خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم اکتوبر 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭… حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فراست اور دُور اندیش حکمت عملی اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی اسلامی فتوحات کا تذکرہ

٭… جنگی کشمکش میں ھَلۡ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ پر عمل کرنا مسلمانوں کی دانش مندی اور اخلاقی برتری کی دلیل ہے

٭… حضرت عمرؓ کے حکم پر اسکندریہ لائبریری کو چھ ماہ تک جلتی آگ میں جلانے کے اعتراض پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا تفصیلی جواب

٭… ہر احمدی کو سمجھنا چاہیے کہ جب ترقیات مل جائیں ، مصائب ختم ہو جائیں تب خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم اکتوبر 2021ء بمطابق یکم اخاء1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ یکم اکتوبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت حارث رفیق ڈوگر صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یورپ، اسپین اور سِسلی میں تبلیغ کے ضمن ایک تقریر کرتے ہوئے حضرت عمرؓ کے زمانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت ابو عبیدہؓ نے شام کی لڑائی میں سپاہیوں کی کمی اور دشمن کی تعداد زیادہ ہونے پر حضرت عمرؓ کو مزید فوج بھیجنے کی درخواست کی۔حضرت عمرؓ نے مختلف قبائل سے مشورہ کے بعد ایک قبیلہ سے نوجوان جمع کرکے حضرت ابو عُبیدہؓ کو لکھا کہ تین ہزار سپاہی اور تین ہزار کے برابر عمرو بن معدی کرب کو تمہاری مدد کے لیے بھیج رہا ہوں۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے ایک نوجوان کو اگر تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں بھیجا جائے تو وہ کہے گا کہ یہ خلافِ عقل بات ہے لیکن اُن لوگوں نے اپنے ایمان کی مضبوطی اور خلیفۂ وقت کی بات کو اہمیت دینے کی وجہ سےاکیلے عمرو بن معدی کرب پراعتراض کے بجائے بڑی شان و شوکت سے نعرے لگا کر اُس کا استقبال کیا جس کی وجہ سے دشمن سمجھا کہ شاید لاکھ دو لاکھ فوج مسلمانوں کی مدد کو آگئی ہےاور ڈر کے مارے میدان جنگ سے شکست کھا کر بھاگ گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ سرِدست ہمیں بھی اسی طرح اپنے دل کو اطمینان دینا ہوگا۔

فتوحاتِ مصر میں جنگ فرما قابلِ ذکر ہے۔ فرما بحیرۂ روم اور پلوزی کے دہانے کے قریب دریائے نیل کے ساتھ ایک پہاڑی پر آباد مصر کا ایک مشہور شہر ہے۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ نے مصر پہنچنے سے پہلے اپنے خط کے ملنےپر واپسی کا شرطیہ حکم دے کر حضرت عمرو بن عاصؓ کو چار ہزار کا لشکر دے کر مصر روانہ کیا۔اس بارہ میں مختلف روایات ملتی ہیں لیکن درست یہی معلوم ہوتی ہے کہ مصر کی حدود کے اندر عریش میں اُنہیں خط ملا تھااور مصر میں داخل ہونے کے بعد پھر اُنہیں آگے ہی بڑھنا تھا کیونکہ مومن کا اُٹھتا قدم پیچھے نہیں ہٹتا۔رومیوں نے اسلامی لشکر کی معمولی اور اپنی زیادہ تعداد و تیاری دیکھ کر مسلمانوں کا حوصلہ جلد ہی پست ہونے کے خیال سے اپنے آپ کو قلعہ بند کرلیا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے کئی مہینے کے محاصرے کے بعد قلعہ سے باہر نکلی رومی افواج کی ایک جماعت سے لڑائی کے بعد اُن کو مغلوب کرکے فتحِ مبین کاراستہ صاف کردیا۔

حضرت عمرو بن عاصؓ نے شام کے راستے پر فسطاط سے تیس میل دُور ایک شہر کی فتح کے لیے رُخ کیا تو رومی فوج نے لڑائی کی غرض سے آپؓ کا راستہ روک لیا۔ لڑائی کے بجائے آپؓ نے اسلام لانے اور جزیہ دینے کی تجویز پیش کرتے ہوئےاہلِ مصر سے صلہ رحمی اور احسان کا سلوک کرنے کے بارہ میں رسول اللہﷺ کے فرمان کا بھی ذکر کیا۔ آپؓ کی طرف سے چار دن کی مہلت کے باوجود مصر کے حاکم ارطبون نے بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ راتوں رات مسلمانوں پر حملہ کرکےاچھی خاصی تعداد شہید کردی جبکہ وہ اپنے ایک ہزار سپاہی قتل اور تین ہزار گرفتار ہونے پر میدان جنگ سے بھاگ گیا۔ بلبیس میں ایک مہینہ تک لڑائی جاری رہنے کے بعد آخر مسلمانوں کی فتح ہوئی۔

جنگی کشمکش کے دوران قبطیوں کے سردارمقوقس کی چہیتی بیٹی ارمانوسہ گرفتار ہوئی۔حضرت عمرو بن عاصؓ نے آیت

ھَلۡ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ

(کیا احسان کی جزا احسان کے سِوا بھی ہوسکتی ہے؟) کے حوالے سے مقوقس کی جانب سے نبیﷺ کے پاس ہدیہ بھیجنے کی وجہ سے مقوقس کی بیٹی کو اُس کے تمام جواہرات اور خدمت گزاروں کے ساتھ نہایت عزت و احترام سے واپس بھیج دیا۔تمام صحابہ کرامؓ نے حضرت عمرو بن عاص ؓ کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ یہ واقعہ مسلمانوں کی دانش مندی اور اخلاقی برتری کی دلیل ہے۔

دریائے نیل پر خلیج تراجان کے منبع کے پاس واقع اُمّ دنین،پھرفیوم کے پورے صوبے پر اورعین الشمس میں مسلمانوں نے رومیوں پر فتح حاصل کی۔ صوبہ منوفیہ کے دو شہروں اثریب اور منوف پر فتح پائی۔ا سکندریہ کے بعدسب سےزیادہ مضبوط قلعہ بابلیون یا فسطاط کے سات ماہ کے محاصرے کے بعد اندر جا کر لڑتے لڑتے قلعہ فتح کیا۔حضرت عمرؓ نے فتح کا حال سن کر سجدہ شکر ادا کیا۔

اسکندریہ کی فتح کے ضمن میں مخالفین بالخصوص عیسائی مصنفین کی طرف سے حضرت عمرؓ کے حکم پر دار کتب اسکندریہ یعنی لائبریری کو چھ ماہ تک جلتی آگ میں جلانے کے اعتراض کے ساتھ یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان نعوذباللہ علم و عقل کے مخالف تھے۔ حالانکہ جس قوم کو اُس کے راہنما یعنی رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہو کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے۔ ایسے لوگوں پر کتب خانے کوجلانے کا الزام لگانا عقل اور درایت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ بہت سے عیسائی اور یورپین محققین نےبھی ثابت کیا ہے کہ اسکندریہ کے کتب خانے کے جلائے جانے کا واقعہ سراسر بناوٹی اور جعلی قصہ ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ اپنی کتاب تصدیق براہین احمدیہ میں اس اعتراض کے ذکرپر فرماتے ہیں کہ اگر اسلام کی عادات میں یہ ہوتا تواوّل خلیفہ عمرؓ اپنے عہد میں اسلام کے پہلے مخاطب پاک کتابوں والے مذاہب یہود اور عیسائیوں کی کتب کو جلاتے۔ پھر مجوس پر تسلّط پانے کے بعد اُن کی کتابیں جلانے کا تاریخ میں کوئی ذکرنہیں ملتا۔دوم اگر مذہبی کتابوں کا جلانا اسلام کا کام ہوتا تو یونانی فلسفہ،طب اور علوم کے ترجمے عربی زبان میں محال ہوتے۔ سوئم اگر کتابوں کا جلانا اسلامی لوگ اختیار کرتے تو مکذبِ براہین احمدیہ کی ہندوستان میں کون سی کتابیں جلی ہیں۔ چہارم کہ سات سو برس سے زیادہ ہندوستان میں اسلامی سلطنت کےعرصہ میں بھگوت، رامائن، گیتا،مہابھارت اور مشہور مذہبی کتابوں کے جلانے کی خبرکسی کان میں نہ پہنچی بلکہ ان میں سے بعض کے ترجمے ہوئے۔ پس انصاف سے سوچو۔

جان ولیم ڈریپر نے اپنی مشہور کتابConflict Between Religion and Science میں لکھا ہے کہ افسوس تو اس بات پر کرنا چاہیے کہ جب اسپین پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا تو متعّصب کارڈینل جیمینیز نے اسّی ہزار عربی قلمی کتابیں غرناطہ کے میدانوں میں آگ کے شعلوں کے حوالے کر دی تھیں۔

حضرت عمر فاروق ؓکے دور ِخلافت میں اسلامی سلطنت مشرق میں دریائے جیحون اور دریائے سندھ سے لے کر مغرب میں افریقہ کے صحراؤں تک اور شمال میں ایشیائے کوچک کے پہاڑوں اور آرمینیا سے لے کر جنوب میں بحرالکاہل اور نوبہ تک ایک عالمی ملک کی شکل میں دنیاکے نقشہ پر نمودار ہوئی اور سب نے اسلام کے سایۂ عدل اور رحمت میں امن اور سکون کی زندگی گزاری۔

حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ اگر تمہیں کوئی شخص تھپڑ مارے تو تم بھی اُسے تھپڑ مارو، وہاں اُس نے یہ بھی کہا کہ اگر تم مقابلہ کرنا مصلحت کے خلاف سمجھو توخاموش رہو اور تھپڑ کا جواب مت دو۔اس اَمر کی دلیل نہیں ملتی کہ حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نےافغانستان اور بخارا کے قبائل اور کُردوں کے ظلم پر اُن کو معاف کیوں نہ کر دیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ بعض قبائل نے مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیا ہے تا کہ مسلمان بیدار ہوں اور ان کے اندر ایک نئی روح اور ایک نئی زندگی پیدا ہو۔

حضرت مصلح موعود ؓنے اس حوالے سے ایک خطبہ میں جماعت کو نصیحت فرمائی کہ مصائب اور مشکلات ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والے ہونے چاہئیں اور یہی فتوحات کا پھر ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر ان باتوں میں ہم صرف ڈر کے پیچھے پیچھے رہتے رہیں اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں تو پھر ترقی نہیں ہوسکتی۔ جب ترقیات مل جائیں اور مصائب ختم ہو جائیں تب ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے اور ہمیں اپنی روحانی ترقی اور روحانی بہتری کی طرف توجہ دینی چاہیے۔آج کل بھی ہر احمدی کے لیے یہی بات سمجھنے والی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button