احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد شاعری
شاعری بھی معلوم ہوتاہے کہ اس خاندان کوورثہ میں ملی تھی ۔حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے طبیعت رسا پائی تھی اور فارسی میں نہایت عمدہ شعر کہتے تھے۔آپؒ تحسین تخلص فرماتے تھے۔آپ کاکلام کسی دیوان کی صورت میں شائع نہیں ہو سکا۔آپ کا ساراکلام آپ کے پوتےحضرت خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحبؒ نے ایک مرتبہ جمع کیا تھا اور حافظ عمر دراز صاحب ایڈیٹر پنجابی اخبار مرحوم کو دیا تھا لیکن وہ ان سے کہیں گم ہو گیا۔حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بھی اس کوشش میں تھے کہ یہ کلام کہیں سے دستیاب ہوسکے۔محترم حضرت عرفانی صاحب ؓنے یہ تفصیل اپنی تصنیف ’’حیات احمد‘‘ جلد اول میں دی ہے جہاں یہ بھی لکھاہے کہ
’’تاہم راقم اس کوشش اور فکر میں ہے۔کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب قبلہ کے کلام کو پھر جمع کرے۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول صفحہ52)
نہ معلوم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ اپنے اس مقصد میں کس حدتک کامیاب ہوسکےکیونکہ ابھی تک کوئی ایسا دیوان منظرعام پر نہیں آیا۔
آپؒ کے بعض اشعار حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے درج فرمائے ہیں۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے۔
از درِ تو اے کسِ ہر بیکسے
نیست امیدم کہ روم نا امید
اور کبھی درد دل سے یہ شعر اپنا پڑھا کرتے تھے۔
بآب دیدۂ عشاق و خاکپائے کسے
مرا دلے ست کہ درخوں تپد بجائے کسے‘‘
(کتاب البریہ صفحہ 156حاشیہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ189حاشیہ)
[ترجمہ از مرتب: اے ہر بے سہاروں کے سہارے ! مجھے ہرگز امیدنہیں کہ مَیں تیرے دَر سے ناامید جاؤں گا ۔
کوئی تو عاشقوں کی آنکھوں کا پانی اور کوئی ان کی خاکِ پا ہوتاہے۔لیکن میری دلی تمنا ہے کہ کسی اور کی بجائے میں خون میں تڑپوں ]
دو اور شعر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحبؒ کی روایت سے’’سیرت المہدی‘‘ میں درج ہیں وہ یہ ہیں:
’’اے وائے کہ مابہ ماچہ کردیم
کردیم ناکردنی ہمہ عمر
دردِ سَر من مشو طبیبا
ایں دردِ دل است دردِسر نیست‘‘
[ترجمہ از مرتب: وائے افسوس! کہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا۔ ساری عمر وہی کرتے رہے جو نہ کرنا چاہئے تھا۔
اے طبیب !میرے اس درد سر کو درد سر نہ کہو ۔ یہ درد دل ہے درد سر نہیں]
اسی طرح اسی روایت میں انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ ایک ایرانی قادیان میں آیا تھا وہ داداصاحب [حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ]سے کہتا تھا کہ آپ کا فارسی کلام ایسا ہی فصیح ہے جیسا کہ ایرانی شاعروں کا ہوتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر215)
خدمت خلق اور رعایا پروری
مخلوق خداکی ہمدردی کاجذبہ بھی آپ کے اندر بدرجۂ اتم موجودتھا۔ایک ریاست کے سربراہ اور شاہی خاندان کے فردہونے کے ساتھ ساتھ آپ انگریزی حکومت کے ایک وفادار ساتھی سمجھے جاتے تھے۔اورایک بارعب شخصیت تھے۔لیکن ان تمام فضائل کے باوجودآپ غریب اوربے کس لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے۔آپ کی طبابت کے ذکر میں یہ بیان ہواہے کہ آپ بٹالہ میں قیام فرماتھے کہ آپ کو معلوم ہواکہ قادیان میں چوہڑوں کے محلہ میں ہیضہ کی وبا پھوٹ پڑی ہے تو آپ فوراً واپس تشریف لائے اور سیدھے ان کے محلہ میں گئے وہاں رکے لوگوں سے ہمدردی کا اظہار فرمایا اور دوائی تیارکی اورسب کو دی ،جس سے یہ وبا ختم ہوگئی۔
(سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر 235)
لیکن اس کے علاوہ بھی جب بھی آپ کی رعایاکوکوئی ضرورت ہوتی تو یہ حاکم
سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُہُمْ
کے مصداق اپنی رعایاکی دادرسی اور نفع رسانی کے لئے حاضرہوتا۔
( کنز العمال کتاب السفر…جزء 6حدیث نمبر 17514)
ایک حجام کی سفارش
’’ایک مرتبہ ایک نائی نے جس کی معافی ضبط ہو گئی تھی حضرت مرزا صاحب سے کہا۔کہ آپ میری سپارش ایجرٹن صاحب سے کر دیں۔جو اس وقت فنانشل کمشنر تھے۔ اور بعد میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب ہو گئے۔چنانچہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اسےساتھ لے کر لاہور گئے۔شالا مار باغ میں جلسہ تھا۔جب جلسہ ہو چکا۔تو آپ نے مسٹر ایجرٹن سے کہا۔کہ آپ اس شخص کی بانہہ(ہاتھ) پکڑ لیں۔ایجرٹن صاحب نے ہر چند کہا۔کہ اس کا کیا مطلب ہے۔مگر آپ نے یہی فرمایا۔کہ نہیں اس کی بانہہ پکڑ لو۔ آخر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔کیونکہ ان کی بات رد نہیں کی جاتی تھی۔ جب انہوں نے ہاتھ پکڑ لیا۔تب کہا۔کہ ہمارے ملک میں دستور ہے کہ جس کی بانہہ یعنی ہاتھ پکڑتے ہیں۔ پھر خواہ سر چلاجاوے۔تو اس کو چھوڑتے نہیں۔اب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا ہے۔تو اس کی لاج رکھنا۔اور یہ کہہ کر کہا۔کہ اس کی معافی ضبط ہو گئی ہے۔کیا معافیاں دے کر بھی ضبط کیا کرتے ہیں؟ بحال کردو!ایجرٹن صاحب نے دوسرے دن اس کی مسل طلب کی اور معافی بحال کر دی۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول صفحہ59-60)
حضرت مصلح موعودؓ نے اسی قسم کاایک واقعہ یوں بیان فرمایاہے ۔ آپ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک قصہ سنایا کرتے تھے۔ میاں بدر محی الدین صاحب جو بٹالہ کے رہنے والے تھے۔ ان کے والدجن کا نام غالباً پیر غلام محی الدین تھا۔ ہمارے دادا کے بڑے دوست تھے۔ اس زمانہ میں لاہور کی بجائے امرتسر میں کمشنری تھی اور کمشنر موجودہ زمانہ کے گورنر کی طرح سمجھا جاتا تھا اور امرتسر میں اپنادربار لگایا کرتا تھا جس میں علاقہ کے تمام بڑے بڑے رؤسا شامل ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ امرتسر میں دربار لگا تو ہمارے دادا کو بھی دعوت آئی اور چونکہ انہیں معلوم تھا کہ پیر غلام محی الدین صاحب بھی اس دربار میں شامل ہوں گے اس لئے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بٹالہ میں ان کے مکان پر پہنچے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی پیر غلام محی الدین صاحب کے پاس کھڑا ہے اور وہ اس سے کسی بات پر بحث کر رہے ہیں۔ جب انہوں نے دادا صاحب کو دیکھا تو کہنے لگے۔ مرزا صاحب دیکھئے یہ میراثی کیسا بیوقوف ہے کمشنر صاحب کا دربار منعقد ہو رہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ وہاں جا کر کمشنر صاحب سے کہا جائے کہ گورنمنٹ نے اس کی 25 ایکڑ زمین ضبط کر لی ہے۔ یہ زمین اسے واپس دے دی جائے۔ بھلا یہ کوئی بات ہے کہ دربار کا موقعہ ہو اور کمشنر صاحب تشریف لائے ہوئے ہوں اور ایک میراثی کو ان کے سامنے پیش کیا جائے اور سفارش کی جائے کہ اس کی 25 ایکڑ زمین جو اسے اس کے کسی ججمان نے دی تھی ضبط ہوگئی ہے اسے واپس دی جائے۔ چونکہ وہ پیر تھے۔ گو درباری بھی تھے اس لئے انہیں یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی۔ دادا صاحب نے اس میراثی سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ وہ اسے ساتھ لے کر امرتسر پہنچے جب کمشنر صاحب دربار میں آئے تو درباریوں کا ان سے تعارف کرایا جانے لگا۔ جب دادا صاحب کی باری آئی تو انہوں نے کمشنر صاحب سے کہا کہ ذرا اس میراثی کی بانہہ پکڑ لیں وہ کہنے لگا مرزا صاحب اس کا کیا مطلب انہوں نے کہا آپ اس کی بانہہ پکڑ لیں میں اس کا مطلب بعد میں بتاؤں گا۔ چنانچہ ان کے کہنے پر اس نے اس میراثی کی بانہہ پکڑ لی۔ اس پر ہمارے دادا صاحب کہنے لگے ہماری پنجابی زبان میں ایک مثال ہے کہ’’بانہہ پھڑے دی لاج رکھنا‘‘ کمشنر پھر حیران ہوا اور کہنے لگامرزا صاحب اس کا کیا مطلب ہے اس پر دادا صاحب نے کہا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب آپ نے ایک شخص کا بازو پکڑا ہے تو پھر اس بازو پکڑنے کی لاج بھی رکھنا۔ اور اسے چھوڑنا نہیں۔ وہ کہنے لگا مرزا صاحب آپ یہ بتائیں کہ اس سے آپ کا مقصد کیا ہے انہوں نے کہا اس کی 25 ایکڑ زمین تھی جو اسے اس کے کسی ججمان نے دی تھی اور حکومت نے اسے ضبط کر نے کا حکم دے دیا ہے۔ ہمارے مغل بادشاہ جب دربار لگایا کرتے تھے تو اس موقعہ پر ہزاروں ایکڑ زمین لوگوں کو بطور انعام دیا کرتے تھے لیکن یہ غریب حیران ہے کہ اس کے پاس جو 25 ایکڑ زمین تھی وہ ضبط کر لی گئی ہے۔ کمشنر پر اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے اسی وقت اپنے منشی کو بلایا اور کہا یہ بات نوٹ کر لو اور حکم دے دو کہ اس شخص کی زمین ضبط نہ کی جائے۔‘‘
(الفضل یکم مارچ 1957ء صفحہ 5 – 6 جلد11/46شمارہ نمبر52)
تکیہ کلام
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کا تکیہ کلام ’’ہے بات کہ نہ ‘‘ تھا۔ اور کثرت استعمال میں’’ہے با کہ نہ ‘‘سمجھاجاتا تھا۔
(ملخص سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر 223، ملخص ’’براہین احمدیہ‘‘(حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات)شائع کردہ حضرت معراج الدین عمرصاحب ؓ صفحہ67)
رعب وشوکت
آپ ایک بارعب شخصیت کے مالک تھے۔اس سے پہلے متعدد واقعات بیان ہو چکے ہیں کہ بڑے بڑے انگریز حکمران بھی آپ کے رعب اور دبدبہ اورجرأت سے مرعوب ہوجایاکرتے تھے۔ لیکن آپ کا یہ رعب ایک خوبصورت توازن رکھتاتھا۔اور یہ رعب خاص طورپر امراء اور متکبر لوگوں کے لیے توایک اور رنگ رکھتاتھا لیکن غرباء اور مسکین لوگوں کے لیے یہ رعب محبت اورشفقت اورہمدردی کے رنگ میں رنگین ہوتا تھا۔ آپ کی اس صفت کا اظہار کرتے ہوئے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓبیان فرماتے ہیں کہ
’’(حضرت) مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا چہرہ پُررعب اور پُرشوکت تھا۔اور کسی شخص کو یہ جرأت نہ تھی۔کہ ان سے آنکھ ملا کر گفتگو کر سکے۔اور نہ کسی کا یہ حوصلہ ہوتا تھا۔کہ بلا تکلف ان کے مکان پر چلا جاوے۔ بلکہ سیڑھیوں پر جانے سے پہلے دریافت کر لیتا۔اور پھر بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہوئے ڈرتا تھا۔ بڑے آدمیوں میں چونکہ نخوت اور تکبر ہوتا ہے۔اس لئے اس کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہتے۔علاج کے لئے جو لوگ آتے ان میں سے بھی غرباء کی طرف پہلے توجہ کرتے۔ اور اگر معمولی ملاقات کے لئے بڑے آدمی (جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے ) آتے۔تو ان کواپنا حقہ نہیں دیتے تھے…۔ہاں اپنے معمولی ملازموں اور خادموں تک کو دے دیتے۔اور ان کے ساتھ نہایت شفقت اورخندہ پیشانی سے پیش آتے۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول صفحہ62۔63)
(باقی آئندہ)