احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد
جرمانہ بلا طلب مسل معاف ہوگیا
آپ کے رعب اور عزت وتکریم کا ایک اورنظارہ ہم دیکھتے ہیں کہ’’ایک موقعہ پر ڈیوس صاحب اس ضلع گورداسپور میں مہتمم بندوبست تھے۔بٹالہ میں جہاں انار کلی واقعہ ہے۔ان کا عملہ کام کرتا تھا۔قادیان کا ایک برہمن جو محکمہ بندوبست میں معمولی ملازم تھا۔مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ جو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے بڑے بیٹے تھے۔گستاخانہ رنگ میں پیش آیا۔مرزا غلام قادر صاحب جو بڑے قوی ہیکل اور سپاہیانہ رنگ کے نوجوان تھے… گستاخانہ لہجہ کو برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے وہیں اس گستاخ زبان دراز کو سیدھا کر دیا۔معاملہ بڑھ گیا۔اور ڈیوس صاحب نے ان پر ایک سو روپیہ جرمانہ کردیا۔مرزا غلام مرتضیٰ صاحب امرتسر میں تھے۔وہ فوراً ڈیوس صاحب کے پاس گئے۔اور ان کو اس واقعہ سے اطلاع دی۔انہوں نے جناب مرزا صاحب کی دلجوئی اور اس خاندان کے اعزاز کو قائم رکھنے کے لئے بلا طلب مسل جرمانہ معاف کر دیا‘‘
(حیات احمدؑجلداول صفحہ60)
یہ واقعہ اس امر کی غمازی بھی کرتاہے کہ آپ کو اپنی اولاد کی عزت نفس اور خاندانی وجاہت کا خیال بھی تھااسی لئے آپ فوری طورپر انگریز افسر کے پاس گئے۔اس کے ساتھ یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اپنی اولادسے محبت تو کرتے تھے لیکن آنکھیں بند کرکے ایسی محبت کرنا کہ اولاد بگڑجائے جیساکہ نوابوں اورریاستوں کے شہزادے بگڑجایاکرتے تھے ایسا بھی نہ تھا۔
اولاد سے محبت اور تربیت
اولاد سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے ہم مندرجہ بالا مضمون کے تسلسل کو بحال رکھتے ہوئے پہلے ایک ایسے ہی واقعہ کا اظہار کریں گے کہ جس سے یہ عیاں ہوتاہے کہ آپ اپنی اولادسے ایسی محبت رکھتے تھے جو انہیں ایک فرض شناس،مؤدب اور خوددار انسان بنائے۔اس ضمن میں ایک واقعہ ہم پڑھتے ہیں جسے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ نے لکھاہے۔وہ بیان فرماتے ہیں :
’’مرزا غلام قادر صاحب محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر تھے اور ضلع گورداسپور میں نسبٹ(NISBAT)صاحب ڈپٹی کمشنر تھے۔ایک مرتبہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں معطل کر دیا۔اور پھرجب وہ قادیان آیا اور حضرت مرزا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ تو خود نسبٹ صاحب نے کہا۔کہ میں نے غلام قادر کو معطل کر دیا ہے۔اس پر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے جو جواب دیا۔وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اور نسبٹ صاحب نے جو اس کی قدر کی وہ دنیا میں ہمیشہ واجب العزت رہے گی۔ مرزا صاحب نے فرمایا۔اگر قصور ثابت ہے۔تو ایسی سخت سزا دینی چاہیے کہ آئندہ شریف زادے ایسا قصور نہ کریں۔ڈپٹی کمشنر نے یہ سن کر مسل میں لکھ دیا کہ ’’جس کا باپ ایسا ادب دینے والا ہو اس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں‘‘
(حیات احمدؑجلداول صفحہ 61)
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب خود ایک عالم اور علم سے محبت رکھنے والے انسان تھے اور اپنی اولادکو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کرنے کا ازحدخیال تھا۔ اسی لیے آپ نے مختلف علاقوں کے بہترین اساتذہ کا انتخاب کیا اور بھاری معاوضہ دے کر قادیان بلایا کہ وہ یہاں رہ کر ان کو تعلیم دے سکیں۔مختلف مضامین پڑھانے کے لئے وقتاً فوقتاً تین اساتذہ (محترم فضل الٰہی صاحب،محترم فضل احمدصاحب اور محترم گل علی شاہ صاحب) قادیان میں رہ کر آپ کے صاحبزادگان کو پڑھاتے رہے۔اور طبابت کی بعض کتابیں توآپ نے خود پڑھائیں۔چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام فرماتےہیں :
’’اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘
(کتاب البریہ ،روحانی خزائن جلد13 صفحہ181 حاشیہ)
اولاد سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے ایک بیٹے صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب تو حسب منشائے والد بزرگوار خوب دنیاداری کے کاموں میں مصروف ہوگئے اوردنیاوی عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ لیکن آپ کے چھوٹے صاحبزادے،یعنی حضرت اقدس علیہ السلام چونکہ اس دنیاداری کے لیے پیداہی نہیں ہوئے تھے،آپؑ کامربی ورہنماتوخودخداتھا اوراسی کی رہنمائی کے تابع آپؑ کا رجحان شروع سے ہی قرآن کریم اورمذہبی کتب کے مطالعہ اور عبادت کرنے کے سوااورکوئی تھا ہی نہیں اس لیے آپ کے والد ماجد اپنے اس بیٹے کے لیے زیادہ فکرمند رہتے تھے۔کبھی یہ فکر اور غم کہ یہ بیٹا پڑھتا بہت ہے نصیحت کرتے کہ تھوڑا پڑھاکریں کہیں صحت پر براثر نہ پڑے اور کبھی یہ فکر کہ کمائے گا کہاں سے اورکھائے گاکہاں سے۔اس لیے ملازمت کی ترغیب وتحریض دلانے میں بھی کوشاں رہتے۔چونکہ حضرت اقدسؑ ایک عبادت گزار فرزند تھے اس لیے آپ کے والد بزرگوار کو آپ سے محبت بھی ایک عجیب طرز کی تھی۔ایک طرف نوکری پہ زبردستی لگواتے اور پھر اپنے اس صاحبزادے کی دوری اورفراق بھی قابل برداشت نہ تھا۔حضرت اقدس علیہ السلام والد ماجدکے پرزوراصرار پر اطاعت وفرمانبرداری کے جذبہ کے تحت 1860ء کے لگ بھگ سیالکوٹ میں ملازم ہوئے تو تھوڑے ہی عرصہ ،یعنی چندسال کے بعد والد صاحب نے انہیں واپس بلالیا۔
اپنے والدمحترم کی اسی محبت اورمہربانی کا ذکر کرتے ہوئے خودحضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی … وہ چاہتے تھے کہ…میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سےبرّ بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف صحیح اور سچ بات یہی ہے ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ان کے زیرسایہ ہونے کے ایّام میں چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی۔ آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشاء کے موافق تھا میں نے استعفا دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔‘‘
(کتاب البریہ ،روحانی خزائن جلد13 صفحہ 182۔185 حاشیہ)
اپنی اولاد سے محبت کا ایک یہ پہلو بھی اس شفیق باپ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بچہ بیمار ہوتاہے تو خود اس کے علاج کے لئے مستعدہوجاتے اور بڑی محبت اور محنت سے علاج فرماتےہیں ۔ سیرت المہدی کی یہ روایت اس کے متعلق ہماری راہنمائی کرتی ہے۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب ؒ بیان فرماتے ہیں :
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت صاحب کو سل ہوگئی اور چھ ماہ تک بیمار رہے اور بڑی نازک طبیعت ہوگئی۔ حتّٰی کہ زندگی سے ناامیدی ہوگئی چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے چچا آپ کے پاس آکر بیٹھے اور کہنے لگے کہ دنیا میں یہی حال ہے سبھی نے مرنا ہے کوئی آگے گذر جاتا ہے کوئی پیچھے جاتا ہے اس لئے اس پر ہراساں نہیں ہونا چاہیئے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا خود حضرت صاحب کا علاج کرتے تھے اور برابر چھ ماہ تک انہوں نے آپ کو بکرے کے پائے کاشوربا کھلایاتھا۔خاکسار عرض کرتاہے کہ اس جگہ چچا سے مراد مرزا غلام محی الدین صاحب ہیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر66)
ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو اپنے بچوں کی تعلیم اورحصول علم کا بہت اشتیاق تھا۔اوراسکے لیے مختلف اساتذہ کا انتظام کیاگیاتھا۔البتہ تعلیم اورعلم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں سے محبت کا یہ پہلو بھی غالب تھا کہ مطالعہ میں اتنا زیادہ شغف نہ ہوکہ خرابیٔ صحت کا اندیشہ ہو۔آپ اس کا بھی خیال رکھتے۔چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام کی سوانح میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کو مطالعہ میں ازحدشغف تھا اوراسی قدر آپ کے والد ماجد آپ کے متعلق فکرمند رہاکرتے تھے۔باپ کی اس محبت اور بیٹے کے شوق مطالعہ کامنظر دیکھیے…ایک چشمدید راوی کا بیان ہے کہ مرزاصاحب [حضرت اقدس علیہ السلام] کے اردگرد کتابوں کاڈھیر لگا رہتا تھا۔ اور ایک اورچشم دید راوی نے بیان کیا کہ آپؑ کے والدماجد جب آپ کے کثرت مطالعہ کو دیکھتے تو اس راوی کو یہ کہتے ہوئے فرماتے کہ ’’سنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے؟……اور……کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے۔‘‘
( حیات احمد جلداوّل صفحہ436)
ایک پنڈت صاحب نے بتایا کہ مرزا صاحب کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ
’’غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے۔ اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں۔ جب مَیں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر759)
حضرت اقدس علیہ السلام ایک جگہ خودبیان فرماتے ہیں :
’’اوران دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔میرے والد صاحب مجھے باربار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے…‘‘
(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ181حاشیہ)
اوردوسری طرف آپ کے والدمحترم اپنے بیٹے کی اس زندگی پرمطمئن اورخوش بھی تھے بلکہ رشک بھی کرتے تھے۔چنانچہ حضور علیہ السلام بیان فرماتے ہیں :
’’اُن دنوں میں جبکہ دنیوی مقدمات کی وجہ سے والدصاحب اوربھائی صاحب طرح طرح کے ہموم وغموم میں مبتلا رہتے تھے وہ بسا اوقات میری حالت دیکھ کررشک کھاتے اورفرمایاکرتے تھے کہ یہ بڑاہی خوش نصیب آدمی ہے۔اس کے نزدیک کوئی غم نہیں آتا۔‘‘
( ملفوظات جلداول صفحہ 326)
ایک اورمعززہندوجاٹ جوکہ آپ سے عمرمیں کوئی بیس برس بڑاتھااورحضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے ہاں ان کاآناجاناتھاوہ بیان کرتےہیں کہ بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’یہ میرابیٹا ملّا ہی رہے گا…… ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسرکرے گا۔ہےتویہ نیک،صالح مگراب زمانہ ایسوں کا نہیں چالاک آدمیوں کاہے۔پھر آب دیدہ ہوکر کہتے کہ جو حال پاکیزہ غلام احمدکاہےوہ ہماراکہاں ہے۔یہ شخص زمینی نہیں آسمانی، یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے۔‘‘
(تذکرة المہدی حصہ دوم صفحہ302)
(باقی آئندہ)