دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیےآنحضورﷺ کے بیان فرمودہ زرّیں اصول اور نمونہ (قسط اوّل)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے
آج سے چودہ سوسال پہلے فاران کی چوٹیوں سے ایک ایسے شہزادۂ امن کا ظہور ہوا جو حقوق انسانی کا سب سے بڑا علمبردار بن کر منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوا۔آنحضورﷺ امن کی تعلیم کے ساتھ مبعوث ہوئے اور دنیا میں امن کا پیغام پھیلاتے رہے۔ آپؐ نے امن کے قیام کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں اور اپنے عملی نمونے سے ثابت کردیا کہ اگر دنیا میں قیام امن کے لیے حقیقی کوشش کی جائے تو ایک پرامن معاشرے کا قیام ممکن ہے۔ آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو اعلیٰ اخلاق کا درس دیا اور اپنی قوت قدسیہ کے ذریعہ ایسی بےنفس جماعت تیار کردی جو حق اللہ اور حق العباد کی ادائیگی میں سبقت لے جانے والی تھی۔ آپؐ نے یہ صلائے عام دی کہ اگر حقیقی امن چاہتے ہو توسلامتی اور عافیت کے دین میں داخل ہوجائو اورمیری لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرو۔
’’اَمۡن‘‘ اگرچہ ایک چھوٹا سا سہ حرفی لفظ ہے لیکن اگر اس کی گہرائی اور گیرائی کو ماپا جائے تو یہ لفظ دنیا کے لیے سکون اور عافیت کا منبع اور اطمینان عطا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔اگر امن ہمارے گھروں کا حصہ بن جائے تو اس سے نہ صرف اُس گھر کے مکین سکون کی زندگی بسر کرسکتے ہیں بلکہ اس ذریعہ سے ہمارے گلی،محلوں، بازاروں، گاؤں، قصبوں اور شہر وں سے لے کر ہمارے ملکوں اور ساری دنیا میں امن کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔اس کے برعکس جس گھر اور معاشرے میں بدامنی دَر آئے وہ گھر اور وہ معاشرہ بے سکونی اور بے آرامی کی آماجگاہ بن جاتاہے۔نہ تو اُس گھر کے مکین امن اور سلامتی سے رہ پاتے ہیں اور نہ ہی اُس معاشرے کے افرادسکون کی زندگی گزارسکتے ہیں۔مضمون کی مناسبت سے دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے آنحضورﷺ کے بیان فرمودہ زرّیں ارشادات اور آپؐ کی سیرت طیبہ میں سے چنداُمور بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وباللہ التوفیق۔
آنحضورﷺکے قلب مطہر میں مخلوق خدا کی ہمدردی اور اُن کی خیرخواہی کا جو بے پناہ جذبہ موجزن تھااُس کا اندازہ آپ کے ارشادات اور سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔آپؐ کا ارشاد مبارک ہے:
النَّاسُ کُلُّھُمۡ عِیَالٌ
(صحیح مسلم،کتاب العتق بَاب النَّھۡیُ عَنۡ بَیۡعِ الۡوَلَاءِ وَھِبَتِہِ)
یعنی ساری مخلوق ایک کنبہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
(مشکوٰۃ باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق )
نبی کریمﷺ جو دین لے کر مبعوث ہوئے،اللہ تعالیٰ نے اُس کا نام اسلام رکھاہے۔
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَاللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ (آل عمران:20)
یقینا ًدین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔جبکہ اسلام میں شامل ہونے والوں کا نام مسلمان رکھا گیا ہے۔
ھُوَ سَمّٰکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ(الحج:79)
اُس (یعنی اللہ)نے تمہارا نام مسلمان رکھا۔
اسلام عربی زبان کا لفظ ہے جو سَلِمَسے نکلا ہے۔ سَلِمَ کا مطلب ہے امن وسلامتی۔پس آنحضورﷺ کے اوپر نازل ہونے والی تعلیم امن وسلامتی اور صلح وآشتی پر مبنی ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ (یونس:26)
اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد مبارک ہے:اَلسَّلَامُ مِنَ الۡاِسۡلَامِ امن و سلامتی اسلام سے ہی ہے۔آپﷺ نے ایک مسلمان کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ
اَلۡمُسۡلِمُ مَنۡ سَلِمَ النَّاسُ مِنۡ لِسَانِہٖ وَیَدَہٖ وَالۡمُؤۡمِنُ مَنۡ اَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِھِمۡ وَاَمۡوَالِھِمۡ۔
(سنن نسائی کتاب الایمان وشرائعہ 2226بَاب صِفَۃُ الۡمُؤۡمِنِ حدیث5000)
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے انسان امن میں رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ رہیں۔پس نبی کریمﷺ نے ہر انسان سے پیار، محبت،دلی خلوص اور ہمدردی سے پیش آنے کا درس دیاہے۔یہ وہ بنیادی سبق ہے جو انسان کو انسان کے قریب کرنے والااور اُن کے دلوں کو جوڑنے والا ہے۔آنحضورﷺ نے اپنے ماننے والوں کویہ نصیحت فرمائی ہے:
یَسِّرُوۡا وَلَا تُعَسِّرُوۡا وَبَشِّرُوۡا وََلَا تُنَفِّرُوۡا۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد باب ماکان النبیﷺ یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لا ینفروا)
لوگوں کے لیے آسانی مہیا کرو، ان کے لیے مشکل پیدا نہ کرو، خوشخبری سناؤ اور ان کو مایوس مت کرو۔
آپﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہےکہ ہر آسانی پیدا کرنے والا، نرم خو، نرم دل اور لوگوں کے قریب رہنے والا اہل جنت میں شامل ہے۔
(المعجم الصغیر طبرانی جلد 1صفحہ72حدیث نمبر 89مکتب اسلامی بیروت 1985ء طبع اوّل)
نوعمری میں امن کے پیامبر
آنحضورﷺ نے صرف امن پسندی کی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ آپ خود اس تعلیم پر عمل پیرا تھے تاکہ آپ کے ماننے والے آپ کے مبارک اُسوہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال سکیں۔نبی کریمﷺ ابتدائی عمر سے ہی امن کے داعی اور انسانوں کی تکلیفوں کو دُور کرنے میں پیش پیش تھے۔ایام جاہلیت میں قریش کے بعض قبیلوں بنوہاشم، بنوعبدالمطلب، بنواسد، بنوزہرہ اور بنو تیم نے آپس میں ایک معاہدہ کیا کہ ہم ہر مظلوم کی مددکیا کریں گے۔ اس معاہدے کو ’’حلف الفضول‘‘ اور ’’حلف المطیبین‘‘ ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
شَھِدۡتُ حِلۡفَ الۡمُطَیَّبِیۡنَ مَعَ عُمُومَتِی، وَاَنَا غُلَامٌ، فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِیۡ حُمۡرَ النَّعَمِ،وَأنَّی أَنۡکُثُہُ
(مسند احمد بن حنبل، مسند العشرۃ المبشرۃ،حِدۡیَث عَبۡدُ الرَّحۡمٰنِ بۡنُ عَوۡفٍ الزُّھۡرِیۡ حدیث نمبر1655)
جبکہ ابھی میں نوعمر تھاحلف المطیبین جسے حلف الفضول بھی کہا جاتا ہے میں شریک ہوا تھا، مجھے پسند نہیں کہ میں اس معاہدے کو توڑ ڈالوں اگرچہ مجھے اس کے بدلہ میں سرخ اونٹ بھی دیے جائیں۔
اس معاہدے کی شرائط میں دو باتیں خاص طور پر شامل تھیں:
٭…حدودِ شہر میں وہ کسی پر ظلم نہ ہونے دیں گے (شہری ہو یا اجنبی)
٭…مظلوم کی مدد کرکے ظالم سے اس کا حق دلائیں گے۔
(ماہنامہ الفرقان۔دسمبر 1974ء صفحہ 34)
پس نوعمری میں امن کے قیام میں مدد دینے والے اس معاہدے میں شامل ہونا اور منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد بھی اس معاہدے کی پاسداری کرنا ثابت کرتا ہے کہ آپؐ نہ صرف امن کے داعی ہیں بلکہ عملی طور پر امن پھیلانے والے عالی وجود ہیں۔ نبی کریمﷺکی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے ہمیشہ اس معاہدے کو نبھایا اور جب کبھی کوئی مظلوم آپ کے پاس کسی ظالم سے اپنا حق دلانے کی درخواست کرتا آپؐ فوراً اُس کی مدد کے لیے تیار ہوجاتے اور ظالم سے مظلوم کو اُس کا حق دلا کررہتے۔ ایک مرتبہ دشمن اسلام ابوجہل کی شکایت ہونے پر بلاخوف وخطر مظلوم کی داد رسی کے لیے اُس کے گھر تشریف لے گئے اور مظلوم کو اُس کا حق دلوادیا۔یہ واقعہ دیکھ کر قریش کے سرداروں نے ابوجہل سے پوچھا کہ اے ابوالحکم !تمہیں کیا ہوگیا تھا کہ محمدؐ سے اس قدر ڈرگئے۔اُس نے کہا۔ خدا کی قسم ! جب مَیں نے محمدؐکو اپنے دروازے پر دیکھا تو مجھے یوں نظر آیا کہ اُس کے ساتھ ایک مَست اور غضبناک اونٹ کھڑاہے اور مَیں سمجھتا تھا کہ اگر ذرا بھی چون وچرا کروں گا تو وہ مجھے چباجائے گا۔
(سیرۃ ابن ہشام بحوالہ سیرۃ خاتم النبیین ؐازحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب ؓصفحہ 163)
جوانی میں امن کے داعی
جس وقت شاہِ عرب وعجمﷺ کی عمر مبارک 35برس ہوئی قریش مکہ نے بیت اللہ کی تعمیر نو کا ارادہ کیا۔ رسول کریمﷺ نے بنفس نفیس اس تعمیر نو میں حصہ لیا۔یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے 18سال پہلے کا ہے۔جب دیوار کی بلندی حجر اسود کے مقام تک پہنچی توقریش کے قبیلوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ہرکسی کی خواہش تھی کہ حجر اسود کواُس کے مقام پر نصب کرنے کی سعادت اُس کے حصہ میں آئے۔ اختلاف بڑھتے بڑھتے لڑائی جھگڑے تک جاپہنچا۔بالآخر کچھ سمجھدار لوگوں کی مداخلت سے جھگڑا رُک گیا۔ تاریخ ابن ہشام میں لکھا ہےکہ تعمیرکعبہ کے وقت جب حجراسودکی تنصیب کے لیے قبائل کاباہم اختلاف ہوااورنوبت جنگ وجدال تک پہنچنے لگی۔چارپانچ دن تک کوئی حل نظرنہ آیاتوایک دن وہ جمع ہوئے اورآپس میں مشورہ کیااور اَبُوْاُمَیَّہ بن مُغِیْرَہ بن عبداللہ بن عمر بن مَخْزُوْمجو قریش کا سب سے بوڑھا شخص تھا،اس نے کہا اے قریش! باہم یہ طے کر لو کہ تمہارے اس اختلاف کا وہ شخص فیصلہ کرے گا جو کل سب سے پہلے بیت اللہ میں آئے گا۔ چنانچہ انہوں نے یہ تجویز مان لی۔چنانچہ اگلے روز انہوں نے دیکھا کہ سب سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہونے والے رسول اللہﷺ تھے۔ چنانچہ جب انہوں نے آپﷺکو دیکھا تو کہا ھٰذَاالْاَمِیْنُیہ تو امین ہیں۔ہم خوش ہو گئے، یہ محمدؐ ہیں چنانچہ جب وہ ان کے پاس پہنچے اور قریش نے( حجر اسود کے وضع کرنے کا جھگڑا) ان کو بتایا تو نبیﷺ نے فرمایا میرے پاس ایک کپڑا لائو چنانچہ آپ کو کپڑا پیش کیا گیا۔ آنحضورؐ نے کپڑا بچھایا اور حجراسود کو اس چادر میں رکھ دیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ ہر قبیلہ اس چادر کا ایک کونا پکڑ لے پھر سب مل کر حجراسود کو اٹھائو۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا یہاں تک کہ جب وہ حجراسود رکھنے کی جگہ کے پاس پہنچ گئے تو آنحضورﷺ نے حجراسود کو اپنے ہاتھ سے اس کی جگہ پر نصب فرما دیا۔قریش آنحضرتﷺ کو دعویٰ سے قبل ’’امین‘‘کے نام سے پکارتے تھے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام۔ اشارۃ ابی امیۃ بتحکیم اوّل داخل فکان رسول اللّٰہؐ) (طبرانی اوسط 50/3حدیث نمبر 2442۔ مسند احمد425/3حدیث نمبر 15510)
تاریخ کا علم رکھنے والے عربوں کے مزاج کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بناکر وہ سالہا سال تک جنگ وجدل کا بازار گرم رکھا کرتے تھے۔پس اس نازک موقع پر امانت دار نے امانت کا حق خوب اچھی طرح ادا کیا اور دنیا میں امن و سلامتی کی حقیقی علامت بیت اللہ کی تعمیرنو کے وقت پیدا ہونے والے ایک بڑے فساد کو نہایت حکمت اور دانائی کے ساتھ فرو کرکے سب کو امن کے سائے تلے لا کھڑا کیا۔ آنحضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے: وَاللّٰہِ اِنِّیۡ لَأَمِیۡنٌ فِی السَّمَآءِ أَمِیۡنٌ فِی الۡاَرۡضِ۔
(الشفاء لقاضی عیاض۔ الفصل العشرون۔ عدلہ و امانتہ)
اللہ کی قسم! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں۔
گھر سے امن کی ابتدا
دنیا میں امن کے قیام کا آغاز گھر کی چاردیواری سے ہوتا ہے۔ اگربچے اپنے ماں باپ کاخیال رکھیںاوراُن کی خواہشات کا احترام کریں۔ بھائی بھائی کے خلاف زبان درازی نہ کرے، بڑے چھوٹوں پر شفقت کریں اور چھوٹے بڑوں کا ادب کریں تو گھروں میں ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوگا۔ انسانی تعلقات میں گھر بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔اگر گھروںمیں باہمی احترام ناپید ہوجائے یا گھر کے افرادآپس میں لڑتے جھگڑتے رہیں تو اس سے نا صرف گھر کی فضا ناخوشگوار ہوگی بلکہ اس کے اثرات ارد گرد گلی محلے میں بھی ظاہر ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ آنحضورﷺنے انسانی معاشرت کی اس بنیادی اکائی کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے راہ نما اصول متعین فرمادیے ہیں تاکہ آپ کے ماننے والے ان زرّیں نصائح پر عمل کرکے نہ صرف خود امن سے رہ پائیںبلکہ وہ غیروںکے لیے امن اور سلامتی کا موجب بنیں۔کائنات کے تخلیق کنندہ نے تمام جہان کو ایک خاص نظم اورترتیب سے بنایا ہے تاکہ ہر اکائی اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے حصے کا کام انجام دے اور سارا نظام ایک نظم اورترتیب سے چلتا رہے۔اسی طرح اگرگھرکے افراد اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہیں تو گھروں کی فضا ہمیشہ خوشگوار رہے گی۔ گھروں میں امن کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کادرج ذیل ارشاد بہت ہی قابل عمل ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
لَیۡسَ مِنَّا مَنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡ صَغِیۡرَنَا وَیَعۡرِفۡ حَقَّ کَبِیۡرِنَا۔
(الادب المفرد للبخاری باب رحمۃ الصغیر)
وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بچوں سے رحم کا سلوک نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق کا پاس نہیںکرتا۔
اسلام کا روزِ اوّل سے یہی مطمح نظر رہاہے کہ اُس کے ماننے والے نافع الناس وجود ہوں اور اُن کے ذریعہ مخلوق خدا کو خیر اور بھلائی ملتی رہے تاکہ شر کو پھلنے پھولنے اور اپنی جڑیں پھیلانے کا موقع نہ ملے۔انسانی تہذیب وتمدن کو پروان چڑھنے کے لیے جس بنیادی عنصر کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے وہ ہے امن کا قیام۔ اگر کسی بھی سطح پر بےاعتدالی اور نا انصافی ہوگی تو اس کے نتیجے میں بے چینی، بدامنی اور فکرواضطراب بڑھے گااور بے چینی پیدا ہوگی۔جس کی وجہ سے امن کے پرندے کا اُس جگہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ جو لوگ خود غرضی اور مفاد پرستی جیسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں، وہ جذبات واحساسات سے عاری ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر سے انسانیت کا درد جاتا رہتا ہے۔ اگر موجودہ دنیا کی حالت کا بغور جائزہ لیا جائے تو دنیا کے اکثر معاشروں میں یہ بیماری سرایت کرچکی ہے۔ جس کی وجہ سے نفسا نفسی کا دَور دورہ ہے اور گھروں کا امن تباہ ہورہا ہے۔ قوموں کے درمیان ناراضگیاں اور بغض وعنا دبڑھ رہا ہے اور انسان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے جس کی وجہ سے امن عالم کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
ازدواجی تعلقات کے ذریعہ امن کا قیام
مردوعورت ایک دوسرے کے لیے بنائے گئے ہیں تاکہ اُنہیں ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہو۔ایک کے بغیر دوسرا نامکمل ہے اور ان دونوں کی تکمیل کے بغیر کائنات کا حسن ظاہر نہیں ہوسکتا۔پس انسانی زندگی میں میاں بیوی کا تعلق بہت اہمیت کا حامل ہے۔یہ تعلق جس قدر پائیدار اورمضبوط ہوگا اُسی قدر اس کے مفید نتائج ظاہر ہوں گے۔ نبی کریمﷺ نے بحیثیت خاوند ایسا عملی نمونہ پیش فرمایا ہے کہ جس پر عمل کرنے سے گھروںکے نظام کو اچھے طریق پر چلا کر اُن کا امن برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ سے بڑھ کر اہل وعیال پر رحم اور شفقت کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔
(صحیح مسلم کتا ب الفضائل باب رحمۃ الصبیان حدیث نمبر 4280)
آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
خَیۡرُکُمۡ خَیۡرُکُمۡ لِاَھۡلِہٖ
(ترمذی۔ ابواب المناقب )
یعنی تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے۔رسول کریمﷺ مسکراہٹیں بکھیرنے والے بابرکت وجود تھے۔آپ کے گھر کی چاردیواری میں بسنے والے بھی اُن مسکراہٹوں کا مورد بنا کرتے تھے۔ آپؐ ہر کسی سے نرمی اور حسن سلوک کا معاملہ کرتے جبکہ گھر کے اندر آپ کی نرمی اور نرم دلی مزید بڑھ جاتی۔ کسی کو برابھلا کہنا آپ کی عادت نہ تھی۔گھر کے افراد کو کسی تکلیف میں ڈالنے کی بجائے خود تکلیف برداشت کرلیا کرتے تاکہ اُن کے لیے آسانی پیدا ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دیے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرمالیتے۔
(صحیح مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرتﷺ کی گھریلو زندگی کے بارے میں بیان کرتی ہیںکہ نبی کریمﷺ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو اور سب سے زیادہ کریم تھے۔ عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے۔آپؐ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔نیز آپؓ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میںآنحضرتﷺ نے کبھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ اٹھایا نہ کبھی کسی خادم کو مارا۔
(شمائل ترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ)
اللہ تعالیٰ نے صنف نازک کو محبت، حساسیت اور نرم مزاجی جیسے اوصاف کے ساتھ تخلیق کیا ہے جن کو کام میں لاتے ہوئے وہ اپنے ساتھ منسلک ہر رشتے کو سنوار کر خوبصورت بنادیتی ہے۔ وہ تھوڑی سی وفا اور خلوص کے بدلے ہر رشتے کو اپنی محبت اور چاہت سے سجادیتی ہے۔اُس کا ہر رنگ نرالااور اُس کا ہر روپ سازِزندگی ہے۔اگر وہ ماں کے روپ میں اپنی اعلیٰ تربیت سے انسان کے لیے جنت کی راہ ہموار کرتی ہے تودوسری طرف بیوی کے روپ میں اپنے خاوند کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے اور اُس کی مددگار ساتھی بن کر اُس کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ آنحضورﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسی عورت سب سے بہتر ہے آپؐ نے فرمایا: جب اس کا خاوند اسے دیکھے تو اسے خوشی ہو جب وہ اسے حکم دے تو اس کی اطاعت کرے اور جس چیز کو وہ ناپسند کرے تو اپنے نفس اور مال میں اس کی مخالفت نہ کرے۔
(سنن نسا ئی کتاب النکاح)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’احمدی عورت واقعتاً اس بات کی اہلیت رکھتی ہے اور حضرت اقدس محمدﷺ کی توقعات کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے کہ اس دنیا میں جنت کے نمونے پید اکرے۔ اپنے گھروں کو وہ جذب دے، وہ کشش عطا کرے، جس کے نتیجے میں وہ محور بن جائے اور اُس کے گھر کے افراد اس کے گرد گھومیں۔ اُنہیں باہر چین نصیب نہ ہو بلکہ گھر میں سکینت ملے۔وہ ایک دوسرے سے پیارومحبت کے ساتھ ایسی زندگی بسر کریں کہ لذت یابی کا محض ایک ہی رُخ سرپرسوار نہ رہے جو جنون بن جائے اور جس کے بعد دنیا کا امن اُٹھ جائے۔بلکہ خدا تعالیٰ نے پیار ومحبت کے جو مختلف لطیف رشتے عطا فرمارکھے ہیں اُن رشتوں کے ذریعے وہ سکینت حاصل کریں۔ جیسے خون کی نالیوں سے ہر طرف سے دل کو خون پہنچتا ہے۔وہ دل بن جائیں اور ہر طرف سے محبت کا خون اُن تک پہنچے اور جسم کے ہر عضو کو اُن کی طرف سے سکینت کا خون پہنچے۔ ‘‘
(حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ صفحہ 75)
پس اگر میاں بیوی اتفاق اور اتحاد سے رہیں گے اور ان کی زندگی خوشگوار ماحول میں بسر ہو تو اس کے نتیجے میں اُن کے بچوں پر والدین کے اخلاق و اطوار کا اثر ظاہر ہوگا اور اُن کی بہتر تربیت ہوگی۔اس طرح ایک اچھے ماحول میں پروان چڑھنے والی اولادیں معاشرے کے لیے مفید وجود ثابت ہوں گی۔
ازدواجی زندگی میں عملی نمونہ
عائلی زندگی میں بھی نبی کریمﷺنے بہترین نمونہ قائم فرمایا ہے۔فی زمانہ رشتوں میں جو بگاڑ پیدا ہوچکا ہے اُس سے بچنے کےلیے ضروری ہے کہ نبی کریمﷺ کی زندگی کے حسین پہلوئوں کو اس نیت سے دیکھا، پڑھا اور سنا جائے تا کہ اُن پر عمل کے نتیجے میں ہمارے گھروں اور ہماری دنیا میں امن وسلامتی کا دَور دورہ ہو۔ آنحضرتﷺ کا ہر قول اور ہرفعل اس قابل ہے کہ اُسے حرزِ جان بناکر اُن کی راہ نمائی میں قدم بڑھایاجائے اوراُس کے مطابق معمولات زندگی طے کیے جائیں۔گھر کسی بھی مہذب قوم اور معاشرے میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دراصل گھر کی چاردیواری وہ پہلا مدرسہ ہے جو انسان کے اخلاق کی تعمیر کرتا ہے اور اُسے اچھے بُرے کی تمیز سکھاتا ہے۔گھروں کے اندر جنم لینے والا ماحول اُس قوم اور معاشرے کے اخلاق واطوار کا آئینہ دار ہوتا ہے۔گھروں کا ماحول جس قدر عمدہ اور اعلیٰ اخلاق سے مزین ہوگا اُسی کے مطابق اُس معاشرے میں اچھی روایات جنم لیں گی اور اُس میں بسنے والے امن اور سکون کی زندگی بسر کرسکیں گے۔ پس کسی بھی معاشرے کی تعمیروترقی اور اُن کی اخلاقی برتری کے لیے افراد خانہ کی تعلیم وتربیت اور اُن کے اخلاق کی درستی نہایت ضروری امر ہے۔ نبی کریمﷺ نے تربیت واصلاح کا کام اپنے گھر کی چاردیواری سے شروع کیا اور اپنی جیون ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک کی نہ صرف اعلیٰ مثالیں قائم فرمائیں بلکہ اُنہیں ایسے آداب زندگی سکھائے جن پر عمل پیرا ہوکر گھروں میںامن کا ماحول قائم کیا جاسکتاہے۔ اس ضمن میں صرف چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔
کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ آنحضرتﷺ کی گھر میں کیا کیفیت ہوتی تھی توآپؓ نے بتایا :آپؐ نہایت نرم خو بے حد خوش مزاج،مسکراتے اور تبسم ریز رہتے تھے۔
(شرح المواہب اللدنیہ زرقانی جلد 4صفحہ 263۔ دارالمعرفہ۔بیروت 1993ء )
پس آنحضرتﷺ کا قول وعمل گھرکے اندر اور گھر سے باہربالکل ایک جیسا تھاجس میں کسی قسم کی تصنع یا بناوٹ نہ تھی۔ آپ گھر والوں کے ساتھ نرمی اور احسان کا سلوک کرنے والے پاک وجود تھے۔کسی کو برابھلا کہنا آپ کی عادت نہ تھی۔نبی کریمﷺ ازواج مطہرات کے حقوق کی ادائیگی میںہمیشہ عدل سے کام لیتے اور حتی المقدرو کوشش کرتے کہ تمام ازواج کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی فرق نہ ہواور ہر ایک کواُس کاحق ملے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرتﷺ (اپنی ازواج میں) باری مقرر کرتے وقت عدل و انصاف سے کام لیتے تھے۔ اور دعا فرماتے:’’اے اللہ! جن امور پر میں قدرت رکھتا ہوں ان میں میری یہ تقسیم ہے۔ اور جن امور پر تیری قدرت ہے اور میری نہیں۔ ان کے بارہ میں مجھے ملامت نہ کرنا۔‘‘
(ابوداؤد کتاب النکاح باب فی القسم بین النساء۔حدیث نمبر 2134)
اگرچہ آنحضورﷺ ازواج مطہرات کے ساتھ نہایت نرمی کا سلوک فرمایاکرتے لیکن اگرکسی زوجہ کوعدل سے ہٹ کر کوئی کام کرتے دیکھتے تو اُسے ناپسند فرماتے اور اس کا نوٹس لیتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، رسول کریمﷺ کو بہت محبوب اور پیاری تھیں لیکن ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت عائشہؓ میں ایک ایسی بات دیکھی جو اُن اعلیٰ معیاروں کے مطابق نہ تھی جو آپﷺدنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے تو آپؐ نے اُسی وقت حضرت عائشہ ؓ کو ایسا کرنے سے نہ صرف منع فرمایابلکہ اُن کے اُس عمل کو سخت ناپسند فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:
حَسۡبُکَ مِنۡ صَفِیَّۃَ کَذَا وَکَذَا
آپؐ کے لیے صفیہ ؓمیں یہی کافی ہے کہ وہ ایسی ایسی ہیں۔ (آپؓ کی مراد اُن کا پستہ قد ہونا تھا) تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لَقَدۡ قُلۡتِ کَلِمَۃً لَوۡ مُزِجَ بِھَا الۡبَحرُ لَمَزَجَتۡہُ
تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملادیا جائے تو وہ بھی کڑوا ہوجائے۔آپؓ فرماتی ہیں : مَیں نے آپؐ کے سامنے کسی کی نقل اُتاری تو آپؐ نے فرمایا: مَاأُحِبُّ أَنِّی حَکَیۡتُ اِنۡسَانًا وَاِنَّ لِی کَذَا وَ کَذَامیں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا، خواہ مجھے اتنا اتنا مال بھی ملے۔
(سنن ابوداؤد کتاب الأدب بَابٌ فِی الۡغِیۡبَۃِحدیث4875)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس تھے کہ امہات المومنین میں سے کسی اور بیوی نے ایک برتن میں کھانا تحفۃً بھیجا تو اس بیوی نے جس کے ہاں آنحضورﷺ کی باری تھی خادم کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جس سے وہ برتن گر کر ٹوٹ گیا۔ نبیﷺنے اس کے ٹکڑے اکٹھے کیے۔پھر اس میں وہ کھانا اکٹھا کر کے ڈالنے لگے اور آپؐ فرماتے جاتےغَارَتۡ أُمُّکُم’’تمہاری ماں تم کو کھوئے۔‘‘آنحضرتﷺ نے اس خادم کو روکے رکھا اور اس گھر والی بیوی سے ٹوٹنے والے برتن کے بدلہ میں برتن لے کر دیا۔ آپﷺ نے وہ برتن اس بیوی کو بھیج دیا جس کا برتن ٹوٹا تھا اور ٹوٹا ہوا برتن اسی گھر میں رہنے دیا جس میں وہ ٹوٹا تھا۔
(صحیح البخاری کتاب النکاح، بَابُ الۡغِیَرَۃِ،حدیث نمبر 5225)
آنحضورﷺ کس طرح ازواج مطہرات کی دلداری فرمایا کرتے اور اُن کے جذبات کا خیال رکھا کرتے تھے اُس کا اندازہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعہ سے بخوبی ہوتا ہے۔ ایک موقع پر کسی زوجہ رسولﷺ نے حضرت صفیہؓ سے کہا کہ تم تو یہودی کی بیٹی ہو اور ہم خاندان نبوی ؐسے ہیں۔ ان کو سخت صدمہ ہوا۔اُنہوں نے رسول اللہﷺ کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا: تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ میرا خاوند محمدﷺ ہے۔ میرا باپ ہارون ؑ اور میرا چچا موسیٰ ؑہے۔
(جامع ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی حدیث نمبر 3827)
پس اگرگھروں کے اندر باہمی احترام، پیار، محبت اور عدل وانصاف کی فضا قائم ہوجائے تو اس سے نہ صرف گھروں کا امن برقرار رہے گابلکہ اُس کا اثر ارد گرد کے ماحول میں بھی ظاہر ہو گا۔مشہور مستشرق James A Michener لکھتے ہیں:(ترجمہ )’’دُرِّ یتیم جو ہمیشہ غریب اور نادار، بیوہ اور یتیم، غلام اور مسکین، سب کی ہمیشہ حاجت روائی کرنے پر کمربستہ رہتا تھا۔ بیس سال کی عمر میں آپؐ ایک کامیاب تاجر کے طور پر اُبھرے اور جلد ہی ایک امیر خاتون کے اُونٹوں کے قافلہ کے نگران بن گئے۔ جب آپ پچیس سال کے ہوئے تو آپ کی صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے اس خاتون نے، آپ کو شادی کی پیش کش کی۔باوجود اس کے کہ وہ آپ سے پندرہ سال بڑی تھی۔ آپؐ نے ان سے شادی کرلی اور جتنا عرصہ بھی ساتھ گزارا، آپؐ ایک وفادار شوہر رہے۔چالیس سال کی عمر تک صحرا کا یہ شہزادہ نہایت درجہ مطمئن زندگی گزار رہا تھا ایک محبت کرنے والی بیوی، اچھے بچے اور مال ودولت کی ریل پیل۔‘‘
(James A Michener: Islam: The Misunderstood Religion, Reader´s Digest (American Edition) May 1955, P.68)
رحمی رشتوں کے ذریعہ امن کا قیام
اسلامی تعلیم کے مطابق تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور بحیثیت انسان اُن کے مساوی اور یکساں حقوق ہیں لیکن رشتہ داری کے خاص پیوند کی وجہ سے بعض کو بعض کے زیادہ قریب کردیا گیا ہے۔انسان فطری طور پر اپنے گھر والوں کے بعد قریبی رشتہ داروں سے تعلق اور میل جول رکھنا پسند کرتا ہے لیکن نفسانفسی کے اس دَور میں ان قریبی رشتوں میں بھی کئی طرح کی بے اعتدالیاں پیدا ہوچکی ہیں اور اپنے ہی اپنوں سے نالاں اور بیزاردکھائی دیتے ہیں۔حالانکہ دنیا میں امن کی پائیدار راہ ہموار کرنے کے لیے ان بنیادی رشتوں کا اکرام اور اُن کے ساتھ گہرا تعلق کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے رحم سے تعلق رکھنے والے رشتوں کے متعلق خاص ہدایات ارشاد فرمائی ہیں اور اُن کی فضیلت و برکات سے آگاہ فرمایا ہے۔ آپﷺ جس تعلیم کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں، اس میں رحمی رشتوں کو جوڑنے کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے۔ایک مرتبہ نبی کریمﷺنے سورت محمد کی چند آیات کی دلنشین تفسیر میں رحم کے تقاضے بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب وہ اُن سے فارغ ہوا تو رِحم کھڑا ہوا اور کہنے لگا یہ مقام اس کا ہے جو قطع رحمی کرنے والے سے تیری پناہ چاہتا ہے۔ فرمایا ہاں! کیا تم خوش نہیں ہو کہ میں اس سے تعلق جوڑوں جو تجھ سے تعلق جوڑے اور اس سے قطع تعلق کروں جو تجھ سے قطع تعلق کرے اس (رحم) نے کہا کیوں نہیں (اللہ نے ) فرمایا یہ مقام تیرے لیے ہے۔ پھر رسول اللہﷺنے فرمایا اگر چاہو تو (یہ آیت) پڑھ لو
فَھَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡٓا اَرۡحَامَکُمۡ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمۡ وَ اَعۡمٰی اَبۡصَارَھُمۡ اَفلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبِ اَقۡفَالُھَا (محمد:23تا25)
کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ اگر تم متولّی ہوجائو تو تم زمین میں فساد کرتے پھرو اور اپنے رحمی رشتوں کو کاٹ دو؟ (ہرگز نہیں) یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور انہیں بہرہ کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا۔پس کیا وہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا دلوں پر ان کے تالے پڑے ہوئے ہیں۔
(صحیح مسلم جلد سیزدھم۔کتاب البروالصلۃ والآداب۔بَاب صِلَۃِ الرَّحِمِ وَ تَحۡرِیۡمِ قَطِیعَتِھا۔حدیث4620،شائع کردہ نور فاؤنڈیشن)
پس رحمی رشتوںکے حقوق کی ادائیگی اور اُن کے ساتھ حسن سلوک معاشرے میں امن وامان کے قیام میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم کرتا ہے۔ تم اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رِحم کا لفظ رحمن سے ہے جو صلہ رحمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ساتھ ملا لے گا اور جو قطع رحمی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے قطع تعلقی اختیار کرے گا۔
(ترمذی کتاب البر والصلۃ۔ باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان)
رسول اللہﷺ نے قطع رحمی کرنے والوں کو یہ وعید سنائی ہے کہ
لَا یَدۡخُلُ الۡجَنَّۃَ قَاطِعُ رَحِمٍ
(صحیح مسلم جلد سیزدھم۔کتاب البروالصلۃ والآداب۔بَاب صِلَۃِ الرَّحِمِ وَ تَحۡرِیۡمِ قَطِیعَتِھا۔حدیث4623،شائع کردہ نور فاؤنڈیشن)
قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَیۡسَ الۡوَاصِلُ بِالۡمُکَافِیۡ وَلٰکِنَّ الۡوَاصِلَ الَّذِیۡ اِذَا انۡقَطَعَتۡ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا۔
(جامع الترمذی اَبۡوَاب البِرِّ وَالصِّلَۃ بَاب مَاجَآءَ فِی صِلَۃِ الرَّحِمِ )
نبی کریمﷺ نے فرمایا: صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی قرابت دار کی نیکی کے بدلے نیکی کرے بلکہ وہ ہے جو قطع رحمی کے باوجود اسے ملائے اور صلہ رحمی کرے۔