نیشنل آن لائن اجلاس۔ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجلس خدام الاحمدیہ یو ایس اے نے ایک نیشنل آن لائن اجلاس عام 17؍اکتوبر 2021ء بروز اتوار زوم کے ذریعے منعقد کیا۔ اس اجلاس کی صدارت امیر جماعت احمدیہ یو ایس اے محترم مرزا مغفور احمد صاحب نے کی۔ اس آن لائن اجتماع میں تقریباً 2000خدام، اطفال اور والدین نے شرکت کی۔
پروگرام
اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک، خدام کے تجدید عہد اور نظم سے ہوا۔ صدر مجلس خدام الاحمدیہ یو ایس اے ڈاکٹر مدیل عبداللہ صاحب نے سال 2020-2021ء کی مجلس رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں ہر شعبہ کے اعداد و شمار شامل تھے اور اہم کامیابیوں اور شعبوں کی بہتری کے لیے کچھ گزارشات کا ذکر کیا گیا۔ اس کے بعد خدام الاحمدیہ کے سال 2019-2020ء کے مجلس ایوارڈز کا اعلان کیا گیا۔ مجلس فورٹ ورتھ کو علم انعامی پیش کیا گیا۔
’’سید طالع احمد شہید: خلافت کا ایک سچا پیروکار‘‘
بعد ازاں اس پروگرام کے ایک اہم حصے کی کارروائی شروع ہوئی، جو سید طالع احمد صاحب شہید کی یاد میں تھا اور اس کا عنوان تھا: ’’سید طالع شہید: خلافت کا سچا پیروکار‘‘۔ اس حصہ میں سید طالع شہید کے بھائی سید عادل احمد صاحب بھی شامل ہوئے جنہوں نے اپنے مرحوم بھائی کے ایک مثالی خادم ہونے کی یادیں بیان کیں جبکہ پروگرام کی نظامت کے فرائض مہتمم تربیت، ابراہیم چودھری صاحب نے ادا کیے۔
اس پروگرام میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ستمبر 2021ء کے کلپس شامل کیے گئے جو سید طالع احمد شہید کی زندگی کے متعلق تھے۔ اس کے علاوہ ایم ٹی اے کی دستاویزی فلم: ’’خلافت کا ایک ہیرا‘‘ بھی پیش کی گئی۔ اس پروگرام میں سید عادل احمد صاحب نے اپنے مرحوم بھائی کے ذاتی واقعات بیان کیے جو خلافت سے ان کی مثالی محبت کو اجاگر کرتے ہیں۔ سید عادل احمد صاحب کے بیان کردہ چند واقعات درج ذیل ہیں۔
دنیاوی خواہشات پر قابو پانا
عادل احمد صاحب کہتے ہیں کہ طالع اور میں خوش قسمت تھے کہ ہمارے والدین نے ہمیں چھوٹی عمر میں ہی جماعت اور خلافت سے جوڑ دیا۔ ہمارے والدین کوشش کرتے رہےکہ ہم جماعت کی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوں۔
میرے بہن بھائی اور میں ہمیشہ یہی کہیں گے کہ طالع ہر ایک کی نظر میں پسندیدہ تھا لیکن کبھی بھی برے انداز میں نہیں بلکہ محبت بھرے انداز میں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا ہماری امی جان کے ساتھ ہمیشہ دوست جیسا رشتہ تھا اور وہ ہمیشہ ان سے کسی بھی چیز کے بارے میں بات کر سکتا تھا ۔ وہ سچا اور ایماندار تھا اور کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
اس کا حضور سے بہت گہرا تعلق تھا۔ وہ ہمیشہ حضور کو خط لکھتا اور حضور کے ساتھ فیملی ملاقات کو بھی ممکن بناتا جب بھی حضور سے اجازت مل جاتی۔
وہ کبھی بھی کسی چیز کے ظاہری رکھ رکھاؤ کی وجہ سے ترجیح نہیں دیتا تھا، خاص طور پر اپنے ایمان کو صرف نظر کرکے دکھاوا نہیں کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ ہر چیز کو دل سے قبول کرتا اور اس کو سمجھنے کے لیے سوال کرتا ،تحقیق کرتا کہ یہ معلوم کرسکے کہ یہ اسلامی تعلیم اس طرح کیوں ہے اور اس کی تائید میں کیا ثبوت ہیں۔ اس طرح اسے بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے مذہب اور جماعت کے بارے میں گہرا علم اور سمجھ حاصل ہوگئی تھی۔
خلیفۃ المسیح کی محبت
عادل احمد صاحب کہتے ہیں کہ حضور انور نے کووڈ کے دوران اسلام آباد سے کہیں کا سفر اختیار نہیں کیا، لیکن طالع کی شہادت کی خبر سننے کے بعد حضور ہم سے ملنے تشریف لائے اور ہمیں تسلی دی۔ اس کے بعد حضور انور ہماری مسلسل خبر لیتے رہےاور ہمیں ان کو خط لکھنے کی ترغیب دیتے رہے اور ہمارے خطوط کا جواب بھی دیتے رہے۔
حضور کا خاص خطبہ جمعہ ہمارے خاندان کے لیےباعث راحت اور سکون بنا۔ خطبہ بہت خوبصورت اور پیار بھرا تھا اور جس سے مجھے (سید طالع کی شہادت کے) غم کو کم کرنے میں مدد ملی۔
حضور نے ہماری دعاؤں کے ساتھ ساتھ ہمیں عملی مشورہ دیا۔ حضور نے ہمیں خاص طور پر پہلے 5-6 ہفتے جماعت کے کاموں میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ حضور نے ہمیں بتایا کہ ہمیں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی ضرورت ہے اور اس شہادت پر غم میں ڈوبے رہنے کی ضرورت نہیں ۔ حضور نے ہمیں فیملی میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا مشورہ بھی دیا۔
حضور ہر چیز کو بہت خوبصورتی سے متوازن رکھتے ہیں اور اپنے وقت کی پابندی کرتے ہیں، اور ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔
سید طالع احمد شہید کی میراث
عادل احمد صاحب کہتے ہیں کہ کبھی کبھی میں سنتا ہوں کہ ہم طالع کی طرح نہیں ہو سکتے اور ہم اس مقام کو کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے لیکن یہ کوشش نہ کرنے کا بہانہ ہے۔ اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے ہم سب کو اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ یقیناً ہم کر سکتے ہیں۔ اللہ ہمیں کچھ بھی دے سکتا ہے اگر ہم سچے دل سے چاہیں اور اس کے لیے کام کریں۔ اسی طرح طالع نے اسے حاصل کیا۔
ان کی شہادت کے بعد سے مجھےآخرت کی زندگی کے بارے میں زیادہ شعور حاصل ہوا ہے اور میں تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کب اس دنیا کو چھوڑ کر اگلی دنیا میں چلے جائیں۔ اس لیے ہم سب کو ہر وقت آخرت کی فکر کرنی چاہیے، ہر روز اپنا آخری دن سمجھیں اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کی حقیقی اور مخلصانہ کوشش کریں۔
ایک اور بات یہاں کرتا چلوں، کہ طالع کی تبدیلی راتوں رات نہیں ہوئی بلکہ وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ ہوئی۔ اس نے جماعت کی ذمہ داریوں سے کبھی بھی گھبراہٹ محسوس نہیں کی اور پیچھے نہیں ہٹا، تبلیغ کے مواقع اپنے علم کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیے۔ ہم سب کو اپنے خالق کے ساتھ اپنے تعلق کو بڑھانے سے گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
طالع کی شہادت نے واقعی مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میرے لیے یہ صرف ایک دکھ بھرا واقع ہی نہیں رہا بلکہ ایک طرح سے نعمت بھی بن گیا کیونکہ اس نے مجھے آخرت کی زندگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا اور وہاں تک پہنچنے کے لیے میں کیاتیاری کر رہا ہوں اوریہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں طالع سے ملنے کے لیے کیا تیاری کر رہا ہوں۔
پروگرام کا اختتام محترم امیر صاحب جماعت یو ایس اے کے ساتھ سوال وجواب کی نشست اور دعا پر ہوا۔