احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
ابتدائی ملاقات ہی سے آپ کے دل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تقویٰ شعاری، عبادت اور ریاضت اور گوشہ گزینی نقش ہوگئی
حضرت میرناصرنواب صاحبؓ کی قادیان آمد
ہندوستان کے معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ میردردرحمۃ اللہ علیہ جوکہ دہلی کے ایک معروف سندی سیدخاندان سے تعلق رکھتے تھے کہ جن کی سیادت روشن ستاروں کی طرح چمکتی تھی۔ ان کے نبیرہ اور گدی نشین حضرت میرناصرنواب صاحبؓ جوکہ محکمہ انہارمیں اوورسیئر کے عہدہ پرفائزتھے۔ پنجاب میں ان دنوں میں نہری نظام کا آغاز ہورہاتھا۔ اور آپ امرتسرسے منتقل ہوکرقادیان کے نزدیک موضع تتلہمیں قیام پذیر تھے۔ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے خاندان میں سب سے پہلے حضور کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم سے تعارف ہوا۔ ایک دفعہ حضرت میر صاحب کی زوجہ محترمہ کی طبیعت علیل ہوگئی تو مرزا غلام قادر صاحب نے انہیں اپنے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب سے طبی مشورہ کے لیے قادیان جانے کی تحریک کی۔ چنانچہ حضرت میر صاحب پہلی مرتبہ قادیان آئے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے حرم محترم کی روایت ہے کہ مجھے ڈولے میں بٹھاکر قادیان لائے۔ جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں مرزا غلام قادر صاحب مجلس لگائے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے اور ایک نیچے کی کوٹھری میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے قرآن شریف پڑھ رہے تھے۔ میں نے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے۔ اوپر کی منزل میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب تھے۔ انہوں نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا۔ اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دہلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔ انہوں نے حضرت میر صاحب ؓکو قادیان میں اور ٹھہرنے کے لیے کہا مگر ہم نہیں ٹھہر سکے۔ کیونکہ ( ام المومنین ) نصرت جہاں بیگم کو اکیلا چھوڑ آئے تھے۔
حضرت میر صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قادیان میں یہ پہلی آمد تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے تعلقات کا آغاز غالباً اگلے سال ہوا۔ جبکہ حضرت میرصاحب کے اہل و عیال قادیان میں رہائش پذیر ہوئے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بیان کے مطابق یہ وہ زمانہ تھا جبکہ حضرت اقدس ’’براہین احمدیہ‘‘ لکھ رہے تھے۔
سیرت المہدی میں ایک تفصیلی روایت میں قادیان میں اس تشریف آوری کے بارہ میں ذکرہے جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمہارے نانا جان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیان سے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر سے گذرتی ہے تو اس وقت تمہارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے ان دنوں میں مَیں کچھ بیمار ہوئی تو تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ میرے والدصاحب بہت ماہر طبیب ہیں۔ آپ ان سے علاج کرائیں چنانچہ تمہارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے۔ جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمہارے تایا مجلس لگا ئے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے آس پاس بیٹھے تھے اور ایک نیچے کی کوٹھری میں تمہارے ابا (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمہارے دادا صاحب تھے۔ تمہارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دہلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔ اس کے بعد میں جب دوسری دفعہ قادیان آئی تو تمہارے دادا فوت ہوچکے تھے اورا ن کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جارہی تھی۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھا نا وغیرہ آیا تھا۔ اس دفعہ تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تتلہ (قادیان کے قریب ایک گاؤں ہے) میں رہتے ہیں جہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہو گی اور وہ گاؤں بھی بدمعاش لوگوں کا گاؤں ہے۔ بہتر ہے کہ آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں میں گورداسپور رہتا ہوں اور غلام احمدؐ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) بھی گھر میں بہت کم آتا ہے اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہیں ہو گی۔ چنانچہ میر صاحب نے مان لیا۔ اور ہم یہاں آکر رہنے لگے ان دنوں میں جب بھی تمہارے تایا گورداسپورسے قادیان آتے تھے۔ تو ہمارے لئے پان لایا کرتے تھے۔ اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا ساکھاناوغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کیلئے تیار کئے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں میں ان کے چھوٹے بھائی کو بھجوا دیتی ہوں۔ چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابّا کو کباب بھجوا دیئے اور نائن نے مجھے آکر کہا کہ وہ بہت ہی شکر گذار ہوئے تھے۔ اور انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انہوں نے اپنے گھر سے آیا ہوا کھانا نہیں کھایا اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے [روز]ان کو کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی تھی۔ اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے۔ لیکن جب اس بات کی اطلاع تمہاری تائی کو ہوئی تو انہوں نے بہت برا منایا کہ کیوں ان کو کھانا بھیجتی ہوں۔ کیونکہ وہ اس زمانہ میں تمہارے ابا کی سخت مخالف تھیں اور چونکہ گھر کا سارا انتظام اُن کے ہاتھ میں تھا وہ ہر بات میں انہیں تکلیف پہنچاتی تھیں مگر تمہارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو بر داشت کرتے تھے۔ ان دنوں میں گو میر صاحب کا زیادہ تعلق تمہارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آکر کہتے تھے کہ مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی آدمی ہے۔ ‘‘
( سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر441)
حضرت میر صاحب کے زیادہ مراسم گو آپ کے بڑے بھائی سے تھے لیکن ابتدائی ملاقات ہی سے آپ کے دل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تقویٰ شعاری، عبادت اور ریاضت اور گوشہ گزینی نقش ہوگئی جس کا کبھی کبھی گھر میں اظہار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’’مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی ہے۔ ‘‘چند ماہ بعد ان کی تبدیلی قادیان سے لاہور میں ہوگئی تو وہ چند روز کے لیے اپنے اہل خانہ کو حضور کے مشورہ کے احترام میں بے تامل آپ ہی کے ہاں چھوڑ گئے اور جب وہاں مکان کا بندوبست ہوگیا تو پھر انہیں لے گئے۔
حضرت میرناصرنواب صاحبؓ کا پہلی مرتبہ قادیان میں آنے کاسن کونساہوگا۔ ابھی تک تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں مل سکا۔ البتہ جب دوسری مرتبہ وہ قادیان تشریف لائے تو حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ہوچکی تھی لہٰذااس سے سن کومتعین کرتے ہوئے یہ بیان ہوتاہےکہ پہلی بارآمد1875ء ہوگی کیونکہ حضرت مرزاصاحب کی وفات 1876ء میں ہوئی تھی۔ لیکن اگروفات کایہ سن 1872ء قرارپائے [جیساکہ خاکسارکی رائے میں یکم جون 72ء بنتی ہے۔ ]تو حضر ت میرناصرنواب صاحبؓ کی قادیان پہلی بار آمد1871ء سمجھی جائے گی۔ مختصراً یہ کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی وفات سے قبل حضرت میر صاحب قادیان پہلی بارتشریف لائے۔ اوردوسری بار جب تشریف لائے تو حضرت اماں جانؓ بھی ساتھ تھیں۔ اور پھرتھوڑے ہی عرصہ بعدیہ خاندان عارضی طور پرقادیان ہی منتقل ہوجاتاہے۔ اور ایک ننھی معصوم سی بچی تتلیوں کی طرح گھرکے اس آنگن میں پھرتی رہتی ہوگی کہ جسے 1884ء میں خدیجہ کے خدائی جھومرکوسرپہ سجائےاسی گھرمیں مسیح موعودؑ کی دلہن بن کرآناتھاکہ جس شادی کی خبرآنحضرتﷺ نے خداسے خبرپاکریوں دی تھی کہ
یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ
اس گھرانے کے عارضی طورپرقادیان منتقل ہونے کے متعلق سیرت المہدی کی ایک روایت یہ ہے:
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میں چھوٹی لڑکی تھی تو میر صاحب (یعنی خاکسار کے نانا جان ) کی تبدیلی ایک دفعہ یہاں قادیان بھی ہوئی تھی اور ہم یہاں چھ سات ماہ ٹھہرے تھے۔ پھر یہاں سے دوسری جگہ میر صاحب کی تبدیلی ہوئی تو وہ تمہارے تایا سے بات کر کے ہم کو تمہارے تایا کے مکان میں چھوڑگئے تھے اور پھر ایک مہینہ کے بعد آکر لے گئے۔ اس وقت تمہارےتایا قادیان سے باہر رہتے تھے اور آٹھ روز کے بعد یہاں آیا کرتے تھے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ان کو دیکھا ہے۔ خاکسارنے پوچھا کہ حضرت صاحب کو بھی ان دنوں میں آپ نے کبھی دیکھا تھا یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب رہتے تو اسی مکان میں تھے مگر میں نے آپ کو نہیں دیکھااور والدہ صاحبہ نے مجھے وہ کمرہ دکھایا جس میں ان دنوں میں حضرت صاحب رہتے تھے۔ آجکل وہ کمرہ مرزا سلطا ن احمدصاحب کے قبضہ میں ہے۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت صاحب ابتداسے ہی گوشہ نشین تھے۔ اس لئے والدہ صاحبہ کو دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا ہوگا۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ یہ کب کی بات ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا مجھے تاریخ تو یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ جب ہم یہاں قادیان آئے تھے تو ان دنوں میں تمہارے دادا کی وفات کی ایک سالہ رسم ادا ہوئی تھی۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 68)
(باقی آئندہ)