خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ نومبر 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭… حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کا راستہ چھوڑ دیا تو میں دونوں سے منزل میں نہیں مل سکوں گا

٭… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمرؓ ! شیطان بھی تجھ سے ڈرتا ہے۔ فرمایا :اللہ نے حق کو عمر ؓکی زبان اور دل پر جاری کر دیا

٭… حضرت ابوبکر ؓ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کسی آدمی پر سورج طلوع نہیں ہوا جو عمرؓ سے بہتر ہو

٭… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد عمر ؓبن خطاب جہاں ہو گا حق اُس کے ساتھ رہے گا

٭…5 مرحومین مکرم کامران احمد صاحب شہیدآف پشاور، ڈاکٹر مرزا نبیر احمد صاحب اور ان کی اہلیہ مکرمہ عائشہ عنبر سیّدآف امریکہ، مکرم چودھری نصیر احمد صاحب آف کراچی اور مکرمہ سرداراں بی بی صاحبہ آف دارالرحمت غربی ربوہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ نومبر 2021ء بمطابق 12؍نبوت1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 12؍ نومبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت حفصہؓ نے ایک دفعہ حضرت عمرؓ سے کہا کہ اللہ نے رزق کو وسیع کیا ہے اور آپؓ کو فتوحات کے علاوہ کثرت سے مال بھی عطا کیا ہےتو کیوں نہ آپؓ زیادہ نرم غذا کھایا کریں اور زیادہ نرم لباس پہنا کریں۔ حضرت عمر ؓنے فرمایاجہاں تک مجھ میں طاقت ہو گی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کی زندگیوں کی سختی میں شامل رہوں گا تا کہ ان دونوں کی راحت کی زندگی میں بھی شریک ہو جاؤں۔ حضرت عکرمہ بن خالد ؓبیان کرتے ہیں کہ کچھ اور لوگوں نے بھی حضرت عمر ؓسے کہاکہ اگر آپؓ زیادہ عمدہ غذا کھائیں تو حق کے لیے کام کرنے پرآپؓ زیادہ قوی ہو جائیں گے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کا راستہ چھوڑ دیا تو میں ان دونوں سے منزل میں نہیں مل سکوں گا۔

حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ خوف و خطر میں سادگی کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ ایک سے زیادہ سالن استعمال نہ کیا جائے۔ایک دفعہ حضرت عمر ؓکے سامنے سِرکہ اور نمک رکھا گیا تو آپؓ نے کہا یہ دو سالن ہیں۔حضرت عمر ؓکا یہ فعل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں انتہا کا پہلوہے۔حضرت مصلح موعود ؓ نے بھی تحریک جدید کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ہر احمدی یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صرف ایک سالن استعمال کرے گاتاکہ احباب جماعت اپنے خرچے کم کرکے چندے دے سکیں۔

حضرت مصلح موعود ؓنے عبد الرحمٰن بننے کے لیے دو شرائط بیان فرمائیں۔ اوّل اپنے مال میں اسراف نہ کرے۔دوم اُس کا کھانا قوت طاقت اور بدن کو قائم رکھنے کے لیے اور پہننا بدن کو ڈھانکنے اور محفوظ رکھنے کے لیے ہو۔ حضرت عمر ؓایک دفعہ ملک شام گئےتو وہاں بعض صحابہ کو ریشمی کپڑے پہنے دیکھ کر بہت بُرا منایا۔اس پر ایک صحابی نے اُس کے نیچے موٹی اون کا سخت کرتہ پہنا ہوا دکھا کر بتایا کہ ہم نےاپنے لباسوں کو ملکی سیاست کے طور پر بدلا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ شان و شوکت سے رہنے والے اُمراء کو دیکھنے کے عادی ہیں ۔ تُستر کی فتح کے وقت فارسی سپہ سالار ہرمزان کو جب حضرت عمر ؓکے سامنے ریشمی لباس میں بھیجا گیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ میں آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں اور اللہ سے مدد مانگتاہوں۔ جب تک ہرمزان کا زرق برق لباس اور زیورات نہ اُتارے گئے حضرت عمرؓ نے اُس سے بات نہ کی۔

حضرت عمرؓ کی عاجزی اور تقویٰ کے معیار کایہ عالم تھاکہ مختلف وفود اطاعت کرتے ہوئے آئے تو دل میں بڑائی کا احساس توڑنے کے لیے پانی کا مشکیزہ اپنے کندھے پر اُٹھا کر لے گئے۔ مکہ سے واپسی پر ضجنان کی گھاٹیوں میں رُکے تو فرمایاکہ مجھے اس جگہ پر وہ وقت بھی یاد ہے جب اپنے والد کے اونٹوں پر ایک مرتبہ لکڑیاں لے کر جاتا تھا اور دوسری مرتبہ گھاس جبکہ آج میرا یہ حال ہے کہ میں ایک وسیع و عریض علاقے کا حاکم ہوں۔ ایک دفعہ حج سے آتے ہوئے ایک درخت کے پاس کھڑے ہو گئے۔ فرمایا کہ ایک وقت تھا جب میں اپنےایک اونٹ کو چراتا تھا اور اس درخت کے نیچےلیٹنے پر میرے والد نے مجھے بہت ڈانٹ ڈپٹ کی تھی اور اب یہ وقت ہے کہ کئی لاکھ آدمی میرے اشارے پر جان دینے کو تیار ہیں۔حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے یہ درجہ دیا۔ اس قسم کےواقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سےصحابہ نے وہ درجہ اور علم پایا جو کسی کو حاصل نہ تھا۔

جبیر بن نفیرؓسے روایت ہے کہ ایک جماعت نے حضرت عمرؓ کو مخاطب کرکے کہا اللہ کی قسم! ہم نے کسی شخص کو آپؓ سے زیادہ انصاف کرنے والا ، حق گو اور منافقین پر سختی کرنے والا نہیں دیکھا ۔ عوف بن مالکؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عمرؓ سے بہتر حضرت ابوبکر ؓ کودیکھا ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ عوفؓ نے سچ بولا ۔ اللہ کی قسم! ابوبکرؓ مُشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہیں اور میں اپنے گھر والوں کے اونٹوں سے بھی زیادہ بھٹکا ہوا ہوں۔

حضرت ابو ہریرہ ؓکی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمرؓ سمیت ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ آپؐ اُٹھ کر چلے گئے اور آپؐ کی واپسی میں دیر ہوگئی۔مجھے فکر ہوئی تو آپؐ کو ڈھونڈتے ہوئے ایک باغ میں پایا۔ آپؐ نے مجھے اپنے جوتے دیے اور فرمایا: جو کوئی اس باغ کے پرے تمہیں ملے اور دل میں یقین رکھتے ہوئے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں تو اُسے جنت کی بشارت دےدو۔سب سے پہلے مجھے حضرت عمر ؓملے انہوں نے یہ سُنتے ہی مجھے واپس بھیجا اور ساتھ ہی خود بھی آپہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ! ایسا نہ کیجیےکیونکہ لوگ صرف اسی پر بھروسہ کرنے لگ جائیں گے ۔ بہتر یہی ہے کہ وہ نیکیوں کے احکامات پر عمل کریں تاکہ حقیقی مومن بن سکیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کرنے کی اجازت فرمائی۔

حضرت سعد بن وقاصؓ روایت کرتے ہیں کہ قریش کی کچھ عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی آواز میں باتیں کررہی تھیں۔ حضرت عمرؓ کے آنے پر ڈر کے مارے جلدی سے پردے میں چلی گئیں ۔ حضرت عائشہ ؓبیان فرماتی ہیں کہ حبشہ کی ایک عورت ناچ کر کرتب دکھارہی تھی ۔ میں بھی اپنی ٹھوڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر رکھ کر دیکھنے لگی ۔ حضرت عمرؓ آئے تو لوگ بھاگ گئے۔حضرت بریدہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک سیاہ فام لونڈی منت ماننے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے دف بجانے لگی۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت علی ؓ اور حضرت عثمانؓ آئے پھر بھی دف بجاتی رہی لیکن حضرت عمرؓ کے آنے پر دف بجانابند کردیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرؓ ! شیطان بھی تجھ سے ڈرتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے حق کو عمر ؓکی زبان اور دل پر جاری کر دیا۔حضرت ابن عباسؓ اپنے بھائی فضل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمربن خطابؓ میرے ساتھ ہوتا ہے جہاں میں پسند کرتا ہوں اور میں اُس کے ساتھ ہوتا ہوں جہاں وہ پسند کرتا ہے اور میرے بعد عمربن خطابؓ جہاں ہو گا حق اُس کے ساتھ رہے گا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ معاہدہ کے باوجود مکہ والوں کی غداری پر اُن سے مقابلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں تو روز دعائیں کرتا تھا کہ ہم آپؐ کی حفاظت میں کفار سے لڑیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قول صادق عمر ؓکی زبان سے ہی زیادہ جاری ہوتا ہے۔

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں بیٹھے ہوتےتو کوئی بھی اپنی نگاہ آپؓ کی طرف نہیں اٹھاتا تھا لیکن حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ آپؐ کو دیکھتے اور مسکراتے اور آپؐ ان دونوں کو دیکھتے اور مسکراتے۔عبداللہ بن حنطبؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ کو دیکھ کر فرمایا یہ دونوں کان اور آنکھ ہیں ۔حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓنے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی آدمی پر سورج طلوع نہیں ہوا جو عمرؓ سے بہتر ہو۔حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد ابوبکرؓ اور عمر ؓکی پیروی کرنا۔

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کے آسمان والوں میں سے دو وزیر اور زمین والوں میں سے بھی دو وزیر ہوتے ہیں۔ آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر جبرئیل اور میکائیل اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکرؓ اور عمر ؓہیں۔ابو جحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ سے سنا کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین ابوبکرؓ ہیں پھر عمرؓ ہیں۔

یہ ذکر ابھی چل رہا ہے آئندہ بھی انشاء اللہ بیان ہو گا۔

حضور انور نے آخر میں مکرم کامران احمد صاحب آف پشاور کی شہادت، مکرم ڈاکٹر مرزا نبیر احمد اور ان کی اہلیہ مکرمہ عائشہ عنبر سیّد کی امریکہ میں ایک حادثے میں وفات اورمکرم چودھری نصیر احمد صاحب کراچی اور مکرمہ سرداراں بی بی صاحبہ دارالرحمت غربی ربوہ کی وفات پر ان سب کا ذکر خیرکرتےہوئے ان کی جماعتی خدمات کا بھی تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان کے نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button