سناتن دھرم
تعارف
یکم مارچ 1903ء کو پنڈت رام بھجدت صاحب نے ’نسیم دعوت‘ میں مسئلہ نیوگ کے متعلق پڑھ کر اپنی آخری تقریر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرکے کہا ’’اگر وہ مجھ سے اس بارے میں گفتگو کرتے تو جو کچھ نیوگ کے فائدے ہیں میں ان کے پاس بیان کرتا‘‘۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نیوگ کے بارے میں ایک ذمہ دار آریہ سماج لیڈر کی یہ رائے سن کر 8؍مارچ 1903ء کو یہ مختصر رسالہ سناتن دھرم شائع فرمایا۔
مضامین کا خلاصہ
فرمایا: میں نے جس قدر انسانی غیرت اور انسانی پاک کانشنس کا تقاضا ہے وہ نیک نیتی سے اپنی کتاب نسیم دعوت میں بیان کیا ہے۔ میری اس سے غرض محض ہمدردی کی راہ سے ایک نصیحت تھی۔ اور میں اس بات میں اکیلا نہیں، ہزار ہا شریف ہندو اور شریف خالصہ مذہب کے پابندلوگ اس بات کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے کہ ایک خاوند والی اور خاندان والی عورت محض اولاد کے لالچ سے دوسرے سے منہ کالا کرائے اور خاوند زندہ موجود ہو۔
پھر فرمایا…رہے نیوگ کے فائدے اور غالباً پنڈت صاحب کا فوائد سے مطلب نیوگ کی اولاد ہوگی کہ مفت میں گیارہ لڑکے پیدا ہوجاتے ہیں لیکن شریف آدمی کے لئے ایسی اولاد ایک داغ ہے نہ جائے فخر۔ کاش ایسی عورت ایسی اولاد پیدا کرنے سے پہلے ہی مر جائے تو بہتر ہے۔ یہ مسئلہ انسانی حیا کے خلاف ہے اس لئےمناسب ہے کہ آریہ سماج کے مسائل میں سے کاٹ دیا جائے۔ نیوگ کا اصول ان کے مذہب کے لئے ایک روگ ہے۔ فرمایا ’’مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ہندو مذہب میں متبنیٰ کی رسم نیوگ کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی ہے کہ شریف مردوں اور شریف عورتوں نے اس ناپاک رسم کی جگہ متبنیٰ کی رسم جاری کردی۔ اگرچہ متبنیٰ کرنا بھی ایک بناوٹ ہے مگر اس بے حیائی اور ناپاک رسم سے تو ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔ ‘‘
آریوں کا اعتراض کہ مسلمان بھی تو متعہ کرتے ہیں
جب آریوں سے کہا جائےکہ اس رسم (نیوگ) کو روک دیں تو کہتے ہیں کہ کیا مسلمان متعہ نہیں کرتے یعنی منکوحہ عورتوں کو طلاق نہیں دیتے۔ بہتیرا سمجھایا گیاکہ اے حضرات کجا طلاق دینا جو ضرورتوں کے وقت تمام دنیا میں جاری ہے اور کجا ایک زندہ مرد کا اپنی بیوی کو کسی دوسرے سے ہمبستر کروادینا۔ مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے۔ اگر کوئی انسان طلاق کا وقت مقرر کردے کہ اتنی مدت کے بعد طلاق دے دوں گا جس کا نام بعض شیعہ کے نزدیک متعہ ہے اور ایسا نکاح جس کا وقت طلاق ٹھہرایاجائے، ہمارے مذہب میں منع ہے۔ کسی عقلمند کے لئے جائز نہیں کہ اپنی غلطی کی پردہ پوشی کے لئے کسی دوسرے کی غلطی کا حوالہ دے۔
جماعت کے لیے ایک نصیحت
فرمایا خوب یاد رہے کہ ہماری جماعت جو تقویٰ کے لئے قائم کی گئی ہے وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ وید کی تعلیم ہے۔ میری رائے یہی ہے کہ یہ وید کی ہرگز تعلیم نہیں، میں خوب جانتا ہوں کہ کبھی ایک شرتی یا آیت کے بیس معنی ہو سکتے ہیں اور ایسے موقع پر ایک گندہ آدمی گندے معنی کرلیتا ہے اور بعض لوگ اپنی نفسانی اغراض کے لئے قوم میں بد چلنی پھیلانی چاہتےہیں۔
دو قابل اعتراض باتیں (عقائد)
اول یہ کہ ارواح اور اجسام یعنی جیو اور پرمانو خدا سے نکلے ہوئے نہیں یعنی خدا کی مخلوق نہیں بلکہ خدا کی طرح اپنے وجود کے آپ خدا ہیں اور انادی ہیں۔
دوسرا یہ قابل شرم طریق جس کا نام نیوگ ہے۔ سو یہ اعتراض وید پر نہیں بلکہ پنڈت دیانند پر ہے جس نے ایسا مذہب شائع کیا۔
خدا کے کلام میں استعارہ اور مجاز کی مثال
قرآن شریف میں لکھا ہے
مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی
پس کوئی معترض یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ دیکھو مسلمانوں کے مذہب میں لکھا ہے کہ اندھوں کو نجات نہیں اور اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا۔ مگر جو غور سے پڑھے گا معلوم کر لے گا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس کو اس جہان میں خدا کا درشن نہیں اس کو اگلے جہان میں بھی درشن نہیں ہوگا۔
خدا کے کلام کو سمجھنے کی بنیادی شرط
فرمایا ’’ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہی سچی بات ہے کہ خدا کا کلام سمجھنے کے لئے اول دل کو ہر ایک نفسانی جوش سے پاک بنانا چاہیئے تب خدا کی طرف سے دل پر روشنی اترے گی جیساکہ فرمایا
لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ…
میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوگیا اور اگر لوگ چاہیں تو گواہی دے سکتے ہیں کہ میں دنیا داری کے کاموں میں نہیں پڑا اور دینی شغل میں ہمیشہ میری دلچسپی رہی۔ میں نے اس کلام کو جس کا نام قرآن ہے نہایت درجہ تک پاک اور روحانی حکمت سے بھرا ہوا پایا۔ نہ وہ کسی انسان کو خدا بناتا اور نہ روحوں اور جسموں کو اس کی پیدائش سے باہر رکھ کر اس کی مذمت اور نندیا کرتا ہے اور وہ برکت جس کے لئے مذہب قبول کیا جاتا ہے اس کو یہ کلام آخر انسان کے دل پر وارد کردیتا ہے اور خدا کے فضل کا اس کو مالک بنا دیتا ہے۔ ‘‘
سناتن دھرم والوں کی خوبیوں کا بیان
سناتن دھرم والے آریہ سماجیوں سے ہزار ہا درجہ بہتر ہیں۔
1۔ اپنے پرمیشر کی اس طرح بے حرمتی نہیں کرتے کہ ہم انادی اور غیر مخلوق ہونے کی وجہ سے اس کے برابر ہیں۔
2۔ نیوگ کے قابل شرم مسئلہ کو نہیں مانتے۔
3۔ اسلام پر بے ہودہ اعتراض نہیں کرتے۔
4۔ وہ ملنسار ہیں اور ان میں خطرناک شوخی اور تیزی نہیں ہے۔
5۔ اصل مذہب سناتن دھرم کایہ نہیں ہے کہ اوتار کی پوجا کرنی چاہیئے ہاں ان کو بہت مقدس جانتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے اور ان سے محبت رکھتے ہیں۔
ان کے مقابل پر آریہ صاحبوں کی شوخی حد سے بڑھ گئی ہے۔ دین صرف شوخیوں اور زبان کی چالاکیوں سے حاصل نہیں ہوتا۔ دین تو ایک موت چاہتاہے جس کے بعد زندہ روح دی جاتی ہے۔
ہر مذہب کو پرکھنے کے تین طریق
1۔ یہ کہ اس نے خدا کے بارے میں کیا لکھا ہے۔
2۔ سچا مذہب جیساکہ خدا سے پیوند کرتا ہے ایسا ہی قوم میں پاکیزگی پھیلاتا ہے۔
3۔ تیسرا طریق سچے مذہب کو پرکھنے کا یہ ہے کہ وہ کہاں تک دنیا کے گند سے چھڑاتا ہے اور خدا تک پہنچاتا ہے اور اس پاک ذات کو دکھاتا ہے۔
٭…٭…٭