کلام ہمارا …مطلب تمہارا؟
(مخالفین کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات سے اپنی مرضی کے مطلب اخذ کرنا ان کے اپنے نزدیک کیسا ہے؟)
غیراحمدی مخالفین جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیے گئے قرآن و سنت کے ترجمہ و تشریح کو ماننے سے تو انکار کرتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ان میں قطع و برید کرتے ہوئے ان سے وہ مطالب اخذ کرتے ہیں جو حضور علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں کے ذہن میں دور دور تک بھی نہیں ہوتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ علماء ایک دوسرےکے اکابرین کی تحریرات کے ساتھ بھی یہی ظُلم کرتے ہیں اور پھر دہائیاں دیتے اور واویلا کرتے ہیں کہ ہمارے اکابرین کا ان تحریرات سے وہ مطلب نہیں تھا جو اخذ کرکے اُن پر کفر کے فتوے لگائے گئے ہیں۔ اور یہ کہ آپ نے ایسی عبارات پیش کرنے اور ان سے غلط مطلب نکالنے سے پہلے ہم سے کیوں نہیں پوچھا، ہم سے وضاحت کیوں نہیں طلب کی۔ اس نوعیت کے بہت سے حوالہ جات موجود ہیں جو علماء نے اپنی مختلف کتب میں لکھے ہیں۔ لیکن ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘یعنی بھنڈار میں سے ایک مٹھی بطور نمونہ کے مطابق علماء کی چند عبارات پیش کی جارہی ہیں۔
’’ایک غیرجانبدار شخص جب اس عبارت سے گزرتا ہے تو اس کے ذہن میں چند سوال ضرور ابھرتے ہیں۔ وہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ مولانا احمد رضا خان نے علماء دیوبند کی عبارات میں اگر کوئی غلطی دیکھی تھی تو پہلے خود ان علماء سے ہی استفسار کیوں نہ کیا؟ ان سے وضاحت کیوں نہ پوچھی؟‘‘
(شاہ اسمٰعیل محدث دہلوی۔ تالیف پروفیسر علامہ خالد محمود، صفحہ20)
’’مولانا عبدالستار صاحب نیازی نے بھی اتحاد کا ایک فارمولا پیش کیا تھا اس میں انہوں نے صریح طور پر لکھا تھا کہ علمائے دیوبند کی عبارات کا وہی مطلب مراد لیا جائے جو انہوں نے اپنے عقائد کی وضاحت میں
المھنّد علی المفنّد
میں لکھ دیا ہے۔ اس بات کا حاصل اس کے سوا کیا ہے کہ ان عبارات کا جو مطلب مولانا احمد رضا خان نے حسام الحرمین میں لکھا اسے چھوڑ دینا چاہئے۔ اور تصنیف را مصنف نیکو کند بیان کے اصول کے مطابق علماء دیوبند کی عبارات کا وہی مطلب مراد لیں جس کی خود انہوں نے المھند میں وضاحت کردی ہے۔ یہ بات کسی طرح لائقِ قبول نہیں کہ عبارت کسی کی ہو اور اس کا مطلب کوئی دوسرا شخص بیان کرے خصوصًا جب کہ مصنف خود اپنی مراد واضح کرچکا ہو۔‘‘
(شاہ اسمٰعیل محدث دہلوی۔ تالیف پروفیسر علامہ خالد محمود، صفحہ 147)
’’(۱) یہ امر معقول اور مسلّم ہے کہ کسی کے کلام یا تحریر کا وہی مطلب معتبر ہوگا جو متکلم یا محرر خود بیان کرے۔ (۲) متکلم یا محرر نے خود کوئی وضاحت نہیں کی تو اس کے کلام یا تحریر کا مفہوم وہ لیا جائے گا جو اس کے خواص و مقربین بیان کریں کیونکہ اغیار کی بنسبت احباب و اقارب مراد متکلم سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔‘‘
(فیصلہ ہفت مسئلہ کی وضاحت۔ مصنف مفتی رشید احمد صاحب، صفحہ3)
’’کشف اسے کہتے ہیں کہ کوئی پیرایہ آنکھوں سے دکھلایا جس کی مراد کشف والا خود نکالے۔‘‘
(ملفوظات انور شاہ کشمیری، صفحہ66)
’’بہرحال اختلاف صرف اس عبارت کے مطلب میں ہے۔ اور دنیا بھر کے عقل مندوں کا مسلّمہ اصول ہے کہ مصنف ہی اپنی تصنیف کا مطلب سب سے زیادہ صحیح سمجھ سکتا ہے۔ غالب کے اشعار کا جو مطلب خود غالب نے سمجھا دوسرے لوگ یقیناًایسا نہیں سمجھ سکتے۔ تصنیف را مصنف نیکو کند بیاں۔‘‘
(فتوحات نعمانیہ۔ مصنف محمد منظور نعمانی، صفحہ 607)
بابا بلھے شاہؒ کے ایک شعر پر وہابی علماء کی تنقید کا جواب دیتے ہوئےایک بریلوی عالم لکھتے ہیں:
’’اشعار میں تخیل کو کافی حد تک دخل ہوتا ہے اس لیے صاحب کلام ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی مراد کیا ہے لہٰذا کسی دوسرے شخص کو خوامخواہ تنقید نہیں کرنی چاہئے۔‘‘
(الدلائل القاطعہ فی رد مجلۃ الدعوۃ للوہابیہ۔ محمد محبت علی قادری۔ صفحہ297)
ایک اور بریلوی عالم لکھتے ہیں:
’’ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری کا ارشاد شرح فقہ اکبر میں سن چکے
و فی المسئلۃ المذکور تصریح بانہ یقبل من صاحبھا التاویل۔
مسئلہ تکفیر میں صاحب کلام کی ہر تاویل مقبول ہوگی۔ اسی وجہ سے ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کلام ہو اس سے اس کا مطلب معلوم کرنا چاہئے اگر وہ اس کے ایسے معنی بیان کرے جو شریعت کے موافق ہوں تو تکفیر نہ کی جائے۔‘‘
(انکشافِ حق، مفتی خلیل احمد خان قادری، صفحہ92تا93)
لیکن یہی علماء ایک دوسرےکے خلاف آسمان سر پر اُٹھاتے اور احتجاج کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ وہ یہی حرکتیں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، خلفائے احمدیت اور دیگر بزرگان کی تحریرات کے ساتھ کرتے ہیں اور احمدیہ مسلم جماعت سے وضاحت طلب نہیں کرتے کہ کیا آپ کا ان عبارات سے وہی مطلب ہے جو وہ سمجھ رہے ہیں اور اس بنا پر کفر کا فتویٰ لگارہے ہیں یا پھر اس کا کوئی اور مطلب ہے۔ یعنی ’’جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا‘‘
(مرسلہ: انصر رضا۔ واقفِ زندگی۔ کینیڈا)