یادِ رفتگاں

احمدیت کے ایک بطل جلیل محترم چودھری حمیداللہ صاحب مرحوم (قسط دوم۔ آخری)

(‘ابو صبیر‘)

دفتریت میں نہ پڑنا

محترم چودھری صاحب کی ذات باصفات کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ کا کام پر زور ہوتا تھا، دفتریت میں بالکل نہیں پڑتے تھے۔ اگر کوئی چٹھی لکھوائی ہے تو کہتے کہ فوری خود ہی جا کر دے آؤ یا بعض اوقات کوئی فوری نوعیت کا کام ہوتا توفون پر رابطہ کرنے کا کہتے اور کام کرواتے، دفتریت میں نہیں پڑتے تھے کہ چٹھی لکھ دی ہے تو اب ایک دو دن میں کام ہو جائے گا۔ جہاں قواعد کی پوری پابندی کرتے تھے وہاں اس امر کا بھی دھیان رکھتے کہ قواعد اور دفتریت میں پڑ کر کام نہ رہ جائے۔

بےنفسی کا یہ عالم تھا کہ کبھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ میں وکیل اعلیٰ ہوں تو لوگ میرے پاس چل کر آئیں میں کسی کے پاس نہ جاؤں۔ چنانچہ اگر کسی دفتر میں کوئی کام ہوتا تو بعض اوقات خود اس دفتر کے افسر صیغہ کے پاس پہنچ جاتے۔ متعدد مثالیں ہیں۔ مثلاًایک شعبہ کے افسر صیغہ سے کچھ حوالہ جات تلاش کرنے کا کہا ہوا تھا۔ ایک دن سائٹ وزٹ کرنے گئے تو وزٹ کے بعد کہنے لگے چلو ان کے دفتر چلیں۔ ان کے دفتر پہنچے تو وہ افسر حیران ہوئے کہ محترم چودھری صاحب کیسے تشریف لے آئے۔ فرمانے لگے کہ میں نے سوچا تمہارے دفتر کے پاس سے گزر رہا ہوں تو یاددہانی کرواتا جاؤں کہیں تم بھول نہ گئے ہو۔

اسی طرح ایک دن وزٹ ختم ہوا تو کہنے لگے کہ فلاں مربی صاحب کا گھر راستے میں پڑتا ہے ان کی طرف رکتے جاتے ہیں اورپوچھتے ہیں کہ تحقیقی مضمون کہاں تک پہنچا ہے (مربی صاحب کو ایک عنوان پرتحقیقی مضمون لکھنے کے لیے کہا ہوا تھا)۔ چنانچہ ان مربی صاحب کے گھر چل دیے۔ گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے پروہ باہر آئے تو دیکھ کر پریشان کہ محترم چودھری صاحب خیریت سے آئے ہوں۔ مربی صاحب کہنے لگے کہ آپ مجھے حکم کرتے میں دفتر حاضر ہو جاتا آپ نے کیوں تکلیف کی۔ محترم چودھری صاحب نے جواب دیا کہ پریشان مت ہو، نکلا ہوا تھا تو سوچا تم سے مضمون کے بارے میں پوچھتا چلوں۔

ایسا کئی بار ہوا کہ کوئی کام ہوتا تو خود متعلقہ شخص کے پاس پہنچ جاتے۔

چھوٹی چھوٹی باتیں نظرانداز کرنے کی نصیحت

دسمبر 2015ء میں جلسہ سالانہ قادیان سے واپسی پر محترم چودھری صاحب سے دفتر میں ملاقات ہوئی تو پوچھنے لگے کہ تمہارا tourکیسا رہا۔ خاکسار نے عرض کی کہ ہر سال کی طرح جلسہ کے انتظامات گذشتہ سال سے بہتر اور اچھے تھے۔ لیکن ایک دو جگہ پر موجود ڈیوٹی دینے والے خدام نے بظاہر ذرا روکھے انداز میں بات کی (جو الفاظ انہوں نے استعمال کیے تھے وہ بھی محترم چودھری صاحب سے عرض کر دیے)۔ خاکسار کی بات سن کر مسکرا دیے اور کہنے لگے کہ یہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم جب یہاں سے جاتے ہیں تو اپنے کلچر، ماحول اور ربوہ کے مطابق توقعات رکھتے ہیں اور اپنے طرز تکلم اور معاشرت کے عادی ہوتے ہیں۔ جہاں جماعت انٹرنیشنل حیثیت اختیار کر گئی ہے وہاں صرف ہندوستان ہی اتنا بڑا ہے کہ اس کے طول و عرض میں کئی قومیت کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ ہر علاقےکی اپنی روایات اور بول چال کا اپنا انداز ہے یہی وجہ ہے کہ کئی زبانیں ہندوستان میں بولی جاتی ہیں۔ اور جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لیے اندرون ہندوستان سے ہی لوگ ہزاروں میل طے کر کے قادیان آتے ہیں۔ خاکسار نے جن الفاظ کا ذکرکیا تھا ان کے حوالے سے فرمانے لگے کہ یہ ان کے علاقے میں عام بولے جاتے ہیں بلکہ اگر کسی بڑی عمر والے کو بھی مخاطب کرنا ہو تو یہی الفاظ استعمال کر لیتے ہیں۔ کہنے لگے کہ جلسہ سالانہ یوکے پر بھی مختلف ممالک کے لوگ نظر آتے ہیں اور حتی الوسع ہر کسی کی اس کے کلچر کو مدنظر رکھتے ہوئے ضیافت کی جاتی ہے۔ مگر قادیان کیونکہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اس لیے یہاں جلسے پر وہ سب سہولیات میسر نہیں ہوتیں، اس لیے یہ فرق پڑتا ہے۔ چنانچہ نصیحت کرنے لگے کہ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے اور ہر وقت بحیثیت جماعت سوچنا چاہیے اور جہاں بھی جاؤ وہاں ان لوگوں کے حساب اور ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے چلو۔

مشورہ لینے کی عادت

محترم چودھری صاحب کی ایک بہت بڑی خوبی قرآنی تعلیم کے مطابق مشورہ لینا تھی۔ آپ ہر معاملے میں متعلقہ شعبہ اور اس معاملے سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد سے مشورہ لیتے تھے۔ مشورہ لیتے ہوئے کبھی بھی یہ چیز ظاہر نہ ہونے دیتے کہ ان کی اپنی ابتدائی رائے کیا ہے تاکہ جن سے مشورہ لیا جارہا ہے وہ بغیر کسی جھکاؤ کے مشورہ دے سکیں۔ نیز جس سے مشورہ کررہے ہوتے اس کی بات اس قدر انہماک سے سنتے کہ گویا یہ سب سے بہترین رائے ہے۔ مشاورت کے اصول پر اس قدر کاربند تھے کہ مستقل کمیٹیوں کے علاوہ کچھ حالات اور ضرورت کے مطابق وقتی کمیٹیاں بھی قائم فرمادیتے تھے مثلاً تعمیرکمیٹی اور قواعدکمیٹی وغیرہ جیسی کمیٹیز بھی بنائی ہوئی تھیں جن میں وکلاء اور دیگر افسران صیغہ جات شامل ہوتے۔ اور ہر کمیٹی کا یہ بھی حسن ہوتا کہ اس میں مختلف مزاج رکھنے والے ممبران شامل کرتے جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ ایک معاملے پر ہر جہت اور نظر سے متنوع آراء سامنے آجاتیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی معاملہ بغرض رائے یا جائزہ موصول ہوتا تو اس پر نہ صرف وکلاء بلکہ اگر ضرورت محسوس ہو تو دیگر ادارہ جات کے صائب الرائے افراد بلکہ ربوہ سے باہر بھی اگر اس معاملے کے شعبہ سے متعلقہ کوئی صاحب ہوتے تو ان کو بھی مشورہ اور کمیٹی میں شامل کر لیتے۔ اسی طرح اگر پتہ ہوتا کہ فلاں شخص اس معاملہ کے حوالے سے اہم مشورہ دے سکتا ہے لیکن بیرون ربوہ ہونے کی وجہ سے یا اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے ربوہ نہیں آسکتا تواس سے رائے حاصل کرنے کے لیے اپنے کسی نمائندے کو اس کے پاس بھجوا دیتے۔ ایسے ہی ایک معاملے میں ایک صاحب کی رائے درکار تھی لیکن وہ اپنی مصروفیات کے باعث ربوہ نہیں آسکتے تھے چنانچہ ان سے ملاقات کرنے اور ان کی رائے لینے کے لیےمحترم چودھری صاحب نے خاکسار کو تحریک جدید کے ایک وکیل صاحب کے ساتھ لاہور بھجوایا۔ اسی طرح آپ تمام آرا ءسننے کے بعد ہی حتمی فیصلہ کرتے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کمیٹی کی رائے ایک طرف ہوتی اور آپ کی رائے کمیٹی کی رائے سے مختلف ہوتی، لیکن اس پر کبھی بھی یہ کوشش نہیں کی کہ میں وکیل اعلیٰ ہوں تو میری رائے کسی پر مقدم ہے۔ اس کے بعد دعا کرتے اور دعا کرنے کے بعد جب شرح صدر ہوجاتا تب معاملےکو حتمی شکل دے کر حضور انور کی خدمت میں ارسال کرتے۔

مبلغین سلسلہ اور واقفین زندگی کی تربیت

محترم چودھری صاحب کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ نئے مبلغین یا واقفین زندگی کی علمی اور عملی تربیت کی بہت فکر رہتی تھی۔ دفتر میں باقاعدہ ایک نصاب تیار کر کے رکھا ہوا تھا۔ جب بھی حضور انور کے ارشاد کی روشنی میں بیرون جامعات کے مربیان تشریف لاتے تو ہر گروپ کو خود مختلف موضوعات پر لیکچرز دیتے اورکوشش ہوتی کہ ایک ایک کاپی بھی مہیا ہو جائے تاکہ ساتھ لے کر جا سکیں۔ اسی طرح زندگی وقف کر کے آنے والے واقفین نو جب دفتر حاضر ہوتے تو ان کی ٹریننگ کا آغاز اپنے تعلیمی و تربیتی لیکچرز سے کرتے۔ روزانہ تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ کی کلاس لیتے جس میں اس نصاب اور حالات حاضرہ کے مطابق لیکچرز اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا۔ اس کے ساتھ گھر میں مطالعے کے لیے مختلف کتب بھی دیتے۔ یہ نصاب بھی خاکسار کی رائے میں عام نہیں تھا بلکہ محترم چودھری صاحب کے ذاتی عمیق مطالعہ کتب سلسلہ، لمبے تجربہ اور عرق ریزی کاخلاصہ تھا۔ اس نصاب کا مطالعہ کرکے جماعت احمدیہ کی تاریخ، روایات، تعلیمات اور اصول وضوابط پر بنیادی اور ٹھوس علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔

کارکنان سے شفقت اور غرباء پروری

ہر وقت پوشیدہ طور پر جائزہ لیتے رہتے کہ کسی کو کسی حقیقی وجہ سے امداد کی ضرورت تو نہیں ہے۔ اسی طرح جب بھی کوئی درخواست آتی تو اس کو ہر پہلو سے چیک کرواتے اور یہ سارا عمل رازداری کے ساتھ بجا لانے کی ہدایت کرتے کہ درخواست دینے والے کی سفیدپوشی کا بھرم رہے۔

سردیاں آتیں تو کارکنان میں جرسیوں کا جائزہ لینے کا کہتے کہ دیکھو کون ہے جس کے پاس جرسی نہیں اس کو جرسی لے دی جائے۔ رمضان المبارک، عیدین وغیرہ کے مواقع پر غرباء کا خیال رکھتے اور حسب ضرورت امداد کرتے۔ اسی طرح بلاتخصیص عہدہ و مرتبہ ہر کسی کی خوشی غمی میں شامل ہوتے۔ جو بھی دعوت دیتا اسے قبول کرنے کی بھرپور کوشش ہوتی۔

لوگوں کی مشکلات و مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ خاکسار کا مشاہدہ ہے کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی غریب سے غریب یا ضرورت مند آدمی جسے آپ جانتے بھی نہیں تھے اگر مدد کی کوئی درخواست لے کر آیا ہے تو اسے واپس نہیں بھیجتے تھے۔ بلکہ اس قدر پیار سے اس سے بات کرتے کہ اکثر ایسا لگتا کہ شاید کوئی پرانا جاننے والا ہو جس کا ہمیں علم نہیں۔ لیکن جب جسارت کر کے پوچھا کہ یہ کون تھا تو جواب ہوتا کہ پتہ نہیں، میں نہیں جانتا۔ بس اپنا مسئلہ لے کر آیا تھا اس لیے entertainکیا۔ اگر وہ مسئلہ کسی اور دفتر سے حل ہونا ہوتا تو پھر بھی درخواست گزار کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجتے تھے بلکہ متعلقہ دفتر کا بتا کر اس دفتر سے رابطہ کرنے کا کہتے۔ ہمیں ہمیشہ یہی ہدایت فرمائی کہ جو بھی آئے اسے پُرتپاک طریق سے ملو اور اس کا جو بھی مسئلہ ہے اسے حل کرنے کی بھرپور کوشش کرو۔

اسی طرح کارکنان کی خبر گیری بھی کرتے۔ خاکسار کے دونوں بیٹوں کوشروع سے بول چال میں کچھ مسئلہ تھا، ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق لاہور ایک ہسپتال سے ہر ماہ چیک کرانا ہوتا تھا۔ ہر ماہ پوچھتے کہ اب اگلی تاریخ کب ہے اور کب جانا ہے اور پھر یاد بھی رکھتے، اگلی تاریخ آنے والی ہوتی تو کئی دفعہ خود کہتے کہ تم نے بچوں کا چیک اپ کروانےلاہور بھی جانا ہے۔

اسی طرح موبائل پر گھر پر رابطہ کرتے اور پیچھے بچوں کا شور ہوتا تو کام سے فارغ ہونے کے بعد دریافت کرتے کہ یہ بچے پیچھے کیا کہہ رہے ہیں۔ کبھی بچوں کو دعا کی غرض سے گھر لے کر جاتا تو دعا کے ساتھ ساتھ انہیں گھر میں جو کچھ بھی موجود ہوتا وہ تحفہ کے طورپر ضرور دیتے خواہ پھل ہی کیوں نہ ہو۔ یہ شفقت ہر وقت ہر حال میں رہتی۔

جیسا کہ خاکسار نے ذکر کیا ہے کہ شام کے وقت یعنی عصر کے بعد عموماً محترم چودھری صاحب تعمیرات کے معائنے کے لیے مختلف سائٹس تقریباً روزانہ وزٹ کیا کرتے تھے۔ دو تین سال پہلے کی بات ہے کہ خاکسار کی بیٹی کا سکول ٹائم سیکنڈ شفٹ میں تھا اور چھٹی مغرب سے کچھ دیر پہلے ہوتی تھی۔ عصر کے بعد سائٹس کا وزٹ کرتے ہوئے مغرب ہو جاتی تھی۔ کئی دفعہ ذرا کچھ پہلے فارغ ہو جاتے تو میں فوراً جا کر بیٹی کو bikeپر لے آتا تاہم اکثر اوقات چھٹی کا ٹائم ہو چکا ہوتا اور ابھی وزٹ ختم نہیں ہوا ہوتا۔ چنانچہ محترم چودھری صاحب نے ڈرائیور کو ہدایت دینی کہ اس کی بیٹی کے سکول کی طرف کا رموڑ لو اُسے لے لیتے ہیں کیونکہ اب یہ گھر جا کر آئے گا تو اسے دیر ہو جائے گی۔ چنانچہ سکول کی ایک طرف گاڑی رکوا لیتے اور میں جا کر بیٹی کو لے آتا۔ دو تین مرتبہ ایسا ہوا تو خاکسار نے عرض کی کہ آپ کا وقت زیادہ قیمتی ہے، اور ویسے بھی یہ مناسب نہیں لگتا کہ وکیل اعلیٰ کی گاڑی میرے بچوں کو پک کرنے کے لیے استعمال ہو۔ فرمانے لگے کہ تم نے اپنی بات کا جواب خود ہی دے دیا ہے، جب وکیل اعلیٰ کی گاڑی میں وکیل اعلیٰ تمہارے ساتھ موجود ہے تو اعتراض کا کوئی جواز نہیں رہتا، اور لوگ تو اعتراض کا کوئی نہ کوئی رنگ ڈھونڈ ہی لیں گے، انہیں کیا معلوم کہ تم ڈیوٹی پر ہو اور ڈیوٹی کی وجہ سے دیر ہوئی ہے اور اس لیے ہم گاڑی پر آئے ہیں۔ اس کے بعد خاکسار کے پاس کوئی عذر پیش کرنے کو رہا نہیں اور یہ شفقت یوں ہی کافی عرصہ چلتی رہی۔

محترم چودھری صاحب کی شفقت تمام کارکنان کے لیے یکساں تھی۔ دفاتر تحریک جدید میں مختلف مواقع پر پھولوں کی سجاوٹ کا کام کیا جاتا ہے۔ مثلاً مجلس مشاورت، یوم مسیح موعود اور عیدین وغیرہ کے موقع پر۔ تحریک جدید کے ایک بیلدار نے خاکسار کو ایک دفعہ بتایا کہ کچھ سال قبل کی بات ہے کہ عیدالفطر سے قبل 29؍رمضان کو محترم چودھری صاحب نے چھٹی کے وقت مجھے بلایا اور اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کے دارالضیافت کی طرف لے گئے۔ (اس سے قبل محترم چودھری صاحب خود راؤنڈ کر چکے تھے)۔ وہاں ایک لمبی باڑ کی کٹائی اور کچھ دیگر کام ہونے والے رہ گئے تھے۔ چنانچہ پوچھنے لگے کہ اتنے دن ہو گئے ہیں عید کی تیاری کرتے ہوئے اور ابھی بھی یہ کام رہ گیا۔ کچھ ناراضگی کا اظہار کیا اور ڈانٹ بھی دیا۔ نیز یہ ہدایت کی کہ شام تک دوسرے بیلداران کے ساتھ مل کر یہ کام ختم کریں اور تکمیل کی رپورٹ دیں۔ چنانچہ وہ بیلدار کہتے ہیں کہ پہلے تو میں نے گذشتہ سستی پر معذرت کی نیز شام تک کام مکمل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ عصر تک کام مکمل کیا اور عصر کی نماز کے بعد محترم چودھری صاحب کو کام مکمل ہونے کی رپورٹ ان کے گھر دے دی۔ وہ بیلدار کہتے ہیں کہ کام مکمل کرنے کے بعد میں گھر آگیا۔ ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد گیٹ پر دستک ہوئی۔ گیٹ پر گیا تو دیکھا کہ محترم چودھری صاحب ہیں۔ میں نے سلام کیا تو سلام کے جواب کے بعد کہنے لگے کہ مجھے احساس ہوا کہ آج میں نے تمہیں زیادہ ہی ڈانٹ دیا ہے اس لیے تم سے معذرت کرنے آیا ہوں۔ ساتھ ہی کہنے لگے کہ یہ تمہارے لیے اور تمہاری بیوی کے لیے ایک ایک سوٹ بطور تحفہ لایا ہوں۔ اس کے علاوہ پانچ سو روپے اورمٹھائی کا ایک ڈبہ بھی دیا۔ وہ بیلدار کہتے ہیں کہ میں شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا اور حیران بھی کہ غلطی تو ہماری تھی اورمعذرت بھی کی تھی لیکن یہ بزرگ مجھ سے ہی معذرت کرنے آ گئے۔

تربیت کا ایک رنگ یہ بھی تھا کہ کبھی اگر کوئی غلطی ہو جاتی تو کبھی بھی فوری طور پر ڈانٹنے اور سمجھانے نہ لگ جاتے۔ بلکہ غلطی کےبعد مناسب موقع اور وقت پر اصلاح کی غرض سے پیار سے سمجھاتے۔ ایک مرتبہ دفتر میں ہی خاکسار کو ایک بات تفصیل سے سمجھائی گو کہ بہت پیار اور دھیمے لہجے میں بات سمجھائی لیکن محترم چودھری صاحب کو یہ خیال گزرا کہ کہیں ان کالہجہ سخت نہ ہو گیاہو۔ چنانچہ ایک دوسرے کارکن جو اس وقت پاس ہی کھڑے تھے، میرے کمرے سے نکل جانے کے بعد اُن سے پوچھنے لگے کہ کہیں میں نے ان سے (یعنی خاکسار سے)سختی سے تو بات نہیں کی۔ اس کارکن نے کہا نہیں ہرگز نہیں۔ اس کارکن نے یہ بات مجھے بتائی کہ محترم چودھری صاحب بعد میں یوں پریشانی کا اظہار کر رہے تھے۔ چنانچہ خاکسار نے کچھ وقت کے بعد محترم چودھری صاحب سے عرض کی کہ اگر آپ ڈانٹ بھی لیں تو بھی کوئی حرج نہیں آپ بزرگ ہیں اور ہر لحاظ سے ہم سے بڑے ہیں آپ کی ہر بات ہمارے لیے نصیحت ہوتی ہے۔

اہلیہ سے حسن سلوک کی ایک مثال

محترم چودھری صاحب جیسے لوگ اپنے ساتھ والوں کے لیے ہر پہلو سے ہی قابل تقلید نمونہ ہوتے ہیں۔ خواہ وہ دفتر میں ہوں، دفتر سے باہر ہوں یا عائلی زندگی میں۔ ایک چھوٹی سی بات جو محترم چودھری صاحب کی اہلیہ نے خاکسار کو کئی مرتبہ بتائی کہ سالہا سال سے محترم چودھری صاحب مجھے ہماری شادی کی سالگرہ پر 500؍روپے بطور تحفہ دیتے ہیں۔ مجھے (یعنی اہلیہ کو)حیرانگی ہوتی کہ جماعت کے اتنے کام ہیں لیکن ان کو اس عمر میں بھی یہ یاد کیسے رہ جاتا ہے اور اپنی اس عادت کو آخر تک یوں ہی قائم رکھا۔

دفتر آنے والے مہمانوں سے حسن سلوک کی نصیحت

ایک مہمان محترم چودھری صاحب سے ملنے آئے۔ محترم چودھری صاحب اس وقت دفتر میں موجود نہ تھے کسی میٹنگ پر گئے ہوئے تھے۔ چنانچہ خاکسار نے انہیں بتا دیا کہ ابھی تو محترم چودھری صاحب موجود نہیں ہیں۔ کچھ دیر بعد محترم چودھری صاحب آگئے اور وہ صاحب بھی آ گئے (محترم چودھری صاحب دوسرے دروازے سے داخل ہوئے۔ ) وہ موصوف سمجھے کہ شاید محترم چودھری صاحب اندر موجود تھے اور مجھے عمداً غلط گائیڈ کیا گیا۔ چنانچہ جب محترم چودھری صاحب کے پاس اندر کمرے میں گئے تو جاتے ہی محترم چودھری صاحب سے برہمی کا اظہار کیا اور خاکسار کی شکایت کی کہ انہوں نے پہلے ملنے نہیں دیا۔ اس پر محترم چودھری صاحب نے مجھے بلایا اور ان کے سامنے پوچھا کہ آپ نے ان کو ملنے کیوں نہ دیا؟خاکسار نے جو حقیقت حال تھی وہ بیان کر دی کہ جب یہ صاحب تشریف لائے تھے اس وقت آپ میٹنگ پر گئے ہوئے تھے۔ اس بات کی توثیق محترم چودھری صاحب نے بھی یہ کہہ کر کی کہ اچھا اُس وقت جب میں میٹنگ پر گیا ہوا تھا (تاکہ مہمان کو شرمندگی نہ ہو)۔ چلو ٹھیک ہے تم جاؤ۔

اُسی دن ظہر کی نماز کے بعد ایک شادی پر جانا تھا۔ شادی پر گئے تومحترم چودھری صاحب سٹیج کے کونے والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ فنکشن شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ مجھے اشارہ کیا کہ ادھر آؤ۔ میں گیا تو ساتھ والی کرسی پر بٹھا لیا اور صبح جو واقعہ پیش آیا تھااُس کے حوالے سے کہنے لگے مجھے معلوم ہے تمہاری غلطی نہیں تھی اور اس شخص نے نہ صرف بدظنی کی بلکہ اس کا اظہار بھی کر دیا۔ مگر یاد رکھو کہ تمہارے کسی عمل، کسی بات یا کسی لفظ سے بھی کسی کو کبھی کوئی ایسا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ تم پر یا تمہاری نیت پر شک کرے۔ کہنے لگے مجھے پتہ ہے کہ کچھ لوگ عادتاً مجبور ہوتے ہیں پر تمہارے لیے اس میں یہی سبق ہے کہ حکمت سے بات کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو ڈیل کیا جائے۔ خاکسار نے محترم چودھری صاحب کی بات پر اثبات میں سر ہلایا۔ کہنے لگے چلو ٹھیک ہے اب بے شک اپنی کرسی پر چلے جاؤ۔

یہ تربیت کا انداز تھا کہ موقع دیکھتے ہوئے پیار سے نصیحت کر دی۔ اور گو کہ انہیں علم تھا کہ خاکسار کی غلطی نہیں لیکن سبق کی خاطر توجہ دلا دی۔

جماعت کا مفاد مدنظر رہنا چاہیے

اسی طرح ایک دن دفتر میں ہی کسی چیز کے متعلق بات ہو رہی تھی خاکسار نے کسی کے مزاج کے حوالے سے کچھ عرض کیا۔ کہنے لگے کہ دیکھو مختلف مزاج اور طبائع کے لوگ ہوتے ہیں اور ہر کسی کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ ہر وقت جماعت کا کام اور مفاد مدنظر رہنا چاہیے۔ جب یہ ہو تو کبھی کوئی الجھن پیدا نہیں ہوتی۔ اپنی مثال دیتے ہوئے کہنے لگے کہ دیکھو میرے 10، 12 وکیل ہیں کوئی ایسا وکیل بتاؤ جس سے میرا مزاج ملتا ہو، سب مختلف ہیں، لیکن کام لے بھی رہا ہوں اور کام چل بھی رہا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ الہام سناتے کہ ’’بہمیں مرد ماں بباید ساخت‘‘(یعنی انہیں لوگوں کے ساتھ گذارہ کرنا ہے)اور کہتے کہ دیکھو خدا کے نبی کو بھی یہی الہام ہوا تھا چنانچہ ہم سب کو بھی اس الہامی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے۔

حفظ مراتب کا خیال رکھنے کی نصیحت

نہ صرف خود حفظ مراتب کا خیال رکھتے تھے بلکہ حفظ مراتب کا بھرپور خیال رکھنے کی تلقین بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ یوں ہی گھر پر دفتری ملاقات کے دوران ایک چٹھی دیکھ کر کچھ خیال آیا تو فرمانے لگے حفظ مراتب کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ دو مثالیں دیں۔ فرمایا کہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے زمانے میں آپؒ بیرون ربوہ تشریف لے گئے تو مجھے امیر مقامی مقرر فرمایا۔ ایک دن میں نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد مبارک سے باہر نکل رہا تھا کہ ایک بزرگ آئے، میں اپنا جوتا اٹھانے ہی والا تھا انہوں نے فوراً آگے ہوکر میرا جوتا اٹھا کر باہر کی طرف رکھا اور کہنے لگے کہ آپ امیر مقامی ہیں اس لیے سوچا کہ جوتا اٹھا کر باہر رکھ دوں۔ محترم چودھری صاحب کہنے لگے کہ وہ بزرگ نہ صرف علم و مرتبت میں مجھ سے بڑے تھے بلکہ عمر میں بھی بڑے تھے، مگر صرف حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے انہوں نے یہ کام کیا۔

پھر اسی دَور کا ایک اور واقعہ سنایا کہ جب حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اپنے سفر سے واپس تشریف لے آئے تو دفترپرائیویٹ سیکرٹری کے صحن میں سب استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ جب موٹر کا دروازہ کھلا تو پاس ہی مَیں بھی کھڑا تھا اور ایک اور دوست بھی کھڑے تھے، وہ فوراً آگے بڑھ گئے کہ پہلے مصافحہ کر لوں، حضرت صاحبؒ نے فوراً فرمایا نہیں، امیر مقامی پہلے۔ چنانچہ پہلے مجھ سے ہاتھ ملایا پھر ان دوست سے ملایا۔ کہنے لگے کہ خلیفة المسیح نے بھی یہ درس دیا کہ ہر حال میں حفظ مراتب کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔

فرمانے لگےکہ یہ تمہیں اس لیے نہیں بتا رہا کہ خود ستائی مقصود ہے بلکہ تمہیں سمجھانے کے لیے دونوں واقعات سنائے ہیں کہ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن کا خیال رکھنا چاہیے۔

جیسا کہ خاکسار نے پہلے عرض کیا ہے کہ موقع خود اپنی آنکھ سے جا کر دیکھنے کی عادت تھی۔ ایک دن بتانے لگے کہ یہ عادت مجھے نہیں ہے بلکہ تمام خلفاء کا بھی یہی طریقۂ کار ہےاور میں نے ان سے ہی سیکھا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اسی عادت کا ذکر کرتے ہوئے ڈی بلاک (دارلضیافت ) کی تعمیر کا واقعہ بتایا کہ ایک دن حضرت خلیفہ ثالثؒ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ نقشہ تیار کر لو چند ماہ تک پیسے میں دے دوں گا۔ اس وقت ٹاؤن کمیٹی میں مجسٹریٹ نذیر ہوتا تھا جو جماعت کا بہت مخالف تھا، اس کو نقشہ جمع کروایا تو اس نے نقشہ منظور نہ کیا۔ کچھ عرصے کےبعد اس کی جگہ خالد مسعود بطور مجسٹریٹ آیاجو کہ نسبتاً تعاون کرنے والا تھا۔ اس کی دارالضیافت میں دعوت کی۔ کھانا ختم ہوا تو میں نے اسے کہا کہ آ جائیں میں آپ کو ہمارے دارالضیافت کا راؤنڈ کروا دوں۔ وہ کہنے لگا ضرور۔ ڈی بلاک کی مجوزہ جگہ کی طرف لے گیا جو اس وقت خالی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ ہمارے مہمان کافی آتے ہیں تو اس خالی جگہ پر ایک اور رہائشی بلاک بنانا چاہتے ہیں جس پر اس مجسٹریٹ نے فوراً کہا کہ ہاں جی ضرور بنا لیں۔ چنانچہ اس کو 2، 3دن بعد نقشہ جمع کروایا جس کو اُس نے ایک ہفتہ بعد منظور کرکے ہمیں واپس کر دیا۔ حضرت صاحبؒ کے علم میں لایا گیا توفرمانے لگے خاموشی سے کام شروع کردو زیادہ شور شرابا نہ ہو۔ چنانچہ کام شروع کیا گیا جب بنیادیں کھود لی گئیں تو حضورؒ نے فرمایا: بنیاد رکھنے میں خود آؤں گا۔ پروگرام طے پایااور بنیاد کے موقع پر حضورؒ کے علاوہ ناظر صاحب اعلیٰ، حضورؒ کے پہرے دار اور چند معاونین مثلاً عبد الخالق بنگالی صاحب وغیرہ شامل ہوئے۔ حضورؒ کی خواہش تھی کہ جلسے کے موقع پر غیر ملکی عورتیں یہاں ٹھہریں۔ بنیاد رکھنے کے بعد حضورؒ بیرون ملک دورہ پر تشریف لے گئے۔ جب دورے سے واپس آئے(غالباًنومبر کا مہینہ تھا) تو مرزا لقمان صاحب کے ذریعہ پیغام بھجوایا کہ اُس سے پوچھ کر آؤ کہ جلسے کے موقع پر غیرملکی عورتیں کہاں ٹھہریں گی؟(مطلب یہ تھا کہ یہ بلاک کب تک مکمل ہو جائے گا)۔ خاکسار نے مرزا لقمان صاحب کے ذریعہ ہی پیغام بھجوا دیا کہ جلسہ سے قبل انشاءاللہ یہ بلاک مکمل ہو جائے گا اور غیر ملکی خواتین ادھر ہی ٹھہریں گی۔ پندرہ دن گزرے تو حضرت صاحبؒ کا یہی پیغام پھر مرزا لقمان صاحب لائے۔ خاکسار نے پھر وہی جواب عرض کیا۔ دوبارہ پھر پندرہ دن گزرے (اب دسمبر کا دوسرا ہفتہ ہوچکا تھا) تو مرزا لقمان صاحب حضرت صاحبؒ کا پھر ہوبہو یہی پیغام لے کر آئے کہ کب تک مکمل ہوگا۔ عرض کی کہ آپ نے 23؍دسمبر کو معائنہ پر تشریف لانا ہے تو بنفس نفیس تشریف لاکر دیکھ لیں۔ چنانچہ حضورؒ جب معائنہ کے لیے تشریف لائے تو یہ مہمان خانہ بالکل تیار تھا۔ بیڈز، پردے، تولیے، صابن وغیرہ غرض سب کچھ مکمل تھا۔ حضورؒ نےخود سب کچھ دیکھا، بیڈرومز، ڈائننگ ٹیبل یہاں تک کہ غسل خانے بھی دیکھے۔ اور فرمانے لگے ٹھیک ہے۔ غرض خلفاء بھی اپنی آنکھ سے خود دیکھتے ہیں اور پھر اطمینان ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی آنکھ سے خود دیکھنا بہت ضروری ہے۔

اسی حوالے سے ہی بتانے لگے کہ جب انجمن کا ریزولیوشن ہو گیا تو حضورؒ نے اس کی فائل منگوائی۔ میں فائل لے کرکمرے میں داخل ہوا تو فرمانے لگے فائل ادھر رکھ دو میں دیکھتا ہوں۔ پوچھنے لگےاینٹیں کتنی لگیں گی؟ میں نے بتایا۔ پھر پوچھا سریا کتنا لگےگا؟ میں نے بتایا۔ پھر پوچھنے لگے کہ سیمنٹ کتنا لگے گا؟ میں نے بوریوں کی تعداد بتائی۔ کچھ دیر فائل دیکھی۔ دیکھ کر اطمینان ہوا تو فرمانے لگے انجمن کا ریزولیوشن آیا تھا میں نے منظوری تو دے دی تھی لیکن تفصیل نہیں دیکھی تھی لیکن اب دیکھ لی ہے۔ یہ واقعہ سنا کر محترم چودھری صاحب کہنے لگے دیکھو جس کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ لازمی گہرائی میں جاتا ہے اور گہرائی میں جانا اس کا فرض بھی ہوتا ہے۔

باغبانی سے شغف

محترم چودھری صاحب کو باغبانی کابہت شغف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک جدید میں ایک شعبہ باغبانی قائم ہے جس کے تحت تحریک جدید میں ہر سیزن میں لگنے والے پھولوں اور پودوں کی پنیریا ں خود تیار کی جاتی ہیں۔ یوں نہ صرف پھولوں کی متنوع اقسام مل جاتی ہیں بلکہ جماعتی پیسے کو سمجھداری سے خرچ کرتے ہوئےاسی شعبہ سے ایک بہت بڑی رقم بھی ہر سال بچ جاتی ہے جو عموماً بازار سے تیار پودے اور پھولوں کو خریدنے پر صرف ہوتی ہے۔

جماعت پر خدا تعالیٰ نے کیسے افضال کی بارش کی ہے

محترم چودھری صاحب کی عادت تھی کہ اکثر پرانی یادیں اور واقعات نصیحت کی غرض سے سناتے تھے۔ جماعت کو کیسے خدا تعالیٰ نے بے پناہ نوازا ہے اس کا اکثر تذکرہ کرتے۔ خاکسار مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ میں خدمت کی توفیق پا رہا تھا تو ایک دن پوچھنے لگے کہ شعبہ مال کی نگرانی تمہارے پاس ہے تو بتاؤ ربوہ کا مجلس اور اجتماع کا بجٹ کتنا ہے، خاکسار نے عرض کیا کہ اتنا ہے۔ مسکرا کر کہنے لگے کہ میں خدام الاحمدیہ میں مہتمم مال رہا ہوں اب تم بوجھو کہ اس وقت مرکزیہ کا کل بجٹ کتنا ہوگا۔ خاکسار نے اس وقت کے حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انتہائی محتاط انداز میں انتہائی کم رقم بتائی تو کہنے لگے نہیں اس کا بھی دسواں حصہ کر لو یہ اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا کل سرمایہ ہوتا تھا اور اب ماشاء اللہ صرف ربوہ مقامی کا بجٹ ہی اس سے کئی سو گنا زیادہ ہے۔

اسی طرح حضرت خلیفہ ثالثؒ کی ایک روایت سناتے تھے کہ حضورؒ نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ پارٹیشن سے قبل جلسے کے موقع پر جو باقاعدہ ایک ہفتہ کی ڈیوٹیز لگتی تھیں اس پورے عرصے میں تمام ڈیوٹی دینے والوں کو صرف ایک بار چائے بطور ریفریشمنٹ ملتی تھی۔ چنانچہ ایک خادم کارکن خوشی خوشی چائے لے کر اپنی رہائش گاہ پر آیا تو کمرے میں موجود مہمان سمجھا کہ شاید میرے لیے چائے لایا ہے اور اس مہمان نے خادم سے سوال کےرنگ میں پوچھ لیا، چنانچہ خادم نے وہ چائے بھی قربان کرتے ہوئے مہمان کو دے دی۔ محترم چودھری صاحب کہتے تھے کہ حضرت خلیفہ ثالثؒ یہ واقعہ بیان کر کے ڈیوٹی دینے والوں کے ایثار کا ذکر فرماتے تھے کہ کیسے ڈیوٹی والے ہر حالت میں قربانی کر کے مہمانان کا خیال رکھتے تھے۔ محترم چودھری صاحب کہتے کہ دیکھو ایک وہ دَور تھا کہ ہفتہ بھر کی ڈیوٹی میں یہ ایک ریفریشمنٹ ہوتی تھی کہ چائے کا کپ ملے گا اور وہ بھی ڈیوٹی کے دوران قربان کرنا پڑتا تھا اور ایک آج کا دَور ہے کہ خدا تعالیٰ نے جماعت کو مالی لحاظ سے اس قدر نوازا ہے کہ ہر چھوٹی میٹنگ میں بھی چائے پیش ہونا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کا ادراک ہونا چاہیے اور ہمیشہ جماعتی اموال کو احتیاط کے ساتھ فضول خرچی سے بچتے ہوئے خرچ کرنا چاہیے۔

آخری ایام

محترم چودھری صاحب کی ذات کا ایک نمایاں وصف یہ تھا کہ فرائض کی ادائیگی اور نگرانی ہر حال میں ہوتی تھی۔ اس کی ایک مثال وفات سے قبل کے دو ہفتےہیں جو آپ نے ہسپتال میں گزارے۔ 23؍جنوری بروز ہفتہ صبح جب دفتر آئے تو طبیعت خراب لگ رہی تھی۔ خاکسار کے پوچھنے پرکہنے لگے کہ پہلے ڈاک چیک کروا لو اور ڈاکٹر صاحب سے ٹائم لے لو، ڈاک کے بعد چلتے ہیں۔ ہسپتال لے کر گیا، ڈاکٹر صاحب کو چیک کروایا۔ واپسی پر دفتر کے قریب پہنچے تو خاکسار نے ڈرائیور سے گاڑی گھر لے جانے کو کہا۔ اس پر محترم چودھری صاحب فرمانے لگے کوئی ڈاک تو نہیں ہے دکھانے والی؟دفتر چلتا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ ایک دفعہ تو آپ نے دیکھ لی ہے آپ آرام کریں اگر کوئی ضروری کاغذ ہوا تو گھر آ کر دکھا دوں گا۔

شام کے وقت طبیعت مزید خراب ہوئی تو دوبارہ ہسپتال لے گیا جس پرڈاکٹر نےوارڈ میں داخل کر لیا ۔ اس موقع پر بھی کہنے لگے کہ رابطے میں رہنا۔ اس کے بعد اگلے کچھ دن فون پر، یا وارڈ کے باہر سے پرچی پر رابطہ رہنے لگا۔ ہروقت دفتر کے کاموں کے متعلق دریافت کرتے اور رپورٹ لیتے۔ آغاز میں ایک قلم اور پیڈ منگوایا، کمزوری کے باوجود ضروری امور لکھ کر دیے اور فون پر کہنے لگے کہ تمہیں ان معاملات کا پتہ ہے مکرم قائمقام وکیل اعلیٰ کو بریف کر دو تاکہ سب کچھ ان کے علم میں آجائے اور اگر کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو مجھ سے پوچھتے رہنا۔

ایک دو امور کے حوالے سے حضور انور کی خدمت میں لکھا ہوا تھا ایک دو دن مسلسل پوچھا کہ کیا جواب آ گیا ہے۔ یوں روزانہ تقریباً دو سے تین بار رابطہ ہوتا اور خراب صحت اور نقاہت کے باوجود فرائض کی ادائیگی کے متعلق دریافت فرماتے رہے۔

اور سب سے بڑھ کر اس دوران بھی اپنے آقا کو نہیں بھولے بلکہ حضور انور کی خدمت میں صحت کے متعلق رپورٹ بھجوانے کا کہتے بلکہ ایک سے دو بار فون پرپیغام لکھوایا اور ہدایت کی کہ حضور انور کو بھجوا دو۔

آہستہ آہستہ طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور وفات سے تین چار دن قبل خوراک کی نالی لگا دی گئی۔ اس نالی کےلگنے سے قبل فون پر بات ہوئی آواز میں بہت نقاہت تھی، تب بھی اگر فکر تھی تو دفتر کے کام کی۔ ایک معاملےکی رپورٹ کے متعلق پوچھا ،کہنے لگے وہ تم نے بنا کر دکھائی نہیں؟ میں نے عرض کی کہ رپورٹ تیار ہے آپ ٹھیک ہو کر آجائیں دکھا دوں گا۔ کہنے لگے جب تیار ہے تو پھر صبح بھجوا دو میں دیکھ لوں گا۔ یہ سب باتیں ٹوٹے الفاظ اور انتہائی کمزوری سے کیں۔ اس حالت میں بھی اگر فکر تھی تو بس جماعت کے کام کی۔ خوراک کی نالی لگنے کی وجہ سے یہ گفتگو آخری ثابت ہوئی۔ اوراس میں بھی یہی درس دیا کہ ہر حال میں جماعت کےکام کو اوّلیت دی جائے۔ اس کے بعد طبیعت اور خراب ہوتی گئی اور دوتین دن بعد مورخہ 7؍فروری 2021ء کی صبح 7 بجے اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔انّا للہ وانّا الیہ راجعون

محترم چودھری صاحب مرحوم کے ساتھ یہ چند یادیں ہدیہ قارئین کے طور پر تحریر کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بطور واقفین زندگی، بطور کارکنان اور بطور احمدی اس نیک نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جیسا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍فروری 2021ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ایک اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے نصیحت فرمائی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ سے اصل تعلق روحانی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حضرت مسیح موعودؑ کی حقیقی روحانی اولاد بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے لیے ہم صحیح رنگ میں کوشش کرنے والے ہوں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ ماشاءاللہ بہت علمی اور مفید مضمون ہے۔ مضمون نکار نے محترم چودھری حمید اللہ صاحب کی سیرت کے نمایاں پہلو اور اوصاف حمیدہ بہت خوبی سے قلمبند کئے ہیں، اور ایک عظیم انسان کی خوبیاں بہت خوبی کے ساتھ قارئین کے لئے پیش کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس کی رعنائیاں نصیب فرمائے، تمام واقفین کو آپ کا اسوہ اپنانے کی توفیق دے اور خلافت احمدیہ کو ایسے سلطان نصیر عطا فرماتا چلا جائے۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button