متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشابہت

(عبد الباسط شاہد۔لندن)

سید ولدِ آدم آنحضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو جو سراسر ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں پڑی ہوئی دن بدن گہری تاریکی کی طرف جا رہی تھی اسلامی نور اور توحید کی روشنی سے منور کیا اور انہی روحانی تجلّیوں اور ضیا پاشیوں میں اپنی عمر طبعی گزار کر ’’رفیق اعلیٰ ‘‘سے جا ملے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے صفت رحمانیت سے کام لیتے ہوئے عرب کے صحرا نشینوں اور بدوؤں کو بے آسرا نہ چھوڑا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس سلسلہ کو قائم رکھنے کے لیے ایک عظیم الشان نظام جاری فرمایا جسے ’’خلافت ‘‘کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگ جو مسلمان ہو چکے ہیں اور ایک ہاتھ کے نیچے آ چکے ہیں پھرسے منتشر ہوکر اتحاد و اتفاق کی برکت سے محروم نہ ہو جائیں۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےکی فتوحات کی رَو میں آکر

یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا

کے مطابق گروہ در گروہ اسلام قبول کرنے والوں کی تربیت ہو سکے اور آئندہ کے لیے اصلاح و ارشاد کا سلسلہ برابر جاری رہے۔

ہمارے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ثریا سے اتارنے اور قتلِ خنزیر و کسر ِصلیب کرنے کے لیے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور گذشتہ پیشگوئیوں اورحضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کے مطابق آپ کے بعد بھی بعینہٖ اسی طرح خلافت کا نظام جاری فرمایا تاکہ آپؑ کے ذریعے سے جو تخم ریزی ہوئی ہے وہ بار آور ہو۔ خدا کی قدرت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اوّل یعنی حضرت ابو بکرؓ اور حضرت مسیح موعودؑ کے خلیفہ اوّل حضرت مولانا نور الدین اعظمؓ کی زندگیوں میں متعدد مشترک پہلو ہیں۔ ایک ظاہر بین اس اشتراک و مشابہت کو اتفاق کہہ سکتا ہے لیکن حقیقت امر کے جاننے والوں ا ور غور و تدبّر سے کام لینے والوں کے لیے یہ مشابہتیں ایمان افروز ہیں اور اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ قسّام ازل نے ان دو عظیم الشان انسانوں کو ایک رفیع المنزلت کام کے لیے پیدا کیا تھا مثال کے طور پر چند مشابہتیں مندرجہ ذیل ہیں:

1۔…حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اوّل المصدّقین ہونے کا قابل صدرشک مقام حاصل فرمایایعنی آپ نے بغیر کسی توقف کے انشراح صدر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا۔ چنانچہ بخاری شریف میں حضرت ابوالدرداءؓ کی روایت ہے کہ

قَال رسو لُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ھَلْ انتم تارکون لی صاحبی انی قلت ایھا الناس انی رسول اللّٰہ علیکم جمیعا فقلتم کذبت و قال ابوبکر صدقت۔

اسی طرح ابن عساکرؒ، طبرانیؒ، ترمذیؒ، ابن حسانؒ اور امام شعبیؒ نے بھی حضرت ابو بکرؓ کو ’’اول من اسلم‘‘سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا قرار دیا ہے۔

حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ کو بھی خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ پر سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف بخشا اور آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ پر ایک لمحہ کے لیے بھی تردّد نہ کیا اور براہین احمدیہ کے ابتدائی حصّہ کو پڑھتے ہی صدق دل سے آپ کے جملہ دعاوی کو تسلیم کیا چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’…انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے سست اور متذبذب ہو گئے تھے۔ تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے:

امنّا و صدقنا فاکتبنامع الشّٰہدین…‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ521)

پھر لدھیانہ کے مقام پر مارچ1889ء میں پہلے دن کی بیعت میں پہلے نمبر پر بیعت کر کے حضرت صدیق اکبر ابو بکرؓ کی طرح منفرد اور نمایاں امتیازی شان حاصل کر لی۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

2۔ …اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور پیارے بندوں کو اپنے رستے میں جان و مال کی قربانیوں کا موقع دے کر منازل سلوک میں سے گزارتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو بکرؓ کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی خاطر جملہ صحابہ کرام سے بڑھ کر مالی قربانیوں کا موقع ملا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

ترجمہ: ہم پر کسی نے کوئی احسان نہیں کیا جس کا ہم نے برابر بدلہ نہ دے دیا ہو سوائے ابوبکر کے اس کا ایسا احسان ہے کہ خدا تعالیٰ ہی بروز قیامت بدلہ عطا فرمائے گا۔ مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابو بکر کے مال نے…‘‘

(ترمذی مناقب ابو بکر)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تائید حضرت عمرؓ کے درج ذیل بیان سے بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے تھے کہ

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی قربانی کی تحریک فرمائی۔ میں اس وقت مالی لحاظ سے بہتر تھا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ آج تو میں ابوبکر سے آگے بڑھ جاؤں گا۔ چنانچہ میں نے اپنے مال کا آدھا حصہ حضورؐ کی خدمت میں پیش کر دیا اور حضورؐ کے دریافت کرنے پر بتایا کہ میں اپنا اتنا ہی مال پیچھے چھوڑ آیا ہوں مگرحضرت ابوبکرؓ اپنا سارا مال خدا کے رستہ میں پیش کرنے کےلیے لے آئے اور حضورؐ کے دریافت کرنے پر کہا کہ میں اللہ اور رسول کا نام پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ اس پر مجھے یہ کہنا پڑا کہ بخدا میں اس شخص سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

(ترمذی مناقب ابوبکر)

آپ کی تمام زندگی اسی قسم کی عظیم الشان مالی قربانیوں میں گزری۔

حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحبؓ کو بھی اللہ تعالیٰ نے انفاق مال کا خاص موقع عطا فرمایا۔ کشمیر میں آپؓ کی ہزار، پندرہ سو روپے ماہوار کی آمد تھی جو سب فی سبیل اللہ خرچ ہوتی تھی اس کے بعدآپؓ قادیان تشریف لے آئے تو بھی آپ نے ایک حبہ جمع نہ کیا بلکہ ساری آمد حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کی تکمیل اور خدمت خلق میں صرف کر دی جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردیٔ اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خداتعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگرخود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولا میں اُٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے مولوی صاحب موصوف اب تک تین ہزار روپیہ کے قریب للہ اس عاجز کو دے چکے ہیں اورجس قدر اِن کے مال سے مجھے مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں ہے۔ ‘‘

(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4صفحہ407)

اسی طرح آپؑ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:

’’ان سے زیادہ کسی کے مال نے مجھے فائدہ نہیں پہنچایا اور ایسی قربانی آپ مسلسل کئی سالوں سے کر رہے ہیں۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ 582)

حضرت ابو بکرؓ کے جذبہ انفاق مال کو دیکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مال میں اپنے مال کی طرح تصرف کرتے تھے (تاریخ الخلفا) اور ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ حضرت ابوبکرؓ اپنے مال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مباح قرار دیتے تھے چنانچہ فرماتے ہیں کہ میری سب سے زیادہ مالی مدد ابوبکر نے کی ہے اس پر حضرت ابو بکر رونے لگے اور فرمایا: میں اور میرا مال سب حضور ہی کا ہے۔

(احمد بن حنبل جز ابو ہریرۃ)

اسی طرح حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ نے بھی اپنا مال حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لیے مباح قرار دے دیا تھا چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں:

’’میں آپ کی راہ میں قربان ہوں میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے حضرت پیر و مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا…..مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے دعا فرمائیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو۔ ‘‘

(مکتوب بنام حضرت مسیح موعودؑ از ازالہ اوہام)

3۔ …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکرؓ کو آپ کا جانشین منتخب کیا گیا باوجود اس کے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار یا عزیز نہیں تھے۔ بلکہ آپ اپنے علم، تقویٰ، زہد، بے غرضی، بے لوثی، حلم، معاملہ فہمی، عاقبت اندیشی اور دیگر صفات حسنہ کی وجہ سے آپؓ کے خلیفہ منتخب ہوئے۔

حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ بھی حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ کوئی جسمانی رشتہ و قرابت نہ رکھتے تھے بلکہ آپ بھی مذکورہ بالا صفات حسنہ سے متصف ہونے کی وجہ سے خلافتِ اولیٰ کے مستحق قرار پائے۔

4۔ …حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات پر صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکرؓکو آپ کی فضیلتوں اور خوبیوں کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین منتخب کیا ۔اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے ایک نہایت فصیح و بلیغ اور حسب حال تقریر فرمائی جس میں منجملہ اور باتوں کے فرمایا:

’’میں تو کبھی بھی امارت کا خواہش مند نہ تھا نہ کبھی میں نے اس کی دعا کی تھی میں تو اس ذمہ داری سے ڈرتا ہی تھا۔ میرے لیے اس سرداری میں کوئی آرام و راحت نہیں ہے۔ مجھ پر بہت بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے بغیر اُٹھایا نہیں جا سکتا۔ ‘‘

(تاریخ الخلفاء صفحہ51تا52)

حضرت خلیفہ اولؓ نے بھی جماعت احمدیہ کے متفقہ خلیفہ منتخب ہونے پر بالکل اسی قسم کے جذبات و خیالات کا اظہار کیا چنانچہ آپؓ نے نہایت رقت بھرے لہجہ میں فرمایا:

’’میرے دل کے کسی گوشہ میں کبھی اس امر کا خیال خواہش یا واہمہ نہیں تھا کہ یہ کام میرے سپرد کیا جائے میں چاہتا تھا کہ حضرت کا صاحبزادہ مرزا محمود جانشین بنتا……میں ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ یہ بوجھ مجھ پر ڈالا جاتا کیونکہ میں اپنے میں اس کے اُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن جبکہ بلا میری خواہش کے یہ بار میرے گلے میں ڈالا جاتا ہے اور دوست مجھے مجبورکرتے ہیں تو اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر میں قبول کرتا ہوں۔ ‘‘

(تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ مطبوعہ بدر 2؍جون 1908ء)

5۔ …حضرت ابو بکرؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد بھی اپنے رفاہی اشغال حسب معمول جاری رکھے اور ان میں وقفہ نہ پڑنے دیا نیز آپ کسب معاش کے لیے ایک عرصےتک حسب معمول تجارت کرتے رہے۔ عطاءبن السائب فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکرؓ کی بیعت ہوئی تو اگلے روز آپ کپڑا اُٹھائے ہوئے (حسب معمو ل کاروبار کی خاطر) بازار کی طرف جا رہے تھے۔

(ابن سعد بحوالہ تاریخ الخلفاء)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے بھی اپنے خدمت خلق کے اشغال بدستور جاری رکھے۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں:

’’اس وقت آپ کی دن کی نشست مسجد مبارک میں ہوتی تھی مگر چونکہ بیمار بھی آپ کی توجہ کے محتاج ہوتے تھے اور بیماروں کا مسجدمیں جمع ہونا مناسب نہ تھا اس واسطے آپ نے کچھ عرصہ کے بعد پھر اپنے مطب میں بدستور بیٹھنا شروع کر دیا۔ ‘‘

(حیات نور الدین صفحہ 158)

6۔ …حضرت ابو بکرؓ کی زندگی کا سب سے عظیم الشان کارنامہ ’’جمع قرآن ‘‘ہے یعنی قرآن مجید جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جا بجا لکھا ہو ا تھا آپؓ نے اسے اپنی نگرانی میں ایک صحیفہ میں جمع کروایا۔ عالم اسلام پر آپ کا یہ عظیم الشان احسان ہے۔ کیونکہ آپ نے وقت پر ایک اہم ضرورت کا احساس کر کے ہمیشہ کے لیے قرآن مجید کی حفاظت و صحت کا انتظام کر دیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے بھی اپنے زمانہ میں قرآن کریم کی ایسی ہی عظیم الشان خدمت سرانجام دی یعنی قرآن مجید کی معنوی حفاظت کا خوب اہتمام فرمایا۔ جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھ دی تھی حضرت خلیفہ اوّلؓ کے زمانے میں اسے منظم طریق پر جاری کیا گیااوربیعت لیتے وقت ہی فرمایا:

’’ابوبکرؓ کے زمانہ میں صحابہؓ کوبہت سی مساعی جمیلہ کرنی پڑیں سب سے پہلا اہم کام جوکیا وہ ’’جمع قرآن‘‘ہے اب موجودہ صورت میں جمع یہ ہے کہ اس پر عملدر آمد کرنے کی طرف خاص توجہ ہو۔ ‘‘

(بدر2؍جون1908ء)

آپؓ نے زندگی بھر اس کام کی طرف غیر معمولی توجہ دی چنانچہ ایک مشہور غیر احمدی صحافی حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانے میں قادیان تشریف لائے اور انہوں نے اپنے دو دن کے قیام کے جو تأثرات بیان کیے ہیں ان سے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خدمت قرآن کا اندازہ ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں:

’’مولوی نور الدین صاحب جو بو جہ مرزا صاحب کے خلیفہ ہونے کے اس وقت احمدی جماعت کے مسلمہ پیشوا ہیں جہاں تک میں نے دو دن ان کی مجالس وعظ و درس قرآن شریف میں رہ کر ان کے متعلق غور کیا ہے مجھے وہ نہایت پاکیزہ اور محض خالصتاً ﷲ کے اصول پر نظر آیا کیونکہ مولوی صاحب کا طرز عمل قطعاً ریا اور منافقت سے پاک ہے اور ان کے آئینہ دل میں صداقت اسلام کا ایک ایسا زبردست جوش ہے جو معرفت توحید کے شفاف چشمے کی وضع میں قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر کے ذریعے ہر وقت ان کے بے ریا سینے سے ابل ابل کر تشنگان معرفت توحید کو فیضیاب کر رہا ہے اگر حقیقی اسلام قرآن مجید ہے تو قرآن مجید کی صادقانہ محبت جیسی کہ مولوی صاحب موصوف میں مَیں نے دیکھی ہے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ یہ نہیں کہ وہ تقلید ا ًایسا کرنے پر مجبور ہیں بلکہ وہ ایک زبردست فیلسوف انسان ہے اور نہایت ہی زبردست فلسفیانہ تنقید کے ذریعے قرآن مجید کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے کیونکہ جس قسم کی زبردست فلسفیانہ تفسیر قرآن مجید کی میں نے ان سے درس قرآن مجید کے موقع پر سنی ہے غالباً دنیا میں چند آدمی ایسا کرنے کی اہلیت اس وقت رکھتے ہوں گے۔ مجھے زیادہ تر حیرت اس بات کی ہوئی کہ ایک اسّی سالہ بوڑھا آدمی صبح سویرے سے لے کر شام تک جس طرح لگاتار سارا دن کام کرتا رہتا ہے وہ متحدہ طور پر آج کل کے تندرست قوی ہیکل دو تین نوجوانوں سے بھی ہونا مشکل ہے…‘‘

(بدر13؍مارچ1913ء)

7۔ …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بادیہ نشینان عرب نے یہ خیال کیا کہ وہ ہستی جس کی وجہ سے ہم چندہ و زکوٰۃ ادا کرتے تھے وہ تو اب دنیا میں نہیں رہی اس لیے اب زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی کی ضرورت نہیں۔ اس طرح آپؐ کی وفات کے بعد ہی اسلام کے ایک عظیم الشان رکن کے استخفاف کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ صورت حال اور بھی تشویشناک ہو گئی جبکہ حضرت اسامہؓ کا لشکر ملک شام کی سرحدوں کی حفاظت اور نصاریٰ کی غارت گری کی روک تھام کے لیے مرکز سے چلا گیا اور مرتدین نے مدینےکا محاصرہ کر لیا۔ مذکورہ بالا گروہ یعنی مانعین زکوٰۃ نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے اس فاسد خیال کو کھلے بندوں شائع کرنا شروع کر دیا۔

اسلامی غیرت و حمیت کے پُتلے حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک رکن کااستخفاف کسی قیمت پر برداشت کرنے کو تیا ر نہ تھے حالانکہ اس وقت بعض جلیل القدر صحابہ بھی فتنہ ارتداد کو دیکھ کر ان لوگوں سے نرمی کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتے تھے حتیٰ کہ حضرت عمر فاروقؓ جیسے غیور و بہادر نے بھی ان لوگوں سے نرمی اور ملاطفت کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن حضرت ابو بکرؓ عزم و استقلال کے پیکر ان مخالف حالات سے نہ گھبرائے اور ببانگ دہل اعلان فرمایاکہ میں ضرور ان سے جہاد کروں گا خواہ وہ ایک رسی کے برابر بھی خدا تعالیٰ کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کریں۔

ایک اور دوسری روایت ہےکہ

بخدا اگر یہ لوگ ایک رسی یاایک اونٹ بھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ آپ ان سے جنگ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تو یہ ہے کہ مجھے ان سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ توحید اور میری رسالت کے قائل ہو جائیں اور جو ایسا کرے اس کا مال و خون محفوظ ہے… حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا میں اس سے ضرورجنگ کروں گا۔

(تاریخ الخلفاء)

حضرت خلیفہ اولؓ نے بھی اپنے زمانہ خلافت میں زکوٰۃ کی تحصیل کی طرف اپنی توجہ مبذول فرمائی یہاں تک کہ بیعت لیتے وقت بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنے کاعہد لیا، اور یہ الفاظ عہد بیعت میں شامل کیے’’اور انتظام زکوٰۃ بہت احتیاط سے کروں گا‘‘نیز جب بعض نام نہاد احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دعاوی کا انکار اور بعض کا اقرار کرنا شروع کیا تو آپ نے نہایت سختی سے ان بحثوں کو روکا اور اعلیٰ و ارفع مقام کی تعیین کی یعنی آپ کو ظلی نبی قرار دیتے ہوئے آپ کے بعد اپنی خلافت پر آیت استخلاف چسپاں کی اور نظام خلافت سے برگشتگی کرنے والوں کو ’’فاسق‘‘کا خطاب دیا اور یہ بھی فرمایا کہ

’’یہ اعتراض کرنا کہ خلافت حقدار کو نہیں پہنچی یہ رافضیوں کاعقیدہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنا دیا جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے۔ فرشتے بن کر اطاعت فرماں برداری کرو ابلیس نہ بنو۔ ‘‘

(بدر4؍جولائی1912ء)

گویا کہ باوجود ذی اثر اور صاحب وجاہت لوگوں کی انتہائی کوشش کے کہ کسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کے مقام کو کم کیا جائے تاکہ آپ کے بعد خلافت جاری ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو اور مانعین زکوٰۃ کی طرح بعض دعاوی کو تو تسلیم کر لیا جائے اور بعض کاانکار کردیا جائے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے حضرت ابو بکرؓ جیسے عزم واستقلال کا مظا ہرہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی ہر کوشش و تدبیر کو سختی سے کچل کر رکھ دیا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحیح مقام کو متعین اور ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کر دیا کہ آپ کے بعد آپ کی جانشین انجمن یا سوسائٹی نہیں بلکہ خلیفہ ہے۔

8۔ …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں شاہان عجم کو تبلیغ اسلام کے لیے خطوط لکھ کر تخم ریزی تو کر دی تھی لیکن اسلام کی باقاعدہ تبلیغ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں سرزمین عرب سے باہر ممالک روم و فارس میں شروع ہوئی۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلا م کے زمانے میں بھی خطوط و اشتہارات کے ذریعہ ممالک غیر میں پیغام احمدیت تو پہنچا لیکن باقاعدہ مشن حضرت خلیفہ اوّلؓ کے زمانے میں شروع ہوا اور عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں عیسائی ملک کی طرف دعوت اسلام پہنچی حضرت خلیفہ اوّلؓ نے بھی سب سے پہلے ایک عیسائی ملک یعنی برطانیہ کی طرف توجہ کی اور ابتداءً 7؍ستمبر1912ءکوخوا جہ کمال الدین صاحب لندن گئے اور 28؍جون1913ء کو مکرم چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ باقاعدہ مبلغ کے طور پر لندن تشریف لے گئے اور اس طرح اشا عت قرآن و احمدیت کا عظیم کام بیرون ہند حضرت خلیفہ اوّلؓ کے عہد سعادت مہد میں شروع ہوا۔

9۔ …حضرت ابو بکرؓ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور محبوب بندوں کی طرح عبادات نہایت خشوع و خضوع سے ادا فرماتے تھے خصوصاًآپ کی مؤثر و کیف آور تلاوتِ قرآن مجیدتو بہت مشہور ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ

’’مُرُوْا اَبَابَکْر فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ‘‘

(ابو بکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں )تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا حضور وہ کثرت گریہ و رقت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔

رئیس مکہ ابن الدغنہ نے جب آپ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے سے روکا اور گھر میں ہی عبادت وغیرہ کرنے کو کہا تو آپؓ نے گھر ہی میں ایک جگہ کو عبادت کے لیے مخصوص کر لیا چنانچہ روایت ہے کہ

حضرت ابو بکرؓ اپنے صحن میں ہی نماز ادا کرنے اور تلاوت کرنے لگے۔ آپ بہت رقیق القلب اور خشیت اللہ سے رونے والے تھے۔ مشرکین کی عورتیں اور بچے اس سے متاثر ہوتے تھے اس پر قریش نے ابن الدغنہ سے شکایت کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے خدا کی تائید پر توکل کرتے ہوئے ابن الدغنہ کی حفاظت واپس کردی۔

(تاریخ الاسلام صفحہ35)

حضرت خلیفہ اوّلؓ بھی جن کے رگ رگ میں قرآن مجید کی محبت سمائی ہوئی تھی جب تلاوت کرتے تو عجب سماں بندھ جاتا اور سننے والے ایک خاص کیفیت محسوس کرتے۔ چنانچہ آپؓ کی تلاوت کے مؤثر و وجد آفریں ہونے کا درج ذیل ایمان افروز واقعہ قابل ذکر ہے۔

’’…..ایک دفعہ میں نے ان سے کہا آؤ ہم تمہیں قرآن سنائیں وہ سب ہندو تھے ایک شخص جس کا نام رتی رام تھا اور وہ خزانہ کا افسر تھا اور افسر خزانہ کا بیٹا بھی تھا اس نے عام مجلس میں کہا دیکھو ان کو قرآن شریف سنانے سے روکو ورنہ میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ قرآن شریف بڑی دل ربا کتاب ہے اور اس کا مقابلہ ہر گز نہیں ہو سکتا اور نور الدین کے سنانے کا انداز بھی بہت ہی دلفریب اور دلربا ہے۔ ‘‘

(مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین صفحہ 135)

مذکورہ بالاواقعات سے حضرت ابو بکرؓ اورحضرت مولانا نور الدین صاحبؓ کی تلاوت عبادات، میں خشوع و خضوع اور انقطاع الیٰ اللہ میں کمال یکسانیت اور مطابقت نظر آتی ہے۔

10۔ …حضرت ابوبکرؓ اپنی دینی خدمات، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال عقیدت و محبت، انفاق جان و مال اور دیگر قربانیوں کی وجہ سے قوم میں نمایاں اور امتیازی شان رکھتے تھے اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَبُوْ بَکْر خَیْرُ النَّاسِ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنُ نَبِیّ۔

یعنی ابوبکرؓ بہترین انسان ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی آ جائے۔

(طبرانی بحوالہ تاریخ الخلفاء)

نیز فرمایا:

ان روح القدس جبرئیل اخبرنی ان خیر امتک بعدک ابو بکر۔

یعنی روح القدس جبریل نے مجھے بتایا کہ تمہارے بعد امت کا بہترین فرد ابو بکرؓ ہے۔

(الاوسط بحوالہ تاریخ الخلفاء)

یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات پر مسند خلافت کے لیے آپؓ کو موزوں ترین سمجھا۔ علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

’’مسلمانوں نے اس امر پر اجماع کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکرؓ بہترین و افضل ہیں۔ ‘‘

(تاریخ الخلفاء صفحہ34)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابہ کرامؓ میں سے سب سے افضل و بہتر حضرت خلیفہ اوّلؓ کو سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم نے بالاتفاق آپؓ کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جانشینی جیسے منصبِ جلیلہ کے لیے منتخب کر کے اس بات پر اجماع کیا کہ اس وقت جماعت بھر میں سب سے افضل و بہترین شخص اپنی دینی خدمات، انفاق جان و مال فی سبیل اللہ کی وجہ سے حضرت مولانا نور الدین اعظمؓ ہیں۔ نیز بیعت کے لیے جو درخواست خلیفہ اول کے سامنے پیش کی گئی اس میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی ہے’’مطابق فرمان حضرت مسیح موعودؑ مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتقیٰ ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجودکو حضرت امام اسوہ حسنہ قرار دے چکے ہیں ……‘‘

(بدر 2؍جون1908ء)

11۔ …حضرت ابو بکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے تمام جاری کردہ کاموں کو بدستور جاری رکھا چنانچہ’’جیش اسامہ‘‘کو مخالف حالات کے باوجود سرحدات شام کی طرف بھجوادیا اور فرمایاکہ وہ کام جس کا آغاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہےمَیں اسے کسی صورت میں بھی بند نہیں کر سکتا اس کے علاوہ آپ نے عام اعلان کروا دیاکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو اور اس کو کسی وجہ سے ایفا نہ کر سکے ہوں تو میں وہ وعدہ ایفا کروں گا چنانچہ روایت ہے کہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابرؓ سے فرمایا کہ اگر بحرین سے مال آیا تو میں تمہیں اتنا مال دوں گا۔ یہ مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نہ پہنچا۔ حضورؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اعلان فرمایا کہ اگر حضورؐ نے کسی سے کوئی وعدہ کیا تھا تو وہ بتا دے جس پر میں نے حضرت ابو بکرؓکو بتایا اور انہوں نے مجھے تین دفعہ مٹھی بھر کر مال دیا……‘‘

(بخاری کتاب الھبۃ)

حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے بھی حضرت مسیح موعودؑ کے جاری کردہ تمام کاموں کوبدستورجاری رکھا۔ چنانچہ’’پیغام صلح‘‘(جس کی اشاعت سے قبل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام وفات پا گئے تھے)کا اعلان آپؑ کی وفات کے بعد لاہور میں ایک کثیر مجمع کے سامنے کیا اور اس کی بکثرت اشاعت کی۔

نیز شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور سے حضرت مسیح موعودؑ نے وعدہ کیا ہوا تھا کہ ان کی کوٹھی کا سنگ بنیاد اپنے دستِ مبارک سے رکھیں گے لیکن کوٹھی کی بنیاد رکھنے سے قبل آپؑ اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے تو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے باوجود اس پالیسی پر کار بند ہونے کے کہ ہمیشہ مرکز میں ہی قیام رکھیں گے محض اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے لاہور تشریف لے گئے اور شیخ صاحب مذکور کی کوٹھی کا سنگِ بنیاد رکھا اور اس کے بعد یہ اظہار بھی فرمایا کہ یہ کام آپ نے محض حضرت مسیح موعودؑ کا وعدہ پوراکرنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ چنانچہ آپ نے اس تقریب کے خاتمے پر حضرت عرفانی صاحبؓ ایڈیٹر الحکم کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’شیخ صاحب کو کہہ دو کہ ہم آپ کے کام سے فارغ ہو چکے اور حضرت صاحب کے وعدہ کو خدا کے فضل سے پورا کر چکے اب ہم آزاد ہیں خواہ صبح کو چلے جائیں یا شام کو۔ ‘‘

(الحکم 14؍جولائی 1912ء)

12۔ …حضرت ابو بکرؓ اپنی گوناگوں خوبیوں اور صفات حسنہ نیز اسلام کی بیش بہا خدمات کی وجہ سے جن کا معمولی سا ذکر ضمناً مندرجہ بالا واقعات میں آیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے تمام متبعین (جن میں ایک سےایک بڑھ کر جان نثار تھا)میں سے سب سے زیادہ پیارے اور محبوب تھے۔ چنانچہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ

’’ابوبکر کی رفاقت اور مال سے مجھے سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو وہ ابو بکر ہی ہے۔ ‘‘

(ترمذی کتاب المناقب)

اب دیکھتے ہیں کہ حضرت صاحبؑ کو کون سا مرید سب سے پیارا ہے۔ ایک دفعہ حضرت اماں جانؓ اور بعض دوسری خواتین میں یہ بات ہوئی کہ بھلا حضرت اقدسؑ کو سب متبعین میں سے زیادہ کون محبوب ہے۔ اس پر حضرت اماں جانؓ نے فرمایا کہ میں حضورؑ سے کچھ بات کروں گی جس سے اس بات کا پتہ چل جائے گا۔ حضرت اماں جانؓ، حضرت اقدسؑ کے پاس کمرے میں تشریف لے گئیں اور حضورؑ کو مخاطب کر کے فرمانے لگیں کہ’’آپ کے جو سب سے زیادہ پیارے مرید ہیں وہ…‘‘اتنا فقرہ کہہ کر حضرت اماں جانؓ چپ ہو گئیں اس پر حضرت اقدسؑ نے نہایت گھبرا کر پوچھا’’مولوی نورالدین صاحب کو کیا ہوا جلدی بتاؤ۔ ‘‘اس پر حضرت اماں جانؓ ہنسنے لگیں اور فرمایا:

’’آپ گھبرائیں نہیں مولوی نور الدین صاحب اچھی طرح ہیں میں تو آپ کے منہ سے یہ بات کہلوانا چاہتی تھی کہ آپ کے سب سے پیارے مرید کون سے ہیں …۔ ‘‘

(لطائف صادق صفحہ12-13)

یہ بارہ مشابہتیں محض سرسری اور موٹی موٹی مثالیں ہیں ورنہ بنظر غور مطالعہ کرنے سے ان دو عظیم الشان ہستیوں کی زندگیوں میں ایک گہرا اور مسلسل اشتراک ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں بزرگوں کو ایک ہی عظیم الشان کام کے لیے پیدا کیا تھا یعنی حضرت ابو بکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر قوم کو سہارا دے کر مسلسل ترقی و رفعت کی طرف گامزن کرنا تھا اور حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحبؓ نے بھی حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد یعنی مظہرِ قدرت اوّل کے بعد ’’دائمی وعدہ‘‘ کی پہلی کڑی اور ’’قدرت ثانیہ ‘‘کا مظہر اول بن کر احمدیت میں نظام خلافت کو مستحکم کرنا تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button