سیرت صحابہ کرام ؓمتفرق مضامین

صحابہؓ کرام کا رسول کریمؐ اور خلفائے وقت کی بے مثال اطاعت اور ادب و احترام کا نمونہ

(’ایچ ایم طارق‘)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ او رآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا ۔اور نہ کسی کان نے سُنا ۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیاتھا ؟وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا۔اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَآلِہٖ بِعَدَ دِھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَحُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُ مَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلیَ الْاَبَدِ۔‘‘

(برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد6 صفحہ10-11)

عرب کی سرکش اور بت پرست قوم میں یہ انقلاب حضرت محمدﷺ کی دعاؤں،پاکیزہ نمونہ اور تزکیہ کے نتیجہ میں پیدا ہواکہ سرکشوں کو اطاعت کے پتلے بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امّی قوم کو اطاعت کے بارہ میں رسول کریمﷺ کے ذریعہ یہ اصولی تعلیم عطا فرمائی:

یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَیرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا

(النساء 60)

ترجمہ: اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کى اطاعت کرو اور رسول کى اطاعت کرو اور اپنے حکام کى بھى اور اگر تم کسى معاملہ مىں (اُولُوالامر سے) اختلاف کرو تو اىسے معاملے اللہ اور رسول کى طرف لَوٹا دىا کرو اگر (فى الحقىقت) تم اللہ پر اور ىومِ آخر پر اىمان لانے والے ہو ىہ بہت بہتر (طرىق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے ۔

روح اطاعت

ہمارے آقاو مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعت امام کے آداب بھی اپنے غلاموں کو خوب کھول کرکے بیان کردئے۔آپؐ نے فرمایا کہ ہرمسلمان پر بات سننا اور ماننا فرض ہے۔ خواہ اسے کوئی حکم اچھا لگے یا برالگےسوائے اس کے کہ وہ ایسی بات کا حکم ہو جس میں خدا اور رسولؐ کے کسی حکم کی یا کسی بالا افسر کے حکم کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ اگر وہ ایسی نافرمانی کا حکم دیں توپھر اس میں ان کی اطاعت فرض نہیں۔

(صحیح بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ للامام)

حضرت جنادہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی سننے اور اطاعت کرنے پر کی خواہ وہ بات پسند ہو یا ناپسند۔

(بخاری کتاب الفتن)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاطاعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔

(مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء فی غیر معصیۃ)

آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو اطاعت رسولؐ کے حقیقی آداب سکھائے۔نبی کریمﷺایک مرتبہ حضرت ابیؓ کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں آوازدی۔ حضرت اُبیؓ اُس وقت نماز میں مصروف تھے۔حضورؐکی آواز سنتے ہی نماز مختصرکی اور سلام پھیر کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔آنحضرت ﷺنے تاخیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! میں نمازمیں تھا۔حضورؐ کی آوازسنتے ہی نمازمختصرکرکے آپ کی خدمت میں حاضرہوگیا ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ

یا اَیھَاالَّذِینَ آمَنُوااسْتَجِیبُوالِلّہ وَلِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یحییکُمْ (الانفال:25)

کہ اے مومنو اللہ اور اس کا رسول جب تمہیں بلائیں تو لبیک کہتے ہوئے اس کی خدمت میں حاضرہوجایاکرو۔ اس لئے جب میں نے تمہیں آوازدی تو چاہیے تھا کہ نماز چھوڑ کر لبیک کہتے ہوئے حاضرہو جاتے۔ حضرت ابیؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ یہ غلطی معاف ہو آئندہ انشاء اللہ ایسا نہ ہوگا۔‘‘

(ترمذی کتاب الفضائل باب فضل فاتحة الکتاب)

صحابہؓ کا اندازِ فدائیت واطاعت

پھررسول کریمﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے غلاموں نےاطاعت کے ایسے بے نظیر عملی نمونے دکھائےکہ خدائے ذوالعرش نے ان کے ایفائے عہد طاعت کی گواہی دی۔فرمایا:

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (الأحزاب 24)

مومنوں مىں اىسے مرد ہىں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کىا تھا اُسے سچا کر دکھاىا پس اُن مىں سے وہ بھى ہے جس نے اپنى مَنّت کو پورا کر دىا اور ان مىں سے وہ بھى ہے جو ابھى انتظار کر رہا ہے اور انہوں نے ہرگز (اپنے طرز عمل مىں) کوئى تبدىلى نہىں کی۔

صحابہؓ کی اطاعت کانظارہ کرنے کے لئےجب ہم ان کی زندگی کو دیکھتے ہیں۔تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے نبوت کے نور کی وجہ سے انہیں ایسا روشن خیال بنا دیا تھا کہ وہ اطاعت کی روح جان گئے تھے اور کسی حکم کو عذر سے ٹالنے کی بجائے حیلوں اور بہانوں سے اطاعت کرنے کی راہیں تلاش کرتےتھے۔اور کبھی رسول کریم ؐکے احکام کی حکمت اور اس کی غرض معلوم کر نے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے بلکہ ہر ارشاد پر لبیک کہنے میں سعادت جانتے تھے۔

چنانچہ 6ھ میں جب آنحضرت ﷺ حدیبیہ میں تھے مشرکین مکہ کے ایک سردارعروہ بن مسعود رسول اللّٰہ ﷺ سے مصالحت کے لئے آئے ۔واپس جا کر انہوں نےقریش کے سامنے رسول اللہﷺ کے غلاموں کی اطاعت اور وفا شعاری کی یہ شاندار گواہی دی: ’’اے میری قوم! اللّٰہ کی قسم! میں البتہ بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں اور قیصر اور کسریٰ و نجاشی کے ہاں گیا ہوں ، اللّٰہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اصحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسا کہ محمد (ﷺ ) کے اصحاب محمد (ﷺ ) کی کرتے ہیں ۔اللّٰہ کی قسم! اس (محمد) نے جب کبھی کھنکار پھینکا ہے تو وہ اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرا ہے جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا ہے۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لئے دوڑتے ہیں اور جب وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کے پانی کے لئے باہم جھگڑنے کی نوبت پہنچنے لگتی ہے اور جب وہ کلام کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کردیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے اسے قبول کرلو۔‘‘

(بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجهاد)

حکم کی فوری تعمیل کے نمونے

قرآن شریف میں اعلیٰ درجہ کے مومنوں کی یہ عملی نمونہ بیان ہوا ہے کہ سمعنا واطعنا وہ بات غور سے سنتے اور اس پر کان دھرتے ہیں بلکہ فوری اطاعت کرتے ہیں۔

چنانچہ حضرت ابوبکرؓمیں اطاعت رسول کا نہایت اعلیٰ جذبہ تھا۔ایک دفعہ نبی کریمؐ نے سوال کرنے اور مانگنے سے منع فرمایا۔ صحابۂ رسول ؐ نے اس ارشاد کی کامل اطاعت کر کے دکھائی کہ بسااوقات حضرت ابوبکرؓ اونٹنی پر سوار ہوتے۔ اونٹ کی رسی ہاتھ سے چھوٹ جاتی اونٹ کوبٹھا کر خود نیچے اتر کر اپنے ہاتھ سے رسی اٹھاتے۔ صحابہؓ عرض کرتے کہ آپ ہمیں حکم فرماتے وہ جواب دیتے میرے حبیب رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ لوگوں سے سوال نہیں کرنا ۔

(مسند احمد جلد 1صفحہ5قاہرہ)

نبی کریمﷺ کے پاس بنی تمام کا وفد آیا تو حضرت عمرؓ نے بنی مجاشع میں سے حضرت اقرع بن حابس حنظلیؓ کو ان کا سردار بنائے جانے کا مشورہ دیا اور حضرت ابوبکرؓ نے قعقاع بن سعید بن زرارہ کے حق میں رائے دی۔اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ سے شکوہ کیا کہ آپ نے میری مخالفت میں یہ رائے دی ہے۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرا مقصد ہرگز آپ کی مخالفت نہیں (گویا ایک ذاتی رائے ہے)نبی کریمﷺ کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آواز بلند ہوگئی تھی۔حضرت ابن ابی ملیکہ کی روایت کے مطابق اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (الحجرات 3)

یعنی اے لوگو جو اىمان لائے ہو! نبى کى آواز سے اپنى آوازىں بلند نہ کىا کرو اور جس طرح تم مىں سے بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے اونچى آواز مىں باتىں کرتے ہىں اس کے سامنے اونچى بات نہ کىا کرو اىسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائىں اور تمہىں پتہ تک نہ چلے۔

ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن زبیرؓ کہتے تھے کہ حضرت عمرؓ نے اس کے بعد یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ جب آنحضرتﷺ کی خدمت میں کچھ عرض کرتے تو اتنی آہستگی سے بات کرتے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے حتیٰ کہ آنحضرت کو بات سنائی نہ دیتی تو آپؐ حضرت عمرؓ سے دوبارہ پوچھتے کہ کیا کہا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس آیت کے شانِ نزول کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ آیت کریمہ ان روایات بیان کرنے والوں کا منہ بند کرنے کیلئے کافی ہونی چایئے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دربار میں تو کھلی چھٹی تھی ایک بدوی کھڑا ہوتا تھا اور یہ اعلان کردیتا تھا اور ایک اور الزام بھی لگا دیتا تھا کہ آپ نے اموال میں نعوذ باللہ من ذالک خرد برد کی ہے تو یہ باتیں مستقلاً رسول اللہﷺ کے غلام جو کسی مسند پر فائز ہوں ان کے متعلق بدرجہ اولی جائز اور ضروری ہیں۔اگر رسول اللہﷺکے دربار میں اٹھ کر اس طرح کھلی باتیں کرسکتے ہو تو اب کیوں نہیں کرسکتے۔وہ بھول جاتے ہیں کہ جو کھلی باتیں کرتے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم فرما رہا ہے

تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ۔

تمہاری ساری عمر کی نیکیاں ضائع ہوجائیں گی اور تمہیں علم بھی نہیں ہوگا۔پس اگر یہ نیکیاں ضائع کرنے کی خاطر ایسی بدتمیزیاں کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں۔ لیکن قرآن کریم کی اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہوگا جو حد ادب سے نکلتے ہیں اور کہہ دیں جو مرضی ان کو سزا تو نہیں ملتی کوئی مگر منہ سے ایسی بات کردیتے ہیں جس سے ان کی اپنی نیکیاں اور نیک اعمال خدا کی نظر میں گرجاتے ہیں۔اب کلام الٰہی صحابہ کیسے سنا کرتے تھے۔اس عمومی بیان شانِ زنول کے طور پر نہیں بلکہ اس لئے ہے تاکہ آئندہ آنے والے اس سے نصیحت پکڑیں کہ صحابہ کی یہ شان ہوا کرتی تھی تم بھی اس شان سے قرآن کریم سناکرو۔

(درس القرآن ماہ رمضان۔19،جنوری1998ء)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓکے متعلق آتا ہے کہ آپؓ ایک مرتبہ مسجد کی طرف آرہےتھے کہ آپؓ کے کانوں میں آنحضورؐ کی آواز پڑی کہ بیٹھ جاؤ۔ آپ وہیں بیٹھ گئے اور گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف آنے لگے۔ ایک دیکھنے والے نے آپؓ سے کہا کہ آنحضورؐنے تو مسجد میں کھڑے لوگوں کو کہا تھا کہ بیٹھ جاؤ۔ آپؓ کو تو نہیں کیا تھا۔ اس پر حضرت عبد الله بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اگر وہاں پہنچتے پہنچتے میری جان نکل جائے تو میں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا کہ خدا کے رسولؐ کی طرف سے ایک آواز میرے کانوں میں پڑی اور میں نے اس پر عمل نہیں کیا۔

(ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب الامام یکلم الرجل)

ایک روایت میں یہی واقعہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓانصاری کی نسبت بھی بیان ہوا ہےکہ ان کی اس شاندار نمونہ اطاعت پررسول اللہﷺ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ اے عبد اللہ بن رواحہ اللہ اورسول کی اطاعت کا تمہارا یہ جذبہ اللہ تعالی اور بڑھائے۔

(اصابہ لابن حجرجز 4صفحہ84بیروت)

حرمت شراب کےاعلان کے وقت صحابہ کرام ؓنے جس بے نظیر اطاعت کا مظاہرہ فرمایا اس سے انسان کی عقل ورطہ حیرت میں پڑھاتی ہے کہ ایسے ملک میں جو شراب نوشی میں ساری دنیا سے بڑھا ہوا تھا اور جس میں شراب کے بھرے ہوئے مٹکوں کے در میان شراب پیتے پیتے آنے والی موت بہترین موت سمجھی جاتی تھی اور جس علاقہ کو شراب کشید کرنے کا موجد اور شراب کی بہترین منڈی گردانا جاتا تھا، ایسابھی ہو سکتا ہے کہ گلی سے ایک شخص کی آواز آنے پر کہ ’’شراب حرام کی گئی ہے‘‘ شراب کے نشہ میں مست لوگ پہلے شراب کے مٹکے توڑیں اور پھر آواز کی صداقت کی تصدیق کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حقیقت یہی ہے۔ جس کا اظہار حضرت انسؓ کی روایت سےہوتاہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن ابوطلحٰہؓ کے مکان پر مجلس شراب لگی ہوئی تھی اور میں شراب پی رہا تھا۔ دَور پر دَور چل رہا تھا۔ نشہ کی وجہ سے لوگوں کے سر جھکنےلگے تھے کہ اتنے میں گلی میں کسی نے آواز دی کہ شراب حرام کی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا پتہ تو کرو کہ یہ بات درست ہے؟ مگر دوسرے لوگوں نے کہا نہیں پہلے شراب کے بر تن توڑ دو پھر تصدیق کرنا۔ اگر بات غلط ہوئی تو شراب اور آجائے گی لیکن اگر بات درست ہوئی تو کہیں ہم حکم رسولؐ کے نافرمان نہ قرار پائیں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں میں نے ایسا ہی کیا اور سونٹا مار کر شراب کے مٹکے توڑ دیئے۔

(بخاری کتاب المظالم باب صب الخمر فی الطریق)

عقل محو حیرت ہے کہ جب شراب کے جام لنڈ ھائے جارہے ہوں ایسے میں اطاعت کا یہ شاندارنمونہ کہ محض ایک منادی کرنے والے کے اعلان پر شراب کے مٹکے توڑ کر اسے بہا دیا جائے اور کسی قسم کی تصدیق و تحقیق کرنے کی بجائے تعمیل حکم کو اولیت دی جائے اطاعت کی یہ ادائیں حضرت محمدمصطفی کے تربیت یافتہ غلاموں میں ہی نظر آتی ہیں۔

صحابہ ؓ کی ادب و تعظیمِ رسول ؐ کے خوبصورت انداز

جب آنحضرت ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں رونق اَفروز ہوئے توآپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مکان میں قیام فرمایا۔ آپ مکان کے نیچے کے حصے میں ٹھہرے اور ابو ایوب مع عیال اوپر کے حصے میں رہے ایک رات ابو ایوب بیدار ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم رسول اللّٰہ ﷺکے مبارک وجودکے اوپر چلتے پھرتے ہیں ۔یہ کہہ کر انہوں نے اس جگہ سے ہٹ کر ایک جانب میں رات بسر کی۔پھر صبح کو آنحضرت ﷺ سے عرض کیا۔حضورؐ نے فرمایا کہ نیچے کے حصے میں میرے واسطے آسانی ہے۔انہوں نے عرض کیا کہ میں اس چھت پر نہیں چڑھتا جس کے نیچے آپ ہوں ۔پس آنحضرت ﷺ اوپر کے حصے میں تشریف لے گئے اورحضرت ابو ایوبؓ نیچے کے حصے میں چلے آئے۔حضرت ابو ایوبؓ حضورﷺ کے لئے کھانا بھیجا کرتے جو بچ کر آتا خادم سے دریافت کرتے کہ طعام میں حضور اقدس ﷺ کی انگلیاں کس جگہ تھیں ۔پھر اسی جگہ سے کھاتے۔ایک روز کھانا تیار کیا گیا جس میں لہسن تھا۔جب کھانا واپس آیا تو حضرت ابو ایوب ؓ نے حسب معمول خادم سے حضورﷺکی انگلیوں کی جگہ دریافت کی۔جواب ملا کہ حضورﷺ نے کھایا ہی نہیں ۔یہ سن کر حضرت ابو ایوب ؓ ڈر گئے اور اوپر جاکر عرض کیا کہ کیا یہ (لہسن) حرام ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا فرمایا کہ حرام تو نہیں لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا۔یہ سن کر انہوں نے عرض کیا کہ میں بھی اس چیز کو نا پسند کرتا ہوں جسے آپ ؐ ناپسند کرتے ہیں ۔

(مسلم کتاب الاشربہ باب اباحۃ اکل الثوم)

عہدِ بیعت اور اطاعت

انصار مدینہ نے عقبہ ثانیہ میں جو عہدِ بیعت باندھا تھا ہمیشہ اس کا حق ادا کرکے دکھایا۔غزوہ بدر کے موقع پر جب کفار مکہ کے حملہ کا خطرہ تھا نبی کریمﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ طلب فرمایا کہ آیا مدینہ کے اندر رہ کر اپنا دفاع کیا جائے یا مدینہ کے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ ہو۔ جب مہاجرین میں سے بزرگ صحابہ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور مقدادؓ بن عمرو مشورہ دے چکے تو نبی کریمﷺ انصار مدینہ کے ساتھ عقبہ میں کئے گئے معاہدہ کہ وہ مدینہ میں آپ کی حفاظت کریں گے کی روشنی میں انکی رائے بھی لینا چاہتے تھے اس لئے باربار فرماتے کہ ’’لوگو مشورہ دو۔‘‘

تب حضرت سعدؓ بن معاذ نے انصار کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے عرض کیا۔» یا رسول اللہ ﷺمعلوم ہوتا ہے آپ ہماری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس پر حضرت سعدؓ نے عرض کیا ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی اور گواہی دی کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم برحق ہے اور ہم نے اس پر آپ سے پختہ عہد کئے کہ ہمیشہ آپ کی بات سن کر فوراً اطاعت کریں گے۔ پس اے خدا کے رسول! آپ ؐ کا جوا رادہ ہے ا سکے مطابق آپ آگے بڑھیں انشاء اللہ آپ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔ اگر آپؐ اس سمندر میں کود جانے کیلئے ہمیں ارشاد فرمائیں تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا۔اور ہم کل دشمن سے مقابلہ کرنے سے گھبراتے نہیں۔ہم جنگ میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا خوب جانتے ہیں۔ ہمیں کامل امید ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ہم سے وہ کچھ دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔ پس اللہ کی برکت کے ساتھ آپ جہاں چاہیں ہمیں لے چلیں۔» رسول کریمﷺ حضرت سعدؓ کی یہ ولولہ انگیز تقریر سن کر بہت خوش ہوئے۔

(سیرۃابن ہشام جلد3ص 34)

اسی جنگ بدر کے موقعہ پر جب رسول خدا ؐنے لوگوں کو جنگ کے لئے بلایا تو حضرت مقداد بن اسودؓ نے صحابہ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے عرض کیا۔یا رسول الله ؐ!اگر جنگ ہوئی تو ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ

فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلا اِنَّا ھٰہُنَا قَاعِدُوْنَ

بلکہ خدا کی قسم ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور یا رسول اللهؐ دشمن جو آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔ یا رسول اللهؐ جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپؐ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں کود جاؤہم بلا دریغ سمندر میں کود جائیں گے۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد1ص453)

صحابہ کرام ؓنے صرف ایسا کہا نہیں بلکہ جب جنگیں ہوئیں تو ایسا کر کے دکھایا۔چنانچہ جنگ اُحد کا میدان اس بات کا گواہ ہے۔ ایسا دعوی ٰکرنے والے لوگ آپ کے آگے ،پیچھے، دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔اپنے جسموں کے ستر ستر ٹکڑے کروا لئے مگر آنحضور ﷺتک دشمن کو نہ پہنچنے دیا۔ جنگ حنین میں آنحضورﷺ کے اس اعلان پر کہ ’’اے وہ لوگو! جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے وہ لوگو! جو سورة بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔‘‘ صحابہؓ نے اپنی بےقابو سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور بھاگتے ہوئے حضور ؐکے قدموں میں جمع ہو گئے۔

ناپسندیدہ بات میں اطاعت کا امتحان

رسول کریمﷺ صحابہؓ سے خوشی وناخوشی ہر حال میں اطاعت کی بیعت لیتے تھے۔ نبی کریمﷺہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت طلحہ ؓ بن براء انصاری نو عمر لڑکے تھے،رسول اللہﷺ کو پہلی مرتبہ دیکھتے اور ملتے ہی حضور ؐکی گہری محبت ان کے دل میں گھر کر گئی جس کے نتیجہ میں وہ دیوانہ وار آپ کے قریب ہوکر چمٹ جاتے اور آپ کی قدم بوسی کرتے۔ نبی کریمﷺایک نوجوان لڑکے میں اچانک یہ تبدیلی پاکر حیران ہوئے اور مسکرائے بھی۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں میں کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا پھر عرض کیا کہ ’’اپنا ہاتھ بڑھائیں اور میری بیعت قبول کریں۔‘‘ ابھی ان کے والدین نے اسلام قبول نہ کیا تھا آپ نے ازراہ امتحان فرمایا کہ ’’خواہ میں والدہ سے قطع تعلق کا حکم دوں تو بھی مانو گے‘‘ یہ سوچ میں پڑ گئے کہتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ اپنی والدہ سے بہت محبت اور احسان کا سلوک کرنے والے تھے۔دوسری بار پھر بیعت کیلئے عرض کیاتو یہی جواب ملا۔ تیسری مرتبہ عرض کیا تو آپ نے پوچھا پھر کس چیز کی بیعت کرتے ہو۔ انہوں نے کہادین اسلام قبول کرنے اور آپ کی اطاعت کرنے کی بیعت! آپ نے فرمایا ’’اچھا جاؤ اور اپنے باپ کو قتل کرکے آؤ۔‘‘ اب طلحہ اٹھے اور تعمیل ارشادکیلئے چل پڑے۔رسول کریمﷺ نے فوراً واپس بلوایا اور فرمایا ’’مجھے قطع رحمی کرنے اور رشتوں کے کاٹنے کیلئے نہیں بھیجا گیا ۔ میں نے چاہا تھا کہ تمہاری آزمائش کروں کہ بیعت میں شک و شبہ کی کوئی کسر تو باقی نہیں۔‘‘

(المعجم الکبیر جلد8ص311)(اصابہ جز 3ص 525)

ناگوار حکم کی اطاعت

حضرت کعب بن مالکؓ کو جنگ تبوک میں باوجود استطاعت ہونے کے شمولیت نہ کرنے کی بناء پر جب خدا تعالیٰ کے حکم سے مقاطعہ کی سزا دی گئی تو اس شدید ابتلاء میں آپ ؓنے اطاعت کی بے نظیر مثال قائم فرمائی اوربیوی کو میکے بھجوا دیا۔

حضرت کعبؓ کے ابتلاء کے دوران جہاں حضرت کعبؓ کی اطاعت اور پختگی ایمان کے نظارے نظر آتے ہیں وہاں دوسرے صحابہؓ جو آپ کے قریبی رشتہ دار تھے ان کی اطاعت کا بھی بہترین نمونہ ہمیں دکھائی دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ابوقتادہؓ کا واقعہ اس کا مظہر ہے کہ جب حضرت کعبؓ نے بار بار خدا اور اس کے رسولؐ کا واسطہ دے کر ان سے ہم کلام ہونے کی کوشش کی اور ایک بات دریافت کی تو اطاعت کے اس پتلے نے سوائے اس کے انہیں کوئی جواب نہ دیا کہ خدا اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔

(بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک)

حضرت جریرؓ بن عبداللہ کوعہد بیعت کا خیال آخر دم تک تھاجسے خوب نبھایا۔ بہت باریکی سے اس کا خیال رکھتے کہتے تھے۔ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت سننے اور اطاعت کرنے پر کی تھی اور اس بات پر کہ ہر مسلمان کی خیرخواہی کروں گا‘‘۔

(بخاری کتاب الاحکام باب کیف یبایع الامام)

عراق وشام کی فتوحات حضرت خالد ؓبن ولید کی قیادت میں ہوئیں،جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیاتھا۔حضرت عمرؓ ان کی فن حرب کی صلاحیتوں اور شجاعت کے معترف تھے۔ انہیں کئی معرکوں کا قائد مقررفرمایا لیکن جب محسوس کیا کہ خلافت کے ادنیٰ اور مخلص غلام خالدؓ کے بارہ میں لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہورہی ہے تو ان کی جگہ حضرت ابوعبیدہؓ کو تو حضرت خالدؓ نے کمال اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اے مسلمانو! تم پر اس امت کے امین امیر مقرر ہوئے ہیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خالد ؓخدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔

امہات المؤمنین اور صحابیات کی اطاعتِ رسولؐ

حضرت زينبؓ بنت ابی سلمہ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کی بیوی حضرت زینبؓ بنت جحش کے پاس آئی جب ان کا بھائی فوت ہوا۔ انہوں نے تیسرے دن کے بعد کچھ خوشبو منگواکر لگائی۔پھر فرمایا کہ مجھے اس خوشبووغیرہ کی کوئی حاجت یا ضرورت نہ تھی مگر میں نے نبی کریم ﷺسے منبر پر سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے جس پر وہ چا ر ماہ دس دن سوگ کرے۔

(بخاری الطلاق باب تحد المتوفی عنھا زوجھا)

چنانچہ جب حضرت ام حبیبہؓ کے والد کی وفات ہوئی تو انہوں نے بھی تین دن کے بعد اپنے رخساروں پر خوشبو ملی اور کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہ تھی صرف رسول اللہﷺ کے حکم کی تعمیل مقصود تھی۔

(بخاری کتاب الجنائز باب حد المرأۃ علی غیر زوجھا)

حضرت عمر ؓ نے ایک جذام زدہ عورت کو طواف کر تےدیکھا تو (اس متعدی بیماری کے پھیلاؤ کے اندیشہ سے) اسے فرمایا اے خدا کی بندی! لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر تم اپنے گھر میں بیٹھتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ امیر المؤمنین کی یہ بات سن کر وہ عورت تعمیلِ ارشاد میں اپنے گھر جا کر بیٹھ گئی۔حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد کسی شخص نے اس عورت سے کہا کہ جس نے تجھے (طواف کرنے سے) منع کیا تھایعنی حضرت عمرؓ وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اب تم باہر نکل آؤ۔ وہ کہنے لگی! بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ زندگی میں تو اس خلیفہ کی اطاعت کروں اور مرنے کے بعد اس کی نافرمانی کروں۔ چنانچہ وہ عورت عمر بھر اس بیماری کی حالت میں گھر میں ہی رہی اور اسی حال میں وفات پائی۔

(موطا امام مالک کتاب المناسک باب جامع ما جاء في الحج)

یہ چند ایک واقعات صرف اس نقطہ نگاہ سے درج کیے گئے ہیں کہ بتایا جاسکے کہ دین متین کے وہ اولین حامل دینی امور میں خلفاء اور امراء کی آراء کے سامنے کس طرح اپنے علم و فضل کے خیال کو ترک کر کے بلاچون و چرا ان کے پیچھے ہو لیتے تھے۔ اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بحث یا تکرار کا خیال بھی دل میں نہ لاتے تھے بلکہ ان کا قرار واقعی ادب و احترام ملحوظ رکھتے تھےاور اس اصول پر ایمان رکھتے تھے کہ

؂ گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی

یعنی اگر مقام و مرتبہ کا خیال نہ رکھوگے تو زندیق اور بے دین شمار ہوگے۔

اور دراصل جب تک یہ روح موجود نہ ہو اور ذاتی آراء کے ماتحت خلفاء کے ساتھ اختلافات کا دروازہ کھول دیا جائے تو خلافت کا منشاء کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا اور تمکنت دین کا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔

الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زندگیوں میں ایک چیز ہمیں نہایت واضح نظر آتی ہے اوروہ یہ کہ وہ خلفاء اور امراء کی اطاعت سے کسی صورت میں بھی جی نہ چراتے تھے۔ اور اپنے علم و فضل کے باوجود ان کے ساتھ اختلاف کو گوارا نہ کرتے تھے۔ بلکہ ان کے پیچھے چل کر قومی وحدت کو برقرار رکھتے تھے اور یہی ایک چیز ہے جس نے اختلافات کے باوجود ان کے شیرازہ کو منتشرنہ ہونے دیا۔ اور من حیث القوم ان کو اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ اپنی کمی تعداد، غربت، بے بسی اور انتہائی کمزوری کے باوجود وہ بڑے بڑے طاقت ور دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب و کامران ہوتے تھے۔

اطاعت کا حقیقی مفہوم بیان کرتے ہوئے امام الزمان حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں:۔

’’اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سہل امر نہیں۔ یہ بھی ایک موت ہوتی ہے جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے ویسی ہی اطاعت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 74)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔

’’اطاعت صرف اپنے ذوق کے مطابق احکام پر عمل کرنے کا نام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنےکا نام ہے خواہ وہ کسی کی عادت یا مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ15)

یَا رَبِّ صَلّ عَلٰی نَبِیّکَ دَائِمًا

فِی هٰذه الدُّنْیا وَ بَعْثٍ ثَان

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button