خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ اگست2021ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت عمر ؓکے دور ِخلافت میں جنگ رَے، فتح قومیس اور جرجان، فتح آذر بائیجان، فتح خراسان، اصطخر کی فتح وغیرہ کا تذکرہ
ٹرکش انٹرنیٹ ریڈیو کے افتتاح کا اعلان
ہمارے پیارے عزیز طالع کا جنازہ ابھی نہیں پہنچا، جب آئے گا تو اُس کے بعد نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی اور ان شاء اللہ ذکر بھی ہوگا
٭… چار مرحومین 1۔مکرم محمد المختار کبکا صاحب آف مراکش ۔2۔مکرم محمود احمد صاحب سابق خادم مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک قادیان ۔3۔محترمہ سودہ صاحبہ اہلیہ عبدالرحمٰن صاحب آف کیرالہ انڈیا۔4۔محترمہ سیدہ مجید صاحبہ اہلیہ شیخ عبدالمجید صاحب آف فیصل آبادکا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ اگست2021ء بمطابق 27؍ظہور1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 27؍اگست 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت عمر ؓکے واقعات کا ذکر چل رہا ہے۔آ پؓ کے زمانے میں ایک جنگ ہوئی جسے جنگ رَے کہتے ہیں۔رَے نیشا پور سے 480میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ رَے کے رہنے والے کو رازی کہتے ہیں اور مشہور مفسر حضرت امام فخر الدین رازیؒ رَے کے رہنے والے تھے۔رے کا حاکم سیاوخش بن مہران بن بہرام تھا اس نے دنباوند، طبرستان، قومس اور جرجان والوں کو اپنی مدد کے لیے تیار کیا۔ مسلمان ابھی رَے کے راستے میں تھے کہ ایرانی سردار ابو الفرخان زینبی مصالحانہ طور پر مسلمانوں سے آملا۔زینبی نے نعیم بن مقرن کو کہا کہ آپ میرے ساتھ کچھ شہسوار بھیجیے مَیں خفیہ راستے سے شہر کے اند ر جاتا ہوں۔ زینبی کی مدد سے مسلمان شہر میں خفیہ طور پر داخل ہوگئے اور یوں اس شہر پرمسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔شہر والوں کو تحریراً امان دے دی گئی۔
پھر22 ہجری میں فتح قومیس اور جرجان ہوئیں۔قومیس نیشا پور اور رَے کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کے لوگوں نے مزاحمت نہ کی اور امان اور صلح کی تحریر لکھ دی گئی ۔ اسی طرح جرجان ، طبرستان اور خراسان کے درمیان ایک بڑا شہر تھا ۔ یہاں کے لوگوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ جزیہ کی ادائیگی پر صلح کر لی۔
22ہجری میں ہی فتح آذر بائیجان ہے۔حضرت عمرؓ کی طرف سے آذربائیجان کی مہم کا جھنڈا عتبہ بن فرقد اور بکیربن عبدا للہ کو دیا گیا تھا۔ آپؓ کی ہدایت پر ہی یہ دونوں مختلف اطراف سے حملہ آور ہوئے۔ بکیر کو رستم کا بھائی اسفند یاذبن فرخزاذ ملا، لڑائی ہوئی اور جب اسفند یاذ شکست کھا کر گرفتار ہوا تو اس نے بکیر کے ساتھ صلح کر لی اور بکیر کا نمائندہ بن کر مخالفین کے خلاف مسلمانوں کی معاونت کرتا رہا، چنانچہ آہستہ آہستہ تمام علاقہ بکیر کے زیر اقتدار آگیا۔ دوسری جانب عتبہ بن فرقد نے بھی فتح حاصل کی۔ فتوحات کےاس سلسلے کے بعد امیر المومنین عمر بن خطابؓ کے عامل یعنی عتبہ بن فرقد کی جانب سے آذربائیجان کے باشندوں کوصلح کی تحریر لکھ دی گئی۔
آذربائیجان کی فتح کے بعد بکیر بن عبداللہ آرمینیا کی جانب بڑھے۔ حضرت عمرؓ نے بکیر کی معاونت کےلیے سراقہ بن مالک کی سرکردگی میں ایک مزید لشکر بھی روانہ فرمایا۔ آپؓ نے سراقہ بن مالک کو تمام لشکر کا سپہ سالار بھی مقرر فرمایا۔ مسلمانوں کی پیش قدمی اور عزائم کو دیکھتے ہوئے شہر براز کے ایرانی حاکم نے سراقہ بن مالک سے جزیہ کی بجائے فوجی امدادکی شرط پر صلح کر لی چنانچہ آرمینیا بغیر جنگ کے فتح ہو گیا۔ حضرت عمر ؓنے اس صلح پر بڑی مسرت اور پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔اس کے بعد سراقہ بن مالک نے آرمینیا کے ارد گرد واقع پہاڑوں کی طرف افواج بھیجیں جنہیں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
پھر 22 ہجری میں فتح خراسان ہوئی۔ جنگِ جلولاء کے بعد ایرانی بادشاہ یزدجرد رَے بعد ازاں کرمان، خراسان اور مرو میں مقیم رہا۔ یہاں اس نے ارد گرد کے اہلِ عجم اور اہل ِفارس و ہرمزان سے راہ و رسم بڑھا کر مسلمانوں کے خلاف ورغلایا اور بالآخر مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں میں بغاوت کروادی۔ ان حالات کی سنگینی کے باعث حضرت عمرؓنے مسلمانوں کو اجازت دی کے وہ ایران کے علاقوں میں پیش قدمی کریں۔آپؓ کے حکم پر اہلِ بصرہ اور اہلِ کوفہ نے زبردست حملے کر کےشاہ ایران یزد جرد کو باربار ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہونے پر مجبور کردیا۔ اس صورتِ حال میں یزد جرد مرو روذ، بلخ وغیرہ مقامات سے ہوتا ہوا دریا پار کرکے بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔ ان نئے حالات میں نیشا پور سے لے کر طخارستان تک کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کر لی۔ جب حضرت عمرؓ کو فتح خراسان کی خبر ملی تو آپؓ نے فرمایا کہ مَیں تو چاہتا تھا کہ اِن ایرانیوں کے خلاف کوئی لشکر کشی نہ کرنی پڑے اور ہمارے اور ان کے درمیان آگ کا سمندر حائل ہو۔ لہٰذا آپؓ نے احنف بن قیس کو دریا عبور کرکے پیش قدمی سے منع فرما دیا۔ یزد جرد مختلف شہروں میں پھرتا رہا اور حضرت عثمانؓ کے دَورِ خلافت میں قتل ہوا۔
احنف بن قیس کی جانب سے موصول ہونے والے مالِ غنیمت کے متعلق حضرت عمرؓ نے مسلمانوں سے پُر درد خطاب فرمایا۔ جس میں اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایاکہ مجھے یہ خطرہ نہیں کہ دشمن، مسلم امہ کو تباہ کرے گا بلکہ مجھے تم مسلمانوں ہی سےامّت کی تباہی کا خوف ہے۔ حضور انور نے فرمایا آج ہم یہی بات سچ ثابت ہوتی دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان ہی مسلمان کی گردن مار رہا ہے اور ایک ملک دوسرے ملک پر جہاد کا نام لےکر چڑھائی کر رہا ہے۔
اصطخر جو فارس کا مرکزی شہر اور ساسانی بادشاہوں کا مقدس مقام تھا اس علاقے کی جانب حضرت عثمان بن ابو العاصؓ نے پیش قدمی کی۔ یہاں بھرپور جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی۔ حضرت عثمان بن ابوالعاص نے مالِ غنیمت جمع کیا اور اس کا خُمس نکال کر امیر المومنین حضرت عمرؓ کے پاس بھجوا دیا۔ ایک روایت کے مطابق اصطخر کو پہلی مرتبہ حضرت علاء بن حضرمی نے 17 ہجری میں فتح کیا تھا۔
حضرت ساریہ بن زنیم ؓکو حضرت عمرؓ نے 23 ہجری میں فسا اور دارابجرد کی طرف روانہ فرمایا۔حضرت ابن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت عمرؓ نے خطاب کرتے ہوئے اچانک اونچی آواز میں کہا یا ساریۃ الجبل یعنی اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ۔ حضرت مصلح موعودؓ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ فقرات یعنی ساریۃ الجبل بے تعلق تھے چنانچہ لوگوں نے ان فقرات کے متعلق حضرت عمرؓ سے سوال کیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں نے اسلامی لشکر کے ایک جرنیل ساریہ کو دیکھا کہ دشمن ان کے عقب سے حملہ آور ہو رہا ہے اور قریب تھا کہ اسلامی لشکر تباہ ہو جائے۔ اس لیے مَیں نے انہیں آواز دی کہ اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہو جاؤ۔ اس واقعے کو ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ساریہ کی طرف سے اسی مضمون کی اطلاع آگئی۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی زبان اُس وقت اُن کے قابو سے نکل گئی تھی اور اُس قادر ِمطلق ہستی کے قبضے میں تھی جس کے لیے فاصلے اور دوری کوئی شئے نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ الزام کے صحابہ کرام سے الہام ثابت نہیں بے جا اور غلط ہے۔ حضرت عمرؓ کا ساریہ کے لشکر کی خطرناک حالت سے مطلع ہوجانا الہام نہیں تو اور کیا تھا۔
23 ہجری میں حضرت سہیل بن عدیؓ کے ہاتھوں کِرمان فتح ہوا۔اسی طرح 23 ہجری میں سجستان جو خراسان سے بڑا علاقہ تھا فتح ہوا۔ مشہور ایرانی پہلوان رستم اسی علاقے کا رہنے والا تھا۔فتح مکران بھی 23 ہجری کی ہے۔یہاں مسلمانوں نے سندھ کے بادشاہ کے خلاف متحد ہو کر جنگ کی اور اسے شکست دی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ فتوحاتِ فاروقی کی آخری حد یہی مکران ہے۔ مؤرخ بلادری کے مطابق عہدِ فاروقی میں دیبل کے نشیبی علاقوں اور تھانہ تک مسلم افواج پہنچ چکی تھیں۔ اگریہ صحیح ہے تو حضرت عمرؓ کے زمانے میں اسلام کا قدم سندھ و ہند میں بھی آچکا تھا۔
حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ذکر کرنے کے بعد حضور انور نے ایک ٹرکش انٹرنیٹ ریڈیو کا افتتاح کرنے کا اعلان فرمایا۔اس ریڈیو سے دنیا بھر میں 20سے زائد ممالک استفادہ کریں گے۔اس ریڈیو کی تیاری کی توفیق شعبہ تبلیغ جرمنی کو ملی ہے۔ حضور انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ شعبہ تبلیغ جرمنی کی اس کاوش کو قبول کرتےہوئے اس نئے انٹرنیٹ ریڈیو کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔
خطبے کے آخر میں حضور انور نےمرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے محترم سیّد طالع احمد صاحب مرحوم و مغفور کے متعلق فرمایا کہ ہمارے پیارے عزیز طالع کا جنازہ ابھی نہیں پہنچا، جب آئے گا تو اُس کے بعد نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی اور ان شاء اللہ ذکر بھی ہوگا۔
بعد ازاں حضورِانور اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل 4 مرحومین کا ذکرِ خیر فرمایا۔
1۔مکرم محمد المختار کبکا صاحب آف مراکش جو 73سال کی عمر میں وفات پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
2۔مکرم محمود احمد صاحب سابق خادم مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک قادیان جو 74 سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
3۔محترمہ سودہ صاحبہ اہلیہ عبدالرحمٰن صاحب آف کیرالہ انڈیاجو 22 جولائی کو 76 سال کی عمر میں وفات پا گئی تھیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحومہ شمس الدین صاحب مالہ باری مبلغ انچارج کبابیر کی والدہ تھیں۔
4۔محترمہ سیدہ مجید صاحبہ اہلیہ شیخ عبدالمجید صاحب آف فیصل آباد جو 86 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حضور انور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کےلیے دعا کی۔
٭…٭…٭