جماعت احمدیہ، صحابہ کے نقشِ قدم پر
مکرم ذیشان محمود صاحب سیرالیون سے تحریر کرتے ہیں:
عربی زبان کی ایک ضرب المثل ہے
كأنَّ عَلَى رُءُوسِهِمُ الطَّيْرُ
یعنی گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیںیعنی جب کسی کی محویت کا یہ عالم ہو کہ پرندے ان کو مجسمہ یا دیوار سمجھ کر ان کے سروں پر بیٹھ جائے۔اس لیے یہ محاورہ کسی کی حالت سکون، محویت اور خشیت کے اظہار کے لیے بولا جاتا ہے۔
صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بے حس و حرکت بیٹھنے کی منظر کشی بھی انہی الفاظ میں یوں بیان ہوئی کہ
كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَكَلَّمَ أَطْرَقَ جُلَسَاؤُهُ كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِهِمُ الطَّيْر۔
(الأنباري: الزاهر في معاني كلمات الناس، جلد1صفحہ 190)
یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو شاملین مجلس کی محویت کا یہ عالم ہوتا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔
(سنن ابن ماجه، جلد1، صفحہ 111 رقم 1549)
ابھی جلسہ سالانہ یوکے کے خدمت و اطاعت کے نظاروں سے ایمان کو ملی حرارت موجود تھی کہ خدام احمدیت کے جذبہ محبت و اطاعت خلافت نے دلوں کو مزید گرما گیا۔ تشنہ لب سبوئے گلفام احمدیت تھامے ہوئے اس روحانی سرور و لذت کی خاطر اس بادہ مست بادہ محفل میں جام احمدیت سے لذت و سرور کے جام پیے جا رہے تھے۔
22؍اگست کو سوشل میڈیا پر جرمنی میں خدام الاحمدیہ جرمنی کے ایک اجتماع کے مناظر شیئر ہوئے۔ان مناظر نے احمدیوں کے قلوب و اذہان کو ایک جلا بخشی جو ان کے سوشل میڈیا پر کیے گئے تبصرہ جات سے واضح نظر آتا ہے۔
جرمنی کے مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے دوران شدید بارش میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے محوِ گفتگو دیکھ کر مذکورہ بالا محاورہ ان پر بھی صادق آیا۔بارش بھی موسلادھار برس کر ان کے ایمان کو آزما رہی تھی۔ لیکن ان خدام کاعشق و محبت کسی مٹی کی دھول کی طرح نہیں تھا جو بہ جاتا۔ بلکہ ان کا عزم مثل چٹان ثابت ہوا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو قرآن کریم میں آخَرین کا لقب دیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ ع
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ع
مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو
جبکہ ہر احمدی کے اخلاص و وفا کی زبان حال اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ
دیوانوں کی فہرست میں اِک نام بڑھا دے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تو ان دیوانوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پہلے بھی فرمایا تھا:’’خدام اور رضاکار ایسی مہارت سے یہ کام کرتے ہیں کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتی اور کسی بھی تنظیم میں ہم یہ نہیں دیکھ سکتے۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ جذبہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نوجوانوں اور کام کرنے والوں میں پیدا کیا ہے۔ بارش ہو یا دھوپ ہو یہ نوجوان ان باتوں سے بے پرواہ ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جاری کردہ اس جلسے کے لئے ہر وقت بے نفس ہو کر کام کر رہے ہیں … ان مغربی ممالک میں جہاں دنیا کمانا اور دنیاوی باتوں میں پڑنا ہر ایک کی عموماً الا ماشاء اللہ اوّلین ترجیح ہے وہاں احمدی نوجوان عاجزی سے رضاکارانہ خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم مسلسل ان کارکنان کے لئے دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جہاں احسن رنگ میں خدمت کی توفیق دیتا رہے وہاں ان کو ہمیشہ ہر شر اور پریشانی اور تکلیف سے محفوظ رکھے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍ اگست 2015ء)
پس یہ ایک سبق ہے جو مسیح محمدی کے ان پروانوں نے دنیا کو دیا ہے۔جہاں اپنوں کے لیےایک نمونہ قائم کیا وہیں غیروں کے لیے ایک کھلا نظارہ تھا کہ آج کونسی پُر امن جماعت ہے جو اپنے روحانی راہ نما کی بات سننے کے لیے اس طرح امن اور شانتی سے بیٹھ رہتی ہے۔
یہ محبت ان مادیت پرست ممالک کے باسیوں میں کون پیدا کر رہا ہے کہ دنیا ومافیہا سے بے خبر، موسم کی سختی سے بےپرواہ صرف خدا تعالیٰ اور اس کے محبوب کی بات کی سننے خاطر بت بنے بیٹھے ہیں۔یہ خدائی سلسلہ ہے اور خدا تعالیٰ نے ہی ایسی مخلص جماعت اپنے مسیح محمدی کو عطا فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان جوانانِ احمدیت کے ایمان و ایقان میں مزید ترقی عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭