حضور انور کے ساتھ ملاقاتیورپ (رپورٹس)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفین نو برطانیہ (یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلباء) کی (آن لائن) ملاقات

اپنی پڑھائی پہ اور …دعاؤں کی طرف زور دو۔ اللہ سے تعلق بڑھاؤ۔ اپنی پانچ نمازیں جو ہیں وہ پورے وقت پہ ادا کرو

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ 28؍فروری 2021ء کو واقفینِ نو برطانیہ کو آن لائن ملاقا ت کا شرف نصیب ہوا۔

حضور انور نے اس ملاقات کی صدارت اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ ) سے فرمائی جبکہ برطانیہ میں یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلباءواقفین نو نے بیت الفتوح سےآن لائن شرکت کی۔

اس تقریب کاآغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد ایک نظم پڑھی گئی، پھر ایک حدیث مبارکہ پڑھ کر سنائی گئی جس کے بعدحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں سے ایک اقتباس پڑھ کر سنایا گیا۔

حضورِانور کی خدمت میں ایک ویڈیو پیش کی گئی جس میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی تھی نیز گزشتہ روز ہونے والی وقف نو retreatکی چند جھلکیاں پیش کی گئیں جس کا انعقاد شعبہ وقف نو مجلس خدام الاحمدیہ یوکے نے کیا تھا۔

باقی 50 منٹ پر محیط ملاقات کے دوران ، ممبران واقفین نو کو یہ سعادت نصیب ہو ئی کہ وہ مختلف مسائل کی بابت براہ راست حضور انور سے سوالات پوچھ سکیں جن میں آئندہ پیشہ کے انتخاب کے متعلق راہنمائی، وقف زندگی کی اہمیت اور فرائض اور دورِ حاضر میں نوجوانوں کو پیش آنے والی مشکلات کا حل شامل تھے۔

حضور انور سے پوچھا گیا کہ ایک واقفِ نو طالب علم کس طرح محنت کرے کہ وہ انسانیت کی خدمت کے لیے بہترین ڈاکٹر بن سکےاور وقف نو کا عہد بھی پورا کرے۔؟

اس کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دیکھو میڈیکل سٹوڈنٹ کو تو ویسے ہی پڑھنا چاہیے، چاہے وہ وقف نو ہو یا نہ۔ نہیں پڑھو گے تو ڈگری نہیں ملے گی۔ اس لیے چاہے میڈیکل سٹوڈنٹ ہے اور کوئی بھی فیلڈ ہے۔ اپنی پڑھائی پہ توجہ دو اور دوسرے یہ کہ دعاؤں کی طرف زور دو۔ اللہ سے تعلق بڑھاؤ۔ اپنی پانچ نمازیں جو ہیں وہ پورے وقت پہ ادا کرو۔ ایک atheist جو ہے وہ اگر پڑھائی کر لے گا، محنت کر لے گا، اللہ تعالیٰ کو نہیں بھی مانتا تو اسے فرق نہیں پڑتا اس کو اس پڑھائی کی محنت کا rewardاللہ تعالیٰ دے دے گا لیکن ایک مسلمان، ایک احمدی یہ بھی claimکرتا ہے کہ میں اسلام پہ بھی یقین کرتا ہوں، میں اللہ تعالیٰ پہ بھی یقین کرتا ہوں اور اس بات پہ یقین کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری مددکرتا ہے تو پھر اس کو پڑھائی کے ساتھ اس کو proveکرنا پڑے گا، ثابت کرنا پڑے گا کہ میرا اللہ سے بھی تعلق ہے۔ اس لیے ایک احمدی کی محنت کے ساتھ دعا ہوگی تب اس کو اچھی کامیابی ملے گی۔ یہ نہ سمجھو کہ atheistکو کامیابی مل گئی تو مجھے بھی ملنی چاہیے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ یہ بڑا باریک سا فرق ہے جس کا آپ کو خاص خیال رکھنا پڑے گااور جب اسے مدِ نظر رکھو گے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی پیدا کرو گے اور پڑھائی کی طرف توجہ دو گے تو پھر اپنے جو ٹارگٹس ہیں ان کو حاصل کر سکو گے۔

حضورِ انور سے سوال ہو ا کہ جو وقف نو ہیں جن کے پاس جماعتی ذمہ داری ہے وہ ساتھ میں پڑھ بھی رہے ہیں تو ان کو کس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اگر وہ پڑھ رہے ہیں یونیورسٹی میں تو وہ دیکھیں کہ وہ پڑھائی کے ساتھ اپنی جو ذمہ داری ہے اس کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں کہ نہیں کرسکتے۔ اگر اپنی ذمہ داری سے انصاف سے کام نہیں لے سکتے خاص طور پہ جب امتحانوں کے دن ہوتے ہیں ان دنوں میں جو ذمہ دار ہیں ان کو صاف صاف بتا دو کہ میرے آج کل امتحان ہورہے ہیں اس لیے میں اپنا وقت پورا نہیں دے سکتا تو اس وقت پڑھائی پر توجہ دو۔ جب پڑھائی مکمل ہوجائے یا پڑھائی کے علاوہ جو weekendsہیں اور جو extra ٹائم ہے وہ جماعت کے لیے دو اور دینے بھی چاہئیں۔ ضائع نہیں کرنا چاہیے اِدھر اُدھر۔ لیکن یہ بہانہ بناکے کہ جی میں جماعت کا کام کر رہا ہوں اور پڑھائی کو ضائع کردوں یہ نہیں ہونا چاہیے۔ پہلی ترجیح پڑھائی کو دو لیکن ساتھ ساتھ جو بھی spare ٹائم ہے وہ جماعت کی خدمت کرو۔

حضورپُرنور سے ایک سوال ہوا کہ واقفین نو ڈاکٹرز کو کس فیلڈ میں specializationکرنی چاہیے تاکہ جماعت احمدیہ مسلمہ کی بہتر رنگ میں خدمت کر سکیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمیں ہر فیلڈ کے specialists چاہئیں۔ اگر آپ افریقہ جارہے ہیں تو وہاں ہمیں جنرل سرجن چاہئیں۔ اگر ہم آپ کو پاکستان بھجوائیں تو ہمیں دل کے ڈاکٹرز چاہئیں، interventionistsبھی اور simple cardiologistsبھی۔ اس لیے ہر واقفِ نو جو ڈاکٹر بن رہا ہے، جب وہ اپنی ڈگری مکمل کرلے تو اس کو ہمیں لکھنا چاہیے اور راہنمائی طلب کرنی چاہیے کہ وہ کس فیلڈ میں specializationکرے۔ اس کا کوئی عمومی قاعدہ نہیں ہے۔ ہم سب واقفین نو کو نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی معین فیلڈ میں جائیں یا نہ جائیں۔ اس کا انحصار ہر کسی کے انفرادی شوق اور ضرورت پر ہے۔ میں سب کی اسی طرح راہنمائی کرتا ہوں۔

حضورِ انور سے سوال ہو اکہ ایسے دوست جو کووِڈ 19 کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہیں،نوکریاں ختم ہونے کی وجہ سے وہ کون سی دعائیں کریں یا وظیفہ پڑھیں۔

اس پر حضورِ انور نے فرما یا کہ روزانہ پانچ وقت کی نمازیں ادا کریں خاص طور پر سجدوں میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسانی پیدا فرمائے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے۔ سب سے بڑا وظیفہ پانچ وقت کی نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تم ایک معین نماز پڑھو گے تو تمہاری دعا قبول کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہیں پانچ وقت نماز پڑھنی چاہیے اور فرض نمازیں ادا کرو اور ان کے دوران عا ئیں کرواور وہ ان کو قبول کرے گا۔

ایک واقف نو کے طالب علم نے سوال کیا کہ واقفین نو ایسی کون سی قربانیاں کریں کہ وہ اللہ کے ہاں قابل قبول ہوں؟

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ دیکھو واقفِ نو کی قربانیاں اللہ تعالیٰ قبول کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کوئی بھی نیک کام جو اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا جائے وہ اللہ قبول کرتا ہے۔ جو کام بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا جائے اسے اللہ ضرور قبول کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں روٹی کا لقمہ میرا پیار حاصل کرنے کی خاطر ڈال رہے ہو تو وہ بھی تمہاری قربانی تصور ہو گی اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کو پسند آ جائے گی۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت تو یہاں تک وسیع ہے کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں کھانا ڈال رہے ہو لیکن اس نیت سے ڈال رہے ہو کہ تم اللہ کی خاطر قربانی کرتے ہوئے اس کا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کہے گا لو میں تماری قربانی قبول کرتا ہوں۔ تو یہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی تعریف بیان کر دی ہے۔ اس سے اور زیادہ کیا چاہیے تمہیں۔ کوئی بھی کام جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کے لیے کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور وہ بطور قربانی شمار ہوتا ہے۔

حضور انور نے استفسار فرمایا کہ حاضرین کلاس میں سے کتنے ایسے ہیں جو انجنیئر بن رہے ہیں اور اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنا وقت جماعت کے لیے وقف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد انہیں اپنی فیلڈ میں تجربہ حاصل کرنا چاہیے اور انہیں IAAAEکے تحت افریقہ بھجوایا جا سکتا ہے جو دنیا کے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں خدمات فراہم کرتی ہے جن میں پانی، بجلی اور دیگر ضروریات زندگی شامل ہیں۔

حضور انور نے ازراہِ شفقت دریافت فرمایا کہ حاضرین مجلس میں سے کتنے ایسے ہیں جو حضورِ انور کے ساتھ ہونے والی گزشتہ بچوں اور نوجوانوں کی کلاسز میں شامل ہونے کی سعادت پاتے رہے ہیں۔

حضور انور نے اظہار فرمایا کہ Covid-19 کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک لمبے عرصے سے میں آپ سے ملاقات نہیں کر سکا اور یہ کہ اب وہ بڑے بڑے ہو گئے ہیں اور ان کی شکل و صورت بدل گئی ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ سارے بڑے ہو گئے ہو،بڑی خوبصورت قسم کی داڑھیاں بھی رکھ لی ہیں اور بڑے بڑے بھی ہو گئے ہو اس لیے شاید میں پہچان نہیں سک رہا۔ اور بڑی دیر بھی ہو گئی ہے باقاعدہ کلاس لیےڈیڑھ سال سے تو کووڈ 19 نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے ساروں کو۔ تم لوگوں سے مل بھی نہیں سکا۔ آج تم لوگوں کی شکلیں دیکھ رہا ہوں تو بڑی بڑی شکلیں بھی ہو گئی ہیں پتہ نہیں شاید کچھ لوگ شادی شدہ بھی ہو گئے ہوں گے۔ بہرحال اچھی شکلیں ہیں ماشاء اللہ، لیکن مجھے شکلیں یاد نہیں آ رہیں۔ بچپن کی شکلیں یاد آجائیں گی شاید کبھی تصویریں دیکھوں تو۔

ایک واقف نو نے حضور انور سے سوال پوچھا کہ جو (واقفین) سائنس کی فیلڈ میں پڑھائی کر رہے ہیں جیسے فزکس، بیالوجی اور کیمسٹری انہیں ریسرچ پر زیادہ توجہ دینی چاہیے یا ٹیچنگ کیریئر کو اپنانا چاہیے۔

حضورانور نے فرمایا کہ ہمیں تو ہر فیلڈ میں لوگ چاہئیں۔ ریسرچ میں بھی احمدی سکالرز جانے چاہئیں، فزکس والے جو ہیں خاص طور پہ اور بیالوجی پڑھنے والے بائیومیڈیکل سائنسز کریں گے اس کے بعد ریسرچ میں چلے جائیں۔ اگر بیالوجی اور کیمسٹری پڑھنے والے کو میڈیسن میں داخلہ نہیں ملتا تو پھر بائیو میڈیکل سائنسز میں چلے جائیں۔ کیمسٹری والا بھی ریسرچ میں جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہر شخص ریسرچ میں تو نہیں جا سکتا۔ ہر ایک کا اپنا calibreہے اپنا talentہے، جو اس لیول کے نہیں ہیں کہ ریسرچ میں جا سکیں تو ان کی دوسری ترجیح ٹیچنگ ہونی چاہیے۔ پہلی ترجیح ریسرچ اور دوسری ترجیح ٹیچنگ۔ لیکن واقفینِ نو میں سے ہمیں ہر مضمون میں ٹیچر بھی چاہئیں لیکن ایکpercentageچاہیے تا کہ اپنے سکولوں میں لے سکیں۔ باقی یہاں کے سکولوں میں پڑھانے کے لیے ٹیچرز بھی تو چاہئیں۔ یہاں کے سکولوں میں اچھے ٹیچر ہوں گے تو کم از کم ان کے طلباء کے morals تو اچھے ہو سکیں گے۔ یہ بھی تو دیکھنا ہو گا ناں کہ جتنے احمدی ٹیچرز سکولوں میں جائیں گے اتنی زیادہ وہاں کے بچوں کی moral trainingبھی ہوسکے گی، چاہے وہ کرسچن بچے ہیں یا بدھسٹ ہیں یا atheist ہیں یا احمدی بچے ہیں تو اس لحاظ سے بھی ہمیں دیکھنا چاہیے۔ جہاں جہاں بھی احمدی موجود ہوگا وہ علاوہ اپنے subject کے بچوں کو ایک moral training بھی دے رہا ہو گا اس لیے ٹیچنگ بڑا اچھا پروفیشن ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button