اطاعت رسول کے ثمرات
ایک مصنف کےمطابق دہریہ کہتا ہے کہ دنیا میں مختلف سماجی اور معاشرتی طبقات موجود ہیں۔امیر اور غریب کی تفریق، آقا و خادم کا امتیاز، اعلیٰ و ادنیٰ میں تمیز، بادشاہ اور فقیر میں فرق، صحت مند اور مریض، حاکم و محکوم۔یہ تفریق بتا رہی ہے کہ اس نظام کو چلانے والی کوئی بالارادہ ہستی یعنی اللہ تعالیٰ موجود نہیں ہے ورنہ تفریق روا نہ رکھی جاتی اور مساوات ہوتی۔ لیکن جو چیز اس دہریہ اور لامذہب کے نزدیک ہستی باری تعالیٰ کے خلاف ہے وہی تفریق بتا رہی ہے کہ واقعی اس نظامِ عالم کو قائم کرنے والی ایک ہستی ہے۔جو بالارادہ ہے اور جو ان رموز سے خوب آگاہ ہے جو اس نظام کو چلانے کے لیے درکار ہیں۔ذرا سی سوچ بچار بھی انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ آیا یہ نظام عالم ایسی تفریق کی عدم موجودگی میں چند لمحوں کے لیے بھی چل سکتا ہے۔کیا جب تک ادنیٰ کے اعلیٰ پر قربان ہونے کا دستور نہ ہو، یہ کشتی کنارے لگ سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ سب ایک جیسے مالدار ہوجائیں اور پھر وہ ایک دوسرے کی ضروریاتِ زندگی کو ادا کرسکیں۔ کیا یہ فطرتِ صحیحہ کے خلاف نہیں ہے کہ دنیا میں سب ہی حاکم ہوتے اور کوئی محکوم نہ ہوتا۔ سب ہی بادشاہ ہوتے اور کوئی فقیر نہ ہوتا۔اور یہ نظامِ عالم اسی طرح استواری سے چلتا رہتا۔
قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہی جذبہ مسابقت ہے جس نے قوموں کو بامِ عروج تک پہنچایا۔یہی وہ گوہرِ تابدار ہے جس کے ہوتے ہوئے قوموں نے ان افراد کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی جن قدموں پر چل کر پہلی اقوام کامیاب و کامران ہوئیں۔یہی تفریقِ مراتب انسان کو اطاعت اور متابعت کی طرف مائل کرنے کا موجب ہوئی، تا کمزور اور ناقص انسان ان لوگوں کے نقشِ قدم پر چلےجو زندگی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے۔اور یہ اطاعت کا جذبہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک انسان کے دل کا ذرّہ ذرّہ یہ نہ پکار رہا ہو اور اس کی عقلِ سلیم یہ گواہی نہ دے رہی ہوکہ وہ اپنے ہمعصروں سے ناقص ہے، اسے کامل بننا چاہیےاوروہ پیچھے ہے اُسے آگے بڑھنا چاہیے۔ جب انسان اپنی یہ کمزوری ، خامی اور نقص محسوس کرے گا، تب وہ اس جمود کو توڑے گا اور اس کی زندگی میں ایک انقلاب آئے گا اورتب وہ اپنے ساتھیوں اور ہمعصروں سے آگے بڑھنے کی کوشش میں مشغول ہوگا،وہ تگ و دو اور جدوجہد کرے گا۔ لیکن اس جدوجہد اور تگ و دو کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سامنے ایک نصب العین ہو، ایک اعلیٰ مقام ہو، ایک ایسی ہستی کی اطاعت کی خواہش ہو جو اسےکامیابی کی راہ پرگامزن کردے۔ تو وہ غور کرے گا اورتلاش کرے گا اُن راہوں کو جن پر چل کر اس سے سبقت لے جانے والا وجود کامیاب ہوا ،اور پھروہ تابعداری اور اطاعت کرے گا اس طریق کی جس سے وہ بھی اس مقام کو حاصل کرے گا اور انہی راستوں پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا جن راستوں پر کامیاب ہونے والے چلے اور وہ کامل اطاعت کرے گا ان احکام اور وجودوں کی جو اس کو منزلِ مقصود تک لے جانے کا راستہ بتائیں گے اور اسی اصل کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اشارہ فرمایاہے۔
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا۔(النساء:70)
ترجمہ:اور جو بھی اللہ کی اور اس رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے (یعنی)نبیوں میں سے،صدیقوں میں سے ،شہیدوں میں سے اور صالحین میں سےاور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔
اس آیت میں جہاں اللہ تعالیٰ نےاپنے احکامات کی بجاآوری کےنتیجے میں بہت سے انعامات کی خوشخبری دی ہے وہیں ایک راہنما کی اطاعت، مکمل فرمانبرداری اورپوری مطابعت کی بھی تلقین کی ہے۔یہاں حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ ہی کی ذات مقدس وہ ہادی کامل اور رہبروجودہےکہ جس کی کامل فرمانبرداری اور کامل اطاعت انسان کو ان ثمرات اورمنزلِ مقصود تک پہنچا دے گی اور وہ فائز المرام ہوجائے گا۔ جب کسی رہبرِکامل کی قیادت نصیب ہوتی ہے اور انسان اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے۔ تب تاریکیاں روشنی سے بدل جاتی ہیں۔ تاریک بادل چھٹ جاتے ہیں اور مہرعالمتاب چمکنے لگتا ہے تب اُس کا دل مہبطِ انوارِ الٰہی ہوجاتاہے اور اس رہبرِکامل کے طفیل اپنی کمال تابعداری اور اطاعت سے وہ ایک اعلیٰ مقام پالیتاہے۔
حضرت محمدﷺکے روحانی وجود کی اطاعت کےواقعات اور اس کےنتیجے میں ملنے والی برکتوں اور ثمرات کا ذکر کیا جائے تو یہ ایک ایسا طویل باب ہے، جس کو چند سطروں میں سمونا کسی طور پر بھی ممکن نہیں۔گذشتہ پندرہ سو سال میں سینکڑوں واقعات رُونما ہوئےاور ایسے ان گنت وجود گزرے کہ جنہوں نےآنحضرتﷺ کے روحانی وجود کی اطاعت کے نتیجے میں برکتیں سمیٹیں اور علم غیب اور مکالمہ و مخاطبہ یعنی نبوت، راست بازی یعنی صدیقیت، قوت استقامت وسکینت یعنی شہادت اور صراط مستقیم یعنی صالح ہونے کے ثمرات پائے۔انہی میں سے بعض واقعات کا اس جگہ تذکرہ کرنا مقصود ہے۔
رَضِیَ اللّٰہ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہٗ
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے:
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:22)
یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے۔
دوسری جگہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
مَاۤ اٰتٰٮکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰٮکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا (الحشر:8)
یعنی رسول جو تمہیں عطا کرے تو اسے لے لو اور جس سے تمہیں روکے اُس سے رُک جاؤ۔
قرآن مجید اور احادیث ان شواہد اور نظائر سے بھری پڑی ہیںکہ اگر حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ صحابہؓ کی تربیت اور ان کے تزکیہ باطنی کے لیے اپنے فرائض مفوضہ کو باحسن طریق بجالائے تو صحابہؓ نے بھی پورے اخلاص کے مطابق دین اور احکام شریعت کو سیکھنے اور ان پر عمل پیراہونے کی سعی بلیغ کی۔ صحابہ جب حلقہ بگوش اسلام ہوتے تو معلم حقیقی ﷺ کی قوت قدسیہ کے طفیل ان کے رگ وریشہ میں نوروسرور کی وہ لہر دوڑ جاتی کہ جو ان کو افق مبین کا نجم ثاقب بنا دیتی۔احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جاں نثاران سرورکائناتؐ کمال اشتیاق اور ذوق و شوق اور تندہی کے ساتھ مسائل دینیہ اور احکام شریعت سے آگاہی حاصل کرتے اور اخروی زندگی میں فائز المرام ہونے کے لیے جس قدر کوشش اور جدوجہد انہوں نے کی وہ بعد میں آنے والوں کے لیے قابل نمونہ اور باعث صد فخر ہوئی۔چنانچہ آنحضرت ﷺ کی تاثیرات قدسیہ نے ان کی ظاہری اور باطنی آلودگیوں اور ان کے دلوں کی اتھاہ گہرائیوں تک پوشیدہ شرور اور وساوس کو یکسر پاک و صاف کردیا۔اور صحابہ کا یہی جذبہ اطاعت تھاکہ انہوں نے مالی وجانی قربانیوں کی وہ مثال پیش کی جس کی نظیر روز ازل سے تاابد کوئی پیش نہ کرسکے گا اوراللہ تعالیٰ نے انہیں اسی اطاعت کےثمرکےطورپررضی اللہ عنہم کے خطاب جاودانی سے سرفراز فرمایا اور ان کے حسن عمل کو قبولیت کا شرف عطا کرکے دائمی خوشنودی سے نوازا۔
صدیقی کمالات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’آنحضرت ﷺ نے جو حضرت ابوبکر کو صدیق کا خطاب دیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ میں کیا کیا کمالات تھے۔یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور حقیقت میں ابوبکر ؓنے جو صدق دکھا یا ہےاس کی نظیر ملنی مشکل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اسے ضروری ہے کہ ابوبکری خصلت اورفطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے جہاں تک ممکن ہے مجاہدہ کرے اور پھر جہاں تک ہوسکے دعاکرے جب تک ابوبکری فطرت کا سایہ اپنےا وپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہوجاتا وہ کمالات حاصل نہیں ہوسکتے۔‘‘
(الحکم مورخہ 10؍مئی 1905ء صفحہ2)
نیز فرمایا:
’’ابو بکر سیدکونین کی محبت میں فناہوچکے تھے‘‘
(سرالخلافۃ،روحانی خزائن جلدنمبر8صفحہ339)
اسی فنا فی الرسول کے مرتبہ کو سیرت صدیقی قرار دیاگیاہے۔ گویا محبت رسول کا آخری مقام صدیقیت کا مقام ہے۔ یہ خدا اور اس کے رسول کی محبت ہی تھی کہ جب حضرت ابوبکر صدیق کااپنا بیٹا جنگ میں مد مقابل آتا ہے تو وہ سب دنیاوی رشتے ختم ہو جاتے ہیں اوراس کو کہتے ہیں کہ’’تم اگر میری تلوار کے نیچے ہوتے تو کبھی بچ کر نہ جاتے۔‘‘
انفاق فی سبیل اللہ
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی تحریک فرمائی۔ صحابہؓ نے اس پر لبیک کہا حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ آج میں ابوبکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا۔ میں گھر گیا اور آدھا مال لاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت ابوبکرؓ آئے اور سارا مال جو گھر میں موجود تھا لے آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھر کیا چھوڑ آئے ہو۔ عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسولؐ۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا میں اس شخص سے کبھی سبقت نہیں لےجاسکتا اور ابوبکرؓ سے اس موقع پر کہا کہ ابوبکرؓ میرے اہل اور میری جان آپ پر قربان، بھلائی اور نیکی کا جو بھی دروازہ کھلا آپ اس میں داخل ہونے کے لیے ہم سے سبقت لے گئے۔
(ترمذی جلد2 ابواب المناقب ،مناقب حضرت ابوبکرصدیق صفحہ 540)
اتباعِ سنت
حضرت عمر ؓحضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے کا خاص اہتمام فرمایا کرتےتھے۔ ایک مرتبہ جب آپ حج کے لیے تشریف لے گئے تو حجرِاسود کو بوسہ دیا اور اس کے ساتھ فرمایا:
’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، اگر میں رسول اللہ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الحج باب ماذکر فی الحجر الاسود )
اطاعت کےثمرات کی دلیل
صحابہ کرام ؓکےعشق محمدﷺ اور اطاعت کےثمرات میں یہ سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کی اکثر آراء مذہبی احکام بن گئیں۔ آپ انتہائی درجہ کے نکتہ رس واقع ہوئے۔ امام سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ کم ازکم 21 مقامات ایسے ہیں کہ جہاں حضرت عمرؓ کی خدا کے احکام سے موافقت ہوئی۔مثلاً مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ بنانے کے بارے میں، پردے کے بارے میں اور خصوصاً ازواجِ مطہرات کے پردے کے بارے میں ۔
(تاریخ الخلفاء صفحہ 145تا146)
ذوالنورین
حضرت عثمانؓ اُن خاص صحابہ میں سے تھے جن کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ بطور خاص محبت تھی۔ آنحضرتﷺنے کئی مرتبہ اپنی زندگی میں آپ سے راضی ہونے کا اظہار فرمایا۔آنحضرتؐ کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اور آپ کو ذوالنورین کا خطاب ملا۔ آپ نے اپنی عملی زندگی سے آنحضرتﷺ کی ہر خواہش کو پورا کر کے دکھایا۔چنانچہ مسجد نبوی کی وسعت، بئررومۃکی خریداری اور غزوہ تبوک پر خاص قربانی آنحضرت ﷺ کے ساتھ عشق و محبت اور اطاعت رسول کا ہی نتیجہ تھا۔
فدائیت اور جاںنثاری کا عدیم المثال کارنامہ
آنحضرت ﷺ نے جب مدینہ ہجرت فرمانے کا ارادہ کیا تو ہجرت کے اس سفر کے ساتھ دو ایسے صحابہ کا نام ہمیشہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ جو نبی اکرم ﷺ سے محبت ووفا،اطاعت اور اعتماد کے رشتوں میں سب پر سبقت لے گئے۔ عشق و محبت کے باب میں سرفہرست آنے والے یہ دو نام تھے۔پہلے حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور دوسرے حضرت علیؓ۔حضرت ابوبکر ؓکو تو یہ سعادت عظمیٰ ملی کہ آپ آنحضرت ﷺ کے ہمسفر بنے اور حضرت علی ؓ کے حصہ میں یہ قربانی آئی کہ ہجرت کی پُر خطر رات میں آنحضرت ﷺ نے اپنی جگہ آپؓ کو لٹادیا اور خود ہجرت فرما گئے۔فدائیت اور جاں نثاری کا یہ عدیم المثال کارنامہ تھا جو حضرت علیؓ نے بائیس، تئیس برس کی عمر میں سرانجام دیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کو اپنی تحریر میں یوں بیان فرمایا ہے:
’’کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ کے قتل کرنے کا ارادہ کیاتو اللہ جل شانہ نے اپنے اس پاک نبی کو اس بدارادہ کی خبر دے دی اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا اور پھر بفتح ونصرت واپس آنے کی بشارت دی۔بدھ کا روز اور دوپہر کا وقت اور سخت گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلا منجانب اللہ ظاہر ہوا۔اس مصیبت کی حالت میں جب آنحضرتﷺ ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مارڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا۔تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا جانبازی کے طور پر آنحضرت ﷺ کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے منہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت ﷺ کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اسی کو رسول اللہ سمجھ کر قتل کرنے کے لئے ٹھہرے رہیں۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ ،روحانی خزائن جلد 2صفحہ 16تا17حاشیہ)
کوئی دلیل نہیں
حضرت ربیعہ بن اسلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے فرمایا شادی کہ بارے میں کیا خیال ہے،میں نے عرض کیا جو آپ پسند فرمائیں۔اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایاانصار کے فلاں قبیلہ میں چلے جاؤ اور کہو کہ رسول اللہ نےمجھے تمہاری طرف بھیجا ہے کہ تم میری شادی اس فلاں عورت سے کردو۔چنانچہ حضرت ربیعہ بن اسلمی نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کےاور تجسس کیے بغیر اس قبیلہ میں جانے کا قصدکیا۔آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جاکریہی پیغام دیا۔تواُنہوں نے کہا،رسول اللہ کے قاصد کو خوش آمدید۔وہ اپنا مقصد پورا کیے بغیر یہاں سے نہیں جائے گا۔چنانچہ انہوں نے میری شادی کی، بہت شفقت کا سلوک کیا اور کوئی دلیل نہیں مانگی۔
(مسنداحمد جلد4،صفحہ 58)
اطاعت کی روح
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اسے اُتار کرپھینک دیا اور فرمایا تم آگ کے انگارے کیوں ہاتھوں میں پہنے پھرتے ہو۔رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے تو کسی شخص نے اس سے کہا انگوٹھی اٹھا لو کسی اور مصرف میں لے آؤ تواُس نے جواب دیا خدا کی قسم جسے خدا کے رسول نے پھینک دیا ہو میں اسے ہر گز نہیں اٹھاؤں گا۔
(صحیح مسلم کتاب اللباس باب تحریم خاتم الذہب )
تجدیدبیعت
حضرت عوف بن مالک الاشجعیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم سات یا آٹھ یا نو افراد تھے جو رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔آپؐ نے فرمایاکیا تم رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کروگے ۔چونکہ ہم نے حال ہی میں بیعت کی تھی اس لیے ہم نے عرض کی کہ یارسول اللہ ہم تو بیعت کرچکےہیں۔ مگر آپ نے پھر دوبارہ یہی کہا ۔چنانچہ ہم نے اپنے ہاتھ بیعت کرنے کے لیے آپ کے سامنے پھیلا دیے اور عرض کی ہم سے بیعت لیں تو آپ نے ان الفاظ میں ہم سے بیعت لی۔
تم اللہ کی عبادت کرو گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ گے ۔پانچ نمازیں ادا کرو گے اور کامل فرمانبرداری اختیار کرو گے اور لوگوں سے کچھ بھی نہ مانگو گے۔
حضرت عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو بعد کےزمانے میں دیکھا کہ وہ اپنی اس بیعت میں اس حد تک صادق اور باوفا نکلے کہ ان میں سے بعض سے سواری پر بیٹھے ہوئے،سواری چلانے والا کوڑا یا چھانٹا گر جاتا تو وہ کسی سے نہ کہتا کہ مجھے یہ چھانٹا پکڑا دو بلکہ وہ خود اتر کر چھانٹا اٹھاتا۔
(صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ، باب کراھۃ المسألتہ للناس)
جاں نثاری کی عمدہ مثال
جنگ بدرکےموقع پر جب رسول اکرم ﷺنےجنگ سے متعلق صحابہ سے ان کا مشورہ پوچھا تو حضرت مقداد بن اسودؓ کھڑے ہوئے او ر عرض کی ۔ یا رسول اللہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب کی طرح نہیں ہیں کہ آپ کو یہ جواب دیں کہ جا تو اور تیرا رب لڑے(بلکہ ہم تو وفاشعار خدام ہیں ) آپ ﷺ جہاں بھی چاہتے ہیں چلیں ،ہم آپ کےساتھ ہیں ۔ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی ۔ہم آپ ﷺ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی اور دشمن آپ ﷺ تک نہیں پہنچ سکتا ۔جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ بڑھے۔جب تک ہم میں آخری سانس ہے کوئی آپ ﷺ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکے گا۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب اذ تستغیثون ربکم )
اسی موقع پر حضرت سعد بن معاذ ؓرئیس قبیلہ اوس نے انصار کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے عرض کی ۔
خدا کی قسم جب ہم آپ ﷺ کو سچاسمجھ کر آپ ﷺ پر ایمان لےآئے ہیں اور ہم نے سُننے اور اطاعت کرنے کا وعدہ کیا ہے تو پھر اب آپ ﷺ جہاں چاہیں چلیں ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں اور اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔اگر آپﷺ ہمیں سمندرمیں کود جانے کو کہیں تو ہم کود جائیں گےاور ہم میں سے ایک فردبھی پیچھے نہیں رہے گا۔ اور آپ ﷺانشاء اللہ ہم کو لڑائی میں صابر پائیں گےاور ہم سے وہ بات دیکھیں گےجو آپ ﷺ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے گی۔
(سیرت ابن ہشام جلد اول حالات غزوہ بدرصفحہ 429تا430)
اطاعت میں صلح کا مظاہرہ
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے اپنے گھر کے باہر دو جھگڑ نے والوں کی آوازیں سنیں۔اُن کی آوازیں مسلسل بڑھ رہی تھیں ان میں سے ایک نرمی کے لیے اور اپنا کچھ حصہ چھوڑنے کے بارے میں کہہ رہا تھا۔دوسرا اللہ کی قسم کھا کرکہہ رہا تھا کہ میں ایسا نہ کروں گا۔رسول اللہ ﷺ سن کر باہر تشریف لائے اور فرمایا۔
اللہ کی قسمیں کھانے والا کون ہے۔رسول اللہ ﷺ کی یہ آواز سنتے ہی دونوں یکدم خاموش ہوگئے۔ان کا غصہ جاتا رہا اور جو قسمیں کھا رہا تھا کہ میں ایسا نہیں کروں گا وہ فی الفور بول اٹھاکہ وہ قسمیں کھانے والا میں ہوں اور گذشتہ سارے جھگڑے کو بھلا کر کہنے لگا کہ میرے ساتھی کے لیے وہی کچھ ہے جو وہ چاہتا ہے۔یعنی جو اس کا مطالبہ تھا میں تسلیم کرتا ہوں۔
(صحیح بخاری کتاب الصلح باب ھل یشیر الامام بالصلح )
آدھا قرض معاف کردیا
حضرت کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی حدود نے ان سے قرضہ لیا اور وقت پر ادا نہ کیا۔چنانچہ ایک دن مسجد نبوی میں انہوں نے ابن ابی حدود سے قرض کا تقاضا کیا اور دونوں میں کچھ تلخ کلامی ہونے لگی اور آوازیں پہنچیں تو آپﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ ہٹایا اور کعب بن مالکؓ کو آواز دی۔حضرت کعب نے فوراً عرض کیا لبیک یارسول اللہ۔آپ ﷺنے زبان سے تو کچھ نہ فرمایا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آدھا قرض معاف کردو۔حضرت کعب نے فوراً عرض کی قد فعلت یارسول اللّٰہ یارسول اللہ میں نے معاف کردیا ۔پھر آپ نے ابن ابی حدود کو کہا جاؤ اور اس کا آدھا قرض ادا کردو۔
(صحیح بخاری کتاب الصلح باب الصلح بالدین والعین)
صلح میں پہل
حضرت ابوداؤد ؓبیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر ؓپریشانی کے عالم میں اپنے کپڑوں کو پکڑے ہوئے تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔آپ ﷺ نے ابوبکر کو دیکھتے ہی فرمایا کہ تمہارے بھائی ابوبکر کا کسی سے جھگڑا ہو گیا ہے۔
حضرت ابوبکر ؓنے عرض کی میرے درمیان اور عمر بن خطاب ؓکے درمیان کچھ تلخی ہوئی۔میں ندامت کے ساتھ جلدی جلدی ان کے پاس گیا اور معذرت کی مگر انہوں نے معاف کرنے سے انکار کردیا۔تو میں آپﷺ کے پاس چلا آیاہوں۔آپ نے تین مرتبہ فرمایا ابو بکر اللہ تجھے بخشے اور تیری مغفرت فرمائے۔
ابھی ادھر یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ادھر حضرت عمرؓ اپنے فعل پر نادم ہونے اور حضرت ابوبکر ؓسے معذرت کرنے اور ان سے معافی مانگنے ان کے گھر پہنچے مگر انہیں ان کے گھر میں نہ پایا۔چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کی طرح وہ بھی سیدھا رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے اور حضرت ابوبکرؓ سے معافی مانگی۔
جب حضرت عمرؓ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ نے انہیں دیکھا تو آپﷺ کے چہرے پر ناراضگی کے کچھ آثار نمایاں ہوئے(یہ دیکھتے ہی حضرت ابوبکرؓ کے دل میں خیال پیداہوا کہ کہیں آپﷺ عمرؓ سے ناراض نہ ہوں)چنانچہ آپ ڈر گئےاور اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے کہا اللہ کی قسم یا رسول اللہ ﷺ غلطی مجھ سے سرزد ہوئی تھی۔آپ نے دو مرتبہ یہ بات کہی۔
(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب لو کنت متخذاخلیلاً )
وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:32)
اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس نے پہلے ایک رسول بھیجا جسے ہمارے لیے رہبرِکامل بنایا اور ایسے سامان کیے کہ اس کی سیرت کا کوئی پہلو مخفی اور پوشیدہ نہ رہے اور پھر اسے یہ مقامِ تفویض کیا کہ اب انسان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اب حضرت محمدﷺکے دین کو اپنا لیا جائے، اسے دستورالعمل بنا لیا جائے اور جس بات سے وہ روکیں اس سے باز آجائیں اور تقویٰ کا تقاضا بھی یہی ہے ۔آنحضرت ﷺکے صحابہ کو مشیت الٰہی سےاطاعت رسول میں کثرت کے ساتھ جانی و مالی قربانیاں دینی پڑیں جس سے ان کی شاندار ایمانی حالت کا اظہار ہوا ۔ اب موجودہ دَور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورآپ کے صحابہ کو بھی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی ایسی کامل اطاعت کا موقع ملا کہ ان کے ایمانوں کی کیفیت آنحضرت ﷺ کےاصحاب کا رنگ رکھتی ہے ۔اور بلاشبہ وہ جماعت اولین کے مشابہ ہیں اور سورة الجمعہ کی آیت
وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمْ
کے مصداق ہیں۔ اطاعت کا مضمون جماعت احمدیہ کے رگ و ریشہ میں رچا ہوا ہے ۔ اصحابِ احمدکو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل مقام و مرتبہ کی پہچان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعےہی ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے مثال اطاعتِ رسول ﷺ آپ کی زندگی تک محدود نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اطاعت گزاروں کی ایسی جاںنثار جماعت اپنی یادگار چھوڑی کہ جو نظامِ خلافت کے زیرِ سایہ عشق محمدﷺ کے جذبہ سے سرشار ہے۔ جماعت احمدیہ عالمگیر کی صورت میں ایک عاشقِ رسول جماعت کاقیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشقِ رسول ﷺ اور اطاعت کا ایک تابندہ ثبوت اورازخود ایک بہت بڑا ثمر ہے کہ جس کی عظمت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔اس لیے جماعت احمدیہ کی تاریخ میں احکام خداوندی کی بجاآوری اوراطاعت کی ایسی روشن مثالیں موجود ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔
آقا و مطاع حضرت محمدﷺ
خدا تعالیٰ نے اس زمانےکی اصلاح کے لیے سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ کا دعویٰ ہے کہ میں نے جوبھی ثمرات پائے ہیں یہ سب اپنے آقا و مطاع حضرت محمدﷺ کی پیروی کانتیجہ ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :
’’میں نےمحض خدا کے فضل سے نہ کہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پا یا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے بر گزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیّدومولیٰ، فخرالانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پا یا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی ﷺکے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 64تا65)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت محمد ﷺ کی راہ نمائی اور ہدایات کی روشنی میں سچے متبع اور کامل اطاعت گذار بن کراُن مراتبِ عالیہ اور مقام پرفائزہوئےکہ جس میں رہبرِکامل کی کامل جھلک نظر آئے اور آپ اپنے اس رہبرِکامل کی اطاعت میں اتنا گم ہوگئےکہ آپ کا اپنا وجود اپنا نہ رہا اور اپنےرہبرِکاملﷺ کے وجود میں فنا ہوگئے۔ حتی کہ آپ علیہ السلام پر یہ مثال صادق آگئی :
من توشدم تو من شدی ،من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعدازیں،من دیگرم تو دیگری
بغیرمنڈیرکی چھت پرسونےسےانکار
حضرت محمدﷺنےایسی چھتیں جن کی منڈیر نہ ہو ان چھتوں کے اوپر سونےسےمنع فرمایا ہے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی النوم علیٰ سطح غیر محجر)
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعویٰ کے بعد سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ حضرت حکیم حسام الدین صاحب نے ایک مکان میں آپ کے ٹھہرانے کا انتظام کیا۔ اس زمانے میں گرمیوں میں لوگ چھتوں پر سویا کرتے تھے کیونکہ پنکھے وغیرہ کا انتظام نہیں ہوتا تھا۔لیکن جس مکان میں آپ کو ٹھہرایا گیا اس کے متعلق جب معلوم ہوا کہ اس کی چھت پر منڈیر کافی نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےوہاں رُکنے سے انکارکردیا۔اس پر حضرت حکیم حسام الدین صاحب کی اطاعت وفرمانبرداری دیکھیے کہ اُسی وقت فوراً جماعت نے کیل گاڑ کر قناتیں لگادیں جس سے شریعت کا منشابھی پورا ہوگیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو شکایت تھی وہ دُور ہوگئی۔
(خطاباتِ شوریٰ جلد دوم صفحہ 555)
(خطبات محمود جلد3 صفحہ326-327)
اسی طرح ایک مقدمےکی پیروی کےسلسلے میں آپؑ کا قیام گورداسپور میں تھا۔سخت گرمی کا موسم تھا ۔آپ کے آرام کے خیال سے خدام نے ایک مکان کی کھلی چھت پر آپ علیہ السلام کی چارپائی بچھائی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو دیکھا کہ چھت پر کوئی منڈیر یا پردہ کی دیوار نہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو ناپسند فرمایا اور خدام سے فرمایا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارے محبوب آقاﷺ نےایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہاں سونے سےانکارفرمادیا اور سخت گرمی کے باوجود رات ایک بند کمرہ میں گزاری ۔
(سیرت طیبہ صفحہ 109)
مہمان کا اکرام
ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرے میں تشریف فرما تھے۔ باہر سےآئے ہوئے کچھ مہمان بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے ۔اتنے میں کسی شخص نے باہر دروازہ پردستک دی مہمانوں میں سے ایک شخص نےاُٹھ کر دوازہ کھولنا چاہا ۔ یہ دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی جلدی سے خود اُٹھے اور اُس دوست سے فرمایا:
ٹھہریں ٹھہریں ۔ میں خود دروازہ کھولوں گا ۔آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیے۔
(سیرت طیبہ صفحہ 110)(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 65تا66)
اسی طرح ایک موقع پرفرمایا :
پیغمبر خدا ﷺنےفرمایاہےکہ زیارت کرنےوالے کا تیرے پرحق ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے۔
سنت رسول ﷺکی اتباع
مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال بیان کرتے ہیں کہ جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےپاس سوتا تھا…صبح کی نماز کےلیے اس طرح جگاتے کہ پانی میں انگلیاں ڈبو کر اُس کا ہلکا سا چھینٹا پھوار کی طرح پھینکتےتھے۔میں نےایک دفعہ عرض کیا کہ آپ آوازدےکرکیوں نہیں جگاتےاور پانی سے کیوں جگاتےہیں ۔ اس پر فرمایا کہ رسول کریم ﷺ بھی اس طرح کیا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 20)
مقام صدیقیت
حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی ذات اللہ تعالیٰ ، اس کے پاک نبی ﷺ ،قرآن مجید اور مسیح آخر الزمان علیہ السلام کی محبت اور اطاعت میں ڈوبی ہوئی تھی۔آپؓ نے اپنی زندگی کالمحہ لمحہ مقصداشاعت اسلام کی خاطر وقف کر رکھا تھا۔ آپ نے واقعۃً اپنا تن من دھن حضرت محمد ﷺ کی پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نچھاور کیا ہوا تھا ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقام صدیقیت عطا فرمایا ۔ آپ ایک ایسا وجود تھے کہ جنہوں نے اپنا وطن، جائیداد ، گھر بار ، چلتا ہوا کاروبار سب کچھ حضرت مسیح پاکؑ کے ایک اشارے پر قربان کر دیا اور اپنے معشوق کے قدموں میں دھونی رما کر بیٹھ گئے۔ یہ آپ ہی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ہونے والی ہر تحریک میں ہراول دستے کے سرخیل ہوا کرتے تھے۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا:
(ترجمہ)’’وہ ہرایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ586)
نیزفرمایا:
(ترجمہ)’’صدق وصفا اور اخلاص اور محبت اور وفاداری میں میرےسب مریدوں میں سے وہ اول نمبر پرہے۔‘‘
(حمامۃ البشریٰ،روحانی خزائن جلد7صفحہ180)
روحانی مراتب اور حسنات عطا ہونا
حضرت خلیفةالمسیح الاوّل ؓنے اللہ اور رسول ﷺکی خاطر اپنے وقت کے امام کو صدقِ دل سے مانا اور ان کے ساتھ ایسا عہدِوفا باندھا اور اتنی قربانیاں پیش کیں کہ آپ کو ایک خاص مقام اور مرتبہ حاصل ہوگیا اور اس کے ثمرات آپ کو اس دنیا میں بھی ملے۔چنانچہ آپؓ کو رویائے صا دقہ میں آنحضرت ﷺ کادیدارنصیب ہوا جن میں سے 2کاذکر کیا جاتا ہے فرمایا:
1)’’مجھ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خواب میں فرمایا کہ
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
بہت پڑھا کرو۔‘‘
(مرقاةالیقین فی حیات نورالدین صفحہ 211)
2)’’میں نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو کمر پر اس طرح اٹھا رکھا ہے جس طرح بچوں کو مشک بناتے ہیں۔ پھر میرے کان میں کہا کہ تو ہم کو محبوب ہے۔‘‘
(مرقاةالیقین فی حیات نورالدین صفحہ 291)
سنت رسول ﷺ کی پیروی
ایک مرتبہ حج کےمہینوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ مکہ تشریف لے گئے۔جب مکہ کےقریب پہنچے توآپ کو خیال آیا کہ حضرت محمد ﷺکداء مقام سے مکہ میں داخل ہوئے تھے لیکن لوگوں کی سواریاں اُدھر سےنہیں جاتیں ، اس لیے آپ ذی طویٰ مقام سے ذرا آگے بڑھ کر اونٹ سے کود پڑے اور آنحضرت ﷺ کی سنت کےمطابق کداء مقام کےراستے سے ہی مکہ میں داخل ہوئے ۔
(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ69)
اسی طرح مکہ میں آپ جس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے وہیں سے احرام باندھ کر عمرہ کرلیا کرتے تھے۔اس گھر میں ایک بوڑھا شخص رہتا تھا۔اُس نےکہا کہ آپ تنعیم کےمقام پرجاکر کیوں احرام نہیں باندھتے جہاں تمام لوگ احرام باندھتے ہیں اس طرح توآپ تمام شہر والوں کے خلاف کرتے ہیں۔آپ نے بڑی جرأت سےفرمایا۔اس بات کی میں ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا جبکہ احادیث سے ثابت ہے کہ مکہ والے اپنے گھروں سے احرام باندھ سکتے ہیں ۔
(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ69)
سیدا لشہداء
احکام خداوندی اور اطاعت رسول ﷺکےثمرات کا ذکر چل رہا ہو تو حضرت صاحبزادہ سیدعبداللطیف شہید ؓکوکیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔آپ نے نعرۂ حق کی خاطرسینہ سپررہ کر اسلام کےدور نشاۃ ثانیہ میں صحابہ ٴ رسول ﷺ کانمونہ زندہ کر دکھایا۔شاہ کابل نے آپ کا آدھا جسم زمین میں گاڑ رکھا تھا اور لوگ پتھرہاتھوں میں پکڑے آپ کو سنگسار کرنے کےلیے منتظر تھے۔ آپؓ کا قصور صرف یہ تھا کہ آپ نے آنحضرت ﷺکی پیشگوئی کے مصداق مسیح ومہدی ؑکو مانا تھا۔ایسے میں شاہ کابل کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی کہ اگر آپ اپنے عقیدہ کوچھوڑ دیں تو اس آخری موقع پر بچالیے جائیں ۔لیکن حضرت صاحبزادہ صاحبؓ امام الزمانؑ کےغلام بن کرعشق اور اطاعت میں ایسے محو ہوئےاور استقامت اور سکینت کی وہ کمال قوت پائی کہ قبولِ حق کےبعد انکار کےلیے بادشاہِ افغانستان کی ہر پیشکش ٹھکرا دی اور ایسی استقامت دکھائی کہ جسم پتھروں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا مگر آپؓ کے پائےثبات میں کوئی لغزش نہ آئی اور اس بےمثال قربانی کےساتھ شہید کے مقام پر فائز ہوگئے۔
اطاعت میں پنہاں سِر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اطاعت ایک ایسی چیزہےکہ اگرسچےدل سے اختیارکی جائےتودل میں ایک نوراورروح میں ایک لذت اورروشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدرضرورت نہیں ہے جس قدراطاعت کی ضرورت ہےمگرہاں یہ شرط ہےکہ سچی اطاعت ہو اوریہی ایک مشکل امرہے۔اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کردینا ضروری ہوتاہےبدوں اس کے اطاعت ہونہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیزہےجو بڑے بڑے موحدوں کےقلب میں بھی بُت بن سکتی ہے۔صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پرکیسا فضل تھااور وہ کس قدررسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی۔یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم قوم نہیں کہلاسکتی اوراُن میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرماں برداری کےاصول اختیارنہ کرے۔اور اگراختلافِ رائے اور پھوٹ رہے تو پھرسمجھ لو کہ یہ اِدباراور تنزل کے نشانات ہیں …پس اگراختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نےحکم دیا ہےپھرجس کام کو چاہتے ہیں وہ ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو سرہے۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلددوم صفحہ 246-247،تفسیرسورۃ النساء زیرآیت 59۔الحکم جلد5نمبر 5 مورخہ 10؍فروری 1901ء )
٭…٭…٭