Kolleh Yumkellaنے پیش کیا۔ موصوف سیرالیون کی ایک سیاسی پارٹی .N.G.C.کے چیئر مین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرے لیے بہت فخر کی بات ہے کہ مجھے آج جماعت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر اس پروگرام میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ جماعت احمدیہ سیرالیون ہر سال نہایت شاندار جلسہ جات کا انعقاد کرتی ہے۔ آج سے 30سال قبل سیرالیون کی تاریخ میں ایک نہایت ہولناک خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا اور ہماری دعا ہے کہ آئندہ کبھی بھی ایسا وقت نہ آئے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہمارے ملک اور قوم کے لیے دعائیں کرتی رہے گی۔ اور ہم سیاسی لیڈرز کے لیے بھی دعا کریں کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور ایسی غلطیاں نہ دوہرائیں جو کہ اس ہولناک جنگ کا باعث بنیں۔ میں جماعت احمدیہ کا تہ دل سے شکرگذار ہوں کہ انہوں نے ہمارے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے آپ ہی کی جماعت ہے جو ہمارے ملک میں اچھی اسلامی اور سائنسی تعلیم لائی کیونکہ جب کوئی بھی کسی ملک میں تعلیم کا انتظام کرتا ہے تو وہ اس ملک کے بچوں اور مستقبل کو سنوارتا ہے۔ اور میں اس بات کا برملا اظہار کرتا ہوں کہ ہمارے ملک نے جو بھی اچھی چیزیں سیکھی ہیں اور جو بھی ترقیات حاصل کی ہیں ان سب میں جماعت احمدیہ کا اہم کردار ہے۔ اور میں اس بات پر آپ کا تہ دل سے شکرگذار ہوں۔ اسی طرح میں ان لوگوں کا بھی شکر گذار ہوں جنہوں نے ہمارے ملک میں جماعت احمدیہ کے پیغام لانے کے لئے اپنے ملکوں کو چھوڑا اور ان کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کی خدمت تھا ۔
موصوف نے اپنے زمانہ طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک عیسائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں مقیم تھا لیکن ہر جمعہ کے روز میں سکول کی انتظامیہ سے اجازت لے کر کچھ مسلمان طلباء کو ساتھ لیتا اور جمعہ کی نماز احمدیہ مسجد میں اد اکرتا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ نزدیک تھی اور دوسری اور اہم وجہ یہ تھی کہ جمعہ کے بعد مسجد میں اسلامی موضوعات پر انگریزی اور کریول زبان میں لیکچرز ہوتے تھے اور ان لیکچرز کی مدد سے ہم اسلام کو مزید بہتر رنگ میں جانتے اور سمجھتے۔ اسی طرح میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے بہت فائدہ اٹھایا ہے نہ صرف اسلامی تعلیمات ان سے سیکھیں بلکہ کئی اہم موضوعات کے متعلق قرآنی آیات بھی اس لٹریچر کی مدد سےسیکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے‘‘۔
اس کے بعد Rev. Dr. Edward Tamba Charles نے پیغام دیا۔ موصوف سیرالیون کے ایک بڑے عیسائی لیڈر ہیں اور انٹر ریلیجیس کونسل کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں جماعت احمدیہ کا تہ دل سے شکر گذار ہوں کہ آج کی صد سالہ جوبلی کی تقریب میں مجھے خصوصی پیغام دینے کی دعوت دی گئی۔ جماعت احمدیہ نے اپنے ماٹو ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اپنی جماعت کے لوگوں کی روحانی اصلاح کے ساتھ ساتھ سارے ملک کے لوگوں کے لیے تعلیم، طب اور دیگر کئی اہم امور میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور یہ سب کام انہوں نے تمام لوگوں کے لیے بغیر کسی مذہب، رنگ و نسل کی تفریق کے کیے ہیں۔ اورمیں انٹرریلیجیس کونسل کی طرف سےجماعت احمدیہ کا ان خدمات پر بہت شکرگذار ہوں۔ اور جماعت احمدیہ انٹرریلیجیس کونسل کی بھی بہت فعال رکن ہے۔ اسی طرح میں بطور آرچ بشپ آف سیرالیون جماعت احمدیہ کو آج جوبلی پروگرام کے موقع پران کی تمام دینی، تعلیمی اور طبی خدمات پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آج ان کے ساتھ مل کر ان کے پہلے سو سال مکمل ہو نے پر اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہوں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنے فضل فرماتا چلا جائےاور آنے والے سالوں میں بھی ان کی اسی طرح راہنمائی کرنے والا ہو‘‘۔
Hon. Dr Kaifala Marahجو کہ مختلف اوقات میں کئی منسٹریز اور اہم حکومتی عہدوں پر خدمت کرچکے ہیں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’میں آج احمدیہ مسلم جماعت کے سو سال پورے ہونے پر بطور نمائندہ احمدیہ مسلم جماعت ایک مختصر پیغام دینا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ احمدیہ جماعت کا ماٹو ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ نفرت پھیلانے والے لوگوں کے دلوں میں سنہرے رنگ سے لکھ دیا جائے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ احمدیہ جماعت بہترین رنگ میں ان خوشیوں کو منانے والی ہو اور آپ کو مزید روشن مستقبل میسر آئے۔ جماعت احمدیہ اپنی اچھی خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہے مثلاً امن کا فروغ، سب لوگوں کے لیے طبی و تعلیمی سہولیات کا مہیا کرنا اور اس بات کو ایک سوسال مکمل ہو چکے ہیں۔ اور میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ان خدمات کو جاری رکھیں۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ آپ روز بروز ترقی کرتے جائیں اور آپ کا مستقبل ماضی سے بہتر ہوتا چلا جائے۔ آج کا پروگرام صرف جماعت احمدیہ کے سو سال مکمل ہونے کا نہیں ہے بلکہ ہم سب سیرالیون والوں کے لیے ایک سبق ہے کہ ہم نے جماعت احمدیہ کے ماٹو ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ سے کیا سیکھا۔ ہم سیرالیون کا 60واں یوم آزادی منانے والے ہیں۔ کیا ہم ایک دوسرے سے دلی محبت کرتے ہیں؟ ہمارا شمار دنیا کی ایسی اقوام میں ہوتا ہے جو مذہبی رواداری کی اعلیٰ مثال ہیں؟ ہمیں یہ رواداری اپنی سیاست اور عام زندگی میں بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
P.C. Sheikhu A.T. Fasuluki Sonsiama جو کہ سیرالیون کی نیشنل پیراماؤنٹ چیفس کونسل کے چیئر مین ہیں۔ نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’میں نے ذاتی طور پر تو احمدیہ سکول میں پڑھائی نہیں کی لیکن ہمیں پڑھانے والوں کے متعلق مَیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ انہوں نے احمدیہ سکولز سے سب کچھ سیکھا ہے۔ میں نے گذشتہ سال ہونے والے جلسہ سالانہ سیرالیون میں نائب صدر مملکت کی تقریر کو بغور سنا تھا اور جماعت احمدیہ کی ان خدمات کا ذکر بار بار ہوا جو آپ نے انسانی ترقی کے لیے کی ہیں۔ آج کی دنیا میں کسی کو عزت دینے کا معاملہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ اگر آپ مجھے عزت دیں گے تو میں بھی آپ کو عزت دوں گا۔ جماعت احمدیہ سیرالیون میں 1921ء میں آئی اور اس وقت ہمارے آبا و اجداد کی خدمت کی۔ اور اس کے بدلہ میں آج تک ہم جماعت احمدیہ کے شکر گزار ہیں۔ آپ کی جو خدمات تعلیم، طب، زراعت اور امن کے قیام کے لیے ہیں اس کا مقابلہ کوئی بھی فرد یا جماعت نہیں کر سکتی کیونکہ 100سال کا عرصہ بہت لمبا عرصہ ہے اس لیے کسی اور کے لیے ایسی خدمات بجا لانا ممکن نہیں ہوگا۔ میں اپنی اور اپنے تمام ساتھی پیراماؤنٹ چیفس کی طرف سے جماعت احمدیہ کو مکمل سپورٹ کی یقین دہانی کراتا ہوں اور میں جماعت احمدیہ کا بہت شکرگذار ہوں‘‘۔
H.E. Akbar Khosravinzehad جو کہ ایران کے ایمبیسیڈر ہیں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’جماعت احمدیہ کے پروگراموں میں شرکت کرکے مجھے دلی خوشی ملتی ہے۔ گذشتہ سال ساری دنیا کے لیے خصوصاً مشکل تھا اور اس کی وجہ Covid-19کی بیماری تھی جس کی وجہ سے ساری دنیا کی اکانومی کی بنیادیں ہل گئیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس بیماری کے جلد خاتمے سے اس دنیا میں دوبارہ امن و سکون آجائے گا۔ ان شاءاللہ۔ اسی طرح مَیں آج کا یہ پروگرام منعقد کرنے پر تمام جماعت احمدیہ کاشکر گزار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ جلد اپنے مطمح نظر کو حاصل کر لیں۔ آمین
غانا کے ایمبیسیڈر خود اس پروگرام میں شامل نہیں ہوسکے۔ ان کے نمائندہ نے ان کی طرف سے پیغام دیا کہ ’’میں غانا کے لوگوں اور سیرالیون میں رہائش پذیر غانا کے افراد کی جانب سے احمدیہ جماعت کو ان سو سالوں پر محیط خدمات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں‘‘۔
Hon. Haja Isata Abdulai Kamaraجو کہ سیرالیون کےشمال مغربی صوبہ کیResidentMinister ہیں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’میں خوش ہوں کہ آج کے دن اس پروگرام میں آپ کے ساتھ شریک ہوں۔ آج کا پروگرام اعتماد کو قائم کرنے اور ترقی کی طرف قدم بڑھانے کے سفر کی خوشیاں منانے کا پروگرام ہے۔ میں اپنی اور اپنے صوبہ کے لوگوں کی طرف سےجماعت احمدیہ کو ان کی اعلیٰ خدمات پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ آپ لوگوں نے سیرالیون کے انتہائی دور دراز مقامات پر جا کر لوگوں کی خدمت کی ہے۔ آپ نےلڑکیوں کے سکولوں میں ایک ایسی اعلیٰ روایت قائم کی ہے جو کہ عورت کی عزت کو بڑھاتی ہے اور وہ آپ کا مکمل یونیفارم ہے، یعنی لمبی شرٹ اور مکمل ٹراؤزر۔ اگر آپ کی طرف سے بروقت مدد نہ کی جاتی تو ہماری کمیونٹیز تعلیم اور تربیت کے میدان میں بہت پیچھے رہ جاتیں۔ سیرالیون میں بہت سارے اہم افراد ہیں جو کہ آپ کے سکولز سے پڑھے ہوئے ہیں اور اس وقت ملک کی خدمت کر رہے ہیں جیسا کہ موجودہ نائب صدر مملکت اور بہت بڑی تعداد میں پیراماؤنٹ چیفس‘‘۔
Hon. Abu Abu Koroma جو کہ Resident Minister North ہیں نے کہا کہ ’’میں جس علاقہ کی نمائندگی کے لیے یہاں موجود ہوں وہاں 80فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ لیکن آج کے پروگرام کی خوشی میں صرف وہی مسلمان شامل نہیں بلکہ باقی لوگ بھی شامل ہیں اور جماعت احمدیہ کی خدمات پر ان کے شکرگزار ہیں۔ اور میں تمام مسلمان لیڈرز کو آج اس موقع پر اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو پکڑ لیں اور کسی کو بھی یہ نہ کہیں کہ تم مسلمان نہیں‘‘۔
Hon. Baindu Dassama جو کہ Social Welfareکی منسٹر ہیں، نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’بہت شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے ایسی جماعت کے لوگوں کو پیغام دینے کا موقع دیا جس کے ساتھ مل کر میں بہت سارے اچھے کام کرتی ہوں۔ اور آج اس موقع پر آپ لوگوں کی خدمت اور محنت پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ جو محنت اور لگن آپ لوگ اپنے کاموں میں کرتے ہیں اس کا نتیجہ ہمارے سارے ملک میں نظر آتا ہے۔ آپ کی سو سالہ خدمت جس میں سکولز اور مساجد کی تعمیر، مشنریز کی تربیت اور طب کے میدان میں خدمت نے ہماری سوسائٹی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ کی ترقیات بہت عظیم ہیں آپ نے امن کے قیام اور انسانیت کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ لوگ ایک نئے جذبہ کے ساتھ اس ملک کی خدمت کو جاری رکھیں گے۔ میں آپ کی تہ دل سےشکرگزار ہوں، خصوصاً آپ کے یہاں امن و بھائی چارہ کے ساتھ رہنے پر، اور ہماری سوسائٹی میں بہت سارے اہم لوگ مہیا کرنے پر۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے عظیم الشان مقاصد جلد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘
Hon. Anthony Y. Brewahمنسٹر آف جسٹس اور اٹارنی جنرل سیرالیون نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’میں جماعت احمدیہ کا تہ دل سے شکرگذار ہوں کہ آپ نے مجھےاس پروگرام میں مدعو کیا اور پیغام دینے کا موقع بھی دیا۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ جماعت احمدیہ نے بہت ساری بنیادی سہولیات لوگوں کو مہیا کی ہیں جیسا کہ طب، امن کا قیام، سولر انرجی کی ترسیل اور سب سے اہم تعلیمی سہولیات۔ آج کے دن بہت سارے غیر احمدی بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ کے سکولز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ میرا یہ گہرا مشاہدہ ہے کہ احمدی احباب ساری دنیا میں اپنی مخالفت اور مظالم کے باوجود امن پسند اور قوانین کا احترام کرنے والے ہیں اور سب کے سب اپنےخلیفہ کی بھرپور اطاعت کرنے والے ہیں۔ اور میں اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ یہ احمدی کمیونٹی سوسائٹی کی ترقی کے لیے اچھے کام مسلسل جاری رکھے گی۔ اور میں آپ کو آپ کی سو سال پر محیط مخلصانہ خدمات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی، سیرالیون اور ساری دنیا میں کی جانے والی خدمات کو قبول فرمائے اور ان میں برکت ڈالے‘‘۔
Hon. Victor Bockarie Fohجو کہ سابق صدر مملکت ہیں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ مجھے فری ٹاؤن کے سب سے پہلے احمدیہ سیکنڈری سکول میں بطور استاد پڑھانے کا موقع ملا اور اس وقت سٹاف کے اکثر ممبر نہایت نیک اور مہربان پاکستانی دوست تھے۔ اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ میرا آج کا پیغام میرے اکیلے کی طرف سے نہیں ہے بلکہ سارے سیرالیون کی طرف سے ہے۔ احمدی لوگ بہت اچھے اور خوبصورت اخلاق کے مالک ہیں۔ اور ان کا ماٹو ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ بہت ہی عاجزی والا ہے۔ جماعت احمدیہ کی ایک بہت بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ انہوں نے سب کو اکھٹا کر دیا ہے جیسا کہ موجودہ گورنمنٹ اور سابقہ گورنمنٹ کے لوگ، سارے علاقوں کے پیراماؤنٹ چیفس اکٹھے ہیں، مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ اکٹھے ہیں اسی طرح انٹرریلیجیس کونسل کے ممبران بھی یہاں جمع ہیں اور جب ہم سب جمع ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے بہت ساری اچھی باتیں سیکھتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہم سب کو اکٹھا رکھتے ہیں اور یہ خصوصیت صرف جماعت احمدیہ میں ہے۔ اور میری یہ درخواست ہے کہ براہ مہربانی اس سلسلہ کو جاری رکھیں۔ جماعت احمدیہ نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ ہمیشہ عاجز اور امن پسند بن کر رہیں۔ جماعت احمدیہ نے صحت کے میدان میں بہت خدمت کی ہے۔ Ebola کےدوران جماعت احمدیہ کی بہت خدمات ہیں اسی طرح Covid-19 کے دوران بھی جماعت احمدیہ نے لوگوں کی بہت مدد کی ہے۔ جو اخلاقی تعلیم آپ نے ہمیں دی ہے وہ ہمیں ناسمجھی سے ہٹا کر اچھی راہ پر چلانے والی ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی طرح سیاست میں شامل ہوتا ہے اور یہ بات جماعت احمدیہ نے ہمیں صحیح معنوں میں سمجھائی ہے کہ تمام طاقتوں کا منبع خدا تعالیٰ ہی ہے اور تمام طاقت خدا کی طرف سے ہی آتی ہے۔ اور سیاسی طاقت بھی کھیل کی طرح ہے ہر کوئی اپنی باری پر کھیلتا ہے اور اس کے بعد دوسرے کی باری آتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جو کھیل چکا ہے وہ آنے والوں کے ساتھ سچائی اور مخلصی سے پیش آئے۔ میں انٹر ریلیجیس کونسل سے بھی استدعا کروں گا کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ مل کر امن کے قیام میں کوششیں کرتے رہیں۔ میں جماعت احمدیہ کا بھی شکرگزار ہوں کہ وہ عورتوں کو ہر میدان میں آگے لانے میں بھی اہم کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح میں شکرگزار ہوں کہ جماعت احمدیہ بچوں کو بھی آگے لانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ ایک خوبصورت پروگرام ہے جس میں مسجد والے بھی موجود ہیں اور چرچ والے بھی۔ جماعت احمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تفریق نہیں کرتے۔ کوئی بھی آتا ہے تو آپ نہیں پوچھتے کہ تم کیا کرنے آئے ہو۔ میں گذشتہ 50 سال سے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہوں اور میری دعا ہے کہ آئندہ بھی ایسے ہی آپ لوگوں کے ساتھ رہوں۔
سب سے آخر میںHon. Dr. Mohamed Juldeh Jalloh نائب صدر مملکت سیرالیون نے ایک مختصر تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ ’’میںسابقہ نائب صدر، وزراء، مذہبی راہ نماؤں ، پیراماؤنٹ چیفس اور معزز مہمانوں کو صدر مملکت عزت مآب بریگیڈئر ریٹائرڈ مادا بیئو (Rtd. Brig. Julius Mada Bio) کی جانب سے اور اپنی طرف سے السلام علیکم کہتا ہوں۔ اس کے بعد جناب نائب صدر ممکت نے احمدیت زندہ باد کے نعرے لگائے اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
آپ نے کہا کہ آج کا دن احمدیہ جماعت سیرالیون کے لیے اور دنیا بھر کے احمدیوں کے لیے ایک بہت بڑا دن ہے۔ اور یہ ہمارے ملک سیرالیون کے لیے بھی ایک بہت بڑا دن ہے کیونکہ آج ہم نہ صرف جماعت احمدیہ کے سیرالیون میں سو سال مکمل ہونے کی خوشی منا رہے ہیں بلکہ ہم اس ملک میں جماعت احمدیہ کی خدمت اور وقف کے سو سال منا رہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ایک مقرر نے کہا کہ یہ انسانی بہبود کی ترقی کے سو سال ہیں۔ جماعت احمدیہ کے مبلغ جو 1921ء میں سیرالیون آئے وہ اپنے ساتھ تعلیم اور مذہب کو لے کر آئے اور آج احمدیہ جماعت کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے سیرالیون کے لاکھوں لوگوں کو تعلیم فراہم کی ہے اور آج یہاں جماعت کے 300 سے زائد سکول ہیں اور جماعت نے یہاں ملک بھر میں 1400 مساجد تعمیر کی ہیں۔ اور ایک سیاست دان کے طور پر مجھے اس بات کا علم ہے کہ ایک مسجد کا تعمیر کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ اور کسی جماعت کے لیے چودہ سو مساجد تعمیر کرنا ایک آسان بات نہیں ہے۔ جماعت نے ملک بھر میں کلینک بنائے ہیں جن کے ذریعے وہ ملک کے لوگوں کی صحت اور بہبود کا کام کررہی ہے۔ احمدیہ جماعت نے زراعت کے میدان میں بھی بہت خدمت کی ہے اور اسی وجہ سے جب میں گذشتہ سال جلسہ سالانہ سیرالیون BO میں شامل ہوا تھا، میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ احمدیہ جماعت انسانی بہبود کی ترقی کی سفیر ہے۔ اور اسی وجہ سے صدرِ مملکت عزت مآب بریگیڈئر ریٹائرڈ مادا بیئو احمدیہ جماعت کو پسند کرتے ہیں۔ اور انسانی ترقی ہماری حکومت کا مطمحِ نظر ہے۔ اور جیسا کہ میں نے BO میں جلسہ سالانہ میں کہا تھا کہ احمدیہ جماعت انسانی ترقی کی سفیر ہے، احمدیہ جماعت ہماری حکومت کی تعلیم کے میدان میں بھی خدمت کررہی ہے۔ جس طرح ہم لوگوں کو طبی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں احمدیہ جماعت بھی کررہی ہے۔ زراعت کے میدان میں بھی جماعت نے بہت نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ اور ان میدانوں میں خدمت پر مَیں جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہی وہ تمام وجوہات ہیں جن کی وجہ سے صدرِ مملکت جماعت احمدیہ کو پسند کرتے ہیں اور آپ سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔
ایک اور کام جو جماعت نے کیا ہے وہ امن کا قیام ہے۔ اور یہ ایک مزید وجہ ہے جس کی وجہ سے صدرِ مملکت جماعت کی بہت قدر کرتے ہیں۔ آج صدرِ مملکت کی طرف سے میں جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ہم یہاں آج آپ کے ساتھ خوشی منا رہے ہیں اور آج ہم یہاں اس ملک کے لوگوں کی بےلوث خدمت کے سو سال پورے ہونے کی خوشی منارہے ہیں۔ آپ کی کامیابیاں بے شمار ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے ہیں اور ان کی خوشی منا رہے ہیں۔ ہم ان ابتدائی مبلغین کی کامیابیوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کی خدمات کے معترف ہیں۔
میں اس موقع پر احمدیہ جماعت کے عالمگیر راہنما حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کو صدرِ مملکت کی طرف سے مبارکباد کا پیغام دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ سیرالیون کے لوگ جماعت کی خدمات کے معترف ہیں اور اس ملک میں ان کی خدمات پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس موقع پر میں صدرِ مملکت کی طرف سے آپ کو سو سالہ جشن تشکر پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آپ کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ آپ کے کاموں میں اور ان کو جاری رکھنے کے لیے صدرِ مملکت کا تعاون آپ کے ساتھ ہے۔ آپ انسانی بہبود کے سفیر ہیں اور اس ملک کے لوگوں کی خدمت کررہے ہیں۔ اوراب میں صدر مملکت کی طرف سے سوسالہ تقریبات کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آپ کے کاموں میں آپ کی راہنمائی کرے اور آپ پر فضل فرمائے کیونکہ ایک سیرالیون کےشہری کے طور پر میں یقین رکھتا ہوں کے باہم مل کرہم اس ملک کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں اس وقت ملک کےسابق صدر، وزراء، پیراماؤنٹ چیفس، بزرگ، مائیں اور جوان موجود ہیں اور باہم مل کر ہم بہت سی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں اور اس ملک کو ترقی دے سکتے اور آگے بڑھا سکتے ہیں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘
نائب صدر مملکت کی تقریر کے بعد مکرم امیر صاحب نے دعا کروائی اور اس طرح یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔ روانگی سے قبل تمام مہمانوں کی خدمت میں کھانا بھی پیش کیا گیا۔
سیرالیون کے سب سے زیادہ دیکھے اور پسند کیے جانے والے TV چینل AYV نے اس پروگرام کی کارروائی کو اپنے ملکی چینلز، انٹرنیشنل چینل، Youtube Channel Mobile App اور Facebookپر براہ راست نشر کیا۔
احمدیہ مسلم ریڈیو سیرالیون نے اس پروگرام کی تمام کارروائی کو Live Streamکیا نیز آڈیو ویڈیو سیکشن سیرالیون نے اپنےYouTube چینل پر بھی اس پروگرام کی کارروائی کو براہ راست نشر کیا۔
بڑی تعداد میں ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات کے نمائندگان نے اس پروگرام میں شرکت کی اورمکرم امیرصاحب کے انٹرویوز بھی کیے۔
دعا کی عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مساعی میں برکت ڈالے اور ہمیں مقبول خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
(رپورٹ: آصف محمود، عبدالہادی قریشی)