خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍ دسمبر 2021ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…حضرت ابوبکرصدیقؓ کانام جاہلیت میں عبدالکعبہ تھاجسے حضورﷺ نے تبدیل کرکے عبداللہ رکھ دیا تھا
٭…آپؓ کی کنیت ابوبکر اور لقب عتیق اور صدیق تھے۔ آپؓ کی ولادت عام الفیل کےدو سال چھ ماہ بعد 573عیسوی میں ہوئی
٭…آپؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تیم بن مرة سےتھا۔آپؓ کے والد کا نام عثمان بن عامر تھا اور کنیت ابو قحافہ تھی
٭… حضرت ابوبکرؓ کا شجرہ نسب ساتویں پشت میں مرة پر جاکر رسول اللہﷺ سےملتا ہے
٭… حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ سے تعلقات میں حضرت ابوبکرؓ نمبر ایک پر تھے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍ دسمبر 2021ء بمطابق 03؍فتح1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 03؍ دسمبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروزعالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج حضرت ابوبکرصدیقؓ کاذکر شروع ہوگا۔ آپؓ کانام جاہلیت میں عبدالکعبہ تھاجسے حضورﷺ نے تبدیل کرکے عبداللہ رکھ دیا تھا۔ آپؓ کی کنیت ابوبکر اور لقب عتیق اور صدیق تھے۔ آپؓ کی ولادت عام الفیل کےدو سال چھ ماہ بعد 573عیسوی میں ہوئی۔آپؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تیم بن مرة سےتھا۔آپؓ کے والد کا نام عثمان بن عامر تھا اور کنیت ابو قحافہ تھی۔ والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر بن عامر تھا اور کنیت ام الخیر تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کا شجرہ نسب ساتویں پشت میں مرة پر جاکر رسول اللہﷺ سےملتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے والدین آپؓ کی وفات کےبعد تک زندہ رہے اور انہوں نے اپنے بیٹے یعنی حضرت ابوبکرؓ کاورثہ پایا۔ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد پہلے آپؓ کی والدہ کی وفات ہوئی اور پھرآپؓ کے والد نے 14 ہجری میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی۔ آپؓ کے والد نےفتح مکّہ کے موقعے پر اسلام قبول کیا تھا جبکہ والدہ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھیں۔ جب رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہ کی تعداد محض اڑتیس تھی اور ابھی دارِارقم میں چھپ کر عبادت کیاکرتے تھے تب حضرت ابوبکرؓ، حضورﷺ کو درخواست کرکے مسجدِ حرام میں لےگئے اور وہاں لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی چنانچہ وہاں موجود لوگ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں بری طرح مارا پیٹا۔ حضرت ابوبکرؓ کو پیروں تلے اتنا روندا گیا کہ آپؓ کی موت میں کوئی شک باقی نہ رہا۔ جب آپؓ کو کچھ ہوش آئی تو سب سے پہلے رسول اللہﷺ کا حال دریافت کیا۔ پھر اپنی والدہ کو امِّ جمیل جو حضرت عمربن خطاب کی بہن تھیں ان کے پاس بھجوایا، امِّ جمیل حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئیں اور آپؓ کی والدہ کے سامنے حضورﷺ کےمتعلق بات کرنے سے گھبرائیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے یقین دہانی کرائی کہ ان کی والدہ اس راز کو ظاہر نہیں کریں گی۔ اس پر امِّ جمیل نے بتایا کہ حضورﷺ دارِارقم میں خیریت سے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! مَیں نہ کھانا چکھوں گا اور نہ پانی پیوں گا یہاں تک کہ پہلے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔حضرت ابوبکرؓ اسی حالت میں سہارا لے کر لڑکھڑاتے ہوئے حضورِاکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت آپؓ پر شدید رقت طاری تھی۔ حضورﷺ نے آپؓ کی حالت دیکھی تو بوسہ دینے کے لیے حضرت ابوبکرؓ پر جھکے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی والدہ کے حسنِ سلوک کا ذکر کیا اور عرض کی کہ ممکن ہےکہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے طفیل انہیں آگ سے بچالے۔ حضورﷺ نے دعا کی اور حضرت ابوبکرؓ کی والدہ کو قبولِ اسلام کی دعوت دی چنانچہ انہوں نےاسلام قبول کرلیا۔
حضرت ابوبکرؓ کے لقب ’عتیق‘ کےمتعلق حضرت عائشہؓ کا یہ قول ملتا ہے کہ ایک موقعے پر حضرت ابوبکرؓ حضور ﷺ کےپاس آئے تو آپؐ نے فرمایا اَنْتَ عَتِیْقُ اللّٰہِ مِنَ النَّارِ یعنی تم اللہ کی طرف سے آگ سے آزاد کردہ ہو۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ عتیق آپؓ کانام تھا تاہم یہ درست نہیں۔ آپؓ کے دوسرےلقب ’صدیق‘ کی نسبت یہ ذکر ملتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں یہ لقب آپؓ کو دیا گیا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضورﷺ کی خبروں کی فی الفور تصدیق کی وجہ سے آپؓ کا نام صدیق پڑگیا تھا چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رات کے وقت حضورﷺکو بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا تو صبح لوگ اس بارے میں باتیں کرنے لگے۔ جب حضرت ابوبکرصدیق ؓکو اس بات کا علم ہوا کہ حضورﷺ نے یہ فرمایا ہے تو آپؓ نے کہا کہ یقیناً یہی سچ ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ اس واقعے کو بیان کرکے فرماتے ہیں کہ جب ابوبکرنے آنحضرتﷺ کی تصدیق کی تو لوگوں نے کہا کیا آپ اس خلافِ عقل بات کو بھی مان لیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا مَیں تو اس کی یہ بات بھی مان لیتا ہوں کہ صبح شام اس پر آسمان سے کلام اترتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے جوحضرت ابوبکرؓ کو صدیق کا خطاب دیا تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپؓ میں کیا کیا کمالات تھے۔حضرت ابوبکرؓ نے جو صدق دکھایا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔
عتیق اور صدیق کے علاوہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دوسرے القابات میں ’خلیفة الرسول اللہ‘، ’اَوَّاہٌ‘ یعنی بہت بُردبار اور نرم دل، ’امیرالشاکرین‘ یعنی شکر کرنے والوں کا سردار، ’ثانی اثنین‘ یہ وہ خطاب ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو پکارا جیسا کہ ہجرتِ مدینہ کے تناظر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تکلیف دہ وقت اور مشکل حالت میں اپنے نبیﷺ کی آپ(حضرت ابوبکرؓ) کےذریعے تسلی فرمائی اور الصدیق کے نام اور نبی ثقلینؐ کے قرب سے مخصوص فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثانی اثنین کی خلعتِ فاخرہ سے فیض یاب فرمایا…کیا تم کسی ایسے شخص کو جانتے ہوجس کی قرآن میں اس تعریف جیسی تعریف کی گئی ہو اور جس کے مخفی حالات سے شبہات کےہجوم کو دُور کردیا گیا ہو۔
آپؓ کا ایک لقب ’صاحب الرسول‘ بھی ہے۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کے ارشاد پر سورة توبہ پڑھی گئی جب یہ آیت اذ یقول لصاحبہ آئی تو آپؓ رو پڑے اور فرمایا اللہ کی قسم! مَیں ہی آپؐ کا ساتھی تھا۔
آپؓ کا ایک لقب ’آدمِ ثانی‘ ہے۔ یہ لقب آپؓ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے عطا فرمایا ہے۔ اپنے ایک مکتوب میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ابوبکرؓ اسلام کے آدمِ ثانی ہیں۔ ’سِرّالخلافہ‘ میں فرمایا: بخدا! آپؓ اسلام کےلیے آدمِ ثانی اور خیرالانام محمدﷺ کےانوار کے مظہرِ اوّل تھے۔
آپؓ کا ایک لقب ’خلیل الرسول‘ بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر مَیں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ خلت اور دوستی تو وہ ہوتی ہے جو رگ وریشےمیں دھنس جائے اور وہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ اور اس کےلیے مخصوص ہے۔ آنحضرتﷺ کے اس پاک فقرے کےمعنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تو کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں اگر کسی کو دوست رکھتا تو ابوبکر کو رکھتا۔
آپؓ کی کنیت ابوبکر کے متعلق مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں مثلاً ’بکر‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں چونکہ آپؓ اونٹوں کی پرورش اور غوروپرداخت میں دلچسپی لیتے تھے لہٰذا آپؓ کی یہ کنیت ہوئی۔ بعض کے خیال میں آپؓ نے اسلام قبول کرنے میں دوسروں سے پیش قدمی کی اس لیے یا بعض کے نزدیک ان کی پاکیزہ خصلتوں میں ’اِبْتِکَار‘ یعنی پیش پیش ہونے کی وجہ سے ابوبکر کہا گیا۔
حضرت عائشہؓ حضرت ابوبکرصدیقؓ کا حلیہ بیان فرماتی ہیں کہ آپؓ گورے رنگ، دبلے پتلے جسم،خمیدہ کمر، بلند پیشانی والے تھے۔ رخساروں پر گوشت کم تھا اور آنکھیں اندر کی طرف تھیں۔آپؓ مہندی اور کتم سے خضاب لگایا کرتے، آپؓ نرم مزاج اور قوم میں مقبول و محبوب تھے۔آپؓ تجارت پیشہ تھے اورکامیاب تجارت میں آپؓ کی جاذب نظر شخصیت اور بےنظیراخلاق کا بڑا دخل تھا۔ رسول اللہﷺ کی بعثت کے وقت حضرت ابوبکرؓ کا راس المال چالیس ہزار درہم تھا۔
اسلام سے قبل بھی آپؓ اپنے عمدہ اخلاق اور مالی وسعت کی وجہ سے قریش میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ تعبیر الرؤیا کا بڑا گہرا علم آپؓ کو عطا کیا گیا تھا۔ اسی طرح فنِ علم الانساب میں بھی کمال تک پہنچے ہوئے تھے۔ اسلام سے قبل خون بہا اور دیتیں اکٹھی کرنا قبیلہ بنو تیم بن مرة کے ذمے تھا چنانچہ جب حضرت ابوبکرؓ جوان ہوئے تو یہ خدمت آپؓ کے سپرد ہوئی۔ غریبوں اور مظلوموں کی مدد کے معاہدے حلف الفضول میں بھی آپؓ شامل تھے۔ بعثت سے قبل ہی آپؓ کو رسول کریمﷺ سے خاص انس اور خلوص کا تعلق تھا۔ اکثر تجارتی سفروں میں بھی ہم راہی کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ سے تعلقات میں حضرت ابوبکرؓ نمبر ایک پر تھے۔ زمانۂ جاہلیت سے ہی آپؓ کو شرک سے نفرت تھی۔ کبھی کسی بت کو سجدہ نہ کیا تھا۔ اسی طرح زمانۂ جاہلیت سے ہی آپؓ کو شراب سے بھی نفرت تھی۔
حضرت ابوبکرؓ صدیق کے قبولِ اسلام کےمتعلق ذکر ملتا ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکرؓ حضرت حکیم بن حزام کے گھر پر تھے کہ حکیم کی لونڈی نے کہا کہ تیری پھوپھی خدیجہ بیان کرتی ہے کہ اس کا خاوند موسیٰ کی مانند نبی بھیجا گیا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ خاموشی سے اٹھے ،نبی کریمﷺ کے پاس آئے اوراسلام قبول کرلیا۔
سیرت ابن ہشام کی شرح ’الروض الانف‘ میں ذکر ہے کہ آپؓ نے خواب دیکھا تھا کہ چاند مکہ میں اتر آیا ہے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوکرتمام جگہوں اور گھروں میں پھیل گیا ہے۔پھر گویا وہ چاند آپؓ کی گود میں اکٹھاکردیا گیا ہے۔ ’سبل الھدیٰ‘ میں مذکور ہے کہ آپؓ شام میں تجارت کےلیے گئے ہوئے تھے جب آپؓ نے رؤیا دیکھی۔ بحیرہ راہب نے اس کی تعبیر یہ بیان کی تھی کہ تمہاری قوم میں ایک نبی مبعوث ہوگا۔تم اس کی زندگی میں اس کے وزیر ہوگے اور اس کی وفات کے بعد اس کے خلیفہ ہوگے۔
خطبےکے اختتام پر حضورِانورنے فرمایا کہ اس بارے میں مزید روایتیں بھی ہیں جو ان شاءاللہ آئندہ بیان ہوں گی۔
٭…٭…٭