احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
مسجداقصیٰ میں پہلی بارلاؤڈاسپیکرکی تنصیب
امام مہدی کے زمانے کے ساتھ نت نئی اور حیرت انگیزایجادات کوایک خاص مناسبت اور تعلق ہے۔ کیونکہ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب اسلام کی اشاعت اور تبلیغ ساری دنیاکے کناروں تک پہنچانے کے سامان اس خدائے قادرمطلق نے پہلے سے مقررکررکھے تھے اسی لیے اس زمانے میں سائنسی ایجادات اتنی تیزی اور کثرت سے ہوئیں کہ انسانی عقل
وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا(الزلزال: 4)
کے مصداق حیرت زدہ ہے کہ دنیاکیاسے کیاہوجائے گی!
انہی ایجادات میں سے ایک لاؤڈاسپیکرکی ایجاد تھی۔ ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانہ میں 2؍ دسمبر 1937ء کو حضورؓ نے مسجد اقصیٰ میں لاؤڈ سپیکر لگانے کا ارشاد فرمایا۔ اس سے صوبہ سرحد کے محترم فقیر محمد خان صاحب نے اپنے آقا کے منشاء مبارک پر اپنے خرچ پر ایک لاؤڈ سپیکر کا انتظام فرمایا اور حضورؓ نے 7؍ جنوری 1938ء کو پہلی مرتبہ اس آلہ کے ذریعہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔‘‘
(بحوالہ مرکز احمدیت قادیان ا ز برہان محمد ظفر صاحب صفحہ 57)
نوٹ: تاریخ احمدیت جلد7صفحہ 648پر بھی ایسا ہی نوٹ ہے لیکن وہاں تحریک کی تاریخ 2 کے بجائے 3؍ دسمبر لکھی ہے۔
جب مسجدمیں پہلی بار لاؤڈسپیکرلگا تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس پرپہلی بار درس دیتے ہوئے فرمایا:
’’اس خدا کا بے انتہاء شکر ہے جس نے ہر زمانہ کے مطابق اپنے بندوں کیلئے سامان بہم پہنچائے ہیں۔ کبھی وہ زمانہ تھا کہ لوگوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چل کر جانا بہت مشکل ہوا کرتا تھا اور اس وجہ سے بہت بڑے اجتماع ہونے ناممکن تھے۔ لیکن آج ریلوں، موٹر وں، لاریوں، بسوں، ہوائی جہازوں اور عام بحری جہازوں کی ایجاد اور افراط کی وجہ سے ساری دنیا کے لوگ بسہولت کثیر تعداد میں قلیل عرصہ میں ایک مقام پر جمع ہو سکتے ہیں اور اس وجہ سے موجودہ زمانہ میں کسی انسان کی یہ طاقت نہیں کہ وہ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے عظیم الشان اجتماعات میں تقریر کرکے اپنی آواز تمام لوگوں تک پہنچا سکے۔
پس خدا نے جہاں اجتماع کے ذرائع بہم پہنچائے وہاں لوگوں تک آواز پہنچانے کا ذریعہ بھی اس نے ایجاد کروا دیا۔ اور ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ شکر ہے اس پروردگار کا جس نے اس چھوٹی سی بستی میں جس کا چند سال پہلے تک کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا اپنے مامور کو مبعوث فرما کر اپنے وعدوں کےمطابق اس کو ہر قسم کی سہولتوں سے متمتع فرمایا یہاں تک کہ ہم اب اپنی اس مسجد میں بھی وہ آلات دیکھتے ہیں جو لاہور میں بھی لوگوں کو عام طور پر میسر نہیں ہیں۔ آج اس آلہ کی وجہ سے اگر اس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھا یا جائے تو ایک ہی وقت میں لاکھوں آدمیوں تک بسہولت آواز پہنچائی جا سکتی ہے اور ابھی تو ابتداء ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس آلہ کی ترقی کہاں تک ہو گی۔ بالکل ممکن ہے اس کو زیادہ وسعت دے کر ایسے ذرائع سے جو آج ہمارے علم میں بھی نہیں میلوں میل یا سینکڑوں میل تک آوازیں پہنچائی جا سکیں اور وائر لیس کے ذریعے تو پہلے ہی ساری دنیا میں خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔ پس اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہو سکے گا۔ ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی علمی دقتیں بھی ہمارے راستہ میں حائل ہیں، لیکن اگر یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی تمام دقتیں دور ہو جائیں گی۔ تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جا رہا ہو اور جاوا کے لوگ، اور امریکہ کے لوگ، اور انگلستان کے لوگ، اور فرانس کے لوگ، اور جرمن کے لوگ، اور آسٹریا کے لوگ، اور ہنگری کے لوگ، اور عرب کے لوگ، اور مصر کے لوگ، اور ایران کے لوگ، اور اسی طرح اور تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائر لیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔ یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا۔ اور کتنے ہی عالی شان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کر کے بھی آج ہمارے دل مسر ت و انبساط سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد میں آج اس آلہ کے لگائے جانے کی تقریب کے موقع پر سب سے بہتر مضمون یہی سمجھتا ہوں کہ میں شرک کے متعلق کچھ بیان کروں کیونکہ یہ آلہ بھی شرک کے موجبات میں سے بعض کو توڑنے کا با عث ہے۔‘‘
(خطباتِ محمود جلد 19صفحہ 1تا 4 خطبہ فرمودہ 7؍ جنوری 1938ء)
خداکے یہ بندے خداکے بلائے بولتے ہیں۔ جب یہ بولتے ہیں تو ’خدا بولتا سا لگتاہے‘
گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ ازحلقوم عبداللہ بود
خداکے اس ایک بندے نے جوکچھ کہاتھا خدانے وہ دن بھی دکھادئے کہ جب اسی خلیفہ کاایک بیٹا، قرآن وحدیث کادرس ایک جگہ پربیٹھ کردینے لگا تو ساری دنیاکے لوگ اپنی اپنی جگہوں پربیٹھ کراس درس کوسننے لگے۔ ایم ٹی اے کی بدولت اب خداکے فرستادے مسیح موعودکالایاہواپیغام توحید اور محمدمصطفیٰﷺ کی رسالت اورقرآن و حدیث کی باتیں اس مسیح کے چوتھے خلیفہ حضرت مرزاطاہراحمدصاحب کی خلافت میں دنیابھرمیں ہواؤں کے دوش پرزمین کے کناروں تک پہنچنے لگیں۔ اور آج حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مبارک عہدمیں عربی، اردو، انگریزی، جرمن، بنگلہ، ترکی اور دیگر زبانوں میں دنیابھرکے ملکوں اور گھر گھرمیں خدائے قادروذوالجلال کی وحدانیت کاپیغام پہنچ رہاہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک
شاہی کیمپ اورڈپٹی شنکرداس کامکان
مسجداقصیٰ کوجانے کے لیے اب ہم جب حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کے مکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو ہمارے بائیں ہاتھ مسجداقصیٰ کی دوسری تیسری منزل پرجانے کے لیے لفٹ لگی ہوئی نظرآتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بڑے بڑے شیشوں والے دروازے اور شیشوں کی ہی دیواروں والی مسجداقصیٰ کی نئی توسیع کا گراؤنڈفلورنظرآتاہے۔ اوراسی کے اوپردومنزلہ عمارت اسی مسجدکی توسیع کاایک خوبصورت حصہ بناہوانظرآتاہے۔ اس کی درمیانی منزل میں خاص طورپرپہلی صف میں کھڑے ہو کر نمازپڑھیں تو مسجدکی اور قادیان کی تھوڑی سی تاریخ جاننے والے پرایک عجیب روحانی جذب کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔ بڑے بڑے شیشوں کی غربی دیوارسے مسجداقصیٰ کاصحن، منارۃ المسیح، حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کامزار اور مسجداقصیٰ کاقدیمی حصہ یہ سب نظارے مسجدکے اس نئے توسیع شدہ حصہ میں کھڑے ہونے والے پرایک وجدطاری کردیتے ہیں۔ کیونکہ ابھی چندسال قبل تک عین اس جگہ ایک تین منزلہ اونچی پرانی حویلی ہواکرتی تھی۔ جوڈپٹی شنکرداس کی حویلی کہلاتی تھی۔ وہی ڈپٹی شنکرداس کہ جس نے اپنے عہدے اور اثرورسوخ کے بل بوتے پربڑی دھونس کے ساتھ عین حضرت اقدسؑ کے گھروں کے سامنے ناجائزقابض بنتے ہوئے مسجداقصیٰ کی طرف جانے والی اس گلی اورراستہ کے سامنے اس جگہ پرتعمیرشروع کی اورتین منزلہ بلندوبالاحویلی نمامکان کھڑا کر لیا۔ اور پھرمسجدکی طر ف جانے والے معصوم ومظلوم احمدیوں نے یہ تکلیف دہ نظارے بھی دیکھے کہ جب وہ نمازکے لیے مسجدکوجاتے تویہ ڈپٹی اپنے گھرکے دروازے کے سامنے بیٹھ کران آنے جانے والوں کوگالیاں دیتا۔ طرح طرح سے دکھ اور ایذادہی کے طریق اختیارکرتا۔ اس کے دکھوں کے ستائے ہوئے اوراس کی گندی اور زخمی کردینے والی زبان کے تیروں سے چھلنی دلوں کے ساتھ جب اپنے آقا کے حضورشکایت لے کرپہنچتے تو وہ بڑے عزم اور جلال کے ساتھ ان کوحوصلہ دیتے ہوئے فرماتے کہ صبرکریں شاہی کیمپ کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرسکتا۔ اورپھردیکھنے والوں نےدیکھااور سننے والوں نے سنااور پڑھنے والوں نے پڑھا کہ اس کاہنستابستا گھراجڑنے لگا۔ اس کی جوان بیٹی طاعون کاشکارہوکرلقمۂ اجل بنی اور ساراگھرخالی ہونے کے بعد خود وہ نیم دیوانہ ساہوکرچاروناچاراس گھرکوچھوڑکرنہ جانے کہاں چلاگیااورآج اسی گھرکی جگہ دن میں پانچ وقت یہ صدابلندہوتی ہے کہ اللہ اکبراللہ اکبر، اللہ سب سے بڑاہے۔ اللہ سب سے بڑاہے۔ اوروہ شخص جوکل بڑی رعونت سے اپنے گھر کے سامنے سے مسجدکی طرف جانے والے کسی نمازی کوگزرنے بھی نہیں دیتاتھا آج خداکی تقدیرنے اس کے نام ونشان کومٹاتے ہوئے سارے گھرکومسجدبنادیا کہ اب جوبھی چاہے دن اور رات میں جب چاہے اس جگہ آتاہے اوراللہ اکبر! اللہ ہی سب سے بڑاہے !! کہہ کرخداکے حضورکھڑاہوجاتاہے اور جب یہ سارے مناظرایک ایک کرکے دل کی آنکھوں کے سامنے گزرتے ہیں تو کبھی بے اختیارہوکر ایک دم سجدے میں گرجانے کودل چاہتا ہے۔ شکرکاسجدہ، اس کی قدرتوں اور عظمتوں کوسلام کاسجدہ! اس اقراروتسلیم کاسجدہ کہ
تجھے سب زور و قدرت ہے خدایا
اس اقرارواظہارکاسجدہ کہ اے بارِ خدایاتو
مَالِكَ الْمُلْكِ
ہے تُوبادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ
تُوجس کوچاہے جاہ وحشمت عطاکرتاہے اور جس سے چاہے سب کچھ ہی چھین لیتاہے۔
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ
عزت وذلت یہ تیرے حکم پرموقوف ہے ! اورتوایساقادرہے کہ جب چاہے نیست سے ہست کردے اور ہست کونیست ونابودکردے۔
(باقی آئندہ)