متفرق مضامین

آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج

(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)

جدید سائنسی علوم کی روشنی میں ہونے والی مغربی دنیاکی یہ تحقیقات آج جن نتائج پر پہنچی ہیں، اسلام آج سے چودہ سو برس پیشتر ان کو بیان کرچکا ہے

اسلام دین فطرت ہے اور اس کی تمام تعلیمات انسانی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔شریعت اسلامیہ میں ہر اس بات کی تعلیم دی گئی ہے جو انسان کے لیے مفید ہے اور ہراس بات سے منع کیا گیا ہے جو انسان کے لیے نقصان دہ ہے۔ہر چنداسلام فرد کی آزادی کا قائل ہے لیکن یہ آزادی مادر پدر آزادی نہیں بلکہ چند اصولوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ جس طرح ایک تند و تیز دریا کو بند باندھ کر بجلی پیدا کرنے اور کاشتکاری کے لیے کام میں لایا جاتا ہے اسی طرح انسان کے نفسیانی جذبات کو چند اصولوں کا پابند بنا کر ان سے معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے کام لیا جاسکتا ہے۔

انسان کے شہوانی جذبات معاشرے میں برائی پیدا کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس برائی کی ابتدا مرد و عورت کے آزاد و بے حجاب اختلاط سے ہوتی ہے۔ اسلام نے اس برائی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مردوں اور عورتوں کی مخلوط مجالس سے منع فرمایا۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے To Nip the Evil in the Bud۔ یعنی برائی کو پھلنے پھولنے سے پہلے ہی ختم کردینا۔ مردوعورت کے آزادانہ اختلاط کی مناہی ، مردوں کے لیے غضِّ بصر اور عورتوں کے لیے پردے کا حکم ایسی ہی تعلیمات ہیں جومعاشرے میں پھیلنے والی برائیوں کا ابتدا ہی میں قلع قمع کردیتی ہیں۔

انہی احکام کے مدِّ نظر مسلمان معاشروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ درسگاہیں قائم کی جاتی رہی ہیں اگرچہ مغرب کی نام نہاد روشن خیالی ، مردوں اور عورتوں کے یکساں حقوق اور آزادیٔ نسواں کے نام پر اب مسلمان معاشروں میں بھی co -education یعنی بچوں اور بچیوں کے لیے ایک ہی سکول کا رواج ہوگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس مغرب کی اندھادھند تقلید کی جارہی ہے اب خود وہاں کے لوگ، یہ جانے بغیر کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے، اسلام کی فطری تعلیم کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے: ’’آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج‘‘۔ مغرب میں حضور ؑکے اس فرمان کا اطلاق جہاں دیگر بہت سے عقائد، سماجی معاملات اور رویوں میں ہورہا ہے وہاں بچوں اور بچیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ درسگاہوں کے قیام کے سلسلے میں بھی اسلام کی فطری تعلیم کو اپنایا جارہا ہے۔

چند برس قبل امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں ایک تنظیم قائم کی گئی ہے جس کا نام NASSPE یعنی NATIONAL ASSOCIATION FOR SINGLE-SEX PUBLIC EDUCATION ہے۔یہ تنظیم لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ سکول قائم کرنے کی مہم چلارہی ہے اور چند ایسے سکول قائم بھی کرچکی ہے جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ تعلیم دی جاتی ہے۔اس تنظیم کا کہنا ہے کہ سکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے محض الگ کلاس رومز قائم کرناکافی نہیں بلکہ ان کے لیے سکول ہی الگ الگ ہونے چاہئیں۔اس تنظیم کی گورننگ باڈی یعنی مجلس عاملہ کے سربراہ ڈاکٹر لیونارڈ سیکس (Dr. Leonard Sax) ہیں جنہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ہے WHY GENDER MATTERS یعنی صنف کا خیال رکھنا کیوں ضروری ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر لیونارڈ نے، جو کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سائیکالوجی یعنی نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی رکھتے ہیں، یہ بتایا ہے کہ مردوں اور عورتوں کا دماغ پیدائش کے وقت سے ہی ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا پروان چڑھنا بھی مختلف طریقے سے ہوتا ہے۔

مشہور زمانہ ٹائم میگزین نے اپنی 7؍مارچ 2005ء کی اشاعت میں اس کتاب کا ذکر سرورق کے مضمون یعنی کور سٹوری کے طور پر کیا اور لکھا کہ ڈاکٹر لیونارڈ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سےمختلف ہوتے ہیں۔چنانچہ ان کا ماحول الگ الگ کردینا چاہیے تاکہ ان کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔

نفسیات کی گہری تعلیم حاصل کرنے اورایک لمبے عرصے تک مختلف کیسوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ڈاکٹر لیونارڈ اس نتیجے پر پہنچے کہ طبائع، عادات اور دماغی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باعث بچوں اور بچیوں کو ابتدا ہی سے الگ الگ سکولوں میں تعلیم دی جائے۔چنانچہ انہوں نے ہم خیال لوگوں پر مشتمل ایک ایسوسی ایشن قائم کی جس کا نام NASSPE رکھا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں لوگوں میں اس بات کا احساس شدت سے ابھرا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کا سکول الگ الگ ہونا چاہیے۔ اس احساس کے ابھرنے کی سب سے اہم وجہ نفسیات اور تعلیم کے ماہرین کااس بات کا مشاہدہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے سیکھنے کا طریقہ مختلف ہے اور مختلف مضامین میں ان کی دلچسپیاں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ مشترکہ تعلیمی ماحول میں لڑکیاں لڑکوں کے دباؤ میں آکر سائنس، میتھ اور کمپیوٹر وغیرہ کے مضامین منتخب نہیں کرتیں کیونکہ انہیں عام طور پر لڑکوں کے مضامین سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح لڑکیوں کے ساتھ پڑھنے والے لڑکے آرٹس، فنون لطیفہ اور میوزک وغیرہ کے مضامین اختیار نہیں کرتے کیونکہ انہیں صنف نازک کے مضامین سمجھا جاتا ہے اور کسی لڑکے کا یہ مضمون لینا اس کے لیے باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس علیحدہ علیحدہ درسگاہ میں ایسے مضامین اختیار کرنے میں کسی کو کوئی جھجک یا حجاب نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں مزید معلومات www.singlesexschools.org اور www.whygendermatters.comسے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

مردوں اور عورتوں کے دماغ کے مختلف ہونے کا خیال صرف ڈاکٹر لیونارڈ ہی کا نہیں ہے بلکہ اس موضوع پر میڈیکل اور سائیکالوجی کے چوٹی کے ماہرین نے تحقیق کا ایک انبار لگادیا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن بیرن کوہن نے اپنی پانچ سالہ تحقیق کا نچوڑ اپنی کتاب The Essential Difference میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بحالی حقوق نسواں کی تحریکوں کے دباؤ کے تحت 90ء کی دہائی شروع ہونے تک عورتوں اور مردوں کے دماغ کے مختلف ہونے کے بارے میں بات کرنا ایک نہایت گھناؤنا سماجی جرم سمجھا جاتا تھا۔ آزادی نسواں اور مردوں کے برابر حقوق کا مطالبہ کرنے والی یہ تنظیمیں اور ان کے حمایتی ایسی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھے اور نہ ہی معاشرے میں ایسی کسی بات کے رائج ہونے کی اجازت دیتے تھے جس سے مردوں اور عورتوں کے برابر ہونے کی کسی بھی رنگ میں نفی ہوتی ہو۔لیکن اب جدید سائنسی تحقیقات نے یہ بات ثابت کرکے کہ عورتوں اور مردوں کا دماغ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اس بارے میں لکھنا آسان کردیا ہے۔اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے مختلف طریقے سے سوچتے ہیں ، ان کی دلچسپیاں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں اور وہ مختلف واقعات و حادثات کے بارے میں اپنا ردعمل مختلف طریقے سے ظاہر کرتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں کا راستہ بتانے کا طریق بھی ایک دوسرے سے قطعا ًمختلف ہوتا ہے اور حالات کا دباؤ برداشت کرنے میں بھی دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

ایک ماہر غذائیات Elisa Lottor, Ph.D نے اپنی کتاب Female and Forgetful میں بھی اسی بات کو ثابت کیا ہے۔ان تمام تحقیقات کا لب لباب یہ ہے کہ مغرب میں ان دونوں اصناف کے برابر ہونے کے بارے میں جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے وہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باعث ان دونوں اصناف کا دائرہ کار ایک دوسرے سے الگ الگ ہے اور انہیں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر ہی معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔

آپ نے دیکھا کہ اگرچہ مغربی سکالرز نے مرد و عورت کے الگ الگ دائرہ کار متعین کرنے اور ان کوایک دوسرے سے مختلف قرار دینے کی وجوہات اسلامی شریعت سے مختلف بیان کی ہیں لیکن وجہ چاہے کچھ بھی ہو مغرب میں اس بات کا احساس بڑھ رہا ہے کہ مرد و عورت جسمانی اور نفسیاتی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور معاشرے میں ان کے دائرہ کار الگ الگ ہیں۔

ان کی تحقیقات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ان دونوں اصناف میں جو پوشیدہ صلاحیتیں ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ اختلاط کے نتیجے میں دب کررہ جاتی ہیں۔لہٰذا ان کو الگ الگ ماحول میں پروان چڑھانا چاہیے۔

جدید سائنسی علوم کی روشنی میں ہونے والی مغربی دنیاکی یہ تحقیقات آج جن نتائج پر پہنچی ہیں، اسلام آج سے چودہ سو برس پیشتر ان کو بیان کرچکا ہے اور اس سے انحراف کے عواقب کو بھی بیان کرچکا ہے۔یہ تمام تحقیقات اس بات کا شافی ثبوت ہیں کہ اسلامی تعلیمات ہی انسان کی فطرت کے عین مطابق ہیں اور ہمیں ان تمام معاشرتی خرابیوں سے بچانے والی ہیں جن میں ہم ان تعلیمات کو نظر انداز کرکے گرفتار ہوجاتے ہیں۔

جیسا کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ ہم اپنی ہی چیز کی اس وقت تک قدر نہیں کرتے جب تک وہ باہر کے ممالک میں پسندیدگی اور قبولیت کا درجہ نہ حاصل کرلے۔چنانچہ ممکن ہے کہ اسلامی تعلیم کی اتباع میں نہ سہی مغرب کی نقّالی میں ہی سہی لڑکوں اور لڑکیوں کے علیحدہ سکولوں کا نظام مسلمان ممالک میں بھی رائج ہوجائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button