کارٹونوں کے فتنہ کے خلاف جماعت احمدیہ کا رد عمل اور کوشش
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جب سے یہ کارٹون کا فتنہ اٹھا ہے سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے یہ بات اٹھائی تھی اور اس اخبار کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ پھر دسمبر، جنوری میں ہم نے دوبارہ ان اخباروں کو لکھا تھا اور بڑا کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا ان دنوں میں مَیں قادیان میں تھا جب ہمارے مبلغ نے وہاں اخبار کو لکھا تھا۔ ہمارے مبلغ کا اخبار میں انٹرویو شائع ہوا تھا۔ تو اس اخبارنے یہ لکھنے کے بعد کہ جماعت احمدیہ کا ردّ عمل اس بارے میں کیا ہے اور یہ لوگ توڑ پھوڑ کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنی زندگی میں ڈھال کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آگے وہ لکھتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں (امام صاحب کا انٹرویو تھاناں) کہ امام کو ان کارٹونوں سے تکلیف نہیں پہنچی بلکہ ان کا دل کارٹونوں کے زخم سے چُور ہے۔ بلکہ اس تکلیف نے انہیں اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ فوری طورپر ان کارٹونوں کے بارے میں ایک مضمون لکھیں چنانچہ انہوں نے وہ مضمون لکھا اور وہاں ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہوا۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشق ہی ہے جس نے جماعت میں بھی ا س محبت کی اس قدر آگ لگا دی ہے کہ یورپ میں عیسائیت سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں آنے والے یورپین باشندے بھی اس عشق و محبت سے سرشارہیں۔
چنانچہ ڈنمارک کے ہمارے ایک احمدی مسلمان عبدالسلام میڈسن صاحب کا انٹرویو بھی اخبارVenster Bladet نے 16؍فروری 2006ء کو شائع کیا ہے۔ ایک لمبا انٹرویو ہے۔ اس کا کچھ حصہ میں آپ کو سناتا ہوں۔
ترجمہ اس کا یہ ہے کہ میڈسن صاحب نے مزید کہا کہ ڈنمارک کے وزیراعظم کو مسلمان ممالک کے سفیروں سے بات کرنی چاہئے تھی کیونکہ لوگ ان خاکوں کو دیکھ کر غصہ میں آتے ہیں۔ اگر وزیراعظم نے مسلمان ممالک کے سفیروں سے بات کی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ مسئلہ کس قدر اہم تھا اور اس کے کیا نتائج پیدا ہو سکتے تھے۔ اور یہ جو ردّ عمل سامنے آیا ہے یہ بالکل وہی ہے جو میں ان خاکوں کی اشاعت پر محسوس کر رہا تھا کہ ردّ عمل ہو گا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کے لئے زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں مثال ہیں۔ جب ایسی ذات پر توہین آمیز حملہ کیا جائے تو یہ ہر ایک مسلمان کے لئے تکلیف دہ امر ہے۔ اور وہ اس پر دکھ محسوس کرتا ہے۔
عبدالسلام میڈسن صاحب یہ کہتے ہیں کہ یولنڈ پوسٹن جوو ہاں کا اخبار تھا اس کو ان خاکوں کی اشاعت سے کیا حاصل ہوا ہے۔ پھر آگے وہ لکھتا ہے کہ میڈسن صاحب کو بھی اس امر کی بہت تکلیف ہوئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے شائع کئے گئے ہیں۔ پھر کہتا ہے کہ میڈسن صاحب نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ کے بارے میں بڑی تفصیل سے ملتا ہے کہ ان کا حلیہ مبارک کیا تھا، کیسا تھا۔ پھر انہوں نے لکھا کہ یہ ایک گندی بچگانہ حرکت ہے۔
پھر انہوں نے لکھا ہے کہ ڈنمارک میں قانون توہین موجود ہے، پہلے میرے خیال میں اس کی ضرورت نہ تھی مگر اب میرے خیال میں فساد کو روکنے کے لئے اس قانون کو اپلائی (Apply) کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فساد نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین تو خداتعالیٰ کا معاملہ ہے وہ خود ہی اس کی سزا دے گا۔ تو یہ دیکھیں ایک یورپین احمدی مسلمان کا کتنا پکا ایمان ہے۔
توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس گھنائونی حرکت کرنے پر یہ ہمارے ردّعمل تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضورﷺ سے عشق
ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے لاکھوں کروڑوں حصے زیادہ ہے جو ہم پر اس قسم کے اتہام اور الزام لگاتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوبصورت تعلیم کی وجہ سے ہے جس کی تصویرکشی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہے۔ جس کو خوبصورت کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہمیں دکھایا ہے۔ کوئی بھی احمدی کبھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں یہ حال تھاکہ حسّان بن ثابتؓ کا یہ شعر پڑھ کر آپؑ کی آنکھیں آنسو بہایا کرتی تھیں۔ وہ شعر یہ ہے کہ ؎
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
تُوتو میری آنکھ کی پتلی تھا جو تیرے وفات پا جانے کے بعد اندھی ہو گئی۔ اب تیرے بعد جو چاہے مرے، مجھے تو صرف تیری موت کا خوف تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے کہ کاش یہ شعر مَیں نے کہا ہوتا۔ تو ایسے شخص کے متعلق کہنا کہ نعوذ باللہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتا ہے یا اس کے ماننے والے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مقام دیتے ہیں۔ بہت گھنائونا الزام ہے۔ ہمیں توقدم قدم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہونے کے نظارے آپؑ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں۔ ؎
اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
تو جو اپنا سب کچھ اس نور پر فدا کر رہاہو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اب نہیں رہا اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مقام زیادہ اونچا ہو گیا ہے اور احمدیوں کے نزدیک حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام آخری نبی ہیں اور پھر یہ کہ ہم نے ان کو یہ کہہ دیا کہ ٹھیک ہے یہ ہمارا عقیدہ ہے آپ آخری نبی ہیں اب ہم اخبار کوکھلی چھٹی دیتے ہیں کہ نعوذ باللہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنائو۔
اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اور
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
انتہائی بچگانہ بات ہے کہ ہمارے کہنے پر، صرف اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ ہم اجازت دیں اور وہ کارٹون شائع کر دیں جن کی ڈنمارک میں تعداد ہی چند سو ہے۔ خبرلگاتے ہوئے یہ اُردو اخبار کچھ آگے پیچھے بھی غور کر لیاکرے۔
(باقی آئندہ)