طلاق کےلیے گواہی کا ہونا مستحب ہے لازمی نہیں
سوال: ایک خاتون نے نکاح اور طلاق کے بارے میں بعض سوالات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھجوا کر ان کے بارے میں راہنمائی چاہی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 17؍اگست 2020ء میں ان سوالوں کا تفصیلی جواب عطا فرماتے ہوئے درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
1۔ طلاق یا خلع کےلیے فریقین کا متفق ہونا یا اس کےلیے گواہوں کا ہونا ضروری نہیں۔ لیکن انعقاد نکاح کےلیے دونوں چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح فریقین کے مابین ایک معاہدہ ہے، جس کےلیے فریقین اور لڑکی کے ولی کی رضامندی اور گواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔ نیز اس معاہدے کے اعلان کا بھی حکم ہے۔
جبکہ نکاح کے معاہدہ کو ختم کرنے کا اختیار اسلام نے فریقین کو دیا ہےجسے اصطلاح میں خلع اور طلاق کہا جاتا ہے۔ عورت جس طرح اپنا نکاح خود بخود نہیں کر سکتی بلکہ اپنے ولی کے ذریعہ کرتی ہے، اسی طرح خلع کا استعمال بھی وہ بذریعہ قضاء یا حاکم وقت ہی کر سکتی ہےتا کہ خلع کی صورت میں اس کے حقوق کی حفاظت ہو سکے۔ جبکہ مرد جس طرح اپنے نکاح کا انعقاد اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ اسی طرح طلاق کا استعمال بھی وہ خودبخود کر سکتا ہے کیونکہ طلاق کی صورت میں عورت کے حقوق کی ادائیگی خاوند پر لازم ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلع اور طلاق کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے۔ اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تواسلامی اصطلاح میں اس کانام خُلع ہے۔ جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اُس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے ناقابل برداشت بدسلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے ناموافقت ہو یا وہ مرد دراصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اُس کے گھر میں آباد رہنا ناگوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اُس کے کسی ولی کو چاہیے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہوگا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کردے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اُس کی عورت کو اُس سے علیحدہ کیا جائے۔
اب دیکھو کہ یہ کس قدر انصاف کی بات ہے کہ جیسا کہ اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اُس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہوخود بخود اپنانکاح کسی سے کرلے ایسا ہی یہ بھی پسند نہیں کیا کہ عورت خود بخود مرد کی طرح اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جائے بلکہ جدا ہونے کی حالت میں نکاح سے بھی زیادہ احتیاط کی ہے کہ حاکم وقت کا ذریعہ بھی فرض قرار دیا ہے تا عورت اپنے نقصان عقل کی وجہ سے اپنے تئیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے۔ ‘‘(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ288، 289)
خلع کا انعقاد چونکہ بذریعہ قضاء ہوتا ہے، اس لیے اس میں خود بخود گواہی قائم ہو جاتی ہے۔ لیکن طلاق چونکہ اس طرح نہیں ہوتی اس لیے اگر میاں بیوی طلاق کےاجرا پر متفق ہوں اور ان میں کوئی اختلاف نہ ہو تو پھر گواہی کے بغیر بھی طلاق مؤثر ہو تی ہے۔ طلاق کےلیے گواہی کا ہونا مستحب ہے لازمی نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے طلاق اور رجوع کے سلسلے میں جہاں گواہی کا ذکر فرمایا ہے وہاں اسے نصیحت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ وَّ اَشۡہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ ؕ ذٰلِکُمۡ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ۔ (سورۃ الطلاق: 3)
یعنی پھر جب عورتیں عدت کی آخری حد کو پہنچ جائیں تو انہیں مناسب طریق پر روک لو یا انہیں مناسب طریق پر فارغ کردو۔ اور اپنے میں سے دو منصف گواہ مقرر کرو۔ اور خدا کے لئے سچی گواہی دو۔ تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتا ہے اس کو یہ نصیحت کی جاتی ہے اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال دے گا۔
فقہاء بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص بغیر گواہوں کے طلاق دےدے یا رجوع کر لے تو اس سے اس کی طلاق یا رجوع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
2۔ جہاں تک غصےکی حالت میں دی جانے والی طلاق کا معاملہ ہے توجب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ بیوی کی کسی ناقابل برداشت اور فضول حرکت پر ناراض ہو کر یہ قدم اٹھاتا ہے۔ بیوی سے خوش ہو کر تو کوئی انسان اسے طلاق نہیں دیتا۔ اس لیے ایسے غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر ہو گی۔
البتہ اگر کوئی انسان ایسے طیش میں ہو کہ اس پر جنون کی کیفیت طاری ہو اور اس نے نتائج پر غور کیے بغیر جلدبازی میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس جنون کی کیفیت کے ختم ہونے پر نادم ہوا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اسی قسم کی کیفیت کےلیے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا کَسَبَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ۔ (البقرہ: 226)
یعنی اللہ تمہاری قسموں میں (سے) لغو(قسموں ) پر تم سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ ہاں جو (گناہ) تمہارے دلوں نے (بالارادہ) کمایا اس پر تم سے مؤاخذہ کرے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بُردبارہے۔
3۔ شرطی طلاق بھی مقررہ شرط کے پورا ہونے پرمؤثر ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے شاگرد اور آپ کے آزاد کردہ غلام نافعؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر وہ باہر نکلی تو اسے طلاق ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فتویٰ دیا کہ اگر اس کی بیوی باہر نکلے گی تو اسے طلاق ہو جائے گی اور اگر وہ نہ نکلی تو اس پر کچھ نہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الطلاق)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اوروہ بات ہوجائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے۔ جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اورپھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ ‘‘(البدرنمبر 21 جلد 2 مؤرخہ 12؍جون 1903ء صفحہ162)
4۔ طلاق کےلیے پسندیدہ امر یہی ہے کہ خاوند ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا اورحمل کی حالت میں، حیض یا نفاس کے ایام میں طلاق دیتا ہے تو ایسی طلاق بھی مؤثر ہو گی۔ کیونکہ اگر صرف ایسے طہر میں دی جانے والی طلاق ہی مؤثر ہوتی جس میں خاوند نے تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو تو پھر قرآن کریم میں حمل والی عورت کی عدت طلاق کا بیان عبث ٹھہرتا ہے۔ پس قرآن کریم میں حمل والی عورتوں کی عدت طلاق کا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ حمل کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر قرار پاتی ہے۔
اسی طرح حیض میں دی جانے والی طلاق کے بارے میں کتب احادیث میں حضرت عبداللہ بن عمرؓکا یہ بیان مروی ہے کہ ان کی طرف سے بیوی کو اس کے ایام حیض میں دی جانے والی طلاق، ایک طلاق شمار کی گئی تھی۔ (صحیح مسلم کتاب الطلاق)
5۔ ایسی طلاق جس کے بعد بیوی پر عدت کا حکم لاگو ہوتا ہے، اس عدت کے بارےمیں قرآنی حکم ہے کہ اس دوران نہ خاوند بیوی کو گھر سے نکالے اور نہ بیوی اپنا گھر چھوڑ کر جائے، بلکہ عدت کا عرصہ وہ خاوند کے گھر میں ہی گزارے۔ چنانچہ فرمایا
لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخۡرُجۡنَ۔(الطلاق:2)
یعنی ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔
اسلام نےمطلقہ پر عدت کے دوران بناؤ سنگھار کرنے یا کام کاج اور دیگر ذمہ داریوں کی ادائیگی کےلیے گھر سے باہر جانے کے حوالے سے کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی جیسی پابندیاں اس نے بیوہ پر اس کی عدت کے دوران لگائی ہیں۔ بلکہ احادیث میں مطلقہ کےلیے اس کے برعکس حکم ملتا ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے ایک خاتون کوطلاق کی عدت کے دوران نہ صرف باہر جانے کی اجازت دی بلکہ اس پر پسندیدگی کا بھی اظہار فرمایا۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں:
طُلِّقَتْ خَالَتِي فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ فَأَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا۔ (صحیح مسلم کتاب الطلاق)
یعنی میری خالہ کو طلاق ہوئی اور وہ اپنا کھجور کا باغ کاٹنے نکل کھڑی ہوئیں۔ راستہ میں ایک شخص نے انہیں گھر سے باہرنکلنے پر ڈانٹا۔ اس پر وہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ تو حضورﷺ نے انہیں فرمایا کہ تم بیشک اپنا کھجور کا باغ کاٹو۔ شاید اس طرح تمہیں صدقہ دینے یا نیکی کرنے کا موقع مل جائے۔
7۔ خلع طلاق بائن کا حکم رکھتا ہے۔ یعنی اس کے بعد رجوع کےلیے تجدید نکاح لازمی ہے، اس کے بغیر رجوع نہیں ہو سکتا۔