اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جنوری 2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
احمدیوں کی عبادت گاہ سے کلمہ ہٹا دیا گیا
پریم کوٹ، ضلع حافظ آباد، 6؍جنوری 2021ء: پاکستان بھر میں مخالفین نے مختلف مواقع پر جماعت کے خلاف کلمہ اور دیگر عربی الفاظ کی نمائش کرنے پر درخواستیں دائر کیں اور بیشتر مرتبہ انتظامیہ ان شکایات پر احمدیوں کے خلاف کارروائی کے لیے تیار نظر آتی ہے۔
تحریک لبیک احمدیوں کے خلاف بہت سرگرم ہے۔ 6؍ جنوری 2021ء کی رات پولیس نے پریم کوٹ، ضلع حافظ آباد کا دورہ کیا۔ انہوں نے ایک احمدی، طلعت کو بتایا کہ انہیں ایک درخواست موصول ہوئی ہے کہ احمدیوں کی عبادت گاہ کے صحن میں کلمہ لکھا گیا ہے۔ اسے مٹا دینا چاہیے۔ پولیس کو بتایا گیا کہ احمدی کلمہ کو نہیں مٹائیں گے اور کسی شہری کو ایسا کرنے کی اجازت بھی نہیں دیں گے۔
7؍جنوری کو صبح دس بجے پولیس کے ایک دستے نے پریم کوٹ کا دورہ کیا اور احمدیوں کی عبادت گاہ کے صحن میں لکھا ہوا کلمہ مٹا دیا۔
پولیس نے احمدیوں کی قبریں مسمار کر دیں
بھوئیوال، ضلع شیخوپورہ، 8؍جنوری 2021ء: چار احمدیوں، خلیل احمد، غلام احمد، احسان احمد، اور مبشر احمد آف بھوئیوال، ضلع شیخوپورہ کے خلاف 13؍مئی 2014ء کوتھانہ شرقپور میں PPCs295-Aاور2-337 اور 427کے تحت ایک من گھڑت مقدمہ درج کیا گیا۔ 16؍ مئی 2014ءکو خلیل احمد کو پولیس کی حراست میں مدرسے کے ایک طالب علم نے قتل کر دیا۔ باقی تین ملزمان کو 18؍جولائی 2014ء کو گرفتار کیا گیا۔ ایک سال بعد ہائی کورٹ کے جج کی تجویز پر الزامات میں مہلک شق PPC 295-C شامل کی گئی۔ ایک سیشن جج نے 11؍اکتوبر 2017ء کو انہیں موت کی سزا سنائی۔
پولیس نے احمدی کے گھر سے مقدس نوشتہ جات کو ہٹا دیا
راہوالی ضلع گوجرانوالہ، 26؍جنوری 2021ء: ادریس احمد ضلع گوجرانوالہ کے رہائشی ہیں۔ ان کے گھر کے باہر مقدس تحریرات والی تختی آویزاں تھی۔
15؍جنوری 2021ء کو صبح آٹھ بجے کے قریب کچھ غیر احمدی ان کے گھر آئے اور ان سے کہا کہ ان کے گھر سے ’’ماشاءاللہ‘‘پلیٹ ہٹا دو کیونکہ یہ غیر قانونی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمات درج ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اسے فوراً اتارنے کو کہا۔ ادریس احمد نے ان سے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ مخالفین کو ایسا کرنے دیں گے۔ ادریس احمد نے ان سے کہا کہ اگر یہ غیر قانونی ہے تو وہ پولیس اسٹیشن جاکر شکایت درج کریں۔ اگلے دن مخالفین نے ادریس احمد کے پڑوسیوں میں سے ایک ایڈووکیٹ آفتاب کی مدد سے تھانے میں تحریری شکایت درج کرائی۔ سیکیورٹی انچارج نے ان کے گھر کا دورہ کیا اور ان سے یہ الفاظ اتارنے کو کہا۔ ادریس احمد نے کہا: ’’میں ایسا نہیں کر سکتا، آپ مقامی احمدیہ صدر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔‘‘ سیکیورٹی انچارج نے صدر کو فون کیا اور بتایا کہ پولیس کو شکایت ملی ہے، وہ اسے ہٹا دیں۔
18؍جنوری 2021ء کو احمدیوں نے ڈی ایس پی کینٹ سرکل ضیغم ثنا وڑائچ سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران ڈی ایس پی نے کہا کہ وہ یہ معاملہ امن کمیٹی کو بھیجیں گے اور ان کی سفارش کے مطابق کارروائی کریں گے۔ پھر اس نے کہاکہ تمہیں فساد سے بچنے کے لیے اسے خود ہی اتار لینا چاہیے۔ احمدیوں نے جواب دیاکہ ہم نے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی حمد کے لیے استعمال کیے ہیں نہ کہ اس کے نام کی بے حرمتی کے لیے، اس لیے ہم یہ کام نہ خود کریں گے اور نہ ہی کسی اور کو کرنے دیں گے۔ آپ قانون نافذ کرنے والے افسر ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو وردی میں ملبوس پولیس اسے اتار سکتی ہے۔
26؍جنوری کو ادریس احمد کو سیکیورٹی انچارج کا فون آیا کہ وہ ایک ملازم کے ساتھ اس جگہ پر آئے ہیں اور پلیٹ توڑ رہے ہیں۔ ادریس احمد نے جماعتی عہدیداروں کو اطلاع دی، اور سب لوگ موقع پر پہنچ گئے، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، اور دونوں اہلکار پلیٹ توڑ چکے تھے، جس کے کچھ حصے نیچے نالے میں گر چکے تھے۔
احمدیوں کے خلاف جعلی مقدمات درج!
بھوئیوال، ضلع شیخوپورہ، 8؍جنوری2021ء: اسد اللہ کی شکایت پر 11 مقامی احمدیوں کے خلاف تعزیر پاکستان 298-Cکے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جن میں سے دو احمدی فوت ہو چکے تھے اور دو طویل عرصہ قبل بیرون ملک منتقل ہو چکے تھے۔
احمدیوں پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے تین احمدی مرحومین جن کے نام منور احمد، نصیر احمد، اور چودھری غلام احمد ہیں کی قبروں پر اسلامی اصطلاحات کا استعمال کیاہے۔ یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، یا محمد، اللہ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مقدمے میں نصیر احمد کا نام بھی شامل ہے جن کے مقبرے پر مقدس الفاظ لکھے گئے تھے۔
بعد ازاں مدعی کے بھائی ذکاء اللہ نے ایف آئی آر نمبر 51مورخہ19؍جنوری 2021ء کی دفعہ365کے تحت شکایت درج کرائی، جس میں الزام لگایا گیا کہ مذکورہ مقدمہ درج کرنے کے لیے قادیانیوں نے اس کے بھائی اسد اللہ کو اغوا کیا تھا۔ بعد ازاں پولیس نے مدعی اسد اللہ کو بازیاب کر کے اپنی تحویل میں لے لیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ احمدیوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے اسد اللہ اور دیگر نے فرضی اغوا کیا۔ پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
ذاتی جھگڑے کی بنیاد پر احمدی باپ بیٹے کا قتل
چک چشتیاں، ضلع بہاولنگر9؍جنوری 2021ء: ارشاد محی الدین اور ان کے بیٹے مہران احمد کو ان کے پڑوسی نے 9؍ جنوری کو ذاتی جھگڑے پر گولی مار دی جس کے نتیجے میں ارشاد کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔ مہران احمد کو دو گولیاں ماری گئیں۔ ایک گولی ان کے بازو اور دوسری سینے میں لگی۔
مہران احمد کو بہاولپور سے لاہور کے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن دھند اور طویل سفر کی وجہ سے راستے میں بہت زیادہ خون بہ گیا۔ لاہور میں انہیں سات یونٹ خون دیا گیا۔ اس حملے کی وجہ سے مہران کے گردے بھی متاثر ہوئے، اور ان کا ڈائیلاسز ہوا۔ جس بازو پر گولی لگی تھی اس کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے اسے کاٹنا پڑا۔ اس کے بعد وہ وینٹی لیٹر پر رہے۔
بالآخر مہران احمد کا 13؍جنوری کو انتقال ہوگیا۔ یہ بات واضح رہے کہ مقتولین ارشاد محی الدین اور ان کا بیٹا مہران اپنے پورے خاندان میں صرف دو احمدی تھے۔
پی ٹی اے احمدی امریکی شہریوں پر مقدمہ چلانے کی کوشش کر رہی ہے
واشنگٹن ڈی سی، 13؍جنوری 2021ء: نیوز سروس نے درج ذیل مضمون دیا:
پاکستان احمدی امریکی شہریوں پر ڈیجیٹل توہین کے الزام میں مقدمہ چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔
عائشہ خان رپورٹ کرتی ہیں،13؍جنوری 2021ء: پاکستانی حکام نے امریکی احمدیہ کمیونٹی کے راہ نماؤں سے کہا ہے کہ وہ اس کی آفیشل ویب سائٹ کو ہٹا دیں۔ اوریہ الزام لگاتے ہوئے کیاکہ امریکہ میں قائم سائٹ پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین اور سائبر کرائم کے ضوابط کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے 24؍دسمبر کو احمدیہ کمیونٹی یو ایس اے کے ترجمانوں امجد محمود خان اور حارث ظفر کو جاری کیے گئے ایک قانونی نوٹس میں کہا کہ TrueIslam.com ویب سائٹ کو نہ ہٹانے کی صورت میں 3.14 ملین ڈالر تک کا جرمانہ یا مجرمانہ پابندیاں عائد کی جائیں گی جس میں ممکنہ طور پر 10 سا ل تک قید کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔
بریڈ ایڈمز، جو ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈویژن کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ ’’احمدیوں پر پابندیاں عائد کرنا اور توہین رسالت کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے انہیں پاکستانی معاشرے سے ایئر برش کرنا‘‘ پاکستان میں احمدیوں کو ’’وسیع پیمانے پر اور بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک اور سماجی اخراج‘‘ کی مہم کا حصہ ہے۔
یہ ویب سائٹ امریکہ میں رجسٹرڈ اور ہوسٹ کی گئی ہے اور اس کا مقصد امریکہ میں رہنے والے افراد تک اپنا نکتہ نظر پہنچانا ہے۔ یاد رہے کہ ظفر اور خان دونوں امریکی شہری ہیںاور کہتے ہیں کہ اس سزا کی وجہ سے ان کا پاکستان کا سفر کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی لاء اسکول کے گلوبل انٹرنیٹ فریڈم پروجیکٹ کی ہدایت کاری کرنے والے قانون کے پروفیسر آرٹورو کیریلو نے کہا کہ یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اب اپنے متنازعہ سائبر کرائم قوانین کو ’’ملک کی سرحدوں سے باہر سے نکلنے والے آن لائن اظہار اور مواد کو دبانے کی کوشش میں استعمال کر رہی ہے۔ حکومت نے اسے ناپسندیدہ اور غیر قانونی سمجھا ہے۔ ‘‘
(religionnews.com/2021/01/13/Pakistan-attempts-to-prosecute-ahmadi-us-sitizens-for-digital-blasphemy)
(جاری ہے)
٭…٭…٭