احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
صحبت صالحین اور روزوں کاعظیم مجاہدہ
محمداعظم عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ(حصہ سوم)
کابل سے ہجرت اور دہلی پنجاب میں ورود (حصہ دوم)
(گذشتہ سے پیوستہ)اِنہیں دنوں میں اس کی سلطنت الٹ پلٹ گئی اور اس کا اقبال ادبار کے ساتھ بدل گیا اور وہ اپنی سلطنت سے جدا ہو کر ہرات چلا گیا پھر محمد افضل خان اور محمد اعظم خان کی سلطنت کی نوبت پہنچی، برے مولویوں، دین فروش جاہ وعزت کے طالبوں اور دین و آخرت کے تارکوں نے پھر وہی تہمتیں اور جھوٹ محمد افضل خان اور محمد اعظم خان کے کانوں تک پہنچائے اور طرح طرح کے وساوس اور وہم ان کے دلوں میں ڈال دئیے اور آپ تو کسی حاکم کے پاس جاتے ہی نہ تھے۔ وقت کے امیر محمد افضل خان نے مقر کے حاکم کے نام پروانہ لکھا کہ فلاں شخص کو بےخبر پکڑو! خبردار ہاتھ سے نہ جاوے۔ سردار محمد عمر نے اسی وقت ایک اسلحدار سواروں کا رسالہ رات رات بھیج دیا جنہوں نے آدھی رات کے قریب مکان کا آکر احاطہ کر لیا انہوں نے آپ کو پکڑ لیا اور آپ کو اور آپ کے تمام اسباب اور کتابوں کو ملک کے صوبہ سردار محمد عمر خان پسر امیر دوست محمد خان کے پاس لا کر حاضر کیا اور آپ کے فرزندوں میں سے مولوی محمد صاحب مرحوم اور مولوی عبداللہ صاحب مرحوم اور مولوی عبد الجبار صاحب اس وقت آپ کے ہمراہ تھے سب لوگوں کو یہی یقین تھا کہ وہاں پہنچتے ہی سخت سزا دئیے جاویں گے جب آپ وہاں پہنچے تو صوبہ دار صرف آپ کا مبارک چہرہ دیکھ کر نرم ہو گیا ادب کے ساتھ بولا کہ آپ کیوں اس اپنے راستے کو نہیں چھوڑتے جو کچھ وقت کے مولوی کرتے ہیں آپ بھی ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ سردار محمد عمر کے جرنیل نے کہا کہ اس شخص کو میرے ہاتھ میں دو میں اس کو توپ سے اڑا دوں، آپ نے جواب میں فرمایا، مجھ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ کتاب و سنت کو جاری کروں بارہا مجھ کو الہام ہوا ہے۔
یَا عَبْدِیْ ھٰذَا کِتَابِیْ وَھٰذَا عِبَادِیْ فَاقْرَءْ کِتَابِیْ عَلٰی عِبَادِیْ۔
یعنی اے میرے بندے یہ میری کتاب ہے اور یہ میرے بندے ہیں پس پڑھ میری کتاب میرے بندوں پر اور یہ بھی الہام ہوتا ہے۔
وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ بَعۡدَ الَّذِیۡ جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ۔
میں محکم قصد اور مصمم ارادہ رکھتا ہوں کہ جب تک جان بدن میں ہےاور سر تن پر۔ کتاب و سنت کی خدمت میں نہایت سرگرمی سے کوشش کروں یہ مصیبتیں کیا ہیں جو مجھ پر آتی ہیں۔ میں تو اپنے مالک سے یہی چاہتا ہوں کہ اس راہ میں پارہ پارہ کیا جاؤں اور میری انتنیاں اور رودے جنگل کے درختوں اور کانٹوں پر ڈالے جاویں اور پھر ان کو کوے اپنی چونچیں ماریں اور دل کے جوش کے ساتھ اور بھی ایسی باتیں کیں کہ اس مجلس کے لوگ کیا صوبہ دار اور کیا دوسرے سب رورہے تھے۔ سردار کے جرنیل نے کہا ظاہر میں تو یہ شخص خوب ہے، ملک کے صوبہ سردار محمد عمر نے کہا کہ بخدا اس شخص کا باطن بھی خوب ہے تُو نہیں دیکھتا کہ ولایت کا دم بھرتا ہے اسی وقت حکم دیا کہ اسی وقت ان کا تمام اسباب اور کتابیں ان کے گھر میں پہنچا دو اور اس ملک کے قاضیوں اور عالموں کو مباحثہ کے واسطے طلب کیا۔ سب علماء جمع ہوئے ان مولویوں کے سرگروہ ابن مموت مقری تھے اس نے صوبہ کے سامنے گفتگو شروع کی آ پ نے اپنے چھوٹے لڑکے کو اس وقت اس کی عمر بیس سال کی تھی پیش کیا۔ مجلس کے تمام لوگ حیران تھے کہ یہ چھوٹا سا لڑکا ان اعلام کا کیونکر مقابلہ کرسکےگا مگر چونکہ اللہ تعالیٰ حق والوں کے ساتھ ہے وہ لڑکا ایسا غالب آیا کہ صوبہ اور مجلس کے اعیان آفرین آفرین کہنے لگے اور باہر اندر شوروغل پڑ گیا کہ ایک چھوٹے سے لڑکے نے تمام عالموں اور قاضیوں کو ساکت اور ملزم کر دیا۔ اسی وقت ملک کے صوبہ نے امیر افضل خان اور اعظم خان کے نام خط لکھا کہ حسب الحکم آپ کے میں نے اس شخص کو گرفتار کیا اور اس نواح کے علماء اس کے ساتھ مناظرہ کرنے کیلئے حاضر ہوئے لیکن ان سے کچھ نہ بنا بلکہ ملزم اور ساکت ہو کر چلے گئے یہ شخص صالح اور فقیر ہے اور دنیا کے اسباب سے بالکل عاری ہے جو کچھ حکم ہو ارقام فرماویں انہوں نے جواب میں لکھا کہ تمام احتیاط کے ساتھ بلادرنگ شہر کابل میں ان کو ہمارے پاس پہنچا دو۔ ملا مشکی اور ملا نصراللہ وغیرہ امیر افضل خان اور اعظم خان کے پاس گئے اور بولے کہ امیر دوست محمد خان کے عہد میں ہم اس کا کفر ثابت کرچکے ہیں اب دوبارہ تحقیق کی حاجت نہیں ہے۔ سب نے متفق ہو کر قتل کا فتویٰ لکھا مگر ملا مشکی کہ وہ ان میں قدرے انصاف رکھتا تھا اس فتویٰ میں ان کا شریک نہ ہوا۔ بہت گفتگو کے بعد قتل کے فتویٰ کو چھوڑا گیا اور یہ فتویٰ دیا کہ درے مارے جاویں اور سر اور ڈاڑھی مونڈی جاوے اور منہ کالے کئے جاویں اور گدھے پر سوار کرکے مشہور کیا جاوے اور جب انہوں نے یہ فتویٰ لکھا تو اس وقت سے لے کر اجراء حکم تک آپ اور آپ کے تینوں بیٹے بحکم امیرنظر بند رہے۔ امیر محمد افضل خان نے برے عالموں اور محمد اعظم خان کی رعایت کے واسطے مجبوراً ان کی مرضی کے مطابق حکم کر دیا۔ آپ کو سمیت تینوں بیٹوں کے تمام شہر میں مشہور کیا، خاص آپ کو سو دروں سے زیادہ لگائے ہونگے تین آدمی نوبت بنوبت آپکو مارتے تھے جب ایک تھک جاتا تو دوسرا اس کے ہاتھ سے درہ پکڑ لیتا، سب لوگوں کو یہی یقین تھا کہ آج آپ فوت ہو جاویں گے کیونکہ آپ معمر اور ضعیف تھے اسی اثنا میں ایک ظالم بڑا زبردست آیا اور بڑے غصہ سے اس نے محتسب کے ہاتھ سے درہ چھین لیا اور بولا تو آہستہ آہستہ مارتا ہے اور زور زور سے مارنا شروع کیا جب اس نے کئی بار درہ مارا تو دوسرے لوگ بولے کہ اے ظالم تو نے ان کو مار ڈالا اور درہ اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
مولوی عبدالاحد خانپوری نے ایک د ن عرض کی کہ میرے حق میںدعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ایمان میں استقامت دیوے۔ فرمایا کہ میں اس شخص کے حق میں بھی دعا کرتا ہوں جو کابل میں مجھ کو نہایت سختی سے مارتا تھا کہ یا اللہ اس کو معاف کر اور اس کو بہشت میں داخل کر کیونکہ وہ جاہل تھا جانتا نہ تھا۔ تمہارے واسطے کیوں دعا نہ کروں بلکہ میرے دل سے بے اختیار تمام مسلمانوں کے لئے دعا نکلتی ہے جو آدمؑ سے اس دم تک پیدا ہوئے ہیں اور اس وقت کے کافروں کے واسطے بھی ہدایت کی دعائیں کرتا ہوں جو زندہ ہیں۔ کئی دفعہ آپکی زبان مبارک سے میں نے سنا ہے کہ فرماتے تھے جن لوگوں سے میں نے قسم قسم کی تکلیفیں اور گوناگوں ضرر اٹھائے ہیں۔ میں نے سب کو معاف کر دیا، قیامت میں اللہ تعالیٰ میرے لئے کسی کو نہ پکڑے جب وہ ظالم اس زدوکوب اور تشہیر سے فارغ ہوئے اور آپ کو سمیت بیٹوں کے قید خانہ میں لےگئے……اس واقعہ عظیمہ کے بعد آپ کو یہ الہام ہوا۔
وَجَزَاھُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا۔
آپ کے دوستوں میں سے ایک شخص آپ کے پاس قید خانہ میں آ کر اس واقعہ پررونے لگا فرمایا تو کیوں روتا ہے، عزت اور ڈاڑھی کیا چیز ہے جو مولیٰ کی راہ و رضا میں چلی گئی شکر کرو کہ دین ہاتھ سے نہیں گیا۔ رونا تو مخالفین کو چاہیئے کہ دین سے وہ ہاتھ دھو بیٹھے۔
اَفْسَدُوْا عَلَیَّ دُنْیَایَ وَافْسَدْتُ عَلَیْھِمْ دِیْنَھُمْ۔
یعنی انہوں نے میری دنیا کو خراب کر دیا اور میں نے ان کے دین کو خراب کر دیا۔ دوسال اپنے بیٹوں کے ساتھ قید رہے ان کی طرف سے ایک حبہ بھی آپ کے خرچ کیلئے مقرر نہ تھا بس قید خانہ میں ڈال دئیےگئے اور پھر خبر نہ لی۔ امیر افضل خان بعارضہ وبا مر گیا اس کے بعد امیر اعظم خان تخت پر بیٹھا اس نے خان ملا خان عبدالرحمٰن نام کے بہکانے سے عین گرمی کے موسم میں پیادہ پا آپکو بغیر زاد پشاور کی طرف نکال دیا اور سخت دل سپاہیوں کو آپ کے ساتھ مقرر کیا کہ بہت جلد آپ کو پشاور میں پہنچا دیں۔ اوپر سے گرمی کی آگ برستی تھی اور نیچے سے زمین کی تپش کے ساتھ پاؤں بھوجتے تھے اور سنگدل سپاہیوں کی وجہ سے جو آپ کے پیچھے تھے آرام کی نوبت نہ ملتی تھی۔ اس سفر میں آپ کے دو خادم آپ کے ساتھ تھے۔ ایک ملا سفر نام اور ایک ملامراد نام جب آپ چل نہ سکتے تھے تو ملا سفر اللہ تعالیٰ اس کو دارین میں عزیز کرے آپکو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتا۔ الغرض نہایت تکلیف کے ساتھ پشاور میں پہنچے اسی سبب سے ملا سفر راحلہ عبداللہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس اثنا میں آپ کو کئی بار یہ الہام ہوا۔
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
اور اسی طرح یہ القا ہوا۔
اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ۔
ایک ماہ پورا نہ گذرا ہوگا کہ اس کی سلطنت نہ رہی اور ہزیمت کھا کر نکل گیا اور کوہ بکوہ سرگردان و حیران پھرا کیا اور اس کے اہل و عیال جو عمر بھر کبھی گھر سے باہر نہیں نکلے تھے اس کے پیچھے ان کو بھی نکال دیا گیا۔آیت کریمہ
فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا انۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ
کے مضمون کے مطابق امیر دوست محمد خان کے خاندان کو اللہ عز و جل نے اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ ایسا پراگندہ اور منتشر کیا کہ گویا۔ آیت کریمہ
فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ
کے مصداق یہی ہیں کہ ملک پشاور اور پنجاب اور ہندوستان میں نصاریٰ کے ہاتھ میں محبوس و مقید ہیں اور بعض ان میں سے جنگلوں اور پہاڑوں میں پریشان و سرگردان ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو، ہمارے مالک کا فرمان
مَنْ عادٰی لِی وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَنِیْ بِالْحَربِ۔
بالکل سچا ہے
وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیۡلًا
یعنے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کس کی بات سچی ہے ان مصیبتوں اور تکلیفوں کی مدت پندرہ سال کامل تھی جب پشاور پہونچے تو تھوڑی مدت یہاں توقف فرمایا اور اس جگہ سے بعض دوستوں کے استدعا سے ملک پنجاب کے شہر امرتسر میں پہنچے اور کتاب وسنت کے رواج دینے میں ایسی کوشش فرمائی کہ توحید اور اتباع سنت اور عقائدکی بہت کتابیں اور رسالے عام لوگوں کے نفع کے واسطے فارسی اور اردو زبان میں ترجمہ کراکر چھپوا دئیے اور للہ تقسیم کر دئیے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭