ہمسایوں کے حقوق سے متعلق آنحضرتﷺ کی تعلیم اور مبارک اسوہ
اللہ تعالیٰ کے قرآنِ کریم میں ارشاد کردہ تقریباً سات سو احکامات کو سب سے احسن رنگ میں، حقیقی معنوں میں، اس کی روح کے مطابق عمل میں لانے والی اعلیٰ ترین ذات ہمارے پیارے آقا و مولیٰ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے ایک حکم ہمسایوں کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا ہے، جو اس مضمون کا موضوع ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا۔(النساء:37)
اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔
مضمون کو موضوع تک محدود رکھتے ہوئے سب سے پہلے ہمیں چند بنیادی باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے
- ہمسایہ کے معنی و مطالب؟
- احسان کیا ہے؟
- ہمسایوں کے حقوق کیا ہیں؟اور
- خاتم النبیین حضرت محمدﷺکے ہمسایوں کے ساتھ احسان کے پاک نمونے
ہمسایہ کے معنی و مطالب
بنیادی طور پر لفظ ’’ہمسایہ‘‘ عربی لفظ ’’جَار‘‘کا اردو ترجمہ ہے۔ عربی لغت کے مطابق جَار کا مطلب ہے:
• ارتقاء
• زمانہ حال، موجودہ
• مسلسل جاری رہنے والا
• مخطوطہ اور
• ہمسایہ
اگر مندرجہ بالا تمام معنوں کو مدِ نظر رکھا جائے تو ’’جَار‘‘ کا لفظ بڑے وسیع پیمانے پر چسپاں ہوتا ہے تاہم اگر صرف مروجہ معنی ’’ہمسایہ‘‘ کوبھی مدِنظر رکھا جائے تو بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ لفظ ہمسایہ کا مطلب بھی پوری تفصیل کے ساتھ سمجھا جائے۔
لغت کے مطابق ہمسایہ کے معنی ہیں
پڑوسی،ہم دیوار، ہم جوار (یعنی ایک شہرکا)، ساتھی، ایک ہی چھاؤں یا سایہ میں رہنے والے
1816ء میں اسد اللہ خاں غالب نے کہاتھا:
یہ آتشِ ہمسایہ کہن گھر نہ جلا دے
کی ہے دلِ سوزاں نے مرے پہلو میں جا گرم
(https://www.rekhta.org/ebooks/ghair-mutadawal-kalam-e-ghalib-jamal-abdul-wajid-ebooks صفحہ 72)
اس شعر میں غالب جیسے عظیم شاعر نے اپنے دل کے لیے ہمسایہ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ’’ہمسایہ‘‘ صرف پڑوسی کے لیے ہی محدود نہیں بلکہ ہر اس شخص یا چیز کے لیے استعمال ہوسکتا ہے جو ہمارے قرب وجوار میں ہو، ہمارے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں کوئی تعلق ہو۔ یہ تعلق ایک ماتحت کا افسر کے ساتھ یا افسر کا ماتحت کے ساتھ بھی ہوسکتاہے، دوست، رشتہ دارنیز ہر وہ شخص جس سے ہمارا کسی بھی رنگ میں تعلق قائم ہوا ہو، ہمسایہ کہلایا جاسکتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’معاشرے کی سلامتی، صلح اور محبت کی فضا پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے … فرمایا کہ ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو۔ اور صرف رشتہ دار ہمسایوں سے اچھا سلوک نہیں کرنا کہ اس میں 100 فیصد بے نفسی اور صر ف اور صرف خداتعالیٰ کی رضا کے لئے حسن سلوک نظر نہیں آتا بلکہ غیر رشتہ داروں سے بھی کرنا ہے۔ یعنی رشتہ د اروں سے حسن سلوک میں تو پسند اور ناپسند کا سوال آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے اس کا تو تب پتہ لگے گا کہ غیروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ جو غیر رشتہ دار ہمسائے ہیں ان سے بھی حسن سلوک کرو۔ ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قدر تلقین کی گئی، اس قدر تواتر سے آنحضرتﷺ کو اس طرف توجہ دلائی گئی کہ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید اب ہمسائے ہماری وراثت میں بھی حصہ دار بن جائیں گے۔ تو ہمسائے کی یہ اہمیت، یہ احساس دلانے کے لئے ہے کہ اس کا خیال رکھنا، اس سے حسن سلوک کرنا، اس کی ضروریات کو پورا کرنا بہت اہم ہے۔ کیونکہ یہ بھی ہمسائے ہیں جو گھر کی چاردیواری سے باہر قریب ترین لوگ ہیں۔ اگر یہ ایک دوسرے سے حسن سلوک نہ کریں، ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بنیں، تو جس گلی میں یہ گھر ہوں گے جہاں حسن سلوک نہیں ہو رہا ہو گا تووہ گلی ہی فساد کی جڑ بن جائے گی۔ اس گلی میں پھر سلامتی کی خوشبو نہیں پھیل سکتی۔ گھر سے باہر نکلتے ہی سب سے زیادہ آمنا سامنا ہمسایوں سے ہوتا ہے۔ ان کو اگر دل کی گہرائیوں سے سلامتی کا پیغام پہنچائیں گے تو وہ بھی آپ کے لئے سلامتی بن جائیں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون2007ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جون2007ءصفحہ7)
اِحْسان
لغت میں احسان کے بے شمار معنوں میںسےچند مندرجہ ذیل ہیں:
نیکی، لطف، منفعت، استفادہ، بخشش، خیر، مہربانی، شفقت، خوش خیمی، مُرَوَّت، عَطیہ
مندرجہ بالا مطالب سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ احسان کسی ایک عمل کا نام نہیں ہے بلکہ یہ مجموعہ ہے ایک مکمل طرزِ عمل کا جس کا ہرپہلو اپنی ذات میں خوبیوں سے مالا مال ہوتا ہے۔ احسان وہ نیکی ہے جو ظاہری و باطنی حسن و خوبصورتی کے ساتھ کی جائے۔ مثلاً کسی ضرورت مند کو قرض دیتے ہوئے نمود و نمائش کے ساتھ قرض دینا۔ اس میں قرض دینا تو نیکی ہے مگر نمود و نمائش کی وجہ سے وہ نیکی احسان نہیں رہتی۔احسان یہ ہوگا کہ نہ تو جتایا جائے، نہ کوئی نمود و نمائش کی جائے، نہ بلاوجہ واپسی کا تقاضہ کیا جائے بلکہ شفقت اور مروت کے ساتھ ضرورت مند کی پردہ پوشی کرتے ہوئے، اس کی ضرورت کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر پورا کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی ۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَیۡہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلۡدًا ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرہ:265)
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر یا اذیت دے کر ضائع نہ کیا کرو۔ اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھانے کی خاطر خرچ کرتا ہے اور نہ تو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ یومِ آخر پر۔پس اس کی مثال ایک ایسی چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی (کی تہ) ہو۔ پھر اس پر موسلادھار بارش برسے تو اُسے چٹیل چھوڑ جائے۔ جو کچھ وہ کماتے ہیں اس میں سے کسی چیز پر وہ کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
ہمسایوں کے حقوق
قرآنِ کریم، سنتِ نبویﷺ اور احادیث سے ہمسائے کے جو حقوق ثابت ہوتے ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
٭…ہمسایہ کے لیے دکھ اور تکلیف کا موجب نہ بنیں
٭…ہمسایہ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے
٭…ہمسایہ کی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کی جائے
٭…گھر میں کوئی عمدہ چیز پکائی جائے تو ہمسایہ کو بھی بھجوائی جائے
٭…ہمسایہ کو تحائف بھجوائیں جس سے آپس کی محبت بڑھتی ہے
٭…ہمسایہ ہر قسم کے شر اور اذیت سے محفوظ رہے
٭…پڑوسی کو بوقتِ ضرورت قرض دیا جائے
٭…ضرورت مند پڑوسی کی ضرورت پوری کی جائے
٭…بیمار ہمسایہ کی تیماردار ی کی جائے
٭…ہمسایہ کی خوشی میں شامل ہوکر اُسے مبارک باد دی جائے
٭…ہمسایہ وفات پاجائےتو اس کے جنازہ کے ساتھ جایا جائے
خاتم النبیین حضرت محمدﷺکے ہمسایوں کے ساتھ احسان کے پاک نمونے
جب ہم رسول اللہﷺ کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں آپؐ کی زندگی ایسی اَن گنت مثالوں سےبھری نظر آتی ہے جو ہمسایوں سے حسنِ سلوک، شفقت، درگزر اور احسانات سےمزین ہیں۔ اور یہ وہ ہمسائے تھے جو آپؐ کے گھر کے دائیں بائیں بھی رہتے تھے، آپؐ کے محلے میں بھی رہتے تھے، آپؐ کے شہرمیں بھی رہتے تھے۔آپؐ کے ساتھی بھی تھے، آپؐ کے غلام بھی تھے، آپؐ کے اہلِ وعیال بھی تھے، آپؐ کے رشتہ دار بھی تھے اور آپؐ کے جانی دشمن بھی تھے۔
اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان ہمسایوں کا ہمارے پیارے آقاﷺ کے ساتھ کیسا سلوک تھا۔ اگر تو یہ دشمن ہمسائے رسول اللہﷺ سے بہت اچھا سلوک کرتے تو جواباً رسول اللہﷺ کا حسنِ سلوک کوئی اچنبھا نہ ہوتا مگر یہ وہ ہمسائے تھے جن کی زندگی کا مقصد ہی رسول اللہﷺ کو اذیت پہنچانا تھا۔
مکی دَور میں ابولہب اور عقبہ بن ابی معیط حضورﷺ کے پڑوسی تھے جو آپ کے دونوں طرف آباد تھے۔اور انہوں نے شرارتوں کی انتہا کی ہوتی تھی۔یہ لوگ بیرونی مخالفت کے علاوہ گھر میں بھی ایذا پہنچانے سے باز نہ آتے تھے اور اذیت دینے کے لیے غلاظت کے ڈھیر حضورؐ کے دروازے پر ڈال دیتے۔حضورؐ جب باہر نکلتے تو خود اس غلاظت کو راستے سے ہٹاتے اور صرف اتنا فرماتے :
’’اے عبدمناف کے بیٹو! یہ تم کیا کر رہے ہو کیا یہی حق ہمسائیگی ہے۔‘‘
(طبقات ابن سعد جلد1صفحہ 201بیروت1960ء)
مندرجہ بالا واقعہ ہمیں اس دور کی تصویر دکھاتا ہے کہ ہمارے پیارے آقاﷺ ہمسایوں کی طرف سے کن مشکلات اور مصائب کا سامنا کررہے تھے۔لیکن اس کے باوجود آپ کی عظمت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے کبھی بھی جواباً کسی قسم کی کوئی تکلیف کسی کو نہیں دی بلکہ ہمیشہ احسان کا سلوک فرمایا۔
ذیل میں حضرت خاتم النبیینﷺکی زندگی کے چند واقعات پیش خدمت ہیں جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں کہ ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ کیسے زندگی گزارنی چاہیے۔
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا :یا رسول اللہ !میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے پہلے میں کس کو حصہ بھیجوں ؟
آپﷺ نے فر مایا جس کا دروازہ تجھ سے زیا دہ نزدیک ہو۔
( بخاری، جلد اول کتاب الشفعہ حدیث نمبر :2115)
حضرت ابی ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میرے خلیل، نبی کریمﷺ نے مجھے وصیت کی کہ جب تم سا لن پکاؤ تو اس میں شوربا زیادہ رکھو۔پھر اپنے ہمسایہ کو بھی یہ اچھی چیز بھیج دو۔(مسلم، کتاب البرو الصلۃ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :وہ شخص ( کا مل) مو من نہیں ہو سکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھا ئے اور اس کا پڑو سی بھو کا رہے۔
(طبرا نی،ابو یعلی،مجمع الزوائد)
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا :یارسو ل اللہﷺ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے ( لیکن ) اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے( یعنی برا بھلا کہتی ہے)۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فر مایا :وہ دوزخ میں ہے۔
پھر اس شخص نے عرض کیا یا رسو ل اللہ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نفلی روزہ، صدقہ خیرات اور نماز تو کم کرتی ہے بلکہ اس کا صدقہ وخیرات پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کو ئی تکلیف نہیں دیتی۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فر مایا: وہ جنت میں ہے۔(مسند احمد)
حضرت عبدالرحمان ابی قراد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک دن وضو فر مایا تو آپﷺ کے صحابہ کرامؓ وضو کا پانی لے کر ( اپنے چہرے اور جسموں پر) ملنے لگے۔ آپﷺ نے ارشاد فر مایا : کون سی چیز تمہیں اس کام پر آمادہ کر رہی ہے ؟ انہوں نے عر ض کیا :اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرے تو اسے چا ہیے کہ جب با ت کرے تو سچ بو لے، جب کوئی امانت اس کے پاس رکھوائی جا ئے تو اس کو ادا کرے اور اپنے پڑو سی کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرے۔(بیہقی، مشکوٰۃ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حق کے بارے میں اس قدر وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنادیں گے۔(صحیح بخاری)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن (جھگڑنے والوں میں) سب سے پہلے دو جھگڑنے والے پڑوسی پیش ہوں گے( یعنی بندوں کے حقوق میں سے سب سے پہلا معاملہ دو پڑوسیوں کا پیش ہوگا)۔ (مسند احمد، مجمع الزوائد)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول کریمﷺ سے پوچھا اے اللہ کے رسول، مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے نیکی کی ہے یا برائی؟ رسول کریمﷺ نے فرمایا:جب تم سنو کہ تمہارے پڑوسی کہہ رہے ہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو واقعی تم نے اچھا کام کیا ہے اور جب تم ان سے سنو کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے غلط کام کیا ہے تو واقعی تم نے غلط کام کیا ہے۔(ابن ماجہ)
پڑوسیوں کے حقوق، ان کے اکرام، ان کی رعایت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی جو تاکید قرآن وحدیث میں مذکور ہے ان میں غیرمسلم بھی داخل ہے، ایک روایت میں ہے:
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:الجيران ثلاثة: فمنهم من له ثلاثة حقوق، ومنهم من له حقان، ومنهم من له حق، فأما الذي له ثلاثة حقوق فالجار المسلم القريب له حق الجار، وحق الإسلام، وحق القرابة، وأما الذي له حقان فالجار المسلم له حق الجوار، وحق الإسلام، وأما الذي له حق واحد فالجار الكافر له حق الجوار۔
(شعب الايمان (12/105)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی تین طرح کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کے تین حقوق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے۔
تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا قرابت داری کا ہوگا۔ اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ اور ایک حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے۔
جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کا واقعہ مذکور ہے کہ ایک دن ان کے گھر بکری ذبح ہوئی، انہوں نے گھر والوں سے کہا:
أَهْدَيْتَ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ؟ أَهْدَيْتَ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم يَقُولُ:مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ
کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لیے بھی ہدیہ بھیجا ہے؟ کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لیے بھی ہدیہ بھیجا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ جبرئیل مجھے پڑوسی کے حقوق کی مسلسل تاکید کرتے رہے کہ مجھے خیال ہونے لگاکہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم (کامل) مومن نہیں ہے، اللہ کی قسم (کامل) مومن نہیں ہے، اللہ کی قسم (کامل) مومن نہیں ہے۔پوچھاگیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ) کون مومن نہیں ہے؟ فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اس کے شرور اور تکلیفوں سے محفوظ نہ ہو۔(بخاری، مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں داخل نہیں ہوگا وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں اور شرور سے محفوظ نہ ہو۔ (مسلم)
احادیثِ مبارکہ میں پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے، اور ان میں کہیں مسلمان کی صراحت نہیں کہ مسلمان ہو تب یہ حکم ہے بلکہ صرف پڑوسی کا لفظ ہےنیز آنحضرتﷺ کا کافر پڑوسیوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا معمول تھا۔اس لیے پڑوسی خواہ غیر مسلم کیوں نہ ہو شریعت اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی تعلیم دیتی ہے،دکھ درد میں اس کے کام آنا، کسی بھی قسم کی اس کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرنا وغیرہ وغیرہ۔
حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ ایک دفعہ میرے ہاں استراحت فرما رہے تھے کہ ہمسایہ کی پالتو بکری آئی اور روٹی کی طرف بڑھی جو میں نے حضورؐ کے لیے پکاکر رکھی ہوئی تھی۔ اس نے روٹی اٹھالی اور واپس جانے لگی۔مجھے اس پر شدید غصہ آیا اور میں اسے روکنے کے لیے دروازے کی طرف جلدی سے جانے لگی تو حضورﷺ نے فرمایا:’’اس بکری کو تکلیف دے کر ہمسائے کو اذیت نہ دینا۔‘‘
(الادب المفرد باب لایوذی جارہ ازامام بخاری)
ہم میں سے ایک بہت بڑی اکثریت ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں ہمارے ہمسائے عموماً غیرمسلم ہوتے ہیں اور ان کی اکثریت رسول اللہﷺ کی سیرت سے ناواقف ہے اور عموماً اسلام دشمن پروپیگنڈا کی وجہ سے مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ہماری یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ہمسایوں کے ساتھ احسان کے سلوک کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا کر اپنے ہمسایوں کو اسلام اور رسول اللہﷺ کا گرویدہ کرلیں۔نیز اپنے ہمسایوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ دیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ
ترجمہ: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو، اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔
اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے ہمسائے کے ساتھ اِحْسان کا وہی سلوک کرے جو رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم ہرمخالفِ اسلام کے دِل میں اتر کر ان کو صراطِ مستقیم پر چلانے کا موجب نہ بن جائے۔
٭…٭…٭