ربوہ میں1974ء سے قبل جماعت احمدیہ مسلمہ کی جانب سے منعقدہ جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کے اجلاسات کی جھلکیاں
تاریخ احمدیت سےپتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل مرکز احمدیت قادیان دارالامان اور تقسیم ہندکے بعد بھی ربوہ میںاحمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ بڑی شان و شوکت اورجماعتی روایات کےساتھ منائے جاتے رہے ہیں اور آج بھی پوری دنیا میں پہلے سے بڑھ کر دینی اجلاسات منعقد کیے جارہے ہیں۔ 1974ء کے بعد صرف پاکستان میں علی الاعلان جماعتی اجلاسات منعقد نہیں کیے جارہے۔ایسا مخالفین کی ایک منظم سازش کے تحت ہوا۔جب پاکستان کی اسمبلی میں احمدیوں کو ناٹ مسلم اقلیت قرار دینے کی گھٹیا حرکت کاسہرا بدنام زمانہ ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے نام منسوب ہوا تو جماعت احمدیہ پر تمام دینی اجلاسات منعقد کرنے پر سرکاری پابندی لگائی گئی۔ لیکن ان تمام پابندیوں کے باوجود جماعت احمدیہ کا حوصلہ بالکل پست نہیں ہوا۔اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے انعامات نازل ہوئے آج بھی پوری دنیا میں سیرت النبیﷺ اورمختلف دینی اجلاسات منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔الحمدللہ
قارئین کے استفادہ کےلیے روزنامہ الفضل ربوہ میںسن 1963ء تا 1973ءکے شماروں میں شائع ہونے والی چندرپورٹیں بغرض ملاحظہ ودُعا پیش ہیں۔جن سے معلوم ہو جائے گا کہ کس عظیم الشان اور منظم طریق سے جماعتی اجلاسات منعقد ہوتے تھے۔ان اجلاسات کی شان کیا ہی نرالی تھی جن کو یاد کرکے اور پڑھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کےلیے مشعلِ راہ ہیں۔
1963ء
’’ربوہ- 4؍ اگست1963ء کل صبح یوم سیرت النبیﷺ کی مبارک تقریب اہالیان ربوہ نے اہتمام کے ساتھ منائی۔ اس موقع پرلوکل انجمن احمدیہ ربوہ کے زیر انتظام ایک خاص جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں انسانیت کے محسن اعظم سید الاولین و الآخرین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے عدیم المثال فضائل کا مبارک تذکرہ کیا گیا اور علمائے سلسلہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ اور حیات مقدسہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال کر ثابت کیا کہ حضورﷺ کا اُسوۂ حسنہ ہر پہلوسے ہمارے لئے بہترین اور کامل ترین نمونہ ہے۔جلسہ کے دوران شروع سے آخر تک نہایت اخلاص، عقیدت اور محبت کے والہانہ جذبات کے ساتھ حضور علیہ السلام پر درود اور سلامتی کی مسنون دعائیں جملہ حاضرین جلسہ کی ورد زبان رہیں۔کل صبح سات بجے مسجد مبارک میں یہ جلسہ سیرت النبی ؐ زیر صدارت محترم صاحبزادہ رفیع احمد صاحب سلمہ شروع ہوا۔ ربوہ کے قریباً ہر طبقہ کے افراد نہایت ذوق و شوق سے اس میں شامل ہوئے۔ اطفال الاحمدیہ مختلف محلوں سے جلوس کی صورت میں نعتیہ اشعار پڑھتے ہوئے جلسہ گاہ پہنچے۔
جلسہ کی کارروائی تلاوت قرآن مجید سے شروع کی گئی جوکہ محترم حافظ شفیق احمد صاحب نے کی بعد ازاں صدر محترم نے اس جلسہ کی غرض و غایت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا حضرت بانی ٔسلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کو آنحضرتﷺ کے ساتھ جو عدیم المثال اور والہانہ عشق تھا اس کا تقاضہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے تئیں درود مجسم بنالے۔آپ نے درود شریف کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی جس کے بعد آپ کی تحریک پر احباب نے کچھ وقت خاموشی کے ساتھ درود شریف کا ورد کیا۔صدر محترم کی افتتاحی تقریر کے بعد لئیق احمد صاحب متعلم جامعہ احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فارسی نعتیہ کلام ’’جان و دلم فدائے جمال محمد است ‘‘خوش الحانی سے پڑھ کر سنایا۔
محترم سید محمود احمد صاحب ناصر نے نبی کریمﷺ کے انتہائی بلند مقام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض نہایت بصیرت افروز اور وجد آفریں تحریریں پڑھ کر سنائیں۔ اس کے بعد ایک بنگالی طالب علم حبیب احمد نے بنگالی زبان میں نعتیہ کلام پڑھا۔ جس کے بعد محترم مولوی غلام باری صاحب سیف نے’’معاہدات اور امن عالم کے متعلق آنحضرتﷺ کی تعلیمات‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ جس میں آپ نے متعدد مثالیں دیکر واضح کیا کہ اس بارے میں حضورؐ نے جو تعلیم دی اور جو نمونہ پیش فرمایا۔ وہ ہرلحاظ سے دنیا کےلیے بہترین اسوہ حسنہ ہے۔ محترم سیف صاحب کی تقریر کے بعد محترم محمد اسلم صاحب قریشی نے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ؓ کی نہایت مشہور و مقبول نعت علیک الصلوٰۃ علیک السلام خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنائی جبکہ تمام حاضرین جلسہ آنحضرتﷺ کی ذات اقدس پر والہانہ انداز میں درود اور سلامتی بھیج رہے تھے۔
آخر میں محترم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب صدر جلسہ نے نہایت مؤثر انداز میں تقریر فرمائی۔ جس میں آپ نے ثابت کیا کہ ہر لحاظ سے اورہر جہت سے آنحضرتﷺ رحمۃللعالمین تھے۔ آپؐ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم تھے۔ آپؐ کو ایک طرف اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق تھا اور دوسری طرف مخلوق سے کامل ہمدردی آپ کے قلب مطہر میں موجزن تھی۔ آپ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں صرف اور صرف آنحضرتﷺ کی ذات اقدس ہی صحیح معنوں میں حبیب خداکہلانے کی مستحق ہے باقی تمام لوگوں نے خواہ پہلے آئے یا بعد آپؐ ہی کے طفیل قرب الٰہی حاصل کیا۔ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی حضور کے رحمۃ للعالمین ہونے کے ثبوت کے طور پر مبعوث ہوئے۔ اور آپ نے جو مقام بھی حاصل کیا وہ فنا فی الرسولؐ ہونے کی وجہ سے ہی حاصل کیا۔آپ کی نہایت موثر تقریر ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے نو بجے تک جاری رہی جس کے بعد جماعتی دعا کے ساتھ یہ بابرکت جلسہ بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا۔‘‘
(روزنامہ الفضل؍6اگست 1963ء)
1964ء
’’ربوہ: مورخہ 23؍جولائی64ء لوکل انجمن احمدیہ ربوہ کے زیر اہتمام مسجد مبارک میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی زیر صدارت وسیع پیمانے پر ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں علماء سلسلہ عالیہ احمدیہ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پُرمعارف تحریرات کی روشنی میں سرورکائنات حضرت محمدمصطفیٰﷺ کے انتہائی ارفع و اعلیٰ اور فہم و ادراک سے بالا مقام پر روشنی ڈالنے کے علاوہ آنحضورﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ کے مختلف پہلوؤں کو بڑے ہی دلنشین انداز میں بیان کیا۔ اور اس طرح حضور کے اسوۂ حسنہ کو مشعل راہ بنانے اور دنیا میں اسلام کی سربلندی کی خاطر محبت و عشق اور جاں نثاری کا نمونہ پیش کرنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی پر زور تلقین فرمائی۔جلسہ کا آغاز صبح ساڑھے سات بجے تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو محترم حافظ رفیق احمد صاحب نے کی۔ درثمین میں سے آنحضرتﷺ کی شان اقدس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نعتیہ کلام ؎
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے
خوش الحانی سے پڑھ کر سنایا۔تلاوت قرآن پاک اور نظم کے بعدآنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ پر پانچ ٹھوس اور پُر مغز تقاریر کے علاوہ مزید چار نعتیں پڑھی گئیں۔
محترم پروفیسر بشارت الرحمٰن صاحب ایم اےنے ’’قیام امن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ‘‘ پیش کرکے اس ضمن میں آنحضرتﷺ کے اُسوۂ حسنہ پر روشنی ڈالی۔ محترم عطاء المجیب صاحب راشد ابن محترم مولانا ابو العطاء صاحب نے’’ آنحضرتﷺ کی قربانیاں ‘‘ پر روشنی ڈال کر ثابت کیا کہ چونکہ حضورکی قربانیاں انتہائی درجہ کمال کو پہونچنے کے باعث ہر لحاظ سے عدیم النظیر قربانیاں تھیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو دنیا میں یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
محترم سید محمود احمد صاحب ناصر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پُر معارف تحریرات پڑھ کر سنائیں جن میں آپ نے اپنے آقا و مطاع سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے انتہائی ارفع و اعلیٰ اور فہم و ادراک سے بالا مقام پر نہایت مسحور کن انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ان تحریرات میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے واضح فرمایا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم قربِ الٰہی میں انتہائی ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہیں حضورؐ کا یہ مقام مظہر اتم الوہیت کا مقام ہے اور مقامِ وحدت تامہ اور آئینۂ خدا نما بھی کہلاتا ہے۔ اس مقام میں حضورؐ کا کوئی بھی شریک نہیں۔حضورﷺ کے مقام کی اس انتہائی رفعت کے باعث ہی صحفِ سابقہ میں بھی اور قرآن مجید میں بھی استعارہ کے طور پر حضور ؐکے کلام کو خدا کا کلام حضور ؐکے فعل کو خدا کا فعل اور حضورؐکے ظہور کوخدا کا ظہور قرار دیا گیا ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ظلی طور پر کئی نام آنحضرتﷺ کے ایسے رکھ دیئے ہیں جو خاص اُس کی اپنی صفات پر دلالت کرتے ہیں جیسے محمدؐ (غایت درجہ تعریف کیا گیا) نور، رؤف اور رحیم وغیرہ۔
محترم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل نے ’’آنحضرتﷺ کے بنی نوع انسان پرعدیم النظیر احسانات‘‘ کے موضوع پر ایک پُر مغز تقریر فرمائی۔ آپ نے اپنی تقریر میں آنحضورﷺ کے اُن احسانات کا جو حضورؐنے بنی نوع انسان کے مختلف طبقوں پر فرمائے اور اُن احسانات کا جو حضورؐ نے بحیثیت مجموعی کُل نسل انسانی پر فرمائے علیحدہ علیحدہ ذکر کیا۔ اور اس طرح ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ سراپا احسان ہیں اور پوری نسلِ انسانی دائمی طور پر حضور ؐکی زیر احسان ہے۔نسلِ انسانی پر حضورؐ کے ایک دائمی احسان کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ آنحضرتﷺ نےدُنیا میں تشریف لاکر قربِ الٰہی کے حصول کا راستہ آسان کرکے سب کےلیے عام کردیا۔ حضورؐنے قیامت تک کےلیے نسلِ انسانی کو یہ خوشخبری دی کہ اگر خدا رسیدہ بننا چاہتے ہو اگر چاہتےہو کہ مقربین الٰہی میں تمہارا شمار ہو، اگر خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہوکر حقیقی اطمینان قلب کی دولت سے مالا مال ہونا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔نسلِ انسانی پر حضورﷺ کا یہ وہ دائمی احسان ہے جو قیامت تک چلتاچلا جائے گا۔ اور وصالِ الٰہی کی تڑپ رکھنے والے قیامت تک اس سے فیضیاب ہوتے چلے جائیں گے۔ دورانِ تقریر میں آپ نے آنحضورﷺ کے عظیم الشان احسانوں کو یاد کرکے دل کی گہرائیوں سے حضور ؐپر درود بھیجنے کی اہمیت بھی واضح فرمائی اور اس کے عظیم الشان ثمرات پر بھی روشنی ڈالی۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے (آکسن) نے آنحضرتﷺ کی قوت قدسیہ اور عدیم النظیرتربیت کا ذکر کرنے کے بعد اس امر پر روشنی ڈالی کہ اس کے نتیجے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں کیسا عظیم الشان انقلاب رونما ہوا اور کس طرح انہوں نے اسلام کی سربلندی کی خاطر حضور نبی اکرمﷺ کے ایک اشارہ پر قربانی و ایثار اور جاں نثاری و فدا کاری کے ایسے نمونے دکھائے کہ تاریخ جن کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے ثبوت میں آپ نےآنحضرتﷺ کے بعض سرایا کے نہایت ایمان افروز واقعات بیان کرکے بتایا کہ کس طرح گنتی کے چند صحابہ نے مختلف مواقع پر مدینہ سے پچاس پچاس اور سوسو میل کے فاصلہ پر پہنچ کر قبائل کی شورش کو دبایا اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کی کہ وہ مارے جائیں گے چنانچہ بعض ان میں سے مارے بھی گئے۔ ایک طرف آنحضرتﷺ کو اپنے صحابہ ؓ اتنے عزیز تھے کہ کسی باپ کو اپنی اولاد اتنی پیاری نہیں ہوسکتی دوسری طرف صحابہ ؓکو حضورؐسے وہ عشق تھا کہ دنیا میں کوئی شخص بھی اپنے باپ سے اُس پایہ کا عشق نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی اسلام کی مضبوطی اوراستحکام کےلیے ضرورت پیدا ہوئی آنحضورؐنے اپنے عزیز ترین وجود وں کو آگے جانے کا ارشاد فرمایا اور حضورکے صحابہ ؓنے بھی ایک لمحہ پس و پیش کئے بغیر فوراً لبیک کہا اور اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ یہی وہ روح ہے جس کی مدد سے ہم تبلیغ و اشاعت کے ذریعہ دنیا میں اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ پس ہم جنہیں اس آخری زمانہ میں صحابہؓ کی جماعت میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا ہے صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کو دنیا میں پھیلانے اور غالب کرنے کی خاطر اپنے مال، اپنی عزت، اپنے وقت، اپنی اولاد اور خود اپنی جان کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ اور دیوانہ وار تبلیغ و اشاعتِ اسلام کے ضمن میں اپنے فرائض کو بجا لانے میں ہمہ تن مصروف رہنے کو اپنا مطمح نظر بنانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہؓ کے نقشِ قدم پر چلنے اور وہ کچھ بننے کی توفیق عطا فرمائے جو وہ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔
آخر میں حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے اجتماعی دعا کروائی اور یہ بابرکت جلسہ اختتام پذیر ہوا۔‘‘
(بحوالہ روزنامہ الفضل؍24جولائی 1964ء)
1966ء
’’ربوہ: مورخہ 2؍جولائی 1966 ء کو یہاں یوم سیرۃ النبیﷺ عشق و محبت اور دِلی عقیدت کے گہرے جذبات کے عالم میں پورے احترام کے ساتھ منایا گیا۔ لوکل انجمن احمدیہ ربوہ کے زیر اہتمام 9بجے صبح مسجد مبارک میںمولانا جلال الدین شمس صاحب ناظر اصلاح و ارشاد کی زیر صدارت وسیع پیمانہ پر ایک جلسہ عام منعقد ہوا۔ جس میں علمائے سلسلہ نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی حیات طیبہ اور سیرتِ مقدسہ پر ایمان افروز تقاریر کرکے آنحضورﷺ کی قوتِ قدسیہ کے فیضان، آنحضور ؐکے اخلاق عالیہ اور امن عالم کے قیام کے حصول میں آنحضورؐ کے عدیم النظیر کارناموں پر روشنی ڈالکر آنحضورؐ کی خدمت اقدس میں محبت اور دلی عقیدت و فدائیت کا نذرانہ پیش کیا۔ جلسہ میں اہل ربوہ کثیر تعداد میں شامل ہوئے۔ مستورات کے لئے پردہ کا انتظام تھا۔ چنانچہ انہوں نے بھی بہت تعداد میں شریک ہوکر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام مقدس سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل کی۔
جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہواجومحترم مولوی نور الحق صاحب انور سابق مبلغ مشرقی افریقہ نے کی۔بعدہ کارکن نظارت امورعامہ نے آنحضرتﷺ کی مدح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی قصیدہ یاعین فیض اللّٰہ والعرفانکے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر سنائے۔تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعدمحترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نےآنحضرتﷺ کی قوتِ قدسیہ کے فیضان پر بہت عالمانہ تقریر کی۔ آپ نے آنحضرتﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی حالت کا نقشہ پیش کرنے کے بعد دلائل و براہین کی روشنی میں اس امر کو بالوضاحت پیش کیا کہ آنحضرتﷺ کی قوتِ قدسیہ کا سب سے پہلا اور عظیم الشان فیضان یہ ہے کہ آپؐ نے دُنیا کو اس خدائے واحد کا علم اور عرفان عطا کیا۔ جس سے وہ یکسر بیگانہ ہوچکی تھی۔ پھر آپؐ نے علم ہی نہیں دیا بلکہ خدا سے انسانوں کو ملانے اور انہیں لقائے الٰہی کی دولت سے مالامال کرنے کا طریق بھی بتا دیا چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دنیا میں اعلان کیا۔
اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰہُ
یعنی یہ کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ تو تم میری پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا۔ آپؐ کی اتباع کی برکت سے محبت الٰہی کا حاصل ہونا آپ کی قوتِ قدسیہ کے فیضان کے جاری و ساری رہنے پر دال ہے۔ اور یہ فیضان قیامت تک جاری رہے گا۔ چنانچہ
وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَٓاءِ وَالصّٰلِحِيْنَ
کے قرآنی وعدہ کے مطابق امت محمدیہ میں ہر زمانہ میں بکثرت ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو علیٰ قدر مراتب
فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰہُ
کے مصداق تھے اور اس زمانہ میں اس دعویٰ کا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرزند جلیل کو تیرہ سو سال بعد مامورمن اللہ کی حیثیت سے دنیا میں مبعوث فرماکر اس امر کا ثبوت دیا ہے کہ آنحضرتﷺ کی قوتِ قدسیہ کا فیضان جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔
محترم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل نے ’’آنحضرتﷺ اور امن عالم ‘‘کے موضوع پر ایک تقریر فرمائی جس میں آپ نے امنِ عالم کے قیام کے سلسلہ میں آنحضرتﷺ کے عدیم النظیر کارناموں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے علی الخصوص مساواتِ انسانی اور معاہدات کی پابندی سے متعلق اسلامی تعلیم پیش کرکے ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ نے اسلام کے ساتھ عمل پیرا ہوکر دکھایا اور اس طرح دنیا میں قیام امن کی راہ ہموار کردکھائی۔ آپ نے آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ کے نہایت ہی ایمان افروز متعدد واقعات پیش کرکے ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ امن کے پیغامبر تھے اور دُنیا کو امن دینے کیلئے ہی تشریف لائے تھے۔ حضور ؐنے اپنے اسوۂ حسنہ سے امن عالم کی حقیقی رُوح اورحقیقی فضا قائم کردکھائی۔
محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ’’آنحضرتﷺ کے اخلاق عالیہ‘‘ پر ایمان افروز تقریر فرمائی۔ آپ نے آنحضورؐ کے مقام ذی شان کی رفعت واضح کرنے کے بعد آنحضورؐ کے اخلاق عالیہ کے چند نمونے پیش کرکے ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ کی ذاتِ والا صفات میں ہر خُلق اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا۔‘‘(روزنامہ الفضل5؍جولائی 1966ء)
1967ء
’’ربوہ:مورخہ 21؍جون 1967ء یوم سیرۃ النبیﷺ کے موقع پر ربوہ میںصدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے جملہ دفاتر اور تعلیمی ادارہ جات میں تعطیل رہی۔اس روز صبح 8بجے لوکل انجمن احمدیہ کے زیر اہتمام مسجد مبارک میں محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کی زیر صدارت وسیع پیمانہ پر ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں علماء سلسلہ نے حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی پر معارف تحریرات کی روشنی میںسرور کائنات فخر موجودات خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے انتہائی اعلیٰ و ارفع مقام اور حضور ؐکی بے مثال قوت قدسی پر روشنی ڈال کر اور یہ واضح کرکے کہ حضورؐ کا رفیع الشان مقام اور حضورؐ کی عدیم النظیر قوت قدسی انسانی فہم و ادراک سے بالا ہے۔ آنحضورﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ کے متعددواقعات اور پہلو بیان کئے اور اس طرح ثابت کیا کہ حضور ؐنے کامل تعلیم اور اپنے عملی نمونہ کے ذریعہ دنیا میں ایک ایسا معاشرہ قائم کر دکھایا جو ہر لحاظ سے جنتی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہے۔ نیز واضح فرمایا کہ اقوام عالم کے درمیان حقیقی اور پائیدار امن حضور ؐکی پیش کردہ بے مثال تعلیم اور حضور ؐ کے اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے سے ہی قائم ہوسکتا ہے۔ جب تک اقوام عالم حضورؐ کی تعلیم اور حضور ؐکے اُسوۂ حسنہ کو نہیں اپنائیں گی اور اسے اپنا دستور العمل نہیں بنائیں گی۔ دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کے قیام کا خواب کبھی شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہوگا۔ نیز علماء سلسلہ نے تربیت اولا د سے متعلق حضورﷺ کی تعلیم اور حضور ؐکے عملی نمونہ پر بھی بہت عمدہ پیرایہ میں روشنی ڈالی۔ جلسہ میں اہل ربوہ و الہانہ محبت و عقیدت کے عالم میں بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ مستورات بھی پردہ کے انتظام سےخاصی تعداد میں شریک ہوکر آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ کے اذکار مقدس سے مستفیض ہوئیں۔
بعدہ علی الترتیب محترم پروفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم اے نے ’’آنحضرتﷺ کا پیدا کردہ معاشرتی انقلاب‘‘ کے موضوع پر،محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے ’’آنحضرتﷺ اور امن عالم‘‘ کے موضوع پر، محترم جنا ب نسیم سیفی صاحب نے ’’آنحضرتﷺ کا بلند مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں‘‘ کے موضوع پر اور محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ’’آنحضرتﷺ اور تربیت اولاد ‘‘کے موضوع پر ایمان افروز تقاریر فرمائیں۔اس کے بعد صاحبِ صدر محترم مولانا ابو العطاء صاحب نے اجتماعی دعا کرائی اور یہ بابرکت جلسہ دس بجے صبح اللہ تعالیٰ کے حضورعاجزانہ دعاؤں پر اختتام پذیر ہوا۔‘‘
(روزنامہ الفضل 23؍جون1967ء)
1968ء
’’4؍جون 1968ءصبح 8بجے مسجد مبارک میں لوکل انجمن احمدیہ ربوہ کے زیر اہتمام ایک جلسہ عام منعقد ہوا جس میں علماء سلسلہ نے سرورِ کائنات فخر موجودات خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی حیاتِ طیبہ اور سیرت مقدسہ پر روشنی ڈال کر حضورؐ کا نہایت ارفع اعلیٰ اور فہم وادراک سے بالامقام اور حضورؐ کی عظمت اور حضور کے بے نظیر کمالات حضور کی بے مثال قوتِ قدسیہ اور اس کےنتیجہ میں رونما ہونے والے عظیم الشان انقلاب کا تفصیل سے ذکر کیا۔
علماء سلسلہ نے اپنی ایمان افروز تقاریر میں ذکر کیا کہ جملہ انبیاء میں سے آنحضرتﷺ ہی زندہ نبی ہیں۔ حضورؐ کا فیضان حضورؐ کی برکات حضورؐکے وصال کے بعدبھی جاری و ساری ہیں۔ اور ہمیشہ جاری ہیں۔ انہوں نے اس امر پر بھی خاص زور دیاکہ ہمیں اپنے دلوں کو عشق محمد صلی اللہ علیہ سلم سے معمور رکھنا چاہئے کیونکہ اسکے بغیر ہم مقرب بارگاہِ الٰہی نہیں بن سکتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روزانہ کم از کم دو سو بار تسبیح و تحمید کرنے اور درود پڑھنے کی تحریک:
اس ضمن میں انہوں نے بکثرت آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے کی تلقین کرتے ہوئے یاد دلایا کہ امام جماعت احمدیہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یکم محرم الحرام سےروزانہ کم از کم دو سو بار تسبیح و تحمید کرنے اور درود پڑھنے کی جو تحریک فرمائی ہے اس کی غرض بھی یہی ہے کہ تاہمارے دلوں میں محبت رسولؐ کی چنگاری بھڑک کر عشقِ رسول کی آگ میں تبدیل ہو اور ہم حضورﷺ کے فیوض و برکات سے بہرہ ور ہوکر قرب الٰہی کی منزل طے کرتے چلے جائیں اور عند اللہ اس کی رضا کی جنتوں میں داخل کئے جانے کے اہل قرار پائیں۔
12؍ربیع الاول کو صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید وقف جدید اور فضل عمر فاؤنڈیشن کے جملہ دفاتر اور ربوہ کے تمام تعلیمی اداروں میں عام تعطیل رہی اور اہل ربوہ مرد و عورتیں اور بچے محبت و عشق کے جذبہ سے سرشار ہوکر بہت کثیر تعداد میں سیرۃ النبیﷺ کے اس عظیم الشان جلسہ میں شریک ہوئے۔ اور انہوں نے اپنے آقا سرورِ دو عالمﷺ کی حیاتِ طیبہ اور سیرت مقدسہ کے اذکار مقدس سننے کی غیر معمولی سعادت حاصل کی۔ جلسہ میں صدارت کے فرائض محترم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل نے ادا کئے۔‘‘
(روزنامہ الفضل 12؍جون 1968ء)
1969ء
’’ربوہ۔29؍مئی 1969ء یہاں لوکل انجمن احمدیہ ربوہ کے زیر اہتمام مسجد مبارک میں محترم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد کی زیر صدارت سیرۃ النبیﷺ کا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں علمائے سلسلہ نے سرورِ کائنات فخر موجودات جامع جمیع صفاتِ حسنہ و کمالات خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ پر ایمان افروز تقاریر کے دوران حضور ؐ کے انتہائی ارفع و اعلیٰ مقامِ فہم و ادراک سے بالاشان مخلوقات پر حضور ؐکے بے پایاں احسانات اور حضور ؐکی عشق و محبت کے رنگ میں کامل پیروی و اتباع کی عظیم الشان برکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ نیز بعض اصحاب نے آنحضورﷺ کی شانِ اقدس میں حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا عربی اردو کلام سنانے کے علاوہ متعدد شعراء نے اپنا نعتیہ کلام پیش کرکے آنحضورؐ کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔‘‘
(روزنامہ الفضل 31؍مئی 1969ء)
1971ء
’’ربوہ : مورخہ 8؍ہجرت کویوم سیرت النبیﷺ کے مبارک موقع پر اہالیانِ ربوہ کے ایک عظیم الشان جلسہ میں بزرگان سلسلہ اور علمائے جماعت احمدیہ نے سرورکائنات فخر موجودات سید الاولین و الآخرین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے حضور دلی نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کیا اور اپنی تقاریر میں حضورﷺ کی فضیلت اور آپؐ کے اعلیٰ و ارفع مقام کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ آپؐ کی فی الحقیقت رحمۃ للعالمین ہیں جن کے رحمت و شفقت کا دامن دوست و دشمن سب کےلیے کھلا ہے۔ آپ اس مقام پر فائز ہیں کہ جس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ نہیں۔ آپ زندہ نبی ہیں کیونکہ آپ کی برکات و تاثیرات تا قیامت جاری و ساری ہیں۔ اور آپ کی غلامی سے ہی دُنیا کی آزادی اور نجات وابستہ ہے۔
محترم سید محمود احمد صاحب ناصر نے اپنی تقریر میں حضورﷺ کی شان رواداری کو واضح کیا اور بتایا کہ کس طرح آنحضرتﷺ نے رواداری کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔ اور اس طرح ہمارے لئے اس بارے میں بھی عدیم المثال اسوۂ حسنہ پیش کیا۔
محترم مولوی دوست محمد صاحب شاہدؔ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کی روشنی میں حضرت رسول عربیﷺ کے عدیم النظیر مقام کو واضح کیا اور بتایا کہ کس طرح حضور علیہ السلام نے بڑے ہی لطیف اور وجد آفرین پیرایہ میں اس زمانہ میں حضورﷺکی حقیقی شان و عظمت کو اُجاگر کیا اور ثابت کیا کہ آپ ہی خدا تعالیٰ کے وہ نور ہیں جن سے اولین و آخرین نے استفادہ کیا۔ آپ کامل اور زندہ نبی ہیں کیونکہ تمام کمالات انسانی آپ پر ختم ہیں اور آپ کی برکات تا قیامت جاری ہیں۔
محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمدصاحب نے اپنی تقریر میں بڑے دلکش اور اچھوتےانداز میں حدیث نبوی
الدُّنْیَا سِجْنٌ لِّلْمُوْمِنِ وَ جَنَّۃٌ لِلْکَافِرِ
کی تشریح فرمائی اور بتایا کہ ہر شعبہ زندگی کےلیے رسول کریمﷺ نے جو پرحکمت ہدایات ہمیں دیں ان پر عمل کرنے کی پابندی ہی درحقیقت وہ سجن ہے جس میں اپنی زندگی کے دن گذارنا ہر مومن اپنے لئے موجب نجات سمجھتا ہے۔ یہ ہدایات قدم قدم پر ہمیں پابند کرتی ہیں اور ہماری مکمل راہ نمائی کرتی ہیں۔ درحقیقت یہی وہ زندان محمد ہے جس کے ساتھ دُنیا کے ہر طبقہ کی حقیقی آزادی اور نجات وابستہ ہے۔ کاش یہ قید سب کو حاصل ہوتا دنیا حقیقی معنوں میں آزاد ہو جائے۔ اور کاش دنیا اس نام نہاد آزادی سے نجات حاصل کرے جو غلامی سے بدتر ہے۔اور جس کے نتیجہ میں ہر جگہ فساد اور کشت و خون ظاہر ہورہا ہے۔
محترم مولانا ابو العطاء صاحب نے اپنی مختصر صدارتی تقریر میں ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جو سیرت نبویؐ کی پیروی کرنے کے سلسلے میں جماعت احمدیہ پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے ظرف کے مطابق رسول پاکﷺ کے اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہم اپنے اعمال کے ذریعہ نور محمدی کو پھیلانے کا موجب بن سکیں۔ جلسہ کے دوران وقفہ وقفہ سے محترم چوہدری عبد السلام صاحب اخترؔ اور محترم مولوی نسیم سیفی صاحب نے اپنا نعتیہ کلام پڑھ کر سنایا، محترم محمد احمد صاحب انور حیدرآبادی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فارسی نعتیہ کلام اور محترم چوہدری شبیر احمد صاحب نے محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی ایک نعت خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنائی۔
صدارتی تقریر کے بعد اجتماعی دعا کے ساتھ دس بجے صبح یہ بابرکت جلسہ جس کے دوران حاضرین بکثرت درود پڑھتے رہے بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔‘‘
(روزنامہ الفضل 11؍مئی 1971ء)
1972ء
’’ربوہ: کل 27؍شہادت کو یوم سیرت النبی ؐکی مبارک تقریب پر اہل ربوہ کا ایک جلسہ عام زیر صدارت محترم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل مسجد مبارک میں منعقد ہوا۔ جس میں علماء سلسلہ احمدیہ نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے فضائل و مناقب اور آپؐ کی سیرت طیبہ پر ایمان افروز تقاریر فرمائیں اور اس امر کو واضح کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کے ہر طبقہ کیلئے تا قیامت کامل ترین نمونہ ہیں۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم حضور ؐ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور کثرت کے ساتھ آپؐ پر درود و سلام بھیجتے رہیں۔‘‘
(روزنامہ الفضل29؍اپریل 1972ء)
1973ء
’’مرکز سلسلہ عالیہ احمدیہ ربوہ میں16؍اپریل 1973ء کو یوم سیرت النبیﷺ شایان شان طریق سے منایا گیا۔ اس دن اہل ربوہ کے ایک جلسہ عام میں سید الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے عدیم النظیر فضائل و برکات کا مبارک تذکرہ کیا گیا اور بارگاہِ نبویؐ میں نذرانہ عقیدت و محبت پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم حضورؐ کے کامل ترین اُسوہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں اور کثرت کے ساتھ آپ ؐ پر درود و سلام بھیجتے رہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے انوار و برکات کو حاصل کرکےہم غلبۂ اسلام کی اس عظیم مہم میں کامیاب ہوسکیں جو اس زمانہ میں جاری کی گئی ہے۔
یہ جلسہ عام کل صبح سوا نو بجےمسجد مبارک میں لوکل انجمن احمدیہ کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔اس میں کثرت کے ساتھ احباب شامل ہوئے۔ خواتین کےلیے پردہ کا انتظام تھا۔ تمام دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل تھی۔ جلسہ کی کارروائی کے دوران ربوہ کے تمام بازار اور کاروباری ادارے بھی بند رہے۔سب سے پہلے محترم شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مبلغ بلادِ عربیہ نے ’’ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے رسول عربیﷺ کے اخلاق عالیہ پر روشنی ڈالی اور اس ضمن میں حضور ؐکی سیرت طیبہ کے متعدد واقعات بیان کئے۔
محترم منیر الدین صاحب شمس (ابن حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحومؓ) نے حضورﷺ کے توکل علی اللہ اور استقامت پر تقریر فرمائی۔ محترم لئیق احمد صاحب طاہرؔ سابق نائب امام مسجد لنڈن نے متعدد نہایت دلآویز تاریخی واقعات کی روشنی میں اس والہانہ عشق و محبت کو واضح کیا جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو حضورﷺ کی ذات بابرکات سے تھی۔
محترم عبد المنان صاحب طاہر متعلم جامعہ احمدیہ نے حضورؐ کی شفقت علی خلق اللہ کو واضح کیا۔ ازاں بعدمحترم مولوی غلام باری صاحب سیف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشقِ رسولؐ کے موضوع پرتقریر فرمائی۔ آپ نے حضور علیہ السلام کے وجد آفرین اشعار اور ایمان افروزحوالوں سے ثابت کیا کہ عشق و محبت کے جو بھی تقاضے اور آثار ہوتے ہیں ان سب کی رو سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق صادق تھے۔ آپ نے اپنا وجود محبت ِ رسول ؐ کی راہ میں بالکل کھودیا تھا یہی وجہ ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں:
جان و دِلم فدائے جمال محمدؐ است
خاکم نثار کُوچۂ آلِ محمدؐ است
محترم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل نے ’’طبقہ نسواں پر رسول عربیﷺ کے احسانات‘‘ کو بڑے مؤثر رنگ میں واضح فرمایا۔ آپ نے بعثت نبویؐ سے قبل عورتوں کی حالت کا ذکر کرنے کے بعد بتایا کہ حضورﷺ نے ہر لحاظ سے عورت کی عزت و تکریم کو قائم کیا۔ ان کے حقوق انہیں دلائے اور نہ صرف دنیا میں بلکہ اخروی زندگی میں بھی انہیں اجر و ثواب کی بشارت دیکر ان پر بے پایاں احسان فرمائے۔
آخر میں صدر جلسہ محترم مرزا عبد الحق صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں فضائل نبوی ؐ کے مختلف پہلوؤں کو مختصر اً واضح فرمایا اور بتایا کہ آپ کے حسن و احسان کو اپنے ذہنوں میں مستحضر رکھتے ہوئے آپؐ پر بکثرت درود پڑھنا ازبس ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ حضور ؐکے طفیل ہمیں بھی اپنی برکات سے نوازے اور اس زمانہ میں غلبہ ٔ اسلام کے لئے جو عظیم مہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے جاری کی گئی ہے وہ جلد سے جلد کامیابی سے ہمکنار ہو۔
صاحب صدر کی درخواست پر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے اجتماعی دُعا کرائی اور اس طرح یہ بابرکت جلسہ سیرت النبی بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا۔‘‘
(بحوالہ روزنامہ الفضل18؍اپریل 1973ء)
مندرجہ بالا رپورٹس سے اس بات کا بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ خلفائے احمدیت کے زیر ہدایت سیرت النبیﷺ کے جلسے جب تک پاکستان میں جماعت احمدیہ پر پابندی نہیں تھی بڑی شان و شوکت کے ساتھ منعقد کیے جاتے رہے۔ آج تمام عالم میں جماعت احمدیہ مسلمہ ہی ہے جو خلافت کے زیر سایہ آنحضرتﷺ کا مقام اور مرتبہ دُنیا کے سامنے پیش کررہی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام دُنیا کو خلافت کے زیر سایہ آکر آنحضرتﷺ کی غلامی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭…٭…٭