جلسہ سالانہ…کچھ یادیں
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس وبا سے نجات عطا فرمائے اور نیکیاں اورنیکیوں کے مواقع پھر سے حاصل ہوں اور ہم ان سے کماحقہ فائدہ اٹھاسکیں
اللہ تعالیٰ کے اذن اور منشاء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی تھی اس میں خداتعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو بچپن سے ہی باقاعدہ شمولیت کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے۔بچے سال بھر جلسہ کو یاد کرتے اور جلسہ کا انتظار کرتے۔ خاکسار کو یہ تو یاد نہیں ہے کہ کبھی کسی نے جلسے میں شامل ہونے کی تلقین یا ترغیب دلائی ہو مگر یہ ضرور یاد پڑتا ہے کہ ذہن میں یہ پختہ تاثر رہا کہ جلسے میں حاضر نہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔قادیان کے تمام جلسوں میں شامل ہونے کے علاوہ تقسیم ملک کے بعد لاہور میں ہونے والے، اسی طرح ربوہ میں ہونے والے پہلے جلسے میں بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ بچپن میں لنگرخانہ میں روٹیاں گننے، روٹیوں کی ڈھیریاں لگانے، تنوروں سے کمروں تک روٹیاں پہنچانے وغیرہ کی چھوٹی چھوٹی ڈیوٹیاں بڑی خوشی اور باقاعدگی سے دیتے رہے۔
خاکسار کو بطور مربی سلسلہ کراچی کی جماعت میں خدمات بجالانے کی توفیق ملی تو وہاں سے بھی جلسے پر ربوہ برابر آنے کے مواقع ملتےرہے۔ جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیوں کے سلسلے میں جو مختلف شعبے بنائے جاتے تھے ان میں سے ایک شعبہ ’’سٹیج و پروگرام‘‘ہوتاتھا۔ اس زمانے میں میرے مشفق و مہربان استاد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اس شعبے کے منتظم ہوتے تھے۔ان کے نائب حضرت مولاناعبدالمالک خان صاحب تھے۔ خاکسار کو ان بزرگوں کے ساتھ بطور معاون خدمت بجالانے کی سعادت حاصل ہوتی رہی بعد میں خاکسار نے نائب منتظم اور منتظم کے طور پر بھی یہ ڈیوٹی ادا کی۔
اس شعبے کے ذمہ تلاوت و نظم کے لیے موزوں پڑھنے والوں کا انتخاب اور ان کی مدد کے ساتھ ساتھ لیکچرار حضرات سے رابطہ، یاددہانی اور حسبِ ضرورت سواری وغیرہ کا انتظام کرنے کا کام تھا۔اس سلسلے میں متعدد بزرگ ہستیوں حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ، حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ، حضرت قاضی محمد اسلم صاحب وغیرہ سے ملنے کے مواقع میسر آتے رہے۔
ایک دلچسپ بات یاد آرہی ہے۔ ایک جلسےکا افتتاحی اجلاس ہونے والا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے کارروائی شروع ہوئی۔ تلاوت کے بعد حضورؓ نے فرمایا:’’ابھی ایک نوجوان نے تلاوت کی ہے…‘‘یہ فقرہ سنتے ہی ہم ڈیوٹی والوں نے پہلے ایک دوسرے کی طرف غور سے دیکھا۔ پھر تلاوت کرنے والے (اگر میں بھول نہیں رہا تو ان کا نام مبشروسیم گورداسپوری تھا) کی طرف دیکھا کہ نہ جانے ہم سے یا ان سے کوئی غلطی ہوگئی ہے تاہم حضورؓ نے کسی غلطی کی نشاندہی کی بجائے اس تلاوت میں سے کوئی تفسیری نکتہ بیان فرمایا۔
سٹیج پر جو اعلان ہوتے تھے ان کے متعلق یہ مستقل ہدایت تھی کہ تقریر کے دوران کوئی اعلان نہ کیا جائے البتہ اگر کسی بچے کی گم شدگی کا اعلان ہوتو فوراً بلاتاخیر کیا جائے۔ایک دفعہ حضرت خلیفةالمسیح الثالث ؒکی تقریر کے دوران کسی بچے کے گم ہوجانے کا اعلان آیا۔ خاکسار اعلان والا کاغذ ہاتھ میں لے کر حضورؒ کے پاس کھڑا ہوگیا۔ ابھی میں نے کچھ عرض نہیں کیا تھا کہ حضورؒ نے خود ہی فرمایا:’’اعلان کرنا ہے‘‘اور ساتھ ہی ایک طرف ہوگئے تا خاکسار یہ اعلان کرسکے۔ اس تاریخی اور نادر موقع کی تصویر بھی میرے کسی مہربان نے بنائی تھی جو اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔
خاکسار جلسے میں حاضری کا ذکر کررہا تھا۔ جلسہ سالانہ کے فوائد، برکات اور اس روحانی غذا کا اکثر ذکر ہوتا رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کے دلوں میں اس روحانی تقریب کے لیے غیرمعمولی رغبت پیدا فرمائی ہے۔مجھے ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے بعض ایسے احمدی بزرگوں سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی جو اپنے گاؤں سے پیدل چل کر راستےکی مشکلات کو جھیلتے ہوئے جلسے پر حاضر ہوا کرتے تھے۔ان میں سے بعض نے بتایا کہ رستے میں آنے والے دریا (جو سردی کی وجہ سے بالعموم پایاب یا خشک ہوتے تھے) بھی اسی طرح پیدل چلتے ہوئے ہی عبور کیے جاتے تھے۔ بعض دفعہ تو یہ بھی ہوتا تھا کہ اگر چپل چلتے ہوئے ٹوٹ جاتے تو باقی ماندہ سفرننگے پاؤں ہی ہوتا تھا۔
خاکسار کی اہلیہ صاحبہ کے والدین بتایا کرتے تھے کہ ہم دریائے بیاس کے پار ضلع ہوشیارپور کے ایک گاؤں سے قادیان آیا کرتےتھے۔ دریا پر جہاں کشتی ملتی تھی اس جگہ کو ’’پیٹاں دا پتن‘‘کہا جاتا تھا یہ جگہ بہت بدنام تھی اور مسافروں کے ساتھ بدسلوکی بلکہ چوری اور ڈاکے کی وجہ سے بھی مشہور تھی۔یہاں تک کہ اس علاقےکو لوگ اگر کسی سے ناراض ہوجاتے اور اسے بددعا اور کوسنے دینے ہوتے تو کہتے تھے کہ ’’تینوں رات پیٹاں دے پتن آوے‘‘وہ بتایا کرتے تھے کہ قادیان میں ہمارے عزیز گرم پانی مہیا رکھتےتھے تاکہ تھکن اور پاؤں کے چھالوں وغیرہ کا کسی قدر علاج ہوسکے۔
تقسیم ملک کے بعد خاکسار متعدد مرتبہ قادیان کی زیارت اور جلسے میں شمولیت کی خاطر جاتا رہا۔ پاسپورٹ، ویزا کا حصول، قافلے میں نام شامل ہوسکنے وغیرہ کے بہت سے مراحل اور مشکلات ہوتی تھیں بلکہ ایک بہت عجیب سی مشکل یہ بھی ہوتی تھی کہ ’’سمجھوتہ ایکسپریس‘‘ پر جاتے ہوئے ذہن یہی ہوتا تھا کہ واہگہ اور اٹاری کے درمیان مختصر سفر ہے اور اس میں کوئی دیر نہیں لگے گی مگر وہاں صورت حال یہ ہوتی تھی کہ مسافر بڑے بڑے بکس اور بہت بڑی بڑی گٹھٹریاں لے کر آئے ہوتے اور اس طرح سامان کی چیکنگ وغیرہ میں گھنٹوں بےکار بیٹھنے کی مشقت پیش آجاتی تاہم
یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ
ذہن میں رہتا اور الدار، مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ، بہشتی مقبرہ، درویشان کرام اور درویش باپ (عبدالرحیم صاحب دیانت درویش) سے ملنے اور زیارت کے شوق میں یہ تکالیف بھول جاتیں اور جلسہ میں شمولیت کی خوشی سب باتوں پر غالب آجاتی۔
امسال انگلینڈ میں جلسہ سالانہ ہوا تو میں ان سب باتوں کو اپنے گھر میں بیٹھا یاد کرتارہا ۔ یہاں خداتعالیٰ کے فضل سے ہرسہولت میسر ہے۔ بچوں کے پاس سفر کی سہولتیں اور آسانیاں میسر ہیں مگر کورونا کی وبا اور اس کے لیے اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر کے باعث جلسہ میں عام شمولیت ممکن نہ تھی۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس وبا سے نجات عطا فرمائے اور نیکیاں اور نیکیوں کے مواقع پھر سے حاصل ہوں اور ہم ان سے کماحقہ فائدہ اٹھاسکیں۔ جلسے میں شامل ہونے والے خوش نصیبوں اور شمولیت کی حسرت رکھنے والوں پر اپنے رحم اور فضل کا سایہ رکھے اور اپنی رضا اور خوشنودی سے نوازے۔
٭…٭…٭