آنحضرتﷺ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرماوے گا۔ کیونکہ یہ خداکا ہی کام ہے۔ اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں
خلیفہ جانشینِ رسول کو کہتے ہیں
’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کیلئے تاقیامت قائم رکھے۔ سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔ پس جو شخص خلافت کو صرف تیس برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہرگز نہیں تھا کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے۔ پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہوجائے کچھ پرواہ نہیں…۔
پھر اس پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک مثال کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ میں اسی طور پر اس امت میں خلیفےپیدا کرتا رہوں گا جیسے موسیٰ کے بعد خلیفےپیدا کئے تو دیکھنا چاہیئے تھا کہ موسیٰ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا۔ کیا اس نے صرف تیس30 برس تک خلیفےبھیجے یا چودہ سو برس تک اس سلسلہ کو لمبا کیا۔ پھر جس حالت میں خدا تعالیٰ کا فضل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہیں زیادہ تھا چنانچہ اس نے خود فرمایا
وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا (النساء:114)
اور ایسا ہی اس امت کی نسبت فرمایا
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ (آل عمران :111)
تو پھر کیونکر ہوسکتا تھا کہ حضرت موسیٰ کے خلیفوں کا چودہ سو 1400برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تیس برس تک خلافت کا خاتمہ ہوجاوے اور نیز جب کہ یہ امّت خلافت کے انوار روحانی سے ہمیشہ کے لئے خالی ہے تو پھر آیت اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ کے کیا معنی ہیں کوئی بیان تو کرے۔‘‘
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد نمبر6 صفحہ353تا355)
اللہ تعالیٰ خلیفہ کومقرر کرتا ہے
’’صوفیا نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اُس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے۔ جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے۔ اور وہ ایک بہت ہی خطر ناک وقت ہوتا ہے۔ مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اُس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اُس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے۔ آنحضرت ؐنے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپؐ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرماوے گا۔ کیونکہ یہ خداکا ہی کام ہے۔ اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓکو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اول حق اُنہی کے دل میں ڈالا۔‘‘
(الحکم14؍اپریل1908ء)
امت میں خلافت کی دائمی بشارت
’’اب یاد رہے کہ اگرچہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارہ میں بہت سی بھری پڑی ہیں لیکن بالفعل اس قدر لکھنا ان لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمیٰ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جاوے۔ کیا وہ کتاب جو ہمیشہ کی سعادتوں کا دروازہ کھولتی ہے وہ ایسی پست ہمتی کا سبق دیتی ہے کہ کوئی برکت اورخلافت آگے نہیں بلکہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔ نبی تو اس امت میں آنے کو رہے۔ اب اگر خلفائے نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے اور پھر ایسے مذہب کو موسوی مذہب کی روحانی شوکت اور جلال سے نسبت ہی کیا ہے جس میں ہزارہا روحانی خلیفےچودہ سو1400برس تک پیدا ہوتے رہے اور افسوس ہے کہ ہمارے معترض ذرہ نہیں سوچتے کہ اس صورت میں اسلام اپنی روحانیت کے لحاظ سے بہت ہی ادنٰے ٹھہرتا ہے اور نبی متبوع صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کچھ بہت بڑا نبی ثابت نہیں ہوتا اور قرآن بھی کوئی ایسی کتاب ثابت نہیں ہوتی جو اپنی نورانیت میں قوی الاثر ہو۔ پھر یہ کہنا کہ یہ امت خیر الامم ہے اور دوسری امتوں کے لئے ہمیشہ روحانی فائدہ پہنچانے والی ہے اور یہ قرآن سب الٰہی کتابوں کی نسبت اپنے کمالات اور تاثیر وغیرہ میں اکمل واتم ہے اور یہ رسول تمام رسولوں سے اپنی قوت قدسیہ اور تکمیل خلق میں اکمل واتم ہے کیسا بے ہودہ اور بے معنی اور بے ثبوت دعویٰ ٹھہرے گا اور پھر یہ ایک بڑا فساد لازم آئے گا کہ قرآن کی تعلیمات کا وہ حصہ جو انسان کو روحانی انوار اور کمالات میں مشابہ انبیاء بنانا چاہتا ہے ہمیشہ کے لئے منسوخ خیال کیا جائے گا کیونکہ جب کہ امت میں یہ استعداد ہی نہیں پائی جاتی کہ خلافت کے کمالات باطنی اپنے اندر پیدا کر لیں تو ایسی تعلیم جو مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے تاکید کررہی ہے محض لاحاصل ہوگی۔ درحقیقت فقط ایسے سوال سے ہی کہ کیا اسلام اب ہمیشہ کے لئے ایک مذہب مردہ ہے جس میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جن کی کرامات معجزات کے قائم مقام اور جن کے الہامات وحی کے قائم مقام ہوں بدن کانپ اٹھتا ہے چہ جائیکہ کسی مسلمان کا نعوذ باللہ ایسا عقیدہ بھی ہو خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت کرے جو ان ملحدانہ خیالات میں اسیر ہیں۔
… قرآن شریف کی رو سے یہی ثابت ہوا کہ اس امت مرحومہ میں سلسلہ خلافت دائمی کا اسی طور پر اور اسی کی مانند قائم کیا گیا ہے جو حضرت موسیٰ کی شریعت میں قائم کیا گیا تھا۔‘‘
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ355تا356)