نبی کریمﷺ کے بعض رؤیا اور تعبیر نبوی (قسط اوّل)
خواب کی حقیقت
خواب اور رؤیا روز مرہ انسانی زندگی کا ایک حصہ ہیں۔ہر انسان اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی خواب ضرور دیکھتا ہے یعنی نیند کی حالت میں کوئی نہ کوئی نظارہ اسے دکھایا جاتا ہے۔ قرآن کریم جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس میں بھی رؤیا کا ذکر فرمایا گیا ہے مثلاً حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے بیٹے سے متعلق رؤیا،حضرت یوسف ؑکا رؤیا۔ حضرت یوسف ؑ کو رؤیا کی تعبیر کا علم دینے کا بھی اللہ تعا لیٰ نے خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے۔حضرت یوسفؑ کے ساتھ جو دوسرے دو قیدی تھے ان کے خوابو ں اور ان کی تعبیر جو اللہ تعا لیٰ نے حضرت یو سف ؑ کو سمجھائی اس کا بھی تذکرہ ہے۔اسی طرح حضرت یوسفؑ کے دَور کے بادشاہ نے جو خواب دیکھا اور اس کی جو تعبیر حضرت یوسفؑ نے بیان فرمائی اللہ تعا لیٰ نے اس کا ذکر بھی اپنے کلام مجید میں محفوظ فرمایا ہے۔اور سب سے بڑھ کر نبی کریمﷺ کے بعض رؤیا کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے جو نبی کریمﷺ کو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے مختلف اوقات میں د کھائے گئے تھے۔
اچھا خواب اور برا خواب
خواب اچھے اور برے(ڈراؤنے) دونوں طرح کے ہو تے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ خواب تین طرح کے ہیں : دل کے خیالات، شیطان کی طرف سے ڈراؤنا خواب اور اللہ کی طرف سے خوشخبری۔
(صحیح بخاری کتاب الرؤیا باب القید فی المنام )
ترمذی کی روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: خواب تین قسم کے ہو تے ہیں؛ پس اچھے اور نیک خواب تو اللہ کی طرف سے بشارت ہو تے ہیں، اور بعض پریشان کن خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور بعض خواب نفسانی خیالات ہوتے ہیں(جو نیند میں متمثل ہو جاتے ہیں)۔
( جامع ترمذی حدیث نمبر: 2270، 2280، صحیح مسلم باب فی کون الرؤیا من اللہ )
حضرت ابو قتادہؓ بیان فرماتے تھے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ اچھا خواب اللہ تعا لیٰ کی طرف سے ہے جبکہ برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الرؤیا باب الرؤیا من اللّٰہ )
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اچھا خواب اللہ تعا لیٰ کی طرف سے ہے جبکہ برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ پس اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگے اور بائیں طرف تھوک دے وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
(صحیح بخاری کتاب الرؤیا باب الرؤیا الصالحۃ، باب الحُلم من الشیطان)
نیک، اچھے اور سچے خواب اللہ تعا لیٰ کی ہستی پر یقین کا موجب بھی بنتے ہیں اور خالق حقیقی کو پہچاننے کا بھی ایک ذریعہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ احادیث میں نیک خواب کو علم نبوت کا ایک جز قرار دیا گیا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ کسی نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الرؤیا باب رؤیا الصالحین) ایک دوسری روایت میں ’رؤیا المومن‘یعنی مومن کا خواب کے الفاظ ہیں۔
(صحیح بخاری کتاب الرؤیا باب رؤیا الصالحۃ)
نیک اور سچے خواب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ مقام نبوت پر سرفرازہونے سے قبل اور وحی الٰہی کے نزول سے پہلے نیک او ر سچے خواب دیکھا کرتے تھے جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہﷺ پر وحی کی ابتدا (نیند میں)سچے خوابوں سے ہوئی تھی۔ جو خواب بھی آپؐ دیکھتے صبح کی روشنی کی طرح پورا ہو جاتا۔
(صحیح بخاری کتاب الوحی باب کیف کان بدء الوحی، کتاب الرؤیا باب التعبیر و اول مابدیٔ بہ رسول اللّٰہ من الوحی )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواب کے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعا لیٰ نے وحی و الہام کا مادہ ہر شخص میں رکھ دیا ہے۔کیونکہ اگر یہ مادہ نہ رکھا ہو تا تو پھر حجت پوری نہ ہو سکتی۔ اس لیے جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی و الہام کے سمجھنے کے لیے اللہ تعا لیٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہو ئی ہے اور وہ ودیعت خواب ہے۔ اگر کسی کو کوئی خواب سچی کبھی نہ آئی ہو تو وہ کیونکر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے۔ اور چونکہ خدا تعا لیٰ کی یہ صفت ہے کہ
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا(البقرہ: 287)
اس لیے یہ مادہ اس نے سب میں رکھ دیا ہے۔‘‘
( الحکم جلد31مورخہ31؍اگست1902ء صفحہ6 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑزیرآیت:وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُکَلِّمَہُ اللّٰہُ(الشوریٰ:52)جلد 4صفحہ119)
حضور علیہ السلام ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں کہ’’اور خدا نے جو عام لوگوں کے نفوس میں رؤیا اور کشف اور الہام کی کچھ کچھ تخم ریزی کی ہے وہ محض اس لیے ہے کہ وہ لوگ اپنے ذاتی تجربہ سے انبیاء علیہم السلام کو شناخت کر سکیں اور اس راہ سے بھی ان پر حجت پو ری ہو اور کوئی عذر باقی نہ رہے۔‘‘
( لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 226)
نبی کا خواب بھی وحی ہے
حضرت ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے بیان کے مطابق رسول اللہﷺ پر وحی کی ابتدا (نیند میں)سچے خوابو ں سے ہوئی تھی۔اور یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ نبی یا انبیاء ؑکے خواب بھی وحی ہوتے ہیں جیسا کہ امام بخاریؒ نے حضرت عبید بن عمیر ؒ کا قول اپنی صحیح میں درج کیا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ انبیاء ؑ کے خواب وحی ہو تے ہیں اور پھر انہو ں نے (یہ آیت) پڑھی:
اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ
کہ میں خواب میں دیکھتا ہو ں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہو ں(الصافات:103)۔
(صحیح بخاری کتاب الوضو باب التخفیف فی الوضوء)
حضرت عبید بن عمیر ؒ مشہور تابعی ہیں جو رسول اللہﷺ کے دَور مبارک ہی میں پیدا ہوئے۔ انہو ں نے حضرت ابراہیم ؑ کے خواب سے یہ استدلال کیاکہ اولاد کا قتل تو حرام ہے لیکن حضرت ابراہیم ؑ خواب دیکھ کر اس کی تعمیل فرمانے لگے تھے اگر خواب وحی نہ ہوتا تو ایسا ہر گز نہ کرتے۔
حضرت مسیح موعود ؑنے بھی خواب کو وحی و الہام کی قسموں ہی میں شمار فرمایا ہے۔حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیںکہ ’’صورت چہارم الہام کی یہ ہے کہ رؤیاصادقہ میں کو ئی امر خدائے تعا لیٰ کی طرف سے منکشف ہو جاتا ہے یا کبھی کو ئی فرشتہ انسان کی شکل میں متشکل ہو کر کو ئی غیبی بات بتلاتا ہے یا کو ئی تحریر کاغذ پر یا پتھر وغیرہ پر مشہود ہو جاتی ہے جس سے کچھ اسرار غیبیہ ظاہر ہو تے ہیں۔‘‘
( براہین احمدیہ حصہ اول، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 274حاشیہ در حاشیہ نمبر 1)
اس مختصر تمہید کے بعد آئندہ سطور میں نبی کریمﷺ کے پینتالیس (45) رؤیا اوراٹھارہ (18)کشفی واقعات کا ذکر کیا جارہاہے جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں اور سیرت النبیﷺ کا ایک نہایت ہی اہم اور خاص باب ہیں۔مضمون کے طویل ہوجانے کے خوف سے اس مضمون میں احادیث کے اصل متن کی بجائے صرف ترجمہ پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میںمذکور رسول اللہﷺ کے رؤیا
٭…پہلی رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کے پہلے رؤیا کا ذکر سورت الانفال کی آیت44، میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا:
اِذْیُرِیْکَہُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا … اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ؛
(ترجمہ) یاد کرو جب اللہ تجھے ان کو تیری نیند کی حالت میں کم دکھا رہا تھا اور اگر وہ تجھے ان کو کثیر تعداد میں دکھاتا تو تم ضرور بزدلی دکھاتے اور اس اہم معاملہ میں اختلاف کرتے۔ لیکن اللہ نے تمہیں بچا لیا۔ یقینا ًوہ سینوں کے رازوں کو خوب جانتا ہے۔
اس مذکورہ بالا آیت میں مذکور نبی کریمﷺ کے جس رؤیا کا ذکر ہے اس کا تعلق غزوۂ بدر کے ساتھ ہے اور اس غزوہ کے موقعہ پر نبی کریمﷺ کو خواب میں کفار کے لشکر کی کیفیت یعنی دشمنوں کی تعداد کم کر کے دکھائی گئی تھی جس کا فائدہ یہ ہوا کہ صحابہؓ کے حوصلے بھی بلند رہے، وہ ثابت قدم بھی رہے اور انجام کار کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ خواب میں کفار کے لشکر کو زیادہ کر کے دکھاتا تومسلمان پست حوصلہ اور بزدل ہو جاتے اور جنگ کے متعلق ان کے خیالات مختلف ہو جاتے۔ کوئی ثابت قدم رہنے کی رائے دیتا کوئی بھاگ جانے کی۔ مگر اللہ تعا لیٰ نے یہ خواب دکھا کرمومنوں کو باہمی اختلاف اور بزدلی سے محفوظ رکھا۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ (المصلح الموعود و خلیفۃ المسیح الثانی) نے اپنی تفسیر صغیر میں اس آیت کے فٹ نوٹ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ’’خواب میں دشمن کی تعداد کم کر کے دکھائے جانے کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ دشمن پر غلبہ ملے گا۔‘‘
(تفسیر صغیر صفحہ225)
امام ابن اکثیر ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ’’اللہ تعا لیٰ نے اپنے نبیﷺ کو خواب میں مشرکوں کی تعداد بہت کم دکھائی۔ آپﷺ نے اپنے اصحابؓ سے ذکر فرمایااور یہ چیز ان کی ثابت قدمی کا باعث بن گئی۔ ممکن تھا کہ اُن(کفار) کی تعداد کی زیادتی اِن (مسلمانوں)میں رعب بٹھا دے اور آپس میں اختلاف شروع ہو جائے کہ آیا ان سے لڑیں یا نہ لڑیں؟ اللہ تعا لیٰ نے اس بات سے ہی بچا لیا اور ان کی تعداد کم کر کے دکھائی۔ …. خواب میں تعداد میں کم دکھا کر پھر یہ بھی مہربانی فرمائی کہ بوقت جنگ بھی مسلمانوں کی نگاہوں اور ان کی جانچ میں وہ بہت ہی کم آئے تا کہ مسلمان دلیر ہو جائیںاور انہیں کوئی چیز ہی نہ سمجھیں۔
عبد اللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اندازہ کر کے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر کے قریب ہو ں گے۔ اس نے پورا اندازہ کر کے کہا،نہیں کوئی ایک سو ہیں۔ پھر ان میں سے ایک شخص ہمارے ہاتھ میں قید ہو گیا، ہم نے اس سے پو چھا کہ تم کتنے ہو؟ اس نے کہا، ایک ہزار کا لشکر ہے۔‘‘
(تفسیر ابن کثیرؒ اردو، سورۃ الانفال، پارہ نمبر10 صفحہ416شائع کردہ مکتبہ قدوسیہ 2006ء)
نبی کریمﷺ کے اس خواب سے متعلق تفسیر مظہری میں یہ مذکور ہے کہ’’ قلت اعداء دکھانے کی غرض یہ ہے کہ مسلمان ثابت قدم رہیں ان کے حوصلے بلند ہو جائیں اور دشمنوں کی کثرت دیکھ کر خوف زدہ نہ ہو ں۔ واقعہ یہ ہوا کہ بدر کے دن رسول اللہﷺ نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ جب تک میں تم کو لڑنے کا حکم نہ دو ں تم لڑائی نہ چھیڑنا اگر دشمن تمہارے قریب آجائیں تو تیر چلانا تلوار نہ چلانا، تلوار کی جنگ اس وقت کرنا جب وہ تم پر ٹوٹ ہی پڑیں۔ اس کے بعد جھونپڑی کے اندر حضورﷺ کو کچھ نیند کی جھپکی آگئی۔ حضرت ابو بکر ؓنے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! دشمن قریب آ پہنچے اور کچھ چھیڑ چھاڑ بھی کرنے لگے ہیں۔ رسول اللہﷺ (ابو بکرؓ کی آواز سے بیدار ہو گئے۔ خواب میں اللہ نے آپﷺ کو دشمنوں کی تعداد کم کر کے دکھائی تھی۔ آپﷺ نے صحابہؓ کو اس کی اطلاع دی۔) اس طرح لوگوں کی ہمت بندھی رہی اور حو صلے بلند رہے۔
ابن اسحاق اور ابن المنذر نے بروایت حبان بن واسع بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ابو بکر بشارت ہو کہ اللہ کی مدد تمہارے لیے آپہنچی یہ جبرئیل اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے کھینچے لا رہے ہیں جن کے اوپر غبارہے۔‘‘
(تفسیر مظہری اردو، از قاضی محمد ثناء اللہ مجددی پانی پتی، متوفی 1225 ہجری، جلدپنجم، صفحہ 94، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی 1999ء)
(نوٹ:قاضی محمد ثناء اللہ مجددیؒ پانی پتی ہندوستان کے مشہور ولی حضرت مرزا مظہر جان جاناں،متوفی1195 ہجری، کے خلیفہ تھے۔)
٭…دوسری رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کے دوسرے رؤیا کا ذکر سورت بنی اسرائیل کی آیت61، میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا:
وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ
(ترجمہ) اور جو رؤیا ہم نے تجھے دکھائی تھی اسے ہم نے لوگوں کے لیے صرف امتحان کا ذریعہ بنایا تھا۔
اس مذکورہ بالا آیت میںصرف ایک رؤیا کا ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتا یا گیا کہ وہ رؤیا کون سا تھا۔حضرت مصلح موعودؓنے تفسیر صغیر میں اس آیت کے فٹ نوٹ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ’’رؤیا اسی سورۃ میں اسراء کے واقعہ میں بیان کی گئی ہے اور اسراء وہ کشفی سفر تھا جو فلسطین کی طرف ہوا۔ ‘‘
(تفسیر صغیر، صفحہ357)
واقعہ اسراء کا ذکر اللہ تعا لیٰ نے سورت بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت میںان الفاظ میں فرمایا ہے :
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا…
(ترجمہ) پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا۔
قرآن کریم کی اس آیت سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ یہ سفر رات کے وقت ہوا، یہ سفر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک سفر ہوا، آسمان کا ذکر نہیں کیا گیا۔اللہ تعالیٰ اس سفر کے ذریعہ رسول اللہﷺ کو اپنے بعض نشانات دکھانا چاہتا تھا۔
کتب احادیث اور سیرت کی کتب میں اس واقعہ اسراء کی تفاصیل موجود ہیں۔ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک رات نبی کریمﷺ نے دیکھا کہ اللہ تعا لیٰ کا ایک فرشتہ(جبرئیل) آپﷺ کے پاس بُرّاق نامی سفید رنگ کا ایک جانور لے کر آیا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا اور آپﷺ کو اس پر سوار کیا۔اور پھر آپﷺ کو ساتھ لے کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس جانور کا قدم اس تیزی سے اٹھتا تھا کہ ہر قدم نظر کی انتہائی حد تک لے جاتا تھا۔ اور آپﷺ بہت جلد بیت المقدس پہنچ گئے۔ راستے میں آپﷺ کو ایک بڑھیا ملی جسے دیکھ کر آپؐ نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون ہے ؟ جبرئیل نے کہا کہ آگے چلئے۔ جب آپؐ آگے گئے تو راستے میں کسی نے آواز دے کر بلایا اور کہا محمد ادھر آؤ۔ مگر جبرئیل نے آپؐ سے پھر یہی کہا کہ چلئے آگے چلئے۔ جب آپؐ آگے گئے تو کچھ دیر بعد راستے میں آپؐ کو کچھ لو گوں کی جماعت ملی جس نے آپ کو سلام کہا۔جبرئیل نے کہا آپ بھی ان کو سلام کہیں۔بالآخر آپؐ بیت المقدس پہنچ گئے۔ یہاں جبرئیل نے آپؐ کے سامنے تین پیالے پیش کیے، ایک میں پانی تھا، دوسرے میں شراب تھی اور تیسرے میں دودھ تھا۔آپﷺ نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور باقی دونوں رد کردیے۔ جبرئیل نے کہا: آپ نے فطرت کی بات اختیار کی۔ اگر آپؐ پانی لیتے تو آپؐ کی امت غرق ہو جاتی۔ اور اگر شراب کا پیالہ لیتے تو آپؐ کی امت بھٹکتی پھرتی۔ پھر آپؐ کے سامنے حضرت آدمؑ اور ان کے بعد کے انبیاء ؑلائے گئے اور آپؐ نے ان کا امام بن کر انہیں نماز پڑھائی، گویا وہ انبیاء آپؐ کے مقتدی بنے اور آپؐ ان کے امامﷺہوئے۔اس کے بعد جبرئیل نے آپؐ سے کہا کہ وہ جو آپؐ نے راستے میں ایک بڑھیا دیکھی تھی وہ دنیا تھی اور دنیا کی عمر میں اب صرف اسی قدر باقی رہ گیا ہے جو بڑھیا کی عمر میں باقی ہے۔ اور وہ جو آپؐ کو ایک شخص راستے میں ایک طرف بلاتا تھاوہ شیطان تھا جو آپؐ کو راستے سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا۔ اور وہ جو آپؐ کو آخر میں ایک جماعت ملی تھی اور انہو ں نے آپؐ کو سلام کہا تھا وہ اللہ تعا لیٰ کے انبیاء حضرت ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑتھے۔اور اس کے بعد نبی کریمﷺ واپس مکہ تشریف لے آئے۔
(ماخوذ ازسیرۃ خاتم النبیین ؐاز حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓصفحہ199 تا 202)
احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ سوئے ہوئے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا
(وَھُوَ نَائِمٌ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ؛
یعنی آپؐ سوئے ہوئے تھے مسجد حرام میں ) اور اس واقعہ کے بعد آپﷺ بیدار ہو گئے اور اس واقعہ کے وقت آپ کا جسم مبارک غائب نہیں ہوا تھا
(وَاسْتَیْقَظَ وَھُوَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ؛
یعنی پھرآپؐ بیدار ہوگئے اور آپؐ مسجد حرام میں تھے)۔ غرض یہ واقعہ اسراء ایک روحانی امر اور ایک نہایت لطیف کشف تھا جو رسول اللہﷺ کو نیندکی حالت میں پیش آیا۔
(صحیح بخاری کتاب التوحیدباب:وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا، صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ بنی اسرائیل، (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب : تنام عینہ ولا ینام قلبہ، باب واذکر فی الکتاب مریم)(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ )
٭…تیسری رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کے تیسرے رؤیا کا ذکرسورت الفتح کی آیت28 میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا:
لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحًا قَرِیۡبًا؛
(ترجمہ) اللہ نے اپنے رسول کو اس رؤیا کا مضمون پوری طرح سچا کر کے دکھادیا کہ تم مسجد حرام میں اگر خدا نے چاہا تو امن کے ساتھ ضرور داخل ہو گے اور اپنے سر پوری طرح منڈوائے ہو ئے یا چھوٹے بال کروائے ہو ئے ہو گے کسی سے نہ ڈرتے ہو گے۔ سو اللہ نے وہ کچھ جان لیا جو تم نہیں جانتے تھے اور اس نے اس کے ورے ایک اور فتح رکھ دی ہے۔
حضرت مصلح موعود ؓنے تفسیر صغیر میں اس آیت کے فٹ نوٹ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ’’رسول کریمﷺ نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے آپﷺ مکہ جانے کے لیے روانہ ہوئے لیکن حدیبیہ کے مقام پر روک دئیے گئے۔ آخر کفار نے درخواست کی کہ اس سال طواف نہ کریں مگر اگلے سال ہم آپ کا راستہ کھلا چھوڑ دیں گے۔ اس وقت طواف کر لیں۔‘‘
(تفسیر صغیر، صفحہ 681)
اس رؤیا میںدر حقیقت صلح اور امن کے ساتھ مکہ کو فتح کرنے کی خبر دی گئی تھی۔ لیکن رسول اللہﷺ نے اس کی تعبیر یہی سمجھی شاید ہمیں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے اصحابؓ سے اس بات کا تذکرہ فرمایا اور انہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ ہم صرف طواف کی نیت سے جارہے ہیں کسی قسم کا مظاہرہ یا کو ئی ایسی بات نہ کی جائے جو دشمن کی ناراضگی کا موجب ہو۔ چنانچہ ذوقعدہ سنہ 6 ہجری، پیر کے دن صبح کے وقت نبی کریمﷺ اپنے کم و بیش چودہ سو اصحابؓ کے ساتھ مکہ روانہ ہو گئے۔
مکہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ کفار مکہ جنگ پر آمادہ ہیں اور مسلمانوں کو آگے نہیں جانے دیں گے۔ چنانچہ یہ قافلہ مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر ٹھہرا جہاں نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میں مکہ والو ں سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں حج کی اجازت دے دیں اور خواہ کوئی شرط بھی وہ کریں میں اسے منظور کر لو ں گا۔بالآخر یہاں وہ عظیم الشان معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔اس معاہدے پر صحابہؓ کے دل میں غم اور غصہ کے جذبات پیدا ہو ئے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓنے رسول اللہﷺ سے کہا : یا رسول اللہﷺ! کیا ہم سچے نہیں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا : ہاں! پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہﷺ ! کیا آپ کو اللہ تعا لیٰ نے نہیں بتایا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ آ پﷺ نے فرمایا : ہاں! اس پر حضرت عمر ؓنے کہا : پھر آپؐ نے آج یہ معاہدہ کیوں کیا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عمر ! اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ تو فرمایا تھاکہ ہم بیت اللہ کا طواف امن سے کریں گے مگر یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ہم اسی سال کریں گے یہ تو میرا اجتہاد تھا۔پھر فرمایا: تو پھر تم انتظار کرو تم ان شاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کا طواف کرو گے۔
اسی موقع پر بیعت رضوان بھی ہو ئی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح کی آیت19میں فرمایا ہے۔معاہدہ مکمل ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنی حرم محترم حضرت ام سلمہؓ کی تجویز پر اپنے قربانی کے جانورذبح فرمانے کے بعد اپنے سر کے بال منڈوائے،یہ دیکھ کر صحابہؓ نے بھی ایسا ہی کیا۔ غرض نبی کریمﷺ اس معاہدہ کے بعد واپس مدینہ تشریف لے گئے اور یہ معاہدہ ایک عظیم الشان فتح پر منتج ہوا۔
واپسی کے سفر میں اللہ تعا لیٰ نے سورۃ الفتح نازل فرمائی جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر آج رات ایک ایسی سورت نازل ہو ئی ہے جو مجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔
( ماخوذ ازسیرۃ خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 748 تا 772، صحیح بخاری کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیہ، صحیح بخاری کتاب التفسیر، باب انا فتحنا لک فتحا مبینا )
٭…چوتھی رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کے چوتھے رؤیا کا ذکرسورۃ النجم کی آیت 8 تا 19میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا:
وَھُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی…. مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۔
(ترجمہ) جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا۔پھر وہ نزدیک ہوا،پھر وہ نیچے اتر آیا۔ پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیا یا اس سے بھی قریب تر۔ پس اس نے اپنے بندے کی طرف وہ وحی کیا جو بھی وحی کیا۔اور دل نے جھوٹ بیان نہیں کیا جو اس نے دیکھا۔ پس کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا ؟ جبکہ وہ اسے ایک اَور کیفیت میں بھی دیکھ چکا ہے۔آخری حد پر واقع بیری کے پاس۔ اس کے قریب ہی پناہ دینے والی جنت ہے۔ جب بیری کو اس نے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا۔ نہ نظر کج ہو ئی اور نہ حد سے بڑھی۔ یقینا ًاس نے اپنے رب کے نشانات میں سے سب سے بڑا نشان دیکھا۔
ان مذکورہ بالا آیات میں نبی کریمﷺ کے معراج روحانی کا نقشہ کھینچا گیا ہے یعنی وہ روحانی سفر جس میں نبی کریمﷺ کو آسمان تک پہنچایا گیا جہاں آپؐ بالآخر اللہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو ئے۔اس معراج روحانی کی تفصیلات بھی احادیث میں موجود ہیںاور کتب احادیث میں کم و بیش 45 صحابہ ؓ سے مختلف الفاظ کے ساتھ معراج کا واقعہ منقول ہے۔اس واقعہ معراج سے متعلق روایات کا خلاصہ یہ کہ نبی کریمﷺ ایک رات مسجد حرام میںلیٹے ہو ئے تھے اور نیند اور بیداری کی کیفیت میں تھے کہ حضرت جبرئیل ؑ نمو دار ہوئے اور انہو ں نے آپؐ کو اٹھا کر پہلے آپؐ کا سینہ چاک کیا اور آپؐ کے قلب مبارک کو آب زمزم سے اچھی طرح دھویا اور پھر آپؐ کے دل میں حکمت و ایمان کا خزانہ بھر کے آپؐ کے سینے کو بند کردیا۔ اس کے بعد جبرئیل ؑ نبی کریمﷺ کو لےکر آسمانو ں کی طرف بلند ہوئے۔ پہلے آسمان پر نبی کریمﷺ کی ملاقات حضرت آدم ؑ سے ہوئی۔ پھر دوسرے آسمان پر گئے جہاں حضرت یحیٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑسے ملاقات ہو ئی۔ پھر تیسرے آسمان پر حضرت یو سف ؑسے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑسے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑسے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑ اور پھر ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ؑسے ملاقات ہوئی۔اس کے بعد نبی کریمﷺ اس مقام پر پہنچے جسے قرآن کریم سدرۃ المنتہیٰ کے الفاظ میں بیان فرماتا ہے یعنی انسان کی روحانی رفعت کا وہ آخری مقام یا حد کہ جس کے بعد انسان کی رسائی ممکن نہیں۔ اس مقام پر اللہ تعا لیٰ کی طرف سے آپﷺ پر وحی بھی اتاری گئی اور آپؐ نے حضرت جبرئیلؑ کو ان کی اصل شکل و صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔ اوراسی معراج کے موقع پر پانچ نمازوں کا تحفہ ملا جن کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر قرار دیا گیا۔
( صحیح بخاری کتاب التوحید باب قولہ وکلم اللّٰہ موسیٰ تکلیما،صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ )
واقعہ معراج کے ایک لطیف کشف یا رؤیا ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ روایات میں یہ مذکور ہے کہ نبی کریمﷺ مسجد الحرام میں سوئے ہوئے تھے اور دوسرا یہ کہ واقعہ معراج کے بعد یہ ذکر ہے کہ پھر آپؐ بیدار ہو گئے۔ اور تیسرا یہ کہ نبی کریمﷺ نے دوران معراج جو نظارے دیکھے وہ ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھے بلکہ قرآن کریم سورۃ النجم کی ابتدائی آیات میں اسے رؤیت قلبی قرار دیتا ہے۔
٭…پانچویں رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کے پانچویں رؤیا کا ذکرسورت التکویر کی آیت 24 میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا:
وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ۔
(ترجمہ) اور وہ ضرور اسے روشن افق پر دیکھ چکا ہے۔
اس مذکورہ بالا آیت قرآنی میں ایک رؤیت کا ذکر ہے۔ اس رؤیت سے مراد بھی خواب میں یا کشفاً دیکھنا مراد ہے۔اس کے بارے میں امام ابن کثیر ؒنے اپنی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ یہ پیغمبر اس فرشتے کو اس کی اصلی صورت پر بھی دیکھ چکے ہیں جبکہ وہ اپنے چھ سو پروں سمیت ظاہر ہو ئے تھے۔ یہ واقعہ بطحا کا ہے اور یہ پہلی مرتبہ کا دیکھنا تھا، آسمان کے کھلے کنارو ں پر یہ دیدارِ جبرئیل ؑ ہوا تھا۔
(تفسیر ابن کثیرؒ اردو، سورۃ التکویر، پارہ نمبر30 صفحہ690،شائع کردہ مکتبہ قدوسیہ 2006ء)
تفسیر مظہری میں قاضی محمد ثناء اللہ مجددیؒ پانی پتی نے یہ لکھا ہے کہ ’’جمہور اہل تفسیر نے ’ہ‘کی ضمیر رسول کریمﷺ کی طرف راجع کی ہے یعنی رسول اللہﷺ نے حضرت جبرئیلؑ کو دیکھا جبکہ جبرئیل ؑ افق مبین میں تھے۔ قتادہؒ اور مجاہدؒ نے کہا یعنی بجانب مشرق، بالائی افق میں تھے۔ بغویؒ نے اپنی سند سے حضرت ابن عباس ؑکا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت جبرئیل ؑسے فرمایا تھا: میں آپ کو اس شکل میں دیکھنا چاہتا ہو ں جس شکل میں آپ آسمان میں ہو تے ہیں۔ حضرت جبرئیلؑ نے کہا : آپ ایسا نہ کر سکیں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ جبرئیل ؑنے کہا آپؐ کس جگہ چاہتے ہیں کہ میں وہ صورت آپؐ کو دکھاؤں۔ حضورﷺ نے فرمایا : البطح میں۔جبرئیل ؑ نے کہا وہاں تو میں نہیں سما سکتا۔ حضورﷺنے فرمایا: منیٰ میں۔ جبرئیل ؑنے کہا وہاں بھی میری سمائی نہ ہو گی۔ فرمایا: عرفات میں۔ جبرئیل ؑ نے کہا اس میں بھی وسعت نہیں۔ فرمایا حراء میں۔ جبرئیل ؑنے کہا اس کی بنیادی دیوارو ں پر اگر میری گنجائش ہو گی۔ غرض وقت مقررہ پر رسول اللہﷺ تشریف لے گئے۔ اچانک عرفہ کے پہاڑوں سے ہتھیارو ں کی کھٹاکھٹ اور بادلوں کی گرج جیسی آواز کے ساتھ جبرئیلؑ سامنے نمودار ہو گئے۔ ان کا سر آسمان تک اور پاؤں زمین میں تھے۔ اور مشرق سے مغرب تک خلا بھری ہو ئی تھی۔ رسول اللہﷺ یہ سماں دیکھ کر بے ہو ش ہو کر گر پڑے۔ راوی کا بیان ہے اس کے بعد جبرئیل ؑ نے اپنی صورت بدل دی اور حضورﷺ کو سینہ سے چمٹا کر کہا محمد ؐ! خوف نہ کرو، اگر تم اسرافیل کو دیکھ لو گے تو کیا حال ہو گا۔ ان کا سر عرش کے نیچے اور پا ؤں ساتویں زمین کی حدود میں ہیں۔ عرش ان کے کاندھے پر ہے اور ایسی عظمت کے باوجود اللہ کے خوف سے وہ کبھی کبھی اتنا سمٹ جاتے ہیں کہ چڑیا کی طرح ہو جاتے ہیں۔ اور عرش رب کو اس وقت محض عظمت الٰہی اٹھائے رہتی ہے۔
اس قول (رؤیت جبرئیل ) کے قائلین میں سے حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں۔‘‘
(تفسیر مظہری اردو، از قاضی محمد ثناء اللہ مجددی پانی پتی، متوفی: 1225 ہجری، جلد بارہ، صفحہ 215، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی 1999ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ترجمۃ القرآن کلاس زیر آیت ہٰذا (فرمودہ 3؍فروری 1999ء) میں فرمایا کہ روح الامین کے افق تا افق پھیلے ہوئے ہونے کا نظارہ رسول اللہﷺ کو کشفی طور پر دکھایا گیا تھا۔
کتب احادیث میں مذکور رسول اللہﷺ کے رؤیا
رؤیا نمبر 1: نبی کریمﷺ کا خواب میں اپنا دارالہجرت دیکھنااور تلوار کا ٹوٹنا اور جڑنا
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی سرزمین میں ہجرت کر رہا ہو ں جہاں کھجور کے باغات ہیں۔ اس پرمیں نے یہ خیال کیا کہ یہ مقام یمامہ یا ہجر ہے،لیکن وہ تو مدینہ نکلا،یثرب۔ اور اسی خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میں نے تلوار ہلائی اور وہ درمیان میں سے ٹوٹ گئی۔ یہ اس نقصان اور مصیبت کی طرف اشارہ تھا جو احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو اٹھانی پڑی تھی۔پھر میں نے اس تلوار کو دوسری مرتبہ ہلایا تو وہ پہلے سے بھی اچھی صورت میں جڑ گئی۔ یہ فتح مکہ کی طرف اشارہ تھا اور مسلمانو ں کو اجتماعی زندگی میں قوت و توانائی عطا فرمائی تھی۔ اور میں نے اسی خواب میں ایک گائے دیکھی تھی اور اللہ تعالیٰ کی تقدیرات میں بھلائی ہی ہو تی ہے۔ ان گائیو ں سے ان مسلمانو ں کی طرف اشارہ تھا جو احد کی جنگ میں شہید ہوئے۔ اور خیر وہ ہے جو اللہ تعا لیٰ نے خیر اور سچائی کے ثواب کی صورت میں دیا یعنی وہ جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے بعد (دوسری فتوحات خیبر اور فتح مکہ کی صورت میں) دی۔
( صحیح بخاری کتاب الرؤیا باب اذا رأ بقرا تنحر، باب اذا ھز سیفاً، صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب علامات النبوۃ فی الاسلام، کتاب المغازی باب من قتل من المسلمین یوم احد۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: 5649)
رؤیا نمبر2:غزوہ احد سے پہلے ایک رؤیا میں چار نظارے
حضرت عبداللہؓ ابن عباس ؓروایت بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ کی تلوار ذوالفقار بدر کے دن (اموال غنیمت میں)ہاتھ آئی تھی۔اس تلوار کے بارے میں رسول اللہﷺ نے اپنی یہ رؤیا بیان فرمائی کہ میں نے دیکھا کہ میری تلوار ذوالفقار ٹوٹی ہو ئی ہے یا اس کی دھار پر کٹاؤ پڑگیا ہے۔ میں نے اس کی تعبیر تمہارے اندر کٹاؤ مراد لیا ہے دوسری روایت میں ہے کہ میں نے جو کچھ اپنی تلوار کے بارے میں دیکھا ہے اسے ناپسند کیا ہے(ایک روایت میں اس کی تعبیر میںنبی کریمﷺ نے فرمایاکہ میرے اہل بیت میں سے کو ئی شخص ہے،جو اشارہ تھا سید الشہداء حضرت حمزہ ؓکی شہادت کی طرف)۔اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنے پیچھے ایک دنبہ بٹھایا ہوا ہے۔ میں نے اس کی تعبیر بغیر لشکر مراد لی ہے دوسری روایت میں ہے کہ میں لوگوں کے لیے دنبہ ذبح کروں گا۔ اور میں نے دیکھا کہ میں ایک محفوظ زرہ میں ہو ں۔میں نے اس کی تعبیر مدینہ مراد لی ہے۔ اور میں نے ایک گائے دیکھی جو ذبح کی جارہی ہے۔ پس گائے میں اللہ کی قسم خیرہی ہے۔
(مسندامام احمدؒ جلد:اول صفحہ271، مستدرک للحاکم حدیث نمبر:4896,2588۔ دلائل النبوۃ (اردو)ازامام ابی بکر احمد بن حسین البیہقی جلددوم حصہ سوم،صفحہ 153تا154دارالاشاعت کراچی، مئی 2009ء)
رؤیا نمبر 3:نبی کریمﷺ کا خواب میں اللہ تعا لیٰ کو دیکھنا اور ملاء اعلیٰ میں فرشتوں کا بحث کرنا
حضرت عبد اللہؓ ابن عباسؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ ایک رات خواب میں اللہ تعا لیٰ میرے پاس نہایت ہی اچھی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور اس نے فرمایا: اے محمدؐ !کیا آپؐ کو معلوم ہے کہ ملا ء اعلیٰ میں فرشتے کیا بحث کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ تعا لیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا جس کی ٹھنڈک مجھے اپنے سینے میں محسوس ہو ئی،یا یہ فرمایا کہ میرے حلق تک ٹھنڈک محسوس ہوئی اور مجھے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کے بارہ میں علم ہو گیا۔پھر رسول اللہﷺ نے یہ آیت پڑھی:
وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ۔(الانعام:76)
ترجمہ: اور ہم ابراہیم کو اس طرح آسمانوں اور زمین پر اپنی بادشاہت دکھاتے تھے تا کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔
پھر اللہ تعا لیٰ نے مجھ سے دوبارہ دریافت فرمایا: اے محمدؐ! کیا آپؐ کو معلوم ہے کہ ملا ء اعلیٰ میں فرشتے کیا بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں میں جانتا ہو ں کفارات (یعنی گناہوں کو ختم کرنے والی چیزوں) کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ اور وہ کفارات یہ ہیں: نماز کے بعد مسجدوں میں بیٹھنا، باجماعت نماز کے لیے پیدل چل کر جانا، (سردی وغیرہ کی وجہ سے )دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا۔ جس نے یہ سب کام کیے وہ بھلائی پر زندہ رہے گا،بھلائی پر اس کی وفات ہو گی اور وہ گناہو ں سے ایسے پاک ہو جائے گا جیسے آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہے۔ اور اللہ تعا لیٰ نے فرمایا: اے محمد ؐ!جب آپ نماز پڑھ لیں تو یہ دعا کر لیا کریں:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَاِذَا اَرَدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ۔
(ترجمہ: اے اللہ ! میں تجھ سے نیک کامو ںکے کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے کی تو فیق چاہتا ہو ں۔تو مساکین کی محبت مجھے عطا فرما۔ اور جب بعض لو گو ں کو فتنہ پہنچانا مقصود ہو تو بغیر فتنہ میں ڈالے میری روح کو قبض کر لینا۔ )اور فرمایا: وہ اعمال جن سے درجات بلند ہو تے ہیں وہ یہ ہیں : سلام کو رواج دینا، کھانا کھلانا اور رات کو اس وقت نماز پڑھنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔
(جامع ترمذی باب من سورۃ ص ٓ حدیث نمبر: 3233 )
رؤیا نمبر4:عالم برزخ میں دوزخ کے ہیبت ناک اور جنت کے دلفریب نظارے
حضرت سمرہ بن جندب ؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب آپؐ (صبح کی) نماز سے فارغ ہوتے تو اپنا چہرہ ہماری طرف متوجہ فرماتے اور دریافت فرماتے کہ آج کی رات تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ حضرت سمرۃ ؓ کہتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تا تو وہ اس کو بیان کر دیتا اور آپؐ اس کی وہ تعبیر فرمادیتے جو اللہ تعا لیٰ الہام فرماتا۔ چنانچہ اپنے اس معمول کے مطابق ایک دن رسول اللہﷺ نے ہم سے دریافت فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ ہم نے عرض کیا نہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا لیکن میں نے آج کی رات خواب دیکھا ہے کہ میرے پاس دو آنے والے آئے اور انہو ں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا چلیں اور میں ان کے ساتھ چل دیااور وہ مجھے مقدس سرزمین کی طرف لے چلے۔پھر ہم ایک لیٹے ہوئےشخص کے پاس آئے جس کے پاس ایک دوسرا شخص پتھر لیے کھڑا تھا۔ وہ اس کے سر پر پتھر پھینک کر مارتا جس سے اس کا سر پھٹ جاتا اور پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا۔ لیکن وہ شخص پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا اور اس لیٹے ہو ئے شخص تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر ٹھیک ہو جاتا جیسے کہ پہلے تھا۔ کھڑا شخص پھر اسی طرح پتھر اس پر مارتا اور وہی صورتیں پیش آ تیں جو پہلے پیش آئی تھیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میں نے ان دونوں سے پوچھا سبحان اللہ ! یہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اور ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھااور ایک دوسرا شخص اس کے پاس لوہے کا آنکڑا لیے کھڑا تھا اور یہ اس کے چہرہ کے ایک طرف آتااور اس کے ایک جبڑے کو گدی تک چیرتااور اس کی ناک کو بھی گدی تک چیرتا اور اس کی آنکھ کو بھی گدی تک چیرتا۔ پھر وہ دوسری جانب جاتا اور اس طرف بھی وہ چیرنے کا عمل کرتا جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا۔ وہ ابھی دوسری جانب سے فارغ بھی نہیں ہو پاتا تھا کہ اس کی پہلی جانب اپنی پہلی صحیح حالت پر واپس لوٹ آتی تھی۔ پھر وہ دوبارہ اسی طرح کرتا تھا جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا سبحان اللہ ! یہ دونوں کون ہیں؟ انہوں نے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے چلے اور ایک تنور جیسی چیز پر آئے جس کااوپر والا حصہ تنگ تھا اور نچلا حصہ کھلا اور وسیع تھا اور ہم نے شور و آواز سنی۔ ہم نے اس میں جھانکا تو ا س کے اندر برہنہ مرد اور عورتیں تھیں۔ ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی جب آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیتی تو وہ چلّانے لگتے۔جب وہ آگ کے قریب ہوتے تو اوپر کی جانب اُٹھتے اور (اس تنور سے)باہر نکلنے کے قریب ہو جاتے اور جب وہ آگ کچھ ٹھنڈی ہوتی تو یہ پھر نیچے چلے جاتے۔ فرمایا میں نے ان دونوں سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہو ں نے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اور ایک نہر پر آئے(راوی کا خیال ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ وہ نہر خون کی طرح سرخ تھی) اور اس نہر میں ایک شخص تیر رہا ہے اور نہر کے کنارے ایک دوسرا شخص تھا جس نے اپنے پاس بہت سے پتھر جمع کر رکھے تھے۔تیرنے والا تیرتا ہوا نہر سے باہر نکلنے کی کوشش میںجب اس شخص کے پاس پہنچتا جس نے پتھر جمع کیے ہوئے تھے تو یہ اپنا منہ کھول دیتا اور کنارے کھڑا شخص اس کے منہ میں پتھر مارتا اور وہ تیرتے ہو ئے اسی جگہ واپس چلا جاتا جہاں وہ پہلے تھا۔ پھر وہ تیرنے لگتا اور پھر اس کے پاس لوٹ کر آتااور جب بھی اس کے پاس آتا تو اپنا منہ پھیلا دیتااور یہ اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا میں نے ان سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اور ایک نہایت بد صورت آدمی کے پاس پہنچے، اتنا بدصورت کہ جتنے بد صورت تم نے دیکھے ہوں گے ان میں سے سب سے زیادہ بد صورت۔ اس کے پاس آگ جل رہی تھی اور وہ اسے جلا رہا تھااور اس کے چاروں طرف دوڑتا تھا۔ میں نےان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہو ں نے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اور ایسے باغ میں پہنچے جو ہرا بھرا تھااور اس میں موسم بہار کے سب پھول تھے۔اس باغ کے درمیان میں ایک بہت ہی لمبا شخص تھا اتنا لمبا کہ میرے لیے اس کا سردیکھنا بھی مشکل تھاکہ وہ آسمان سے باتیں کرتا تھا۔ اور اس شخص کے چارو ں طرف بہت سے بچے تھے کہ اتنے کبھی نہ دیکھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہو ں نے مجھے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اورایک عظیم الشان باغ تک پہنچے، میں نے اتنا عظیم الشان اور اتنا خوبصورت باغ کبھی نہیں دیکھا تھا۔مجھے انہوں نے کہا کہ اس پر چڑھیئے۔ ہم اس پر چڑھے تو ایک ایسا شہر دکھائی دیا جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ ہم اس شہر کے دروازہ پر پہنچے اور اسے کھلوایا،وہ ہمارے لیے کھولا گیا اور ہم اس میں داخل ہو ئے وہاں ہم نے ایسے لوگوں سے ملاقات کی جن کا آدھا جسم نہایت خوبصورت اور دوسرا نصف نہایت بد صورت تھا۔ دونوں ساتھیوں نے ان لو گو ں سے کہا کہ جاؤ اور اس نہر میں کود جاؤ۔ ایک نہر سامنے بہ رہی تھی اس کا پانی انتہائی سفید تھا۔وہ لوگ گئے اور اس میں کود گئے۔ اور پھر ہمارے پاس لوٹ کر آئے تو ان کا پہلا عیب ختم ہوچکا تھا اور وہ اب نہایت خوبصورت ہو گئے تھے۔
پھر (ان دونوں ساتھیوں) نے مجھے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اور یہ آپؐ کی منزل ہے۔ (نبی کریمﷺ نے) فرمایا میری نظر اوپر کی طرف اٹھی تو سفید بادل کی طرح ایک محل اوپر نظر آیا۔ (ان دونوں ساتھیوں) نے مجھے کہا کہ یہ آپؐ کی منزل ہے۔میں نے ان سے کہا اللہ تمہیں برکت دے مجھے اس میں داخل ہو نے دو۔ تو انہوں نے کہا کہ اس وقت توآپؐ نہیں جا سکتے ابھی تو آپؐ کی عمر باقی ہے جس کو آپؐ نے پورا نہیں کیا ہے جب آپؐ اپنی عمر کو پورا کر لیں گے تو آپؐ اس میں ضرور جائیں گے۔
(نبی کریمﷺنے) فرمایا کہ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آج رات میں نے عجیب وغریب چیزیں دیکھیں، یہ چیزیں کیا تھیں؟انہو ں نے مجھ سے کہا کہ ہم آپؐ کو بتائیں گے۔
(انہو ں نے بتایاکہ) پہلا شخص جس کے پاس آپؐ گئے تھے اور جس کا سر پتھر سے کچلا جارہا تھا، یہ وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا ہے پھر اسے چھوڑ دیتا ہے اور فرض نماز کو چھوڑ کر سوتا ہے۔ قیامت تک اس کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا۔
اور وہ شخص جس کے پاس آپ گئے تھے اور جس کا جبڑا گدی تک اور اس کی ناک گدی تک چیری جارہی تھی، یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے جو دنیا میں پھیل جاتا ہے۔اور قیامت تک اس کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا۔
اور وہ ننگے مرد اور عورتیں جو تنور جیسی چیز میں آپؐ نے دیکھیں تو وہ زنا کار مرد اور عورتیں تھیں۔
وہ شخص جس کے پاس آپ اس حال میں گئے کہ وہ نہر میں تیر رہا ہے اور اس کے منہ میں پتھر دیا جاتا ہے وہ سود خور ہے۔
اور وہ شخص جو کریہہ النظر ہے اور جہنم کی آگ بھڑکا رہا ہے اور اس کے چارو ں طرف چل پھر رہا ہے وہ مالک جہنم کا داروغہ تھا۔
درخت کے اوپر پہلا گھر جس میں آپؐ داخل ہو ئے تھے وہ (جنت میںعام)مومنوں کا مکان ہے۔اور یہ گھر( جو پہلے گھر سے اوپر واقع ہے) شہداء کا مکان ہے۔ میں جبرئیل ہو ں اور یہ جو میرے ساتھ ہیں میکائیل ہیں۔
اور وہ لمبا شخص جو باغ میں نظر آیا وہ ابراہیم ؑ ہیں اور جو بچے ان کے چارو ں طرف ہیں یہ وہ بچے ہیں جو (بچپن ہی میں) فطرت پر فوت ہوگئے ہیں۔ اس پر بعض (صحابہؓ) نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! مشرکین کے بچوں کا کیا ہو گا؟ فرمایاکہ مشرکین کے بچے (بھی وہیں تھے)۔
اور وہ لوگ جن کا آدھا جسم خوبصورت اور آدھا بدصورت تھا تو یہ وہ لوگ تھے جنہو ں نے اچھے عمل بھی کیے اور ساتھ برے عمل بھی کیے۔ اللہ تعا لیٰ نے ان کے گناہ معاف فرمادیے۔
(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الرؤیا حدیث نمبر: 4414و4418۔صحیح بخاری کتاب الرؤیاباب تعبیر الرؤیا بعد صلوۃ الصبح۔ صحیح بخاری باب ما قیل فی اولاد المشرکین)
(نوٹ:مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ اس رؤیا کا ترجمہ چاروں روایات کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔)
(جاری ہے)