خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ ستمبر2021ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭… بیت المقدس کی فتح…بیت المقدس سے واپسی میں حضرت عمرؓ نے سارے ملک کا دورہ کیا اور جب مدینے پہنچے تو مسلمانوں نے آپؓ کا شان دار استقبال کیاآپؓ مسجدِ نبوی تشریف لےگئے، دو رکعت نماز ادا کی اور لوگوں سے خطاب فرمایا
٭… سترہ ہجری میں رومیوں نے اپنی طرف سے آخری کوشش کی… اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی …آپؓ واپس مدینہ تشریف لے آئےآپؓ نے حکم دیا کہ مالِ غنیمت میں کوفہ والوں کو بھی شریک کیا جائے۔ اس فتح کے تین سال بعد بیس ہجری میں ہرقل فوت ہوگیا
تین مرحومین مکرم چودھری سعید احمد لکھن صاحب (ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر حال مقیم کینیڈا)،مکرم شہاب الدین صاحب (نائب نیشنل امیر بنگلہ دیش) اور مکرم راؤل عبداللہ صاحب (ارجنٹائن کے ابتدائی مقامی احمدی) کا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ ستمبر2021ء بمطابق 24؍تبوک1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 42؍ستمبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت عمرؓ کے زمانے کاذکر ہورہا تھا آج اُسی تسلسل میں بیت المقدس کی فتح جو پندرہ ہجری میں ہوئی، اس کا ذکر ہوگا۔ عیسائیوں نےمحاصرے سے تنگ آکر اس شرط پر صلح کی پیشکش کی کہ معاہدے کےلیے حضرت عمرؓ خود بیت المقدس آئیں۔حضرت عمرؓ نے صحابہ سے مشورہ کیا تو حضرت عثمانؓ نے رائے دی کہ عیسائی مرعوب اور شکستہ دل ہیں،آپ ان کی درخواست ردّ کردیں تو انہیں اوربھی ذلّت ہوگی لیکن حضرت علیؓ نے آپؓ کو ایلیا جانے کا مشورہ دیا۔ مشورے کےبعدحضرت عمرؓ،حضرت علیؓ یا حضرت عثمانؓ کو مدینے میں امیر مقرر فرماکر خود بیت المقدس روانہ ہوئے۔ آپؓ کا یہ سفر کوئی معمولی سفر نہ تھا۔ اس سفر کا مقصد اسلامی رعب اور دبدبہ بٹھانا تھا مگر اس کے باوجود حضرت عمرؓ کے ساتھ کوئی لاؤلشکر نہ تھا بلکہ آپؓ نہایت سادگی کے ساتھ چند صحابہ یا محض اپنےایک غلام کوساتھ لےکر روانہ ہوئے۔ پھر بھی آپؓ کی آمد کی خبرجہاں کہیں پہنچتی تو زمین کانپ اٹھتی۔
محمد حسین ہیکل کے مطابق حضرت عمرؓ صرف معاہدے کی تسویط کے لیے تشریف نہیں لائے تھے بلکہ جب حضرت عمرو بن عاصؓ نے آپؓ سے مزید مدد طلب کی تھی تو حضرت عمرؓ کاپیمانۂ صبر لبریز ہوگیا تھا اور آپؓ خود بھی شام اور اردن کے درمیانی علاقے جابیہ روانہ ہوگئے۔اس دوران حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت خالد ؓبھی شام کی فتوحات سے فارغ ہوگئے اور حضرت عمرؓ نے ان دونو ں کو بھی جابیہ طلب فرمالیا تاکہ بیت المقدس کی فتح کےلیے مفید ترین راہ تلاش کی جاسکے۔
دشمن کے سرداروں کو جب حضرت ابوعبیدہؓ اورحضرت خالدؓکے جابیہ پہنچنے کا علم ہوا تو وہ سمجھ گئے کہ بیت المقدس کی مقاومت اب زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی چنانچہ ایک سردار تو کچھ فوج لےکر مصر کھسک گیاجبکہ سفرینوس نے صلح کی گفتگو میں حضرت عمرؓ کی تشریف آوری کی شرط رکھ دی ۔ دورانِ سفر ہر روز صبح کی نماز کے بعد حضرت عمرؓ اپنے ساتھیوں کو اتمامِ نعمت کی دعا مانگنے کی تلقین کرتےرہتے۔ خالد بن ولیدؓ اور یزید بن معاویہ وغیرہ نےجابیہ میں حضرت عمرؓ کا استقبال کیا تو آپؓ نےیہ دیکھ کر کہ ان افسروں میں عرب کی سادگی باقی نہیں رہی گھوڑے سے اترکر ان کی طرف سنگ ریزے پھینکے۔ان لوگوں کے یہ کہنے پر کہ قیمتی قباؤں کے نیچے ہتھیار ہیں گویا ہم نے سپہ گری کا جوہر ہاتھ سےنہیں دیاحضرت عمرؓ نے فرمایا اگر یہ بات ہے کہ انہیں دکھانے کے لیے ظاہری رکھ رکھاؤ اختیار کیاہے تو ٹھیک ہے۔ یزید بن ابو سفیان نے حضرت عمرؓ سے قیمتی لباس اور عمدہ سواری استعمال کرنے کی درخواست کی تو آپؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! مَیں اس ہیئت کو ہرگز ترک نہیں کروں گا جس میں مَیں نے اپنے دونوں ساتھیوں یعنی رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کو چھوڑا تھا۔
بعض مؤرخین کے نزدیک مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان یہ معاہدہ جابیہ جبکہ بعض روایات کےمطابق ایلیا میں ہوا تھا۔ اس معاہدے پر حضرت خالد بن ولیدؓ، عمرو بن عاصؓ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور معاویہ بن ابوسفیان کی گواہی ثبت تھی۔ حضورِانور نے تاریخ طبری میں درج صلح نامے کی تحریر بھی پیش فرمائی۔
تاریخ ابن خلدون کےمطابق اس معاہدے سے چند باتیں ثابت ہوتی ہیں مثلاً یہ کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا۔ مسلمانوں کے عہد میں دیگر مذاہب کومذہبی آزادی حاصل تھی۔ غیر اقوام سے زبردستی جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔
اس صلح کی خبر جب پھیلی تو اہلِ رملہ، فلسطین اور لدّ والے بھی اسی قسم کے معاہدے کے لیے بےچین ہوگئے۔ حضرت عمرؓ نے فلسطین کو آدھا آدھا تقسیم کرکے علقمہ بن حکیم کو مرکزِ حکومت رملہ اور علقمہ بن مجزز کو ایلیا پر حاکم مقرر فرمایا۔
حضرت عمرؓ بالکل سادہ لباس میں بیت المقدس تشریف لائے جہاں حضرت ابوعبیدہؓ اور سردارانِ فوج نے آپؓ کااستقبال کیا۔ عیسائی پادریوں نے خود شہر کی چابیاں حضرت عمرؓ کے سپرد کیں۔حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ جب عیسائیوں نے آپؓ کو سادہ حلیے میں دیکھا تو شہر کی چابیاں پھینک دیں اور کہا کہ اس سپہ سالار کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے۔ سب سے پہلے آپؓ مسجد اقصیٰ گئے، پھرعیسائیوں کے گرجے کی سیر کی۔ اس دوران نماز کا وقت ہوا تو عیسائیوں نے گرجے میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی تاہم آپؓ نے اس خیال سے کہ کہیں آئندہ نسلیں اس عمل کو حجت قرار دے کر مسیحی معبدوں میں دست اندازی نہ کریں باہر نکل کر نماز پڑھی۔
ایلیا میں قیام کے دوران سوائےحضرت ابوعبیدہؓ کےتمام مسلمان امرا نے حضرت عمرؓ کی دعوتیں کیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے دریافت فرمایا تو ابوعبیدہ نےکہا کہ اے امیرالمومنین! مَیں ڈرتا ہوں کہ اگر مَیں نے آپؓ کی دعوت کی تو آپ اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رکھ سکیں گے۔حضرت عمرؓ اُن کے خیمے میں تشریف لائے تو وہاں گھوڑے کے نمدے اور زین کے سِوا کچھ نہ تھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ ان ہی دو چیزوں کو اپنا بستر بنا لیتے تھے۔ ایک کونے میں خشک روٹی تھی جسے آپؓ نےپانی کے ساتھ حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت عمرؓ نے یہ منظر دیکھا تو آپؓ رو پڑے اور حضرت ابوعبیدہؓ کو اپنے ساتھ چمٹاکرفرمایا کہ اے ابوعبیدہ! تم میرےبھائی ہو۔ اس کے بعد آپؓ خیمے سے باہر تشریف لائے اور بڑا پُرسوز خطاب فرمایا۔
ایک روز حضرت بلالؓ نے افسران کے متعلق عمدہ غذاؤں کے استعمال کی شکایت کی اور کہا کہ عام مسلمانوں کو تومعمولی کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ وہاں حجاز کی نسبت اشیاءبہت سستی تھیں۔ چنانچہ آپؓ نےافسرا ن کو مجبور کرنےکی بجائےغریب مسلمانوں کے لیے اشیائے ضروریہ کا بجٹ بنایا اوربیت المال سے اُن اشیاکی فراہمی یقینی بنائی۔
ایک روز حضرت عمرؓ نے لوگوں کے اصرار پرحضرت بلال ؓسے اذان دینے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی توحضرت عمرؓ سمیت تمام صحابہ کو رسول اللہﷺکا زمانہ یاد آگیا اور وہ روتے روتے بےتاب ہوگئے۔
بیت المقدس سے واپسی میں حضرت عمرؓ نے سارے ملک کا دورہ کیا اور جب مدینے پہنچے تو مسلمانوں نے آپؓ کا شان دار استقبال کیا۔آپؓ مسجدِ نبوی تشریف لےگئے، دو رکعت نماز ادا کی اور لوگوں سے خطاب فرمایا۔
سترہ ہجری میں رومیوں نے اپنی طرف سے آخری کوشش کی۔ یزدجرد کے رَے فرار ہونے کےبعد اہلِ جزیرہ اس کی طرف سے بالکل مایوس ہوچکے تھے چنانچہ انہوں نے ہرقل کو لکھا کہ اگر وہ بحری راستے سے پیش قدمی کرے تو وہ اس کی مدد کریں گے۔ ہرقل نے اس معاملے پر غور کیا اور بحری جہازوں کو اسکندریہ سے انطاکیہ پہنچنے کا حکم دےدیا۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ کو اس پیش قدمی کا علم ہوا تو آپؓ نے حضرت خالد ؓکو مشورے کے لیے بلایا۔ہرقل کے جہاز انطاکیہ پہنچے تو شہر کے دروازے ان کے لیے کُھل گئے۔ شمالی شام میں رعایا کو بغاوت پر آمادہ دیکھ کر ابوعبیدہؓ کو اندازہ ہوا کہ وہ حمص میں محصور ہوچکے ہیں۔ آپؓ نے حضرت عمرؓ کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے ابتدا سے ہی اس خطرے کے پیشِ نظر دُور اندیشی سے کوفہ اور بصرہ میں چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ کا عریضہ حضرت عمرؓ کو ملا تو آپؓ نے محسوس کیاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم سپہ سالار بہت بڑے خطرے میں گھر چکا ہے۔ چنانچہ آپؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو لکھاکہ قعقاع بن عمرو کو حمص بھیج دو۔ اسی طرح آپؓ نے رومیوں سے برسرِ پیکار دیگر سپہ سالاروں کو لکھا کہ ہرقل کی مدد کےلیے جن علاقوں سے فوجیں اکٹھی ہوئی ہیں ، وہاں اپنے دستے روانہ کردو۔ اس حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہرقل کی معاونت کے لیے آنے والی افواج واپس اپنے علاقوں کو لوٹ گئیں۔ جب یہ اطلاع ملی کہ جزیرے سے آئی افواج واپس چلی گئی ہیں تورومیوں کے مقابلے کے لیے میدان میں نکلنے کا فیصلہ ہوا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے مسلمان لشکر سے بڑا پُراثر خطاب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ حضرت عمرؓ شام کے راستے میں ابھی جابیہ پہنچے ہی تھےکہ فتح کی خبر آگئی چنانچہ آپؓ واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ آپؓ نے حکم دیا کہ مالِ غنیمت میں کوفہ والوں کو بھی شریک کیا جائے۔ اس فتح کے تین سال بعد بیس ہجری میں ہرقل فوت ہوگیا۔
حضرت عمرؓ کاتذکرہ آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانےکا اعلان فرمایا۔
1۔ مکرم چودھری سعید احمد لکھن صاحب ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر حال مقیم کینیڈا جو 86 برس کی عمر میں وفات پاگئے،اناللہ وانا الیہ راجعون۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چھے بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے فہیم احمد لکھن صاحب مربی سلسلہ کینیا میں ہیں جو میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے والدکے جنازے میں شامل نہیں ہوسکے۔
2۔ مکرم شہاب الدین صاحب نائب نیشنل امیر بنگلہ دیش جو 12؍جولائی کو وفات پاگئے تھے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے چار بیٹے اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔
3۔ مکرم راؤل عبداللہ صاحب جو ارجنٹائن کے ابتدائی مقامی احمدیوں میں سے تھے۔آپ 6؍ستمبرکو وفات پاگئے، اناللہ واناالیہ راجعون۔
حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کےلیے دعا کی۔
٭…٭…٭