معاشرے کی بد رسومات
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 15؍جنوری 2010ء میں فرمایا:
مَیں نے خوشی اور غمی کاجو ذکر کیا ہے تو خوشیوں میں ایک خوشی جو بہت بڑی خوشی سمجھی جاتی ہے وہ شادی کی خوشی ہے اور یہ فرض ہے۔ جب بعض صحابہ نے یہ کہا کہ ہم خداتعالیٰ کی عبادت کی خاطر اپنی زندگیاں تجرد میں گزاریں گے، شادی نہیں کریں گے تو آنحضرتﷺ نے اسے بُرا منایا اور فرمایا کہ نیکی وہی ہے جو میری سنت پرعمل کرتے ہوئے اور تعلیم کے مطابق کی جائے۔ اور مَیں نے تو شادیاں بھی کی ہیں۔ رو زے بھی رکھتا ہوں۔ عبادات بھی کرتا ہوں۔
(بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی ا لنکاح حدیث نمبر 5063)
اور آپؐ کی عبادات کا جو معیار ہے وہ تو تصور سے بھی باہر ہے۔ پس یہ مسلمانوں کے لئے ایک فرض ہے کہ اگر کوئی روک نہ ہو، کوئی امر مانع نہ ہو تو ضرور شادی کرے۔ لیکن ان میں بعض رسمیں خاص طور پر پاکستانی اور ہندوستانی معاشرہ میں راہ پا گئی ہیں جن کا اسلام کی تعلیم سے کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
اب بعض رسوم کو ادا کرنے کے لئے اس حد تک خرچ کئے جاتے ہیں کہ جس معاشرہ میں ان رسوم کی ادائیگی بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہے وہاں یہ تصور قائم ہو گیا ہے کہ شاید یہ بھی شادی کے فرائض میں داخل ہے اور اس کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی۔
مہندی کی ایک رسم ہے۔ اس کو بھی شادی جتنی اہمیت دی جانے لگی ہے۔ اس پر دعوتیں ہوتی ہیں۔ کارڈ چھپوائے جاتے ہیں۔ سٹیج سجائے جاتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ کئی دن دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور شادی سے پہلے ہی جاری ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ کئی ہفتہ پہلے جاری ہو جاتا ہے۔ اور ہر دن نیا سٹیج بھی سج رہا ہوتا ہے اورپھر اس بات پر بھی تبصرے ہوتے ہیں کہ آج اتنے کھانے پکے اور آج اتنے کھانے پکے۔ یہ سب رسومات ہیں جنہوں نے وسعت نہ رکھنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اورایسے لوگ پھر قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ غیراحمدی تو یہ کرتے ہی تھے اب بعض احمدی گھرانوں میں بھی بہت بڑھ بڑھ کر ان لغو اور بیہودہ رسومات پر عمل ہو رہا ہے یا بعض خاندان اس میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ زمانہ کے امام کی بات مان کر رسومات سے بچتے۔ معاشرہ کے پیچھے چل کر ان رسومات میں جکڑتے چلے جا رہے ہیں۔
چند ماہ پہلے مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مہندی کی رسم پر ضرورت سے زیادہ خرچ اور بڑی بڑی دعوتوں سے ہمیں رکنا چاہئے۔ تو اس دن یہاں لندن میں بھی ایک احمدی گھر میں مہندی کی دعوت تھی۔ جب انہوں نے میرا خطبہ سنا تو انہوں نے دعوت کینسل (Cancel) کر دی اور لڑکی کی چند سہیلیوں کو بلا کرکھانا کھلا دیا اور باقی جو کھانا پکا ہوا تھا وہ یہاں بیت الفتوح میں ایک فنکشن (Function) تھا اس میں بھیج دیا۔ تو یہ ہیں وہ احمدی جو توجہ دلانے پر فوری ردّ عمل دکھاتے ہیں اور پھر معذرت کے خط بھی لکھتے ہیں۔
لیکن مجھے بعض شکایات پاکستان سے اور ربوہ سے بھی ملی ہیں۔ بعض لوگ ضرورت سے زیادہ اب ان رسموں میں پڑنے لگ گئے ہیں اور ربوہ کیونکہ چھوٹا سا شہر ہے اس لئے ساری باتیں فوری طور پر وہاں نظر بھی آ جاتی ہیں۔ اس لئے اب مَیں کھل کر کہہ رہا ہوں کہ ان بیہودہ رسوم و رواج کے پیچھے نہ چلیں اور اسے بند کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ
’’ہماری قوم میں یہ بھی ایک بدرسم ہے کہ شادیوں میں صد ہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 70)
آج سے سو سال پہلے یا اس سے زیادہ پہلے اس زمانے میں تو صدہا روپیہ کا خرچ بھی بہت بڑا خرچ تھا۔ لیکن آج کل تو صد ہا کیا لاکھوں کا خرچ ہوتا ہے اور اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ ہوتا ہے۔ جو شاید اس زمانے کے صدہا روپوں سے بھی اب زیادہ ہونے لگ گیا ہے۔ بلکہ یہ بھی فرمایا کہ آتش بازی وغیرہ بھی حرام ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 49جدید ایڈیشن)
شادیوں پر آتش بازی کی جاتی ہے۔ اب لوگ اپنے گھروں میں چراغاں بھی شادیوں پر کرتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ کر لیتے ہیں۔ ایک طرف تو پاکستان میں ہر طرف یہ شور پڑا ہوا ہے ہر آنے والا یہی بتاتا ہے، اخباروں میں بھی یہی آ رہا ہے کہ بجلی کی کمی ہے۔ کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔ اور دوسری طرف بعض گھر ضرورت سے زیادہ اسراف کرکے نہ صرف ملک کے لئے نقصان کا باعث بن رہے ہیں بلکہ گناہ بھی مول لے رہے ہیں۔ اس لئے پاکستان میں عموماً احمدی اس بات کی احتیاط کریں کہ فضول خرچی نہ ہو اور ربوہ میں خاص طور پر اس بات کا لحاظ رکھا جائے۔ اور ربوہ میں یہ صدر عمومی کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں کہ شادیوں پر بے جا اسراف اور دکھاوا اور اپنی شان اور پیسے کا جواظہار ہے وہ نہیں ہونا چاہئے۔ جماعت پراللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ غمی کے موقعوں پر جو رسوم ہیں ان سے تو بچے ہوئے ہیں۔ ساتواں دسواں، چالیسواں، یہ غیر احمدیوں کی رسمیں ہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔ جو بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ یہی ہوتا ہے کہ یہ رسمیں گھر والوں پربوجھ بن رہی ہوتی ہیں۔ لیکن اگرمعاشرے کے زیر اثر ایک قسم کی بدرسومات میں مبتلا ہوئے تو دوسری قسم کی رسومات بھی راہ پا سکتی ہیں اور پھر اس قسم کی باتیں یہاں بھی شروع ہو جائیں گی۔
٭…٭…٭