حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی مہمان نوازی
جاننے والے جانتے اور دیکھنے والے یقین رکھتے ہیں کہ حضور کو مہمان نوازی میں کتنا کمال اورشغف تھا۔ حضوراس میں ذرہ بھر کوتاہی کو بھی پسند نہ فرماتے
مہمان نوازی کا وصف خدا تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ باری تعالیٰ نے اپنی دائمی شریعت میں حضرت ابراہیمؑ کی مہمان نوازی کا ذکر کر کے اس کی ترغیب دی۔قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:
فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ (اَلذَّارِیات:27)
وہ جلدی سے اپنے گھروالوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ (بُھنا ہؤا) بچھڑا لے آیا۔
اس مضمون کو لکھنے کا خاص مدعا وہ تمام میزبان جماعتیں، سنٹرز، مشن ہاؤسز،دارالضیافت،جماعتی گیسٹ ہاؤسز وغیرہ،جہاں افراد جماعت بطور مہمان جاتے ہیں، میزبانی کی خدمت کی توفیق پانے والے یہ خوش نصیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے ان واقعات کوپڑھیں کہ کس قدر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے مہمانوں کی فکرلاحق تھی،وہ فکر ان کی ضروریات کے حوالے سے ہو یا ان کے جذبات کے حوالے سے ہو، تا ان واقعات کو پڑھ کر میزبانی کی خدمتیں سمیٹنے والے خوش نصیب اپنے ایمان اور محنت میں ترقی کریں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے اس پہلو سے بعض روایات پیش خدمت ہیں۔
مہمانوں کے بھوکے رہ جانے پر خدا نے اطلاع دی
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’خاکسار1907ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان حاضر ہوا۔ایک رات میں نے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اورمہمان بھی تھے جنہوں نے کھانا نہ کھایا تھا۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا:
یَااَیُّھَاالنَّبِیُّ اَطْعِمُوالْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔
منتظمین نے حضور کے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لئے جگایا۔خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت قریب ساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جاکر کھانا کھایا۔اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعود ؑدن کے قریب دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضور ؑکے سامنے حضرت مولوی نورالدین صاحب، خلیفہ اول کھڑے ہوئے تھے۔اور بعض اوراصحاب بھی تھے۔ اس وقت حضور کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے۔اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا۔
یَااَیُّھَاالنَّبِیُّ اَطْعِمُوالْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت نمبر 1176)
مہمانوں کی تکلیف اپنے چاروں بچوں کے مر جانے سے زیادہ
اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں روایت کرتی ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ ایک بوڑھی عورت مائی تابی رہتی تھی۔اس کے کمرے میں ایک روز بلی پاخانہ کر گئی۔اس نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا۔ میرے ساتھ جو دوعورتیں تھیں انہوں نے خیال کیا کہ ہم سے تنگ آکرمائی تابی ایسا کہتی ہے۔ ایک نے تنگ آکر اپنے خاوند کو رقعہ لکھا،جو ہمارے ساتھ آیا ہوا تھا،کہ مائی تابی ہمیں تنگ کرتی ہے،ہمارے لئے الگ مکان کا انتظام کردیں۔ جلال الدین نے وہ رقعہ حضورؑ کے سامنے پیش کردیا۔رقعہ پڑھتے ہی حضور علیہ السلام کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اورآپؑ نے فوراً مائی تابی کو بلایا اورفرمایا ’’تم مہمانوں کو تکلیف دیتی ہو۔تمہاری اس حرکت سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہےاس قدر تکلیف کہ اگرخدانخواستہ میرے چاروں بچے مر جاتے تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی مہمانوں کو تکلیف دینے سے پہنچی ہے‘‘۔
(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت نمبر 1322)
مہمانوں کو خود کھانا پکانے نہ دیتے
مراد خاتون صاحبہؓ اہلیہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ؓکی والدہ،جن کا نام بوبوجی تھا،اور انہوں نے ابھی بیعت نہیں کی تھی کہ اپنے بیٹے ڈاکٹر فیض علیؓ کے اصرار پر چند دن قادیان رہنے کےلیے آئیں اور والدہ صاحبہ کے ہی اصرار پر رہنے کےلیے الگ مکان کرایہ پرلیا۔چنانچہ بالآخروہ اپنے بیٹے ڈاکٹر فیض علی صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئیں تو حضورؑ نے فرمایا ’’کہاں ٹھہرے ہو اور کب سے آئے ہو؟‘‘۔ والدہ نے عرض کیا کہ پندرہ دن ہوئے ہیں، ہم مرادوملانی کے مکان میں رہتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کھانے کا کیا انتظام ہے؟ بوبوجی نے کہا کہ خود پکا لیتے ہیں۔آپؑ نےفرمایا کہ ’’افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مہمان ہوکر خود کھانا پکائیں۔ آپ کو معلوم نہیں کی قادیان میں جو بھی مہمان آتا ہے وہ ہمارا ہی مہمان ہوتا ہے۔ آپ کو ڈاکٹر فیض علی نے نہیں بتایا؟‘‘ بوبو جی نے کہا ہم پانچ چھ آدمی ہیں۔حضورؑ کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا۔آپؑ نے فرمایا کہ ہمارا حکم ہے کہ ہمارے مہمان ہمارے گھر سے ہی کھانا کھائیں۔ پھر آپؑ نے ایک خادمہ سے فرمایا کہ ان کے ساتھ جا کر گھر دیکھ لو اور دونوں وقت کھانا پہنچا آیا کرو اور پوچھ لیا کرو کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔
(ماخوذ ازسیرت المہدی حصہ پنجم روایت نمبر 1357)
اپنا لحاف مہمانوں کو دے کر بغیر لحاف کے ساری رات گزاری
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلویؓ کی روایت ہےکہ ’’ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے۔جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگا نے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا۔ میں عشاء کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دئے ہوئے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جوغالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھےپاس لیٹے تھے۔ اور ایک شتری چوغہ انہیں اڑھا رکھا تھا۔معلوم ہوا کہ آپؑ نےبھی اپنا لحاف اور بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا۔میں نے عرض کی کہ حضورؑ کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیئے اور ہمارا کیا ہے،رات گزر ہی جائے گی۔نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے۔ وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں۔ پھر میں مفتی فضل الرحمٰن صاحب یا کسی اورسے، ٹھیک یاد نہیں رہا،لحاف بچھونا مانگ کر اوپر لے گیا۔ آپ نے فرمایا کسی اورمہمان کو دے دو۔مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی۔اورمیرے اصرار پربھی آپ نے نہ لیا۔ اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو۔ پھر میں لے آیا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ چہارم رویت نمبر 1118)
مہمان کو اپنا بستر دے دیا اور سر کی پگڑی کاٹ کر کھانا باندھ کر دیا
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی روایت ہےکہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بہت بے تکلف رہتے تھے۔ جس کے نتیجہ میں خدام بھی حضور کے ساتھ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بے تکلفی سے بات کر لیتے تھےچنانچہ ایک دفعہ میں لاہور سے حضورؑ کی ملاقات کےلئے آیا اوروہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس اوڑھنے کے لئے رضائی وغیرہ نہیں تھی۔میں نے حضرت کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضوررات کوسردی لگنے کا اندیشہ ہےحضورمہربانی کرکے کوئی کپڑاعنائت فرماویں۔حضرت صاحب نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دُھسا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دُھسا میرا ہے۔آپ ان میں سے جو پسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونوں رکھ لیں۔میں نے رضائی رکھ لی اور دُھسا واپس بھیج دیا۔نیز مفتی صاحب نے بیان کیا کہ جب میں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضورؑاندر سے میرے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگوایا جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کُھلا کھانا لے آیا۔حضرت صاحب نے اس سے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے۔ کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا۔اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں۔اور پھر آپ نے اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کاٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم روایت نمبر 433)
مہمان حضورؑ کے بال بچے ہیں
ایک عورت،جو سامانہ کی رہنے والی تھی حج کرکے حضور علیہ السلام کے گھر آئی۔ وہ اس وقت پہنچی جبکہ حضورؑکا تمام کنبہ کھانا کھا چکا تھا۔حضورؑ تھوڑی دیر بعد حجرے سے باہر نکلے اور کہا کہ تم نے کھانا کھا لیا ہے کہ نہیں؟اس نے کہا ’’نہیں‘‘۔ حضور علیہ السلام گھر والوں کو خفا ہوکرکہنے لگے کہ ’’تم نے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ یہی تو میرے بال بچے ہیں‘‘۔ حضور علیہ السلام نے خود کھانا منگوا کر اسے کھلایا۔
(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت نمبر1298)
مہمانوں کے بچوں کو اپنے بچوں سے پہلے کھانا کھلایا
محترمہ خیر النساء صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کی روایت ہے کہ ’’ایک دفعہ بارش سخت ہو رہی تھی اور کھانا لنگر میں میاں نجم الدین صاحب پکوایا کرتے تھے۔ انہوں نے کھانا حضور علیہ السلام اور بچوں کے واسطے بھجوایا کہ بچے سو نہ جائیں،باقی کھانا بعد میں بھجوا دیں گے۔حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ’’شاہ جی کے بچوں کو کھانا بھجوا دیا ہے یا نہیں؟‘‘ جواب ملانہیں۔ ان دنوں دادی مرحومہؓ وہاں رہا کرتی تھیں۔حضورعلیہ السلام نے کھانااٹھوا کر ان کے ہاتھ بھجوایااور فرمایا کہ ’’پہلے شاہ جی کے بچوں کو دو بعد میں ہمارے بچے کھا لیں گے‘‘۔
(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت نمبر1505)
مہمانوں کوان کی پسند کے مطابق کھانا کھلانے کا حکم
حضرت شیخ کرم الٰہی صاحبؓ پٹیالوی نے بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ ماہ رمضان جو کہ سردیوں کے ایام میں آیا۔ اس کے گذارنے کے لئے دارالامان آیا۔ حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کتب خانہ کے انچارج اور مہتمم تھےاور کمرہ متصل مسجد مبارک میں کتب خانہ تھا اور وہیں حکیم صاحب کا قیام تھا۔ خاکسار کے پہنچنے پر حکیم صاحب نے مجھے بھی اسی کمرہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ حضرت صاحب ہر نماز کے لئے اسی کمرہ سے گزر کر مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ سحری کے وقت دروازہ کھلا۔ خاکسار سامنے بیٹھا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت صاحب دروازہ میں کھڑے ہیں، تعظیماً کھڑا ہو گیا۔ حضور نے اشارہ سے اپنی طرف بلایا۔ میں جب آگے بڑھا (تو دیکھا) کہ حضور کے دونوں ہاتھوں میں دو چینی کے پیالے ہیں۔ جن میں کھیر تھی۔حضور نے وہ دونوں پیالے خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احباب کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں دیکھ کر ا ن کو پہنچا دو، میں نے وہ حکیم صاحب کو پیش کئے۔انہوں نے مسجدمیں سے کسی کو طلب کر کے وہ پیالے ان احباب کو پہنچا دیئے جن کے نام سیاہی سے لکھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پھر دروازہ کھلا۔ پھر حضرت صاحب دو پیالے پکڑا گئے۔ وہ بھی جن کے نام ان کو پہنچا دیئے گئے۔ اس طرح حضرت صاحب خود دس گیارہ دفعہ پیالے لاتے رہے اور ہم ان اشخاص کو مہمان خانہ میں پہنچاتے رہے۔ اخیر دفعہ میں جو دو پیالے حضور نے دیئے۔اُن میں سے ایک پر حکیم صاحب کا نام اور دوسرے پر میرا نام تحریر تھا۔ حکیم صاحب نے کھیر کھا کر کہا کہ آج تو مسیح کا من و سلویٰ اتر آیا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت نمبر1088)
مہمانوں سے محبت کا ایک رنگ
میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ’’میں قادیان پہنچا۔حضور علیہ السلام گھر میں مع احباب مہمانان کھانا کھانے کے لئے تیار تھے کہ میں بھی گھرمیں داخل ہوا۔میرے لیے بھی کھانا آ گیا۔ جب کھانا رکھا گیا تورکابی پلاؤ کی زائد از حصہ رسدی حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر میرے آگے رکھ دی۔تمام حاضرین میری طرف دیکھنے لگ گئے۔میں حضور علیہ السلام کی شفقت بھری نگاہ سے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتا ہوں الحمدللہ علی ذالک۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت نمبر 1230)
غریب مہما ن کی دلجوئی
حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلویؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد مسجد مبارک کی دوسری چھت پرمع چند احباب کھانا کھانے کے لئے تشریف فرما تھے۔ ایک احمدی میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ، جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے۔ حضورسے چار پانچ آدمیوں کے فاصلے پر بیٹھے تھے۔اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ، جو بعد میں لاہوری کہلائے،آتے گئے اورحضورکے قریب بیٹھتے گئے۔ جس کی وجہ سے میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑتا رہا۔ حتی کہ وہ جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گیا۔اتنے میں کھانا آیا تو حضور نے ایک سالن کا پیالہ اورکچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام الدین کو مخاطب کرکے فرمایا :آؤمیاں نظام الدین! آپ اور ہم اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں۔اور یہ فرما کر مسجد کے صحن کے ساتھ جو کوٹھڑی ہے اس میں تشریف لے گئے اور حضور نےاورمیاں نظام الدین نے کوٹھری کے اندرایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا۔ اور کوئی اندرنہ گیا۔جو لوگ قریب آ کر بیٹھ گئے تھے ان کے چہروں پرشرمندگی ظاہر تھی۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت نمبر1067)
ناراض مہمانوں کو منا کر واپس لانا
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ نےبیان کیا کہ ’’ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آ کر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اتارے جائیں اورسامان لایا جائے۔ چارپائی بچھائی جائے۔خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا اسباب اتروائیں۔ چارپائیاں بھی مل جائیں گی۔دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہو گئے اور فورا ًیکہ میں سوارہوکر واپس روانہ ہو گئے۔میں نے مولوی عبدالکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگےجانے بھی دو ایسے جلد بازوں کو۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا مشکل ہوگیا۔ حضور ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے۔ چند خدام بھی ہمراہ تھے۔میں بھی ساتھ تھا۔نہر کے قریب پہنچ کران کا یکہ مل گیا۔اورحضورکوآتا دیکھ کروہ یکہ سے اتر پڑے اور حضور نے انہیں واپس چلنے کے لئے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا۔چنانچہ وہ واپس آئے۔ حضور نے یکہ میں سوار ہونے کے لئے انہیں فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے۔ اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے۔حضور نےخود ان کے بستر اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر خدام نے اتار لیا۔ حضور نے اسی وقت دو نواڑی پلنگ منگوائے اوراُن پران کے بستر کروائے اور اُن سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے۔اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں۔ اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا۔ غرضیکہ ان کی تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا آیاوہیں ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے،راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا۔ اگر یہاں آ کربھی اس کو وہی تکلیف ہوتویقیناًاس کی دل شکنی ہوگی۔ ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ اس کے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے۔ حضور کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب ان کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریروغیرہ فرماتے۔ جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا۔حضور نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایا۔ یہ پی لیجئے۔ اورنہرتک انہیں چھوڑنے کے لئے ساتھ گئے۔ راستہ میں گھڑی گھڑی اُن سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں۔ آپ یکے میں سوار ہولیں۔ مگر وہ سوار نہ ہوئے۔نہر پر پہنچ کر انہیں سوارکراکے حضور واپس تشریف لائے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت نمبر 1069)
مہمانوں کے جذبات کا خیال
حضرت سیدہ زینب بیگم صاحبہؓ بنت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحبؓ کی روایت ہے کہ ’’میری موجودگی میں ایک دن کا ذکر ہے کہ باہر گاؤں کی عورتیں جمعہ پڑھنے آئی تھیں تو کسی عورت نے کہہ دیا کہ ان میں سے پسینہ کی بوآتی ہے۔چونکہ گرمی کا موسم تھا۔جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا تو اس عورت پر ناراض ہوئے کہ ’’تم نے ان کی دل شکنی کیوں کی؟‘‘ ان کو شربت وغیرہ پلایا اور ان کی بڑی دل جوئی کی۔حضور علیہ السلام مہمان نوازی کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت نمبر 1540)
’’انہوں نے جو تم کو برا بھلا کہا ہے وہ تم کو نہیں مجھ کو کہا ہے‘‘
حضرت استانی رحمت النساء بیگم صاحبہؓ اپنے خاونداور بچوں کے ساتھ موسمی تعطیلات میں قادیان آئیں۔حضورعلیہ السلام کے گھر کی دو نوکرانیاں ان کے بچوں سے تنگ آکر ان کو اوران کے بچوں کو برا بھلا کہتی تھیں۔بالآخر انہوں نے حضور علیہ السلام کوان کی شکایت لگائی تو ’’آپ نے محبت آمیز لہجہ میں جو باپ کو بیٹی سے ہوتی ہے بلکہ اس سے زیادہ محبت کے ساتھ فرمایا ’’تم ان کی باتوں سے غم نہ کرو انہوں نے جو تم کو برا بھلا کہا ہے وہ تم کو نہیں مجھ کو کہا ہے۔‘‘ پھرآپ نے ان عورتوں کو خوب ڈانٹا اور ان میں سے ایک کو تو فورا ًنکل جانے کا حکم دیا اور دوسری کو خوب ڈانٹا اور فرمایا ’’کیا میرے مہمان جو اتنی گرمی میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر، اپنے آراموں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں تم ان کو برا بھلا کہتی ہو۔ کیا وہ صرف لنگر کی روٹیاں کھانے آتے ہیں؟ اور میرے متعلق کہا کہ اس لڑکی کو آئندہ کچھ تکلیف نہ ہو۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت نمبر1506)
مہمانوں کی مالی مدد
محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم لدھیانوی روایت کرتی ہیں کہ ’’ایک دفعہ جناب والد صاحب کہیں باہر دورہ پرتبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے۔پیچھے سے مصلحت کی وجہ سے منتظموں نے لنگر خانے کا یہ انتظام کیا کہ جو مہمان آویں صرف ان کو تین دن تک کا کھانا ملا کرے۔ باقی گھروں کا بند کر دیا۔ہمیں بھی لنگر خانہ سے دونوں وقت روٹی آتی تھی۔جب بند ہوگئی تو نہ آئی۔ہم سب بہن بھائی ایک دن رات بھوکے رہےکسی کو نہ بتایا۔ دوسرے دن ان سب کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی کہ مائی تابی ایک مجمع اٹھائے ہوئے آئی۔ والدہ صاحبہ نے کہا۔کہاں سے لائی ہے؟ کس نے بھیجا ہے؟ حضرت جی نے دو رکابیاں کھیر کی اور دو پیالے گوشت عمد پکا ہوا بھجوایا۔ والدہ صاحبہ کہتی ہیں مرغ کا گوشت تھا۔ اور روٹیاں توے کی پکی ہوئیں ہم سب حیران ہوئے کہ حضرت صاحب کو کس نے بتایا پھر شام کو برتن لے کر گئی۔ برتن نیچے رکھ کر اوپر گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا صفیہ کل کیوں نہیں آئی۔ میں نے کہا کل ہم کو لنگر سے کھانا نہیں آیا تھا۔ اس لئے ہم سب گھر ہی رہے۔ آپ نے افسوس والی صورت سے فرمایا کہ کل تم سب بھوکے رہے۔کیا تمہیں لنگر خانہ سے روٹی آتی تھی؟ بہت افسوس فرمایا اور کہا کہ آج جو مجھے کھانا آیا تھا میں نے تمہارے گھر بھیج دیا۔مجھے یہ علم نہ تھا کہ تم کو کل سے کھانا نہیں ملا۔ پھر مجھے دس روپے دئے اور فرمایا کہ نیچے کوٹھی میں جتنے دانے گندم کے ہیں گھر لے جاؤ۔اور خرچ کرو۔ جب تک حضرت مولوی صاحب نہیں آتےمجھے خرچ کے لئے بتایا کرو۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت نمبر1563)
مومن کا کبھی دیوالہ نہیں نکلتا
ایک دفعہ 1903ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں کثرت سے مہمان آگئے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ جو اس وقت لنگر خانہ کے افسر اعلی تھے آئے اور فرمایا ’’حضرت مہمان تو کثرت سے آگئے ہیں،معلوم ہوتا ہے اب کے دیوالہ نکل جائے گا۔حضور علیہ السلام کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور لیٹے لیٹے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا میر صاحب آپ نے یہ کیا کہا؟آپ کو نہیں معلوم کہ مومن کا کبھی دیوالہ نہیں نکلتا۔جو آتا ہے وہ اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے،جب جاتا ہے تو برکت چھوڑ کر جاتا ہے۔ یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ دیوالہ نکل جائے گا پھر ایسی بات نہ کریں۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت 1288)
مہمان نوازی میں کمی کے خدشہ پر حضورؑ کی فکر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب آخری دفعہ لاہور گئے تو لاہور میں قیام کے دوران ہی آپؑ نے خصوصی طور پرخط لکھ کرمولوی محمد علی صاحب کو جو پیچھے قادیان میں لنگر خانہ کے انچارج تھے بلایا اور مولوی صاحب سے لنگر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ’’میں اس کی وجہ سے بہت فکرمند ہوں کہ لنگر کی آمد کم ہے اور خرچ زیادہ اور مہمانوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے اوران حالات کو دیکھ کر میری روح کو صدمہ پہنچتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت نمبر1208)
حضرت بھائی عبدالرحمان قادیانیؓ کی گواہی
حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانیؓ،جنہیں حضور علیہ السلام کےقرب میں رہ کرخدمت کا موقع ملا،آپؑ کی مہمان نوازی کے متعلق گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آہ،آہ،آہ شہنشاہوں کا شہنشاہ جس کا یہ حال۔جس کی تصدیق حضور کے وصال کے بعد کے واقعات نے کردی جبکہ واقعی حضورپرنورنے بجائے مال و منال کے قرض کی بھاری رقم ترکہ میں چھوڑی مگر مہمان نوازی میں سرموفرق نہ آنے دیا اور نہ ہی کسی کو جتایا۔جاننے والے جانتے اور دیکھنے والے یقین رکھتے ہیں کہ حضور کو مہمان نوازی میں کتنا کمال اور شغف تھا۔ حضوراس میں ذرہ بھر کوتاہی کو بھی پسند نہ فرماتے۔قرض تک لے کر مہمانوں کی خدمت کرتے، خود اپنے ہاتھوں کھلاتے اور مہمانوں کی ضروریات کا پورے اہتمام سے ان کے حالات و عادات کے لحاظ سےانصرام کرتے۔ چارپائی۔ بستر۔ حتٰی کہ حقہ تک بھی جس سے حضور کو طبعی نفرت تھی، مہمان کی خاطر مہیا فرماتے۔ …حضور نےکھانا تناول فرماتے ہوئے بھی اپنا کھانا اٹھا کر مہمانوں کو بھیج دیا اور خود دوگھونٹ پانی پر ہی کفایت فرمائی۔کسی مہمان کو چارپائی نہ ملی تو اپنی چارپائی بھیج دی یا فوراً تیار کرا دی اور نیا بستر بنوا کر بھیج دیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم تتمہ صفحہ397تا398)
٭…٭…٭