امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ نائیجیریا کی (آن لائن)ملاقات
امام جماعت احمديہ حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے 8؍جنوری 2022ء کو ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ نائیجیریا کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ 40 سے زائد ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ نےاجوکورو، لیگوس نائیجیریا سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ایک طفل نے سوال پوچھا کہ جب سکول میں کسی کو تنگ کیا جائے اور اس کو دھمکی دی جائے کہ وہ اپنے والدین کو یہ بات نہ بتائےورنہ اسے اور مار پیٹ کا نشانہ بنایا جائے گا تو اسے کیا کرنا چاہیے؟
حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو کسی سے بھی ڈرنا نہیں چاہیے۔ آپ کو اپنے والدین اور اساتذہ کو بھی مطلع کرنا چاہیے۔ آپ متعلقہ افراد کو بھی یہ بتا سکتے ہیں کہ فلاں شخص نے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نےاس کے متعلق کسی کو مطلع کیا تو وہ مجھے اَور تنگ کرے گا اور مجھے اَور مار پیٹ کا نشانہ بنائے گا۔ تو احمدیوں کو کسی سے بھی خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ اپنے سکول کے ماحول کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو بہادر بننا ہو گا۔
ایک اور طفل نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شادی سے قبل ذریعہ معاش کیا تھا؟
حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے والد صاحب نے آپ کو تعلیم دینے کے لیے تین اساتذہ مقرر فرمائے تھے۔ اور پھر جب انہوں نے وہ تعلیم مکمل کی تو پھر ان کے والد صاحب نے ان کے لیے حکومتی ادارہ یعنی عدالت میں نوکری کا انتظام فرمایا۔ اس کے لیے آپ سیالکوٹ میں رہتے تھے۔ تو آپ وہاں عدالت میں نوکری کرتے تھے اور یہ ان کی آمدنی کا ذریعہ تھا۔ لیکن اس وقت بھی جب وہ سیالکوٹ میں نوکری کر رہے تھے تو وہ ہمیشہ عیسائی پادریوں کے ساتھ بحث مباحثہ کرتے۔ کئی عیسائی پادری ہیں جن کے ساتھ آپ نے مباحثے کیے۔ تو اپنی ابتدائی نوجوانی ہی میں آپ علیہ السلام تبلیغ کرتے اور عیسائی احباب سے بحث مباحثے کرتے۔ آپ اُس وقت بھی اسلام کے عظیم علم بردار تھے اور آپ اپنی نوکری سے بھی آمدنی کماتے تھے۔ آپ کے والد صاحب بڑے امیر شخص تھے جو اس علاقے کے زمین دار تھے۔ جب آپ کے والد صاحب کا وصال ہوا تو آپ نے ان کی جائیداد سے بطور وراثت حصہ پایا اور بعد میں اپنے بھائیوں کی وراثت سے بھی حصہ پایا۔ آپ کی جو بھی آمدنی تھی آپ اسے ان لوگوں کی مہمان نوازی میں خرچ کرتے جو آپ سے آکر ملا کرتے۔ آپ کی دو بیویاں تھیں۔ آپ کی پہلی شادی نوجوانی کی عمر میں اور اپنے والد صاحب کی زندگی میں ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے ہوئے۔ پھر بعد میں آ پ نے دوسری شادی کی جن سے کئی بچے پیدا ہوئے۔ ان میں سے پانچ بچوں نے لمبی زندگیاں پائیں۔ اس وقت آپ کی آمدنی کا ذریعہ آپ کی جائیداد تھی جو انہوں نے وراثتاً اپنے والدین اور بھائیوں سے پائی۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ وہ کس طرح متقی بن سکتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو (بھی احکام) فرمائے ہیں، ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم میں ہمیں بہت سے احکامات دیے گئے ہیں اور چند بنیادی چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم ان (احکامات) پر عمل کروگے تو متقی بنو گے۔ پانچ وقت کی نماز ادا کرو اور اگر ممکن ہو تو با جماعت اور مستقل مزاجی سے ادا کرو اور پوری توجہ سے ادا کرو۔ ساری توجہ اسی پر مرکوز کریں جو (نماز میں) پڑھ رہے ہیں۔ پھر روزانہ تلاوت قرآن کریم کریں اور جو حصہ پڑھیں اس میں توجہ اس بات پر رکھیں کہ ہمیں کیا حکم دیا جا رہاہے اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ دوسروں کو اچھی باتیں بتانے کی کوشش کریں ۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ اپنی پڑھائی پر زور دیں کیونکہ تعلیم بھی ایسی چیز ہے جو فرض ہے اور ہر متقی شخص کو اس فرض کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد آپ احمدیہ مسلم جماعت کے لیے ایک مفید سرمایہ بن سکتے ہیں اور اپنے ملک کے لیے بھی۔ تو یہ سب چیزیں مل کر آپ کو متقی بناتی ہیں۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ کون سی دلیل سب سے طاقتور ہے جسے ہم اپنے غیر احمدی دوستوں کو یہ باور کروانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں کہ امام مہدی کی آمد ہوچکی ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، بہت سے غیر احمدی یا دوسرے مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح اور مہدی کی آمد ہوگی اور وہ یہ مانتے ہیں کہ وہی مسیح یعنی عیسیٰ آسمان سے دوبارہ اتریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی بھی شخص دائمی زندگی نہیں گزار سکتا اور جب انسان اپنی زندگی جیتا ہے تو اس نے اپنی زندگی اس دنیا میں ختم بھی کرنی ہوتی ہے۔ ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور ﷺآخری نبی ہیں اور وہ ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے، ہر نبی سے زیادہ محبوب تھے۔ تو اللہ تعالیٰ تمام انبیاء میں سے سب سے زیادہ محبت آپ سے کرتا تھا۔ تو اگر یہ ممکن ہوتا کہ خدا تعالیٰ کسی کو (جسم عنصری کے ساتھ) آسمان میں لے جاتا تو وہ آنحضورﷺ ہوتے نہ کہ حضرت عیسیٰ۔ پھر آنحضرتﷺ نے خود سورۃ الجمعہ کی آیت وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ آخری زمانے میں انہی کی مانند لوگوں میں ایک شخص ظاہر ہوگا تو آنحضورﷺ کے صحابہ نے دریافت کیا کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ اور وہ شخص کون ہوگا جو آخری زمانہ میں اس دنیا میں ظاہر ہوگا؟ جب صحابہ نے یہ سوال تین دفعہ پوچھا تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر رکھ کر فرمایا کہ سلمان فارسی کی نسل میں سے کوئی شخص آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص عرب نہیں ہوگا۔ مہدی اور مسیح ان کی نسل میں سے ظاہر ہوگا۔ اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب مسیح موعود دعویٰ کریں گے کہ وہ مسیح موعود اور مہدی ہیں تو آسمانی نشان ظاہر ہوگا اور وہ آسمانی نشان سورج اور چاند کا رمضان میں مخصوص تاریخوں اور دنوں میں گرہن لگنا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نشان پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی چاند اور سورج گرہن کی ، ان ایام میں 1894ء میں پوری ہوئی۔ جب مسیح موعود ہونے کا دعویدار پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ زمین کے مشرقی اور مغربی حصہ میں۔ اور یہ اخبارات میں محفوظ ہے کہ یہ ہوا تھا چنانچہ یہ امور ہیں جو واقع ہو چکے ہیں۔ اور کوئی اور مسیح موعود ہونے کا دعویدار نہیں ہے۔ عیسیٰ آسمان سے نازل نہیں ہوئے ہیں۔ چنانچہ صرف ایک دعویدار ہے۔ پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور اللہ تعالیٰ پور ی کر رہا ہے۔ چنانچہ یہ امور ہیں جو ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائیں کہ مسیح موعود جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے آچکے ہیں اور آپ ہی سچے دعویدار ہیں۔ آنحضرتﷺ نے ہمیں یہ بھی فرمایا تھا کہ مسیح موعود اور مہدی چودھویں صدی میں ظاہر ہوں گے۔ اب چودھویں صدی بھی گزر چکی ہے۔ صرف ایک وجود ہے جو دعویدار ہےاور ہم کہتے ہیں کہ آپ کی جماعت دن بدن ترقی کررہی ہے چنانچہ یہ ظاہر ہے کہ آپ ہی حقیقی وجود ہیں اور وقت بھی گزر چکاہے اور اب کوئی اور وجود نہیں آئے گا۔ چنانچہ آپ صرف ان سے بحث کر سکتے ہیں لیکن وہ جو سخت ہیں، وہ کسی بات کو ماننا نہیں چاہتے وہ بہت ضدی ہیں۔ آپ انہیں زبردستی نہیں منوا سکتے۔ لیکن بہت سے دلائل ہیں۔ آپ جماعت کا لٹریچر پڑھ سکتے ہیں وہاں آپ مزید دلائل دیکھیں گے۔ آسمانی نشان ہیں اور دنیاوی نشان بھی ہیں۔ ان میں سے بہت سے پورے ہو چکے ہیں۔
ایک اَور طفل نے سوال کیا کہ سائبر کرائم نائیجیریا میں نوجوانوں کو اثر انداز کر رہاہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ جب نوجوان لوگ بہت زیادہ آن لائن گیموں میں مشغول ہوں گے تو یہ انہیں اس اندھیرے راستے پر ڈال دیں گے جو آن لائن جرائم اور برائیوں کا راستہ ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ میں یہ بات ایک لمبے عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ آپ آن لائن گیموں میں مشغول نہ ہوں جو آپ کو گمراہی کے راستے پر ڈال سکتی ہیں اور سیدھے راستے سے ہٹا سکتی ہیں۔ جو لوگ اس طرح کی گیمیں آن لائن بنا رہے ہیں وہ در اصل لوگوں کی زندگی کو تباہ کر رہے ہیں اور نوجوان لوگ ایسی آن لائن گیموں کے عادی بنتے جا رہے ہیں۔ اور جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا جاتا ہے تو وہ بعض دوسری بری چیزوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس لیے احمدی مسلمانوں کو ایسی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے جو لوگوں کو سائبر کرائم کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس لیے ایسی چیزوں سے پرہیز کرنے کی کوشش کریں تاکہ محفوظ رہ سکیں۔ انٹرنیٹ پر صرف اچھے پروگرام دیکھنے کی کوشش کریں۔