تاریخ احمدیت

سید حبیب اللہ خان صاحب

(عمانوایل حارث)

3؍مارچ1907ء

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ

ان کو مخاطب کرکے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’اتنی تکلیف اٹھا کر اس جگہ کوئی شخص بغیر قوتِ ایمانی کے نہیں آسکتا ۔

جماعت احمدیہ کے تاریخی ماخذوں سے پتہ چلتا ہے کہ مورخہ 3؍مارچ 1907ء بروز اتوار نماز ظہر سے قبل مکرم سید حبیب اللہ خان صاحب بمعہ اپنے ایک عزیز رفیق کے قادیان میں حاضر ہوئے۔ یہ صاحب گورنمنٹ آف انڈیا کی طرف سے افغانستان کےامیر کے ہمراہ بھی بعض خاص خدمات پر مقرر تھے اور تاج برطانیہ کی طرف سے آئی سی ایس جیسے معزز خطاب کےحامل تھے نیز ان کے متعلق ملتا ہے کہ آپ آگرہ اور الٰہ آباد جیسے علاقوں میں مجسٹریٹ جیسے موقر عہدوں پر بھی مامور رہ چکے تھے اور حضرت اقدس کی زیارت کے لیے مشکل راستوں کا سفر کرکے قادیان پہنچے تھے۔

ان کو مخاطب کرکے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’اتنی تکلیف اٹھا کر اس جگہ کوئی شخص بغیر قوتِ ایمانی کے نہیں آسکتا ۔ دنیاداری کے خیال سے تو یہاں آنا گویا اپنے وقت کو ضائع کرنا سمجھا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ۔‘‘

اسی محفل میں دنیاوی تعلقات میں الجھے ہوئے غافل لوگوں کا ذکر ہوا کہ لوگ دنیا میں ایسے مستغرق ہورہے ہیں کہ دین اسلام سے بالکل غافل ہوگئے ہیں۔ اس پر حبیب اللہ خان صاحب نے عرض کیا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ دنیا سے کنارہ کش ہوجائیں۔

اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا:’’دین اور دُنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے سوائے اس حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے۔ ایسے شخص بھی دُنیا میں ہوتے ہیں۔چنانچہ ایک شخص کا ذکر تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزارہا روپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا۔ایک ولی اللہ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل باوجود اس قدر لین دین روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا ۔ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ( النور: 38)

کوئی تجارت اور خرید و فروخت ان کو غافل نہیں کرتی۔ اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے۔ وہ ٹٹوکس کام کا ہے جو بروقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو توخوب چلتاہے۔ وہ قابل تعریف نہیں۔ وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتاہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ۔ ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کردو اور دنیوی کاروبار کو چھوڑ دو۔ نہیں بلکہ ملازم کو چاہیئے کہ وہ اپنے ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے ۔

اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے کہ تاجر اور ملازم لوگ باوجود اس کے کہ وہ اپنی تجارت اور ملازمت کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں۔ پھر بھی بیوی بچے رکھتے ہیں اور ان کے حقوق برابر اداکرتے ہیں۔ ایساہی ایک انسان ان تمام مشاغل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حقوق کو ادا کر سکتاہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر بڑی عمدگی سے اپنی زندگی گذار سکتاہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تو انسان کا فطرتی تعلق ہے کیونکہ اس کی فطرت خدا تعالیٰ کے حضور میں

اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ( الاعراف : 173)

کے جواب میں قَالُوْابَلٰی کا اقرار کر چکی ہوئی ہے۔

یاد رکھو کہ وہ شخص جو کہتاہے کہ جنگل میں چلا جائے اور اس طرح دنیوی کدورتوں سے بچ کر خدا کی عبادت کرے وہ دنیا سے گھبرا کر بھاگتا ہے اور نامردی اختیار کرتاہے ۔ دیکھو ریل کا انجن بے جان ہوکر ہزاروں کو اپنے ساتھ کھینچتاہے اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے۔پھر افسوس ہے اس جاندار پر جو اپنے ساتھ کسی کو بھی کھینچ نہیں سکتا۔ انسان کو خدا تعالیٰ نے بڑی بڑی طاقتیں بخشی ہیں۔ اس کے اندر طاقتوں کا ایک خزانہ خدا تعالیٰ نے رکھ دیا ہے لیکن وہ کسل کے ساتھ اپنی طاقت کو ضائع کر دیتاہے اور عورت سے بھی گیا گذرا ہوتاہے۔ قاعدہ ہے کہ جن قویٰ کا استعمال نہ کیا جائے وہ رفتہ رفتہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر چالیس دن تک کوئی شخص تاریکی میں رہے تو اس کی آنکھوں کا نور جاتا رہتاہے۔ ہمارے ایک رشتہ دار تھے انہوں نے فصد کرایا تھا۔ جراح نے کہہ دیا کہ ہاتھ کو حرکت نہ دیں۔انہوں نے بہت احتیاط کے سبب بالکل ہاتھ کو نہ ہلایا۔نتیجہ یہ ہو اکہ 40د ن کے بعد وہ ہاتھ بالکل خشک ہوگیا۔ انسان کے قویٰ خواہ روحانی ہوں اور خواہ جسمانی جب تک کہ اُن سے کام نہ لیا جائے وہ ترقی نہیں پکڑ سکتے۔بعض لوگ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ جو شخص اپنے قویٰ سے خوب کام لیتاہے اس کی عمر بڑھ جاتی ہے ۔بے کار ہوکر انسان مردہ ہو جاتاہے بیکار ہوا تو آفت آئی ۔‘‘

حضور علیہ السلام نے مزید فرمایا کہ’’خدا کی قدرت ہے کہ ہمارے سلسلہ کے متعلق علماء زمانہ نے بے دیکھے سمجھے فتویٰ دے دیا اور ہم کو نصاریٰ سے بھی بدتر لکھا۔ ان کو چاہیئے تھا کہ پہلے ہمارے حالات کی تحقیقات کرتے۔ ہماری کتابیں اچھی طرح سے پڑھ لیتے پھر جو انصاف ہوتا وہ کرتے ۔ تعجب ہے کہ یہ لوگ اب تک اسلام کی حالت سے غافل ہیں گویا ان کو معلوم ہی نہیں کہ اسلام کس شکنجہ میں پڑا ہے ۔اسلام کی اندرونی حالت بھی اس وقت خراب ہے اور بیرونی حالت بھی خراب ہو رہی ہے ۔

سارازور ان لوگوں کا اس بات پر ہے کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں۔ حالانکہ نہیں سوچتے کہ یہ بات تو قرآن شریف میں لکھی ہے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شہادت دی ہے کہ میں ان کو مردوں میں دیکھ آیا ہوں۔ قرآن شریف میں پہلے توفیکا لفظ ہے اور رفع اس کے بعد ہے ۔ پھر یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے زندہ ماننے میں اسلام کو کیا فائدہ حاصل ہے ۔ سوائے اس کے کہ عیسائیوں کے جھوٹے خدا کو ایک خصوصیت حاصل ہو جاتی ہے اور عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ کو خد ا بنا لیتے ہیں۔ اور جاہل مسلمانوں کو دھوکہ دے کر عیسائی بنا لیتے ہیں۔ یسوع کو زندہ ماننے کا یہ نتیجہ ہے کہ ایک لاکھ مسلمان مرتد ہو کر عیسائی ہوگیا۔ یہ نسخہ تو آزمایا جا چکا ہے۔ اب چاہیے کہ دوسرا نسخہ بھی چند روز آزما لیں جو ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے ہیں۔ قاعدہ ہے کہ جب ایک دوائی سے فائدہ حاصل نہ ہو تو انسان دوسری کو استعمال کرلے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عیسائیت کو مٹانے کے واسطے اس سے بڑا اور کوئی ہتھیار نہیں کہ جس وجود کو وہ خدا بناتے ہیں اُسے مردوں میں داخل ثابت کیا جائے۔ پہلے پادری لوگ قادیان میں بہت آیا کرتے تھے اور خیموں میں ڈیرے لگاتے تھے اور وعظ کیا کرتے تھے مگر جب سے ہم نے یہ دعویٰ کیا ہے انہوں نے قادیان آنا بالکل چھوڑ دیا ہے ۔ ایسا ہی لاہور میں لارڈ بشپ نے ایک بڑے مجمع میں مسیح کی زندگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ایک بڑا لیکچر دے کر حضرت مسیح کی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت کرنی چاہی تھی۔ تب کوئی مسلمان بھی اس کا جواب نہ دے سکا۔ لیکن ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب نے اُٹھ کر جواب دیا اور کہا کہ قرآن شریف اور انجیل ہر دو سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو چکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں کیونکہ آپ سے فیض حاصل کرکے معجزات دکھانے والے اب تک موجود ہیں۔ اس سے بشپ لاچار ہوگیا ۔ اوراس نے ہماری جماعت کے ساتھ گفتگو کرنے سے بالکل گریز کیا۔

ہمارے اصول عیسائیوں پر ایسے پتھر ہیں کہ وہ ان کا ہرگز جواب نہیں دے سکتے ۔ یہ مولوی لوگ بڑے بدقسمت ہیں جو ترقی اسلام کی راہ روکتے ہیں۔ عیسائیوں کا تو سارا منصوبہ خود بخود ٹوٹ جاتاہے جبکہ ان کا خدا ہی مرگیا تو پھر باقی کیا رہا؟

اسلام نے بڑے بڑے مصائب کے دن گذارے ہیں۔ اب اس کا خزاں گذر چکا ہے اور اب اس کے واسطے موسم بہار ہے اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔تنگی کے بعد فراخی آیا کرتی ہے ۔ مگرملاں لوگ نہیں چاہتے کہ اسلام اب بھی سرسبزی اختیار کرے ۔ اسلام کی حالت اس وقت اندرونی بیرونی سب خراب ہو چکی ہوئی ہے ۔ ظاہری سلطنت اسلامی جو کچھ ہے وہ بھی نہایت ضعف کی حالت میں ہے اور اندرونی حالت یہ ہے کہ ہزاروں گرجاؤں میں جابیٹھے ہیں اور بہت سے دہریہ ہو گئے ہیں۔ جب یہ حالت اسلام کی ہو چکی تو کیا وہ خدا جس کا وعدہ تھا کہ

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ(سورۃ الحجر:10)

ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ کیا وقت نہیں آیا کہ اب بھی اسلام کی حفاظت کرے؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تکذیب کرتے ہیں کہ اس صدی کے مجدد کو نہیں مانتے ۔ کیا آپ نے نہیں فرمایا تھا کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد ہوگا؟ صدی سے پچیس سال گذر چکے یعنی پورا چوتھا حصہ صدی کا طے ہوگیا ہے۔ اب بتائیں کہ وہ مجدد کون ہے اور کہاں ہے؟ ہم سے پہلے سب لوگ اس مجدد کے منتظر تھے بلکہ صدیق حسن خاں کا یہ خیال تھا کہ شاید میں ہی بن جاؤں اور عبدالحئی لکھو والے کا بھی ایسا ہی خیال تھا۔ مگر اپنے خیال سے کیا بنتاہے جب تک خدا تعالیٰ کسی کو نہ بنائے کون بن سکتاہے ۔ جس کو خدا تعالیٰ کسی کام پر مامور کرتاہے وہ اس کو عمر عطا کرتاہے ۔ اسے اس کے کام کے واسطے توفیق عطا کرتاہے ۔ اس کے لیے اسباب مہیا کرتا ہے ۔ دوسرے لوگ اپنے خیال میں ہی مرکھپ جاتے ہیں اور ان سے کچھ بن نہیں سکتا۔ کوئی جھوٹا تحصیلدار بھی بنے تو دو چار روز کے بعد گرفتار ہو کر جیل خانہ میں چلا جاتاہے چہ جائیکہ کوئی خدا کی طرف سے مامور اپنے آپ کو کہے حالانکہ وہ مامور نہ ہو۔ ‘‘

اس روح کو سیراب کرنے والے روحانی مائدہ سے بھرپور مجلس میں اور موضوعات پر بھی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے روشنی ڈالی جو الحکم اور بدر کی ڈائریوں سے اخذ کرکے ملفوظات کی پانچویں جلد کے صفحہ 162 پر درج ہیں ۔ اس موقع پر مہمان نوازی کے اعلیٰ وصف کی بلندی کا بھی اظہار ہوا، جب مہمان کے حق کے ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے سید حبیب اللہ صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر میں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتاہے جو تکلیف اُٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کیلئے باہر آگیا ہوں‘‘

(استفادہ ازملفوظات جلد 5صفحہ162،ایڈیشن 1988ءاورالحکم جلد 11 نمبر 9صفحہ 10تا 11 اوراخبار بدر کا متعلقہ شمارہ، نمبر 11 جلد 6 صفحہ 6)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button