اصحاب احمدؑ کی اطاعت و ادبِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلافت
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنی امت میں مسیح و مہدی کی آمد کی بشارت دی ہے جس کا کام قرآن و سنت کا احیا اور تجدید بتایا ہے۔چنانچہ انہی بشارات کے تحت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ و السلام مبعوث ہوئے اور آپؑ نے قرآن و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے احیائے دین کا کارنامہ سرانجام دیا۔ آپؑ کے اس پاکیزہ مشن کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک پاکبازوں کی جماعت بھی دی جنہوں نے آپ کے دیے ہوئے علوم سے استفادہ کیا اور آپ کی اطاعت میں محو ہوکر آپ کے پاکیزہ اخلاق کو اپنے اندر منعکس کیا اور آپ کی مدد کی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اپنی صداقت کے نشانوں کا ذکر فرمایا ہے اُن نشانوں میں اپنے مخلص صحابہؓ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں اس بات کے اظہار اور اس کے شکر کے ادا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا، میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے، محبت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں، نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں۔‘‘
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیشہ اپنی جماعت کو صحابۂ رسولﷺ کے حالات مطالعہ کرنے اور ان جیسا ایمانی اخلاص و ادب پیدا کرنے کی تلقین فرمائی کیونکہ آداب اور اطاعت ہی ایک مومن کے ایمان کو مضبوط کرنے کا باعث بنتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جو شخص آداب النبیؐ کو نہیں سمجھتا اور اس کو اختیار نہیں کرتا، اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ہلاک نہ کیا جائے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 53)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم و تربیت کے نتیجے میں آپؑ کے صحابہ نے اطاعت و ادب کے نہایت عمدہ نمونے پیش کیے۔ نومبر 1899ء کے موقع پر حضورؑ نے اپنی ایک تقریر میں اپنے صحابہ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لیے مَیں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے، میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لیے تیار…. بہت سے عزیز دوست ہیں اور سب اپنے ایمان اور معرفت کے موافق اخلاص اور جوشِ محبت سے لبریز ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 223تا226)
حضرت اقدس علیہ السلام کے اس فرمان کے ثبوت میں بہت سی مثالیں تاریخ احمدیت میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں، مثلاً حضرت حکیم مولانا نور الدین بھیروی رضی اللہ عنہ نے آغاز احمدیت میں ہی آپؑ کے نام ایک عریضہ میں لکھا:
’’مولٰنا، مرشدنا، امامنا! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ عالی جناب میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے مجدّد کیا گیا، وہ مطالب حاصل کروں۔ اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفا دے دُوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں۔ میں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے….‘‘
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 36)
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ نے حضرت اقدسؑ کے ساتھ وابستگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
’’میں نے دنیا بھر میں اس کی مانند کوئی شخص نہیں دیکھا، مجھے اس سے الگ ہونے سے اس کی راہ میں جان دے دینا بہتر ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 584تا585)
حیدرآباد دکن کے پہلے احمدی حضرت میر مردان علی صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت23؍ستمبر 1891ء) نے حضور اقدسؑ کی خدمت میں لکھا:
’’حضور کی زبان مبارک و قلمِ اعجاز سے جو لفظ نکلتا ہے اُس کے مقابلہ میں تمام دنیا کے دلائل و منطقی و فلسفی دفتر محض بیکار و ردّی ہیں …. اس میں کسی طرح کا شک نہیں ہے کہ اگر ہماری جانیں بھی حضور کے قدموں پر نثار ہوجائیں تو ہم حق خدمت سے سبکدوش نہیں ہو سکتے….‘‘
(الحکم 21؍جنوری 1903ء صفحہ 4)
ایک اور مخلص صحابی حضرت سید ناصر شاہ صاحب رضی اللہ عنہ یکےاز 313کبار صحابہ کے متعلق لکھا ہے:
’’بعد نماز مغرب حضرت مسیح موعود ؑحسب معمول تشریف فرما ہوئے۔ سید ناصر شاہ صاحب جموں سے تشریف لائے تھے، کئی سال بعد آئے تھے۔ وہ پاؤں دبانے لگے۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’آپ بیٹھ جائیے۔‘‘سید صاحب جوشِ ارادت اور حُسن عقیدت کی وجہ سے چاہتے تھے کہ دیر تک قدم مبارک کو دباتے رہیں، آپ نے پھر کمال لطف اور پیار سے فرمایا کہ ’’آپ بیٹھ جائیں۔
اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِ‘‘
یہ سن کر سید صاحب اوپر شہ نشین پر بیٹھ گئے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 225)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے صحابہ کی بے مثال محبت اور اطاعت کا خلق ہی تھا جس نے رسالہ الوصیت میں مذکور وفات کے متعلق الہامات نے انہیںبے چین کر دیا، رسالہ الوصیت دسمبر 1905ء میں طبع ہوا ۔چنانچہ اس کے چند دن بعد ہی یعنی 15؍جنوری 1906ء کو ایک خادم باہر سے قادیان آئے اور حضور علیہ السلام کی وفات کے الہامات کی وجہ سے رو پڑے، حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
’’یہ وقت تمام انبیاء کے متبعین کو دیکھنا پڑتا ہے اور اس میں ایک نشان خدا تعالیٰ دکھاتا ہے، نبی کی وفات کے بعد اس سلسلہ کو قائم رکھ کر اللہ تعالیٰ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ دراصل خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، بعض نادان لوگ نبی کے زمانہ میں کہاکرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشیار اور چالاک آدمی ہے اور دکاندار ہے کسی اتفاق سے اس کی دکان چل پڑی ہے لیکن اس کے مرنے کے بعد یہ سب کاروبار تباہ ہو جاوے گا تب اللہ تعالیٰ نبی کی وفات کے وقت ایک زبردست ہاتھ دکھاتا ہے اور اس کے سلسلہ کو نئے سرے سے پھر قائم کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا …تب خدا تعالیٰ نے ابو بکر کو اٹھایا اور تمام کاروبار اسی طرح جاری رہا، اگر انسان کا کاروبار ہوتا تو اس وقت ادھورا رہ جاتا…
اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کا ایک نمونہ دکھانا چاہتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 2)
چنانچہ ان الٰہی بشارات کے تحت جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد قدرت ثانیہ یعنی خلافت کا سلسلہ شروع ہوا تو تمام صحابہ نے خلیفہ وقت کی فوری بیعت کرتے ہوئے اخلاص و وفا اور ادب و اطاعت کے نہایت حسین نمونے دکھائے اور شروع دن سے ہی خود بھی مخلصانہ وابستگی دکھائی اور دوسروں کو بھی اس اطاعت و ادب کا سبق دیا۔چنانچہ 1908ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر مخالفین کی امیدوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیےحضرت ملک نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نقشہ نویس لائل پور نے اپنے ایک خط میں لکھا:
’’ہر ایک احمدی کو ابھی سے اس میں حصہ لینے کے لیے کوشش فرمانی چاہیے۔ قدرت ثانیہ میں یہ پہلا سالانہ جلسہ ہے۔‘‘
(الحکم 18؍ستمبر 1908ء صفحہ 4 کالم 2)
خلافت کی اطاعت اور ادب کے جہاں یہ بڑے بڑے سبق دیے وہاں باریک باتوں کو بھی محسوس کرکے احباب جماعت کو اس کی درستگی کی طرف توجہ دلائی، چنانچہ اخبار بدر ایک جگہ لکھتا ہے:
’’حکیم محمد عمر صاحب نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ ہم اخبار کے ذریعہ سے ناظرین کو اس امر سے باخبر کردیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ ملاقات کرنے کے واسطے ہاتھ اور بازو کو جھٹکا نہ دیا کریں۔ اس سے حضرت کو تکلیف ہوتی ہے، انگریزی شیک ہینڈ (shake hand)کی یہاں ضرورت نہیں، باادب مصافحہ کرنا چاہیے۔‘‘
(بدر 15؍فروری 1912ء صفحہ 2کالم2تا3)
خلافت ثانیہ کے قیام کے موقع پر جب ایک چھوٹے سے طبقہ نے خلافت سے روگردانی اختیار کی تو صحابہؓ بڑے جوش اور بڑی غیرت کے ساتھ میدان میں اترے اور اپنی تقریری اور تحریری صلاحیتوں کے ذریعے منکرین خلافت کا مقابلہ کیا اور اطاعت خلافت کے ذاتی نمونوں سے احباب جماعت کو دامن خلافت سے وابستہ کرنے کی توفیق پائی۔حضرت شیخ فضل احمد بٹالوی صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’….. یہ ایام میرے لیے ایام جہاد تھے۔ میں ہر وقت اس کوشش میں رہتا تھا کہ کسی پیغامی کو اپنے اندر جذب کیاجائے۔‘‘
(اصحاب احمد جلد سوم صفحہ 113 از ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ڈھاکہ بنگال سے ایک احمدی بزرگ حضرت بابو نواب الدین صاحب جو وہاں فوج کی ڈیوٹی پر متعین تھے، کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
’’بابو نواب الدین صاحب بہت جوشیلے احمدی ہیں، حضور کے ساتھ سچا اخلاص رکھتے ہیں۔ ان کا بیٹا اہل سرحد کے زیر اثر منکران خلافت میں جا ملا تھا، انہوں نے اسے چالیس چالیس ورق کے خط لکھ کر سمجھایا اور خلافت کی ضرورت و برکت کا اُسے قائل کیا۔ اب وہ حضور کے خدام میں شامل ہے۔‘‘
(الفضل 30؍اگست 1914ء صفحہ 8،7)
منکرین خلافت کی طرف سے جماعت میں فتنہ ڈالنےکی کوششوں میں خفیہ ٹریکٹوں کا سلسلہ خلافت اولیٰ میں ہی جاری تھا، لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے ایک مخلص صحابی حضرت مولوی کبیر الدین احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے ایسے فتنہ پرداز ٹریکٹ کے متعلق نہایت مناسب سلوک کا نمونہ پیش کیا جس کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر اخبار بدر نے لکھا:
’’….ایسے ٹریکٹوں کو ہمارے احباب مثل مولوی کبیر الدین احمد صاحب آگ میں ڈال دیا کریں۔‘‘
(بدر 27؍نومبر 1913ء صفحہ 2 کالم 2)
خلافت احمدیہ اُس روح کو زندہ رکھنے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس دنیا میں قائم فرمائی تھی، اس سے روحانی فائدہ اٹھانے کا یہی اصول ہے کہ اطاعت و ادب کا عمدہ نمونہ پیش کیاجائے، اس سلسلے میں اصحاب احمد نے واقعی قابل رشک نمونہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا ہے، خلیفہ وقت کی ہر آواز پر خواہ اس میں مالی مطالبہ ہو، عزت کی قربانی کا مطالبہ ہو، وقت کی قربانی کا مطالبہ ہو یا جانی قربانی کا مطالبہ ہو، ہر آواز پر بھرپور لبیک کہا، بطور مثال اطاعت و ادب خلافت کا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔
1928ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پورے ہندوستان میں ایک ہی دن (17؍جون) جلسہ سیرت النبی ﷺ منعقد کرنے کی تحریک فرمائی ان دنوں حضرت میر محمد شفیع صاحب محقق دہلی رضی اللہ عنہ (وفات: 31؍اکتوبر 1941ء) کراچی میں تھے اور 17؍جون کو ہی بذریعہ ٹرین آپ کی واپسی تھی، خلیفہ وقت کی تحریک کو پورا کرنے کے ذکر پر آپ لکھتے ہیں:
’’17؍جون 1928ء کو میں کراچی میں تھا، اُس دن وہاں کے اس جلسہ میں شریک ہونے کو دل چاہتا تھا جو رسول کریم ﷺ کی سیرت پر لیکچر دینے کے لیے ہونا تھا مگر مجبوری تھی، ٹھہرنا مشکل تھا۔ آخر 3بجے گاڑی میں سوار ہوگیا اور اپنی سیٹ پر کھڑے ہوکر حضرت رسول کریم ﷺ خاتم النبیین کی سیرت پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ جب دوسرا اسٹیشن آیا تو اس کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ میں جا پہنچا اور وہاں لیکچر دیا۔ غرضیکہ اسی طرح بفضلہ تعالیٰ سات گاڑیوں میں پہنچ کر 17؍جون کو 3بجے سے 12بجے تک میں نے لیکچر دیے….ہر لیکچر کی تمہید میں لوگوں کو یہ بتا دیتا تھا کہ میرے آقا اور مولا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حکم سے آج تمام ہندوستان میں لیکچر ہو رہے ہیں….تمام گاڑیاں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قریباً آٹھ سو آدمیوں نے میرا لیکچر سنا، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔‘‘
(الفضل 6؍جولائی 1928ء صفحہ 7کالم 1)
اطاعت خلافت میں جہاں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے حسین نمونے قائم فرمائے ہیں وہاں صحابیات احمد بھی کسی طور پر پیچھے نہیں رہیں اور انہوں نے بھی خلافت کی اطاعت اور ادب کا قابل تحسین درس دیا ہے۔ خلافت ثانیہ میں اٹھنے والے فتنوں کے خلاف صحابیات احمد نے بھی بھرپور حصہ لیا، 1937ء میں اٹھنے والے مصری فتنے کے خلاف صحابیات احمد نے فوری طور پر جلسہ کر کے یہ ریزولیوشن پاس کیا:
’’ہم تمام صحابیات حضرت مسیح موعودؑ…حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خلافت پر صدق دل سے ایمان رکھتی ہیں …اور اپنی اور جماعت کی فلاح و بہبود کو خلافت حقہ کے ساتھ وابستگی میں سمجھتی ہیں اور خلافت حقہ کے ساتھ وفا اور ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار ہیں …‘‘
(الفضل 3؍اگست 1937ء صفحہ 2)
خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ کا نمونہ سر فہرست ہے، خود حضرت اماں جان ؓنے اپنے عملی نمونہ سے اطاعت خلافت کا درس دیا، حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے 1912ء میں احمدیہ بلڈنگ لاہور میں خلافت کے موضوع پر اپنے معرکہ آراء خطاب میں فرمایا:
’’…مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے …میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں کہ ان کو خدا کی رضا کے لیے محبت ہے۔ بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں …مرزا صاحب کے خاندان نے میری فرمانبرداری کی ہے اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر ایسا فدا ہے کہ مجھے کبھی وہم بھی نہیں آ سکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہو…‘‘
(اخبار بدر 4 تا 11؍جولائی 1912ء بحوالہ حیات نور صفحہ 564 از عبدالقادر صاحب سوداگر مل)
ایک اور مثال بیان کرکے اس مضمون کو ختم کیا جاتا ہے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ اپنی اہلیہ حضرت عائشہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سید عزیز الرحمٰن صاحبؓ آف بریلی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’خلافت پر ایمان اس قدر مضبوط تھا کہ سترہ سال کی عمر میں جب اہل لاہور نے حضرت خلیفۂ اول کے زمانے میں خلافت کی مخالفت کی اور میں بھی متأثر تھا تو ماں اور باپ کی موجودگی میں مجھے مخاطب کر کے کہا تم حضرت مولوی صاحبؓ (خلیفہ اول) کی مخالفت کرتے معلوم ہوتے ہو، ہم طلاق لے لیں گے۔‘‘
(الفضل 9؍مئی 1933ء صفحہ 10)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اطاعتِ خلافت اور اس کے آداب سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭…٭…٭