سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مسجد اقصیٰ کی دوسری توسیع 1910ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوئی
اور تیسری باقاعدہ توسیع تو حضرت مصلح موعودؓ کے عہدمبارک میں 1938ء میں ہی ہوئی

مسجداقصیٰ کی تعمیر وتوسیع

(حصہ دوم)

مسجدکی اس توسیع کے لیے کوئی باقاعدہ اشتہاریااعلان نہیں کیاگیابلکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدسؑ کی خواہش اورایماء پرچندہ اکٹھاکیااور اس سے توسیع کاکام عمل میں لایاگیا۔حضرت عرفانی صاحب ؓ اس کی تفصیل کاذکرکرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :

’’جماعت کی روزافزوں ترقی نے جامع مسجد (مسجداقصیٰ) کوتنگ کردیااور صحن کافی نہ تھا۔ حضرت اقدسؑ نے اس کی توسیع کاارادہ فرمایا اور ……اس کے لئے کوئی عام تحریک نہیں کی گئی تھی تاہم حضرت مَخْدُوْمُ الْمِلَّۃ کے خطوط کی بناء پربعض دوستوں کواطلاع دی گئی تھی اور مقامی طورپربھی تین سوروپے کے قریب چندہ جمع ہوگیاتھااور حضرت میرناصرنواب صاحب رضی اللہ عنہ کے زیراہتمام یہ کام شروع ہو گیا تھا۔ ابتداءً قادیان کے غیرمسلموں نے مخالفت کی جیساکہ ان کا عام معمول تھا کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں مخالفت کرنا اور تشدد کرنااپنا نصب العین سمجھتے تھے لیکن جب قادیان کے غیراحمدیوں نے بھی کہا کہ یہ مسجدکامعاملہ ہے ہم تمہاراساتھ نہ دیں گے توقضیہ ختم ہوگیا۔ اس توسیع کے سلسلہ میں راقم الحروف

اَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّث

کے ارشاد کی تعمیل میں اللہ تعالیٰ کے اس فضل کاذکرکرتاہے کہ مسجدکی توسیع میں جس زمین پرعمارت تعمیرہوئی اس کے حاصل کرنے کی سعادت اسے ہی حاصل ہوئی۔وہ سخت مخالفین کے قبضہ میں تھی اور خاکسار کی سعی کواللہ تعالیٰ نے بابرکت فرمایااور وہ زمین خریدی گئی۔فالحمدللہ اس توسیع کے سلسلہ میں الحکم کا ایک نوٹ آج اپنے اندر ایک صداقت کا مظہر ہے۔

جامع مسجد کے صحن کی تنگی اور نمازیوں کی کثرت اور ان کی تکالیف کو دیکھ دیکھ کرہمارے امام ہمامؑ نے جامع مسجد کی توسیع کا ارادہ فرمایا تھا اور ارادہ کے ساتھ ہی کوئی تین سوسے زائد رقم چندہ کی جمع ہوگئی تھی جس پر مسجد کی توسیع کا کام شروع کر دیا گیا۔ اس کام کیلئے کوئی خاص اشتہار حضرت اقدس نے شائع کرنا ضروری نہیں سمجھا لیکن تاہم حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سلّمہ ربّہ نے قریباً کل احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلا دی تھی اور اکثر جگہ سے چندہ آبھی گیا اور مسجد کا کام بہت کچھ ہو بھی گیا اوربہت باقی ہے۔مسجد کے جنوبی پہلو میں ایک اور عمارت بڑھائی گئی ہے جو عندالضرورت عو رتوں کے لئے نماز پڑھنے کے کام آئے گی اور صحن قریباً پہلے سے دوچند ہو گیا ہے۔حضرت اقدس اب جبکہ مسجد کو دیکھتے ہیں تو نہایت مسرت اور انبساط ظاہر فرماتے ہیں۔دراصل مسلمانوں کی عظمت مذہبی کا یہی ایک نشان ہے اور اگر اس کی طرف بھی توجہ نہ کی جائے تو بیشک افسوس کی بات ہے۔ اس کے پورے طور پر تیار ہونے میں کوئی تین ہزارروپیہ خرچ آئیگا۔ہماری جماعت دینی ضرورتوں سے خوب آگاہ ہے اس لئے ضرورت نہیں کہ لمبے چوڑے الفاظ میں ان کو بنائے مسجد کے فضائل اور برکات کا وعظ کرنے بیٹھیں۔صرف اتنا ہی لکھ دینا کافی ہے کہ مسجد کی وسعت کے کام کے واسطے وہ اپنے ایمانی جوش کے موافق چندہ دیں۔جہاں جہاں سے ابھی تک چندہ نہیں آیا وہ لوگ متوجہ ہوں۔صحابہ کرام میں بھی عندالضرورت چندوں کی فہرستیں کھلتی تھیں اور ان کے چندوں کی انتہا یہ ہوتی تھی کہ جو کچھ جمع جتھا گھر میں ہوتاتھا لا کررسول اللہﷺ کے حضور رکھ دیتے تھے یاکم ازکم نصف تو ضروردیتے تھے۔پس کیا تعجب ہے اگر ہمارے دوست ہمت کریں او ر ایک ایک مہینہ کی تنخواہ یا کم از کم پندرہ دن کی تنخواہ مسجد کی وسعت کیلئے دے دیں۔تاکہ اس خانہ خدا کی عظمت اور اس کی وسعت کے ساتھ بڑھے۔

دوستو!یہ مبارک مسجد جس میں امام الزمان آکر نماز پڑھتا اور کھڑاہوتاہے ایک وقت آئیگا کہ ایک مسجد ہوگی جو خداکی نظرمیں مقبول ومنظورہے اورہوگی اس میں خداتعالیٰ کے بڑے بڑے برکات اور فضل نازل ہوئے ہیں اور ہوں گے اور اس کارِخیر میں حصہ لینےوالے کے لئے دنیا کے آخرہونے تک بھی ثواب اور برکات کا سلسلہ جاری رہے گا۔آخر میں ہم یہ کہہ کردوستوں کی طرف دیکھتے ہیں۔؂

اے کہ داری مقدرت ہم عزم تائیداتِ دین

لطف کن مارا نظر بر اندک و بسیار نیست

مسجد کے متعلق زرچندہ حضرت اقدس علیہ السلام یامیرناصرنواب صاحب مہتمم تعمیرات دارالامان کے نام بھیجیں۔‘‘

(حیات احمدؑ جلدپنجم حصہ اول ص367۔- 369)

حضرت اقدسؑ مسجداقصیٰ کی اس پہلی توسیع کا ایک اشتہارمیں ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’خداتعالیٰ کے فضل وکرم سےقادیان کی مسجدجومیرے والدصاحب مرحوم نے مختصرطورپردوبازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پربنائی تھی اب شوکتِ اسلام کے لئے بہت وسیع کی گئی۔ اوربعض حصہ عمارات کے اوربھی بنائے گئے ہیں لہذا اب یہ مسجد اوررنگ پکڑگئی ہے۔یعنی پہلے اس مسجدکی وسعت صرف اس قدرتھی کہ بمشکل دوسوآدمی اس میں نمازپڑھ سکتاتھا لیکن اب دوہزار کے قریب اس میں نمازپڑھ سکتاہے۔ اورغالباً آئندہ اوربھی یہ مسجد وسیع ہوجائے گی۔‘‘

(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ الف،روحانی خزائن جلد16 صفحہ15)

دوبازاروں سے مراد ایک کانام ہندوبازارہے اور دوسرےکوبڑابازارکہاجاتاتھا۔

اوریہ پہلی توسیع جوحضرت اقدس علیہ السلام کے عہد مبارک میں ہوئی اورجس کاذکرحضورؑ اس اشتہارمیں فرمارہے ہیں مئی 1900ء سے پہلے پہلے ہی ہوئی ہوگی کیونکہ یہ اشتہار 28مئی 1900ء کاہے جیساکہ روحانی خزائن کی اسی جلدکے ص30پردرج ہے۔

مسجد اقصیٰ کی دوسری توسیع

مسجد اقصیٰ کی دوسری توسیع 1910ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوئی۔ اس وقت اصل مسجد کی عمارت کو اور صحن کو جنوبی جانب اس قدر بڑھا دیا گیا کہ وہ دوگنی سے بھی کچھ بڑی ہو گئی۔ پرانی مسجد کے تین در تھے۔ اس توسیع کے ساتھ پانچ دروں کا مزید اضافہ ہوا۔ اس کے سامنے ہی لکڑی کے ستونوں کا ایک برآمدہ بھی تعمیر ہوا جس کی چھت ٹین کی تھی۔بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ برآمدہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت میں بنایا گیا تھا جس زمانہ میں مینار ۃ المسیح کی تکمیل کا کام جاری تھا جو کہ 1914ء سے 1916ء کا درمیانی عرصہ بنتا ہے۔

(بحوالہ:مرکزاحمدیت قادیان۔صفحہ55)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسجد کی توسیع کے وقت ہی مسجد کے پیچھے ایک حجرہ بھی تعمیر کیا گیا تھا جس کی تعمیر میں قادیان کے لوگوں نے ’’وقارعمل‘‘ کے طورپر حصہ لیا۔ یہاں تک کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے خود بھی اپنے ہاتھ سے مٹی کی ٹوکریاں اٹھائیں۔اسی طرح مسجدکے نچلے حصہ میں تین کمرے تعمیرکئے گئے جوکہ قدرے ایک دوسرے سے بڑے ہیں۔

(بحوالہ: مرکزاحمدیت قادیان۔صفحہ56)

تیسری توسیع؛بعہدمبارک خلافت ثانیہ

تیسری باقاعدہ توسیع تو حضرت مصلح موعودؓ کے عہد مبارک میں 1938ء میں ہی ہوئی لیکن اس سے قبل 1934ء میں مسجدکاوہ برآمدہ جوٹین کابناہواتھا۔اس کواتارکراس کی جگہ پختہ اینٹوں کابرآمدہ بنادیاگیااوران ٹین کی چادروں سے مسجدکی شمالی جانب جہاں وضوکرنے کی ٹونٹیاں لگی ہوئی تھیں چھت ڈال دی گئی۔

(بحوالہ مرکزاحمدیت قادیان صفحہ56)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں تیزی سے ترقی ہورہی تھی اور حضرت اقدسؑ کوہونے والاالہام

وَسِّعْ مَکَانَکَ

جماعتی تاریخ میں ہمیشہ سے اس طرح پوراہوتارہاہے کہ یوں لگتاہے کہ مہمانوں اور جماعتی ضرورتوں کے لیے کوئی مسجد،جلسہ گاہ یالنگرخانہ وغیرہ ادھرتعمیرختم نہیں ہوتی کہ وہی جگہ چھوٹی پڑنی شروع ہوجاتی ہے۔اورخدائی تقدیر گویاعملی رنگ میں گویاہورہی ہوتی ہے کہ

وَإِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْهَا إِنَّ اللّٰہَ لَغَفُورٌ رَّحِيْمٌ(النحل:19)

اوراب یہ توسیع شدہ مسجداقصیٰ بھی چھوٹی ہونی شروع ہوگئی تھی۔اس پرحضرت مصلح موعودؓ نے مسجدکی توسیع کے لیے مزیدجگہ خریدنے کا منصوبہ بنایا۔ مسجداقصیٰ شمالی جانب مزیدبڑھ نہیں سکتی تھی۔غربی جانب بھی قدرے دقت طلب منصوبہ ہوسکتاتھا۔اس لیے اس وقت کے محل وقوع کے اعتبارسے جنوبی جانب ہی ایک آسان پراجیکٹ ہو سکتا تھا گوکہ اس میں بھی رہائشی مکانات حائل تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے جنوبی جانب کے تین مکان خریدفرمائے ان تین میں سے دوتوہندوؤں کی ملکیت تھے اور ایک مکرم سردارمحمدیوسف صاحب ایڈیٹر اخبار نور کا تھا۔ اور یوں یہ سارارقبہ مسجدکی جنوبی جانب توسیع کے لیے استعمال کرلیاگیا۔ مسجد چونکہ اونچی تھی اورپہلے جہاں تک بنی ہوئی تھی اس کے آگے گلی آجاتی تھی اس لیے مسجدکے صحن کوپہلے والے صحن کے برابرکرنے کے لیے نیچےکمرے بنائے گئے اورگلی پرچھت ڈال دی گئی جس طرح شمالی جانب ٹین کی چھت لگائی گئی تھی۔اس طرف بھی ایک حصے تک ٹین کی چھت بنائی گئی تاکہ بارش اوردھوپ سے بچاجاسکے۔یہ توسیع 12 اپریل 1938ء کوخداکے حضورعاجزانہ دعاؤں کے ساتھ شروع ہوئی۔ چنانچہ اس کے متعلق الفضل میں شائع ہونے والی خبریہ ہے :

’’قادیان 12 اپریل، الحمدللہ مسجداقصیٰ کی توسیع جس کی دیرسے ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ خداتعالیٰ کے فضل سے شروع کردی گئی ہے۔یہ توسیع مسجدکی جنوبی جانب ان مکانات کوگراکرکی گئی ہے۔ جو صدرانجمن احمدیہ نے اسی غرض سے خریدے تھے۔ آج دس بجے صبح حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس نئے حصہ کی بنیاد رکھی۔ حضور سوا نو بجے ہی تشریف لے آئے اور توسیع مسجد کانقشہ ملاحظہ فرمانے کے بعد دیرتک حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ سے گفتگوفرماتے رہے۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحب،جناب مولوی عبدالمغنی خان صاحب اورجناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بھی ہمراہ تھے۔مقامی احباب کثیرتعداد میں اس مبارک تقریب پرجمع تھے۔دس بجے کے قریب حضورنے مغربی کونہ میں خشتِ بنیادرکھی۔ بنیادکے لئے چندچھوٹی اینٹیں جوحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانۂ مبارک کی تھیں اورمسجداقصیٰ کی چھت کی ایک برجی سے علیحدہ کی گئیں لائی گئیں۔بنیاد رکھنے کے وقت حضورکے ارشاد سے حافظ محمدرمضان صاحب نے بآوازبلند قرآن کریم کی وہ دعائیں بارباردہرائیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیادرکھتے وقت اللہ تعالیٰ سے کیں۔اس کے بعد حضورنے مجمع سمیت لمبی دعافرمائی۔‘‘

(روزنامہ الفضل قادیان،جلد26نمبر85، 14؍اپریل 1938ء صفحہ 2 کالم نمبر1)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button