تعارف کتاب

دافع البلاء و معیار اھل الاصطفاء

(ابو سلطان)

تعارف

یہ رسالہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپریل 1902ءمیں شائع فرمایا۔ جب پنجاب میں طاعون کا بہت زور تھا۔ اس رسالے میں طاعون کے متعلق آپؑ نے ان الہامات کا ذکر فرمایاجن میں طاعون کی وبا کے پھیلنے کے متعلق پیشگوئی تھی اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ طاعون دنیا میں اس لیے آئی ہے کہ خدا کے مسیح کا نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ اس کو دکھ دیا گیا۔ اس کے قتل کرنے کے منصوبے کیے گئے، کافر اور دجال نام رکھا گیا۔ کتب سابقہ میں پیشگوئی تھی کہ مسیح موعود کے دَور میں طاعون پڑے گی جس کا علاج آپ نے یہ بتایاکہ اس مسیح کو سچے دل اور اخلاص سے قبول کیا جائےاور اپنی زندگیوں میں ایک روحانی تبدیلی پیدا کی جائے۔

خلاصہ مضامین

اس کتاب کے ٹائٹل پر آیت کریمہ

رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ۔ (الاعراف: 90)

درج ہے۔ آغاز میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ بیماریوں میں علاج کی غرض سے جانوروں کا پیشاب بھی پی لیتے ہیں اور بہت سی پلید چیزوں کو استعمال کر لیتے ہیں تو اس صورت میں اس طاعون سے جان چھڑانے کے لیے اس پاک علاج کو اختیار کریں یعنی سچے دل اور اخلاص سے خدا کے مامور کو قبول کریں اور اپنی زندگیوں میں پاک روحانی تبدیلی پیدا کریں۔

ابتدا میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹروں کی بتائی گئی جسمانی تدابیر کا ذکر کیا ہےجس میں گھروں کو صاف رکھنا، مکانوں کو آگ سے گرم رکھنا، ردی غذائیں نہ کھانا، ٹیکہ کرا لینا، مرے ہوئے چوہے والے مکانوں کو چھوڑ دینا وغیرہ شامل ہیں جو نہ تو پورے طور پر تسلی بخش ہیں اور نہ محض نکمے اور بے فائدہ ہیں۔ اس لیے بنی نوع کی ہمدردی اسی میں ہے کہ کسی اور طریق کو سوچا جائے جو اس تباہی سے بچا سکے۔

طاعون کی بابت مختلف مذاہب اور فرقوں کی آراء

میاں شمس الدین سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور نے اشتہار دیاکہ سب مسلمان سنی، شیعہ اکٹھے ہو کر اپنے اپنے مذہب کے مطابق دعائیں کریں تو معاً طاعون دور ہو جائے گی۔ عیسائیوں کا خیال ہے کہ اگر سب لوگ حضرت مسیح کو خدا مان لیں اور ان کے کفارے پر ایمان لے آئیں تو طاعون دور ہو جائے گی۔ ہندو (آریہ دھرم والے) کہتے ہیں کہ یہ طاعون وید کے ترک کرنےسے ہے۔ سناتن دھرم والے کہتے ہیں کہ یہ بلائے طاعون گائے کے ذبح کرنے کی وجہ سے ہے۔

فرمایا: ایسے حالات میں جب طاعون دنیا کو ختم کرتی جاتی ہےایسی بات قبول کرنے کے لائق ہے جو اپنے ساتھ ثبوت رکھتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ چار سال ہوگئے ہیں کہ میں نے پیش گوئی کی تھی کہ پنجاب میں سخت طاعون آنے والی ہے اور میں نے اس ملک میں طاعون کے سیاہ درخت دیکھے ہیں جو ہر ایک شہر اور گاؤں میں لگائے گئے ہیں۔ اگر لوگ توبہ کریں تو خدا اس مرض کو دو جاڑہ سے زیادہ نہیں بڑھائے گا۔ اب خدا کی پاک وحی نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ وہ اس بلائے طاعون کو ہرگز دور نہیں کرے گا جب تک لوگ ان خیالات کو دور نہ کر لیں جو ان کے دلوں میں ہیں۔ یعنی جب تک وہ خدا کے رسول اور مامورکو مان نہ لیں اور یہ بھی کہ وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ وحی کے الفاظ یوں ہیں کہ ان اللّٰہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما انفسھم انہ اوی القریۃ فرمایا اٰویٰعربی لفظ ہے جس کے معنی تباہی اور انتشار سے بچانا ہےاور اپنی پناہ میں لے لینا ہےیعنی قادیان میں طاعون جارف نہیں پڑے گی۔ دیکھو تین برس سے ثابت ہو رہا ہے کہ وہ دونوں پہلو پورے ہو گئے۔ یعنی ایک طرف تمام پنجاب میں طاعون پھیل گئی اور قادیان طاعون سے پاک ہے اور جو باتیں چار سال قبل کہی گئی تھیں وہ پوری ہو گئیں۔ اس کے بعد آپؑ نے طاعون کے بارے میں عربی زبان میں ہونے والے الہامات اور ان کا اردو ترجمہ اور تشریح بھی نہایت وضاحت سے بیان فرمائے ہیں۔

ایک خوبصورت کشف

فرمایا: انہی دنوں کے متعلق خدا کا یہ کلام ہے جس میں زمین کی کلام سے مجھے اطلاع دی گئی اور وہ یہ ہے کہ یا ولی اللّٰہ لا اعرفک یعنی اے خدا کے ولی اس سے پہلے تجھے نہیں پہچانتی تھی اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ کشفی طور پر زمین میرے سامنے کی گئی اور اس نے یہ کلام کیا کہ میں اب تک تجھے نہیں پہچانتی تھی کہ تو ولی الرحمن ہے۔

خدا کی وحی سے تین باتوں کا ثبوت

اول یہ کہ طاعون دنیا میں اس لیے آئی ہے کہ خدا کے مسیح موعود کا نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ اس کو دکھ (طعن و تشنیع) دیا گیا۔ دوم یہ کہ یہ طاعون اس حالت میں فرو ہو گی جبکہ لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کر لیں گے۔ تیسری بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ بہر حال جب تک طاعون دنیا میں رہے گی گو ستر برس تک رہے، قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں کے لیے نشان ہے۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جملہ مذاہب کی سرکردہ شخصیات کے نام لے کر انہیں دعوت دی ہے کہ خدا کی وحی نے قادیان کے محفوظ ہونے کا بتا دیا ہے۔ پس اب تم لوگ بھی اپنے مقدس شہروں کی حفاظت کا اشتہار شائع کرو تاکہ تمام پنجاب اس مہلک بیماری سے محفوظ ہو جائے ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔

پھر فرمایا: طاعون کاآنااس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ طعن کرنے والوں کا جواب ہے۔ سو اے عزیزو! اس کا بجز اس کے کوئی بھی علاج نہیں کہ اس مسیح کو سچے دل اور اخلاص سے قبول کر لیا جاوے۔ یہ تو یقینی علاج ہے اور اس سے کم تر درجہ کا یہ علاج ہے کہ اس کے انکار سے منہ بند کر لیا جائے اور زبان کو بدگوئی سے روکا جائے۔ پھر فرمایا: اے عیسائی مشنریو! ربنا المسیح مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے جو اس مسیح سے بڑھ کر ہے۔ پھر خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجاہے۔ جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر ہے اور اس سے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا تایہ اشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمدﷺ کے ادنیٰ غلام سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

پھر جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کے جو معنی تم لوگ کرتے ہو ہمارے پہلے علماء اور اکابر کو معلوم نہ تھے اور تمہیں معلوم ہو گئے۔ ہم یہی جواب دیتے ہیں کہ جس طرح غنم القوم کے مسئلہ پر حضرت داؤد علیہ السلام کو نبی ہو کر غلطی لگی اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ ففھمناھا سلیمن یعنی خدا نے داؤد کے بیٹے سلیمان کو سچے فیصلے کا طریق سمجھا دیا۔ اسی طرح مسیح موعود اس امت میں سے ہے اور وہ میں ہوں اور مسیح ابن مریم فوت ہو کر کشمیر محلہ خان یار میں مدفون ہو چکا ہے۔ یہ اطلاع خدا کی مبارک وحی نے دی ہے۔

دعویٰ مسیح موعود کا حلفی اقرار

فرمایا: میں بھی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کانبیوں نے وعدہ دیا تھا اور میری نسبت اور میرے زمانہ کی نسبت توریت اور قرآن شریف میں خبر موجود ہے کہ اس وقت کسوف و خسوف ہوگا اور زمین پر سخت طاعون پڑے گی اور میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گاتو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خداتعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی اور ایسے مقابلہ میں مخلوق کی سراسر بھلائی اور گورنمنٹ کی خیر خواہی ہے اور ایسے مقابلہ کرنے والے ولی سمجھے جائیں گے ورنہ وہ اپنے کاذب اور مفتری ہونے پر مہر لگا دیں گے۔

چراغ دین ساکن جموں نامی شخص کی نسبت اپنی جماعت کو اہم اطلاع

فرمایا: اس شخص نے ہمارے سلسلہ کی تائید کا دعوی کر کے طاعون کے بارے میں ایک یا دو اشتہار شائع کیے ہیں اور میں نے سرسری ساحصہ ان کا سنا اور ان کے چھپنے کی اجازت دے دی۔ مگر افسوس کہ بعض خطرناک لفظ اور بیہودہ دعوے جو اس کے حاشیے میں تھے ان کو نہ سن سکا۔ اس شخص کا مضمون رات کو پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بڑا خطرناک اور زہریلا اور اسلام کے لیے مضر ہے۔ چنانچہ اس میں لکھا ہے کہ میں (چراغ دین) رسول ہوں اور رسول بھی اولوالعزم اور اپنا کام یہ لکھا ہے کہ تا عیسائیوں اور مسلمانوں میں صلح کراوے۔ اورقرآن اورانجیل کا تفرقہ باہم دور کر دے۔ اور ابن مریم کا ایک حواری بن کر یہ خدمت کرے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن کریم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انجیل یا توریت سے صلح کرے گا بلکہ ان کتابوں کو محرف، مبدل اور ناقص اور ناتمام قرار دیا ہے اور خاص تاج اکملت لکم دینکم کا اپنے لیے رکھا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ سب کتابیں انجیل توریت، قرآن شریف کے مقابل پر کچھ بھی نہیں اور ناقص اور محرف اور مبدل ہیں اور تمام بھلائی قرآن کریم میں ہے۔

خدا نے ہمیں بتایا ہے کہ عیسائی مذہب بالکل مر گیا ہے اور انجیل ایک مردہ اور نا تمام کلام ہے۔ عیسائی مذہب سے ہماری کوئی صلح نہیں وہ سب کا سب ردی اور باطل ہےاور آج آسمان کے نیچے بجز فرقان حمید کے اور کوئی کتاب نہیں۔ پھر براہین احمدیہ میں اپنے الہام کی بابت فرماتے ہیں کہ اگر خدا چاہے تو عیسیٰ ابن مریم کی مانند کوئی اور آدمی پیدا کر دےیا اس سے بھی بہترجیسا کہ اس نے کیا۔ اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اس سے بھی بہتر ہے۔ جو غلام احمد ہے یعنی احمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا غلام۔

اپنے منظوم کلا م میں فرماتے ہیں:

زندگی بخش جام احمد ہے

کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے

باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا

میرا بستاں کلام احمد ہے

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے

فرمایا یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کی رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں۔ پس یہ کیسی ناپاک رسالت ہے جس کا چراغ دین نے دعویٰ کیا ہے۔ جائے غیرت ہے کہ ایک شخص میرا مرید کہلا کر یہ ناپاک کلمات منہ پر لاوے کہ میں مسیح ابن مریم کی طرف سے رسول ہوں تا ان دونوں مذہبوں کا مصالحہ کروں۔

فرمایا: ہمارا آنا صرف دو فرشتوں کے ساتھ نہیں بلکہ ہزاروں فرشتوں کے ساتھ ہے اور خدا کے نزدیک وہ لوگ قابل تعریف ہیں جو سالہائے دراز سے میری نصرت میں مشغول ہیں۔ میں اس ( چراغ دین) کی شکل بھی اچھی طرح نہیں شناخت کر سکتا کہ وہ کون ہے۔ نہ وہ ہماری صحبت میں رہا اور میں نہیں جانتا کہ وہ کس بات میں مجھے مدد دینا چاہتا ہے۔ پس آج کی تاریخ سے وہ ہماری جماعت سے منقطع ہے۔ جب تک مفصل طور پر اپنا توبہ نامہ شائع نہ کرے اور اس ناپاک رسالت کے دعویٰ سے ہمیشہ کے لیے مستعفی نہ ہو جائے۔

حاشیہ نمبر 1

فرمایا چرا غ دین کی نسبت یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھ کو خدائے عزوجل کی طرف سے یہ الہام ہوا نزل بہ جبیز۔ جبیز دراصل خشک اور بے مزہ روٹی کو کہتے ہیں جس میں کوئی حلاوت نہ ہو اور مشکل سے گلے سے اترے اور مرد بخیل اور لئیم کو بھی کہتے ہیں۔ اس جگہ جبیز سے مراد وہ حدیث النفس اور اضغاث الاحلام ہیں جن کے ساتھ آسمانی روشنی نہیں۔

حاشیہ نمبر 2

رات کو عین خسوف قمر کے وقت میں چراغ دین کی نسبت مجھے یہی الہام ہوا انی اذیب من یریب۔ یعنی میں فنا کردوں گا۔ میں غارت کردوں گا۔ میں غضب نازل کروں گا۔ اگر اس نے شک کیا اور اس پر ایمان نہ لایا۔ پس اس لفظ جبیز نے بتا دیا کہ چراغ دین کی یہ رسالت اور الہام محض جبیز اور اس کے لیے مہلک ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button