کیا آج براہین احمدیہ کے حوالے سے لی گئی پیشگی رقم پر اعتراض کرنا بجا ہے ؟
بعض غیر احمدی علماء آج بھی براہین احمدیہ کی اشاعت کے حوالے سےلی گئی پیشگی رقم پر اعتراض کرتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ براہین احمدیہ کی اشاعت کے لیے پیشگی پیسے لیے لیکن مکمل کتاب شائع نہیں کی اور لوگوں کے پیسے کھا گئے ۔
براہین احمدیہ کی اشاعت کے لیے جن لوگوں نے پیشگی رقم بھجوائی ان میں سے جنہوں نے واپس لینے کا مطالبہ کیا ان کو بھجوا دیے گئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار اشتہارات کے ذریعہ اس امر کا اعلان فرمایا ۔آپ علیہ السلام نے ستمبر 1886ء کو ایک اشتہار بعنوان ’’اشتہار واجب الاظہار‘‘ میں فرمایا :’’بعض لوگ توقف طبع کتاب براہین سے مضطرب ہو رہے ہیں۔ان کو معلوم نہیں کہ اس زمانہ توقف میں کیا کیا کارروائیاں بطور تمہید کتاب کے لیے عمل میں آئی ہیں۔ 22 ہزار کے قریب اشتہار تقسیم کیا گیا اور صدہا ایشیا ویورپ امریکہ میں خطوط دعوت اسلام اردو ،انگریزی میں چھپوا کر اور رجسٹری کراکر بھیجے گئے جن کا تذکرہ انشاء اللہ پنجم حصہ میں آئے گا ۔
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ
بایں ہمہ اگر بعض صاحب اس توقف سے ناراض ہوں تو ہم ان کو فسخ بیع کی اجازت دیتے ہیں ۔ وہ ہم کو اپنی خاص تحریر سے اطلاع دیں تو ہم بدیں شرط کہ جس وقت ہم کو ان کی قیمت مرسلہ میسر آوے اس وقت باخذ کتاب واپس کردیں گے بلکہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ایسے صاحبوں کی ایک فہرست طیار کی جائے اور ایک ہی دفعہ سب کا فیصلہ کیا جائے ۔‘‘
(اشتہار واجب الاظہار بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 132تا133)
جب خرید وفروخت میں فریقین کا اتفاق نہ ہو سکے تو پھر فسخ بیع ہی ہوتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض لوگوں کے پریشان ہونے پر بذریعہ اشتہار خریداروں کو قیمت واپس لے لینے کا عندیہ دیا۔
اس کے بعد پھرکچھ لوگوں نے شکوے کا اظہار کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکم مئی 1893ء کو ایک اشتہار بعنوان ’’اشتہاربراہین احمدیہ اور اس کے خریدار‘‘شائع فرمایا اور اس میں صاف لکھا کہ’’اصل مدعا میرا اس تحریر سے یہ ہے کہ اب میں ان خریداروں سے تعلق رکھنا نہیں چاہتا جو سچے ارادتمند اور معتقد نہیں ہیں ۔اس لئے عام طور پر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ ایسے لوگ جو آئندہ کسی وقت جلد یا دیر سے اپنے روپیہ کو یاد کر کے اس عاجز کی نسبت کچھ شکوہ کرنے کو تیار ہیں یا ان کے دل میں بھی بد ظنی پیدا ہو سکتی ہے براہ مہربانی اپنے ارادہ سے مجھ کو بذریعہ خط مطلع فرمادیں اور میں ان کا روپیہ واپس کرنے کے لئے یہ انتظام کروں گا کہ ایسے شہر میں یا اس کے قریب اپنے دوستوں میں سے کسی کو مقرر کر دوں گا کہ تا چاروں حصے کتاب کے لے کر روپیہ ان کے حوالہ کرے اور میں ایسے صاحبوں کی بد ظنی اور بد گوئی اورد شنام دہی کو بھی محض للہ بخشتاہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے لئے قیامت میں پکڑا جائے ۔اور اگر ایسی صورت ہو کہ خریدار کتاب فوت ہو گیا ہو۔اور وارثوں کو کتاب بھی نہ ملی ہو تو چاہئے کہ وارث چار معتبر مسلمانوں کی تصدیق خط میں لکھوا کر کہ اصلی وارث وہی ہے وہ خط میری طرف بھیج دے تو بعد اطمینان وہ روپیہ بھی بھیج دیا جائے گا ‘‘
(اشتہار یکم مئی 1893ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 406تا407)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اشتہار میں صاف طور پر نہ صرف خریداروں کو بلکہ ان کے ورثا کو بھی پیسے واپس لینے کا اختیار دیا ۔اس دوسرے اشتہار کے بعد پھر ایک شخص شہزادہ والا گوہر صاحب نے اپنی کتاب میں براہین احمدیہ کی اشاعت کے حوالے سے اعتراض شائع کیا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا جواب یکم جنوری 1899ء کے اشتہار میں شائع فرمایا:’’ اگر یہ خیال ہے کہ بطورِ پیشگی خریداروں سے روپیہ لیا گیا تھا تو ایسا خیال کرنا بھی حمق اور ناواقفی کے باعث ہو گا کیونکہ اکثر براہین احمدیہ کا حصہ مفت تقسیم کیا گیا ہے اور بعض سے پانچ روپیہ اور بعض سے آٹھ آنہ تک قیمت لی گئی ہے۔ اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جن سے دس 10روپے لئے گئے ہوں۔ اور جن سے پچیس روپے لئے گئے وہ صرف چند آدمی ہیں۔ پھر باوجود اس قیمت کے جو اِن حصص براہین احمدیہ کے مقابل پر جو منطبع ہو کر خریداروں کو دیئے گئے ہیں کچھ بہت نہیں ہے بلکہ عین موزوں ہے اعتراض کرنا سراسر کمینگی اور سفاہت ہے لیکن پھر بھی ہم نے بعض جاہلوں کے ناحق کے شور و غوغا کا خیال کر کے دو مرتبہ اشتہار دے دیا کہ جو شخص براہین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتابیں ہمارے حوالے کرے اور اپنی قیمت لے لے۔ چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی اور بعض نے کتابوں کو بہت خراب کرکے بھیجا مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی۔ اور کئی دفعہ ہم لکھ چکے ہیں کہ ہم ایسے کمینہ طبعوں کی نازبرداری کرنا نہیں چاہتے اور ہر ایک وقت قیمت واپس دینے پر طیّار ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے دنیّ الطبع لوگوں سے خدا تعالیٰ نے ہم کو فراغت بخشی۔ مگر پھر بھی اب مجدّدًا ہم یہ چند سطور بطور اشتہار لکھتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی ایسا خریدار چھپا ہوا موجود ہے کہ جو غائبانہ براہین کی توقف کی شکایت رکھتا ہے تو وہ فی الفور ہماری کتابیں بھیج دے اور ہم اس کی قیمت جو کچھ اس کی تحریر سے ثابت ہو گی اس کی طرف روانہ کر دیں گے۔ ‘‘
(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد14صفحہ 421تا422)
ان تین اشتہارات کے بعدپھر ایک معترض کی طرف سے نکتہ چینی کی گئی تو آپ علیہ السلام نے اس کا جواب 15؍دسمبر 1900ء کے اشتہار میں دیا ۔ آپ علیہ السلام نے اس معترض کو مخاطب کرکے فرمایا :’’ اگر مَیں نے براہین احمدیہ کی قیمت کا روپیہ تم سے وصول کیا ہے تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے جس کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے کہ براہین احمدیہ کے وہ چاروں حصے میرے حوالے کرو اور اپنا روپیہ لے لو۔ دیکھو میں کھول کر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ اب اس کے بعد اگر تم براہین احمدیہ کی قیمت کا مطالبہ کرو اور چاروں حصے بطور ویلیو پے ایبل میرے کسی دوست کو دکھا کر میری طرف بھیج دو اور مَیں ان کی قیمت بعد لینے ان ہر چہار حصوں کے ادا نہ کروں تو میرے پر خدا کی لعنت ہو۔ اور اگر تم اعتراض سے باز نہ آؤ اور نہ کتاب کو واپس کرکے اپنی قیمت لو تو پھر تم پر خدا کی لعنت ہو۔ اسی طرح ہر ایک حق جو میرے پر ہو ثبوت دینے کے بعد مجھ سے لے لو۔ اب بتلاؤ اس سے زیادہ مَیں کیا کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی حق کا مطالبہ کرنے والا یوں نہیں اٹھتا تو مَیں لعنت کے ساتھ اس کو اٹھاتا ہوں اور مَیں پہلے اس سے براہین کی قیمت کے بارے میں تین اشتہار شائع کر چکا ہوں جن کا یہی مضمون تھا کہ مَیں قیمت واپس دینے کو طیّار ہوں۔ چاہئے کہ میری کتاب کے چاروں حصّے واپس دیں اور جن دراہم معدودہ کے لئے مر رہے ہیں وہ مجھ سے وصول کریں۔ والسّلام علٰی من اتبع الہدیٰ۔المشتھر مرزا غلام احمد قادیانی۔15دسمبر 1900ء‘‘
(اربعین نمبر 4،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 456تا458)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ کی اشاعت کے بیس سال بعد تک بذریعہ اشتہارات بار بار پیشگی رقم لینے کے حوالے سے نکتہ چینی کرنے والوں کو رقم واپس لینے کا فرماتے رہے ۔یکم جنوری 1899ء کے اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شائع فرمایا تھا کہ ’’چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی اور بعض نے کتابوں کو بہت خراب کرکے بھیجا مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی‘‘
(ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 421تا422)
اس کے بعد براہین احمدیہ حصہ پنجم کی اشاعت 1905ءمیں بھی رقم واپس لینے والوں کا ذکر فرمایا ۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :’’چار حصے اس کتاب کے جو طبع ہوچکے تھے کچھ تو مختلف قیمتوں پر فروخت کیے گئے تھے اور کچھ مفت تقسیم کیے گئے تھے۔پس جن لوگوں نے قیمتیں دیں تھیں اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی‘‘
(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 9)
اب جنہوں نے اس زمانے میں پیشگی رقم دی اور پھر دل میں کسی قسم کا انقباض محسوس کیاتو ان کو بذریعہ اشتہارات بار بار رقم واپس لینے کی طرف توجہ دلائی گئی ۔بصورت فوتگی وارثوں کو بھی اختیار دیا گیا کہ وہ بھی وہ رقم واپس لے سکتے ہیں ۔ اس کے بعد جن کے دل میں تذبذب تھا انہوں نے اپنی رقم واپس لے لی تو سوا سو سال بعد آج غیر احمدی علماء کس بنیادپر اور کس حق سے اس رقم کے حوالے سے اعتراض کرتے ہیں ؟براہین احمدیہ کی اشاعت سے بیس پچیس سال بعد تک پیشگی رقم دینے والے افراد کو بیع فسخ کرکے بار بار رقم واپس لینے کا کہا جاتا رہا اورجن لوگوں نے رقم لینی تھی انہوں نے لے لی تو آج کسی کا حق نہیں کہ وہ اس کے حوالے سے اعتراض کرے ۔
آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہی اس جواب کو درج کرتے ہیں جوآپ علیہ السلام نےیکم جنوری 1899ء کو ایک معترض شہزادہ والا گوہر کو دیا۔پیشگی رقم کے حوالے سے اعتراض کرنے والوں کے لیے وہ جواب آج بھی اسی طرح قائم ہے ۔آپ علیہ السلام فرماتےہیں کہ’’ اگر کوئی باوجود ہمارے اِن اشتہارات کے اب بھی اعتراض کرنے سے باز نہ آوے تو اُس کا حساب خدا تعالیٰ کے پاس ہے۔ اور شہزادہ صاحب یہ تو جواب دیں کہ انہوں نے کونسی کتاب ہم سے خریدی اور ہم نے اب تک وہ کتاب پوری نہ دی اور نہ قیمت واپس کی؟ یہ کس قدر ناخدا ترسی ہے کہ بعض پُرکینہ ملانوں کی زبانی بے تحقیق اس بات کو سننا اور پھر اس کو بطور اعتراض پیش کر دینا۔‘‘
(ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 422)
(مرسلہ:ابن قدسی)
٭…٭…٭