فتنوں کا فلسفہ اور حکمت
سورۃ البقرہ کی ابتدائی سترہ آیات بہت اہم اور بنیادی مضامین پر مشتمل ہیں بلکہ یہ مذہبی تاریخ کا خلاصہ ہیں۔ اس لیے عموما ًجماعت میں بچوں کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ انہیں زبانی یاد کریں۔
مومن کافر اور منافق
ان سترہ آیات میں تین گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی تین آیات میں مومنین کا ذکر ہے۔ جب بھی الٰہی سلسلہ قائم ہوتا ہے تو اس پر ایمان لانے والے مومن کہلاتے ہیں۔ اگلی دو آیات میں کفار کا ذکر ہے۔ الٰہی سلسلہ قائم ہونے پر اس کے منکر اور مخالف بھی پید ا ہو جاتے ہیں جو کھلم کھلا اعلانِ جنگ کر دیتے ہیں اور ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس آسمانی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ناکام و نامراد رہتے ہیں۔ بقیہ آیات منافقین کے ذکر پر مشتمل ہیں،جو بظاہر تو ایمان لا کر مومنوں کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن دل ایمان کے نور سے نا آشنا اور سیاہ باطن ہوتے ہیں۔ بظاہر وہ بھی کبھی قومی کاموں میں شامل ہوتے بلکہ کچھ نہ کچھ انفاق بھی کر دیتے ہیں باقی اعمال بھی تھوڑے بہت بجا لاتے ہیں لیکن وہ امن و سلامتی کا موجب بننے کی بجائے فساد برپا کرنے والوں میں سے ہوتے ہیں اور مومنوں میں بے چینی پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں کیونکہ وہ کافروں کا آلۂ کار ہوتے ہیں اور آستینوں کے سانپوں جیسا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کی سزا کافروں سے بھی زیادہ اور جہنم کا سب سے نچلا درجہ بتائی گئی ہے۔(النساء :146)
منافقوں کا ممتازکیا جانا
یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ مومنین کی جماعت پر بعض ایسے وقت لاتا ہے کہ جب یہ چھپے ہوئے منافق کھل کر سامنے آ جاتے ہیں اور ا ن کے دلوں کے بغض اور کینے ابل کر باہر نکلنے لگتے ہیں۔ اگرچہ ابتلا کی وہ گھڑیاں بہت سخت ہوتی ہیں جو مومنوں کو تڑپاتی اور ان کے دلوں پر چرکے لگا رہی ہوتی ہیں لیکن یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بیمار حصے کو صحت مند وجود سے جدا کر دیتا ہے اور یہ صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ
مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلٰى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ (آل عمران :180)
اللہ ایسا نہیں کہ وہ مومنوں کو اس حال پر چھوڑ دے جس پر تم ہو یہاں تک کہ خبیث کو طیب سے نتھار کر الگ کر دے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ابتلا کا آنا ضروری ہے تاکہ کھوٹے اور کھرے کی شناخت ہو جائے‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 98)
مومنوں کی ترقیات کا ذریعہ
جہاں ابتلا اور فتنے مومنین کی جماعت میں چھپے ہوئے منافقین کو نتھار کر الگ کر دیتے ہیں وہاں وہی ابتلا اور فتنے مومنین کے درجات بلند کرنے اور اللہ کا مزید قرب عطا کرنے کا موجب بن جاتے ہیں کیونکہ فتنوں اور ابتلاؤں کے دنوں میں ا ن کا عجز ونیاز اور دعائیں اور خدا کے حضور جھکنا اپنے کمال تک پہنچ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ بھی اس سے بڑھ کر اپنی رحمتوں اور فضلوں کے ساتھ ان پر جھکتا ہے اور ان کو اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی ابتلا ء آوے توگھبرانا نہیں چاہئے۔ ابتلاء مومن کے ایمان کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ اس وقت روح میں عجز و نیاز اور دل میں ایک سوزش اور جلن پیدا ہوتی ہے جس سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کے آستانہ پر پانی کی طرح گداز ہو کر بہتا ہے۔ایمان کامل کا مزا ہمّ و غم ہی کے دنوں میں آتا ہے اس وقت اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کرو‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 182)
حضورؑ مزید فرماتے ہیں:’’ بعض ابتلاء صرف اس واسطے آتے ہیں کہ انسان اس رتبہ کو جلد حاصل کرے جو اس کے واسطے مقدر ہے ‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ280)
پھر ابتلاؤں اور فتنوں کا ایک مقصد مومنوں کو مزید فتوحات عطا کرنا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے بعض فتوحات کا مدار ابتلاؤں پر ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ280)
جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جتنا بڑافتنہ اور ابتلا تھا اسی تیز رفتاری سے ترقی ہوئی۔ 1934ءکے ابتلا کا شیریں پھل تحریکِ جدید کی صورت میں ملا جس کی بدولت جماعت اکناف عالم تک جاپہنچی۔ 1953ءکے ابتلاء کا حسین ثمرہ وقفِ جدید کی صورت میں جماعت کو ملا اور اندرونی طور پر جماعت زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوگئی۔ 1974ءکے ابتلا کے بعد جماعت کی ترقی کی رفتار پہلے سے دو چند ہو گئی اور وہ پیشگوئی پوری ہو گئی کہ 72 فرقوں سے تہترواں فرقہ یعنی فرقہ ناجیہ ممتاز ہو جائے گا۔ 1984ءکے ابتلا کے نتیجے میں جماعت کا پھیلاؤ اس تیزی سے ہوا کہ زمین سے بلند ہونے والی آواز اب آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگی اور تمام دنیا میں جماعت کا بول بالا ہوا۔اور خلاف احمدیہ اپنے بلوغت کے دَور میں داخل ہو کر مزید مضبوط اور مستحکم ہو گئی جس کے مقابل پر فرعون وقت بھی آیااور پارہ پارہ ہو گیا۔
الاستقامۃ فوق الکرامۃ
ابتلا اور فتنوں کا ایک مقصد مومنین کی بعض مخفی صفات کو دنیا پر ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً صبر حلم اور استقامت ابتلاؤں کے ایام میں ہی ظاہر ہوتے ہیں جن پر بعض انعاماتِ خداوندی مترتب ہوتے ہیں ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہی حال اہل اللہ کا ہے ان لوگوں میں بعض خلق ایسے پوشیدہ ہوتے ہیں کہ جب تک ان پر تکالیف اور شدائد نہ آویں ان کا اظہار نا ممکن ہوتا ہے ‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 152) م
ومن ابتلاؤں میں کمال صبر سے کام لیتے ہیں اورصبر کرنے والوں کے بارے اللہ تعالی فرماتا ہےکہ
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ۔(البقرۃ :156)
جو ان تکلیفوں پر صبر کریں گے ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دو۔فرمایا
وَاللّٰهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (آل عمران :147)
کہ اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور
إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرۃ :154)
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ تمام انعامات میں سے سب سے بڑا انعام تو اللہ کی محبت اور رضا اور اس کا قرب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’تکالیف مومنوں پر بھی آتی ہیں بلکہ سب سے زیادہ تو نبیوں پر آتی ہیں اس جگہ بعض جلد باز یہ اعتراض کر دیں گے کہ اگر نبیوں ولیوں کو بھی تکالیف پہنچتی ہیں تو پھر توبہ کا کیا فائدہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب نیک لوگوں کو تکالیف پہنچتی ہیں تو وہ ان کو اس انعام کی خوشخبری دیتی ہیں جو کہ ان تکالیف کے بعد خدا تعالی نے ان کو دینا ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 147)
انبیاء پر سب سے زیادہ ابتلا آتے ہیں
چونکہ انسانوں میں انبیاء کے مدارج اور مقامات سب سے ارفع اور بلند تر ہوتے ہیں اور وہ منعم علیہ گروہ کے سردار ہوتے ہیں اس لیے انبیاء پر ابتلا اور تکلیفیں بھی سب لوگوں سے زیادہ آتی ہیں۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ لوگوں میں سے کس پر سب سے زیادہ ابتلا آتے ہیں آپؐ نے فرمایا
الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ، يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صُلْبًا، اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ، ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ
(ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الْبَلَاءِ) سب سے زیادہ ابتلا انبیاء پر آتے ہیں پھر جو ا ن کے قریب ہوں پھر جو ا ن کے قریب ہوں۔ بندے کو ا س کے دین اور ایمان کے مطابق ابتلا میں ڈالا جاتا ہے۔ جس کے دین میں مضبوطی ہو گی اس پر اتنے ہی سخت ابتلا آئیں گے اور اگر اس کا دین ہلکا ہو گا تو اس کے مطابق اس پر ابتلا بھی ہلکے آئیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’سو خدا تعالیٰ ان پر مصیبتیں نازل کرتا ہے تا ان کا صبر، ان کا صدقِ قدم، ان کی مردی، ان کی استقامت، ان کی وفاداری، ان کی فتوت شعاری لوگوں پر ظاہر کر کے الاستقامۃ فوق الکرامۃ کا مصداق ان کو ٹھیرائے۔ کیونکہ کامل صبر بجز کامل مصیبتوں کے ظاہر نہیں ہو سکتا اور اعلیٰ درجے کی استقامت اور ثابت قدمی بجز اعلیٰ درجے کے زلزلے کے معلوم نہیں ہو سکتی اور یہ مصائب حقیقت میں انبیاء اور اولیاء کے لئے روحانی نعمتیں ہیں جن سے دنیا میں ان کے اخلاق فاضلہ جن میں وہ بے مثل و مانند ہیں ظاہر ہوتے ہیں اور آخرت میں ان کے درجات کی ترقی ہوتی ہے۔ اگر خدا ان پر یہ مصیبتیں نازل نہ کرتا تو یہ نعمتیں بھی ان کو حاصل نہ ہوتیں اور نہ عوام پر ان کے شمائل حسنہ کما حقہ کھلتے …۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ سوم،روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 279تا280،حاشیہ نمبر11)
اس حوالے سے اگر ہم قرآن کریم میں درج انبیاء کے حالات پر سرسری نظر ڈالیں تو ہمیں ابتلاؤں کا یہ مضمون جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً
حضرت آدم علیہ السلام کے زمانےکا فتنہ
حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں ایک فتنہ اٹھا جس کی وجہ سے ایک بھائی نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اس زمانے کے کمزور ایمان والوں اور منافقین نے نہ جانے کیا کیا اعتراض کیے ہوں گے اور پھبتیاں کسی ہوں گی کہ خدا کے نبی کے بیٹے پر ا س کی تعلیم کا اثر نہ ہوا اور اس نے دوسرے کو جان سے ہی مار ڈالا۔
حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ کا فتنہ
حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹا ان پر ایمان نہیں لائے بلکہ ان سے اظہار نفرت کرنے لگے۔ ذرا سوچیں اس زمانے کے منافقین اور مخالفین نے کیا کیا اعتراض اس پاک وجود پر کیے ہوں گے کہ جس پر اس کی بیوی اور بیٹا بھی ایمان نہ لایا اس پر ہم کیوں ایمان لائیں اور کیسا کیسا شور مچایا ہو گا کہ ایک مرد کی سب سے زیادہ راز دان اور قریبی اس کی بیوی ہوتی ہے اور وہ بیٹا جس کی رگوں میں باپ کا خون دوڑ رہا ہے وہ ان کا انکار کر رہے ہیں تو ضرور کو ئی بات تو ہو گی۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ساری قوم الا ماشاء اللہ استہزا اور کفر اور لعنت ملامت میں حد سے بڑھ گئی یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کو کہنا پڑا کہ اے میرے ربّ !میں نے اپنی قوم کو رات کو بھی تبلیغ کی اور دن کو بھی دعوت دی مگر وہ اَور زیادہ نفرت کرنے لگے اور ضد اور تکبر میں حد سے بڑھنے لگے۔ اے میرے ربّ !میں نے ا ن کو بلند آواز سے بھی دعوت دی اور چھپ چھپ کر بھی سمجھایا مگر میری تبلیغ کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ نافرمانی پر ڈٹے رہے۔ اس حد تک انہوں نے استہزا تکبر اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو یہ دعا کرنا پڑی کہ اے میرے ربّ! ان کافروں میں سے کسی کا گھر باقی نہ رہنے دے اگر تُو نے ا ن کو رہنے دیا تو ان کی اولاد بھی کافر اور فاجر نکلے گی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ابتلا
حضرت موسی ٰعلیہ السلام پر بھی متعدد ابتلا آئے اور شرپسندوں نے فتنے خوب برپا کیے۔ ان پر تہمتیں لگائی گئیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’کوئی ہم کو کسی نبی کے زمانہ کا پتہ دے جس کے مخالف نہ ہوئے ہوں اور جنہوں نے اس کو دوکاندار، ٹھگ، جھوٹا اور مفتری نہ کہا ہو۔ موسیٰ علیہ السلام پر بھی افترا کر دیا۔ یہاں تک کہ ایک پلید نے تو زنا کا اتہام لگا دیا اور ایک عورت کو پیش کر دیا۔‘‘(ملفوظات جلد1 صفحہ 413)
حضرت یوسف علیہ السلام کا کمال صبر
حضرت یوسف علیہ السلام پربھی بہتان درازی کرتے ہوئے انتہائی گندہ الزام لگا کر ا ن کو چند سال قید خانے میں داخل کر دیا گیا جہاں ہر قسم کا فسادی، چور، بدکار اور زبان دراز پہلے سے موجود تھے۔ نہ معلوم انہوں نے اس عرصے میں کیا کیا استہزا اور تمسخر اڑایا ہو گا اور بہتان درازی کی ہو گی۔ان ابتلاؤں پر کمال استقامت سے ثابت قدم رہنے پر اللہ تعالیٰ نے پھر انعام و اکرام سے خوب نوازا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’صبر اور تقویٰ کے نتائج دیکھنے ہوں تو سورہ یوسف کو غور سے مطالعہ کرو‘‘۔(ملفوظات جلد3صفحہ621)
حضر ت ایوب علیہ السلام کا مثالی صبر
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حضرت ایوب علیہ السلام کے مثالی صبر کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا’’اب دیکھو کتنا صابر ہونا ان کا ثابت ہوا۔ ان کا قصہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں باوجودیکہ صدہا سال گذر گئے تھے نقل کیا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 373)
حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فتنے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تو پیدائش سے پہلے سے ہی ان کی صدیقہ و پاک دامن والدہ حضرت مریم پر نہایت گندے الزامات لگائے گئے۔اور جب آپ کی پیدائش ہوئی تو یہودیوں نے کیا کیا آوازے کسے اور کس طرح آپ کو ساری زندگی اپنی زبان کی چھریاں چلا کر اذیتیں پہنچاتے رہے۔ وہ کھلم کھلا کہتے تھے کہ یہ نعوذ باللہ ناجائز اولاد ہے۔ مرقس بات 3 آیت 30 میں انہوں نے یہ بہتان باندھا کہ ’’اس میں ناپاک روح ہے۔‘‘ یوں شر پسندوں نے ٹھٹھا استہزا اور بہتان درازی سے اس معصوم کے دل کو زخمی کیا یہاں تک بس نہ کی بلکہ ا س کے جسم کو بھی واقعہ صلیب میں سخت زدوکوب کیا۔ واقعہ صلیب ایسا ابتلا تھا کہ مومن اور منافق میں واضح فرق ہو گیا اور وہ حواری جو ایمان کا لبادہ اوڑھے ساتھ رہتا تھا جدا کر دیا گیا۔
سرور دوعالم حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتلا
سب سے زیادہ ابتلا اور آزمائشیں اور فتنے ہمارے آقا و مولیٰﷺ کی زندگی میں آئے۔ دنیا کا کوئی دکھ اور تکلیف ایسی نہ تھی جو آپؐ کو اور آپؐ کے جانثار صحابہ کو نہ پہنچائی گئی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’رسول اللہﷺ کی تیرہ سالہ زندگی جو مکہ میں گذری اس میں جس قدر مصائب اور مشکلات آنحضرتﷺ پر آئیں ہم تو ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ دل کانپ اٹھتا ہے جب ان کا تصور کرتے ہیں۔ اس سے رسول اللہﷺ کی عالی حوصلگی، فراخ دلی، استقلال اور عز م واستقامت کا پتہ ملتا ہے کیسا کوہ وقار انسان ہے کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے اور غمگین نہیں ہوا۔ وہ مشکلات اس کے ارادے کو تبدیل نہیں کر سکیں ‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 307)
فرمایا: ’’آنحضرتﷺ نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پر توکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارہ کرنا اور اپنے کام میں سست نہ ہونا اور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلا دیئے جو کفار ایسی استقامت دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو وہ اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد10 صفحہ447)
مدنی دَور کے ابتلا
مکہ کی زندگی تو ابتلاؤں اور مصیبتوں سے پُر تھی اس لیے اس دوران ہمیں منافقین نظر نہیں آتے لیکن مدنی دَور میں جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو منافقین بھی در آئے۔ چنانچہ مدنی دَور میں بھی وقتاً فوقتاً ابتلا آتے رہے تاکہ منافقین مومنوں سےممتاز کر دیے جائیں کیونکہ فتنوں کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ تا چھپے ہوئے منافقین اور جن کے دلوں میں کجی ہے وہ کھل کر سامنے آجائیں۔
جنگ احد میں منافقوں کا ممتا ز ہو نا
مدنی دور کا سب سے پہلا موقع غزوۂ احد تھا۔ جنگ بدر میں مسلمان قافلے سے نمٹنے کے لیے نکلے تھے اس لیے جنگی ساز و سامان بھی ساتھ نہ لے جا سکے لیکن مشیت ایزدی کےتحت لشکر کفار سے جنگ ہو گئی۔ باقاعدہ پہلی جنگ،جنگِ احد تھی۔ مسلمانوں کی تعداد دشمن کے مقابل پر تھوڑی تھی۔ منافقین کب میدانِ جنگ میں اتر سکتے تھے اس لیے مدینہ سے تو لشکر کے ساتھ نکلے لیکن راستے میں ہی حیلے بہانوں سے واپس آ گئے تاریخ کی کتب میں ا ن کی تین سو تعداد لکھی ہے۔ پس جنگِ احد کے ابتلا نے منافقین کے چہروں سے نقاب اتار دیے۔
واقعۂ افک میں منافقوں کا جدا ہونا
مدنی دَو ر کا ایک اَور اہم موقع واقعہ افک ہے جس میں منافق کھل کر سامنے آ گئے اور ا ن کی زہر اگلتی زبانوں نے مسلمانوں کے دلوں کو شدید زخمی کر دیا۔ غزوۂ بنو مصطلق سے جب مسلمان لوٹ رہے تھے اور لشکر نے راستے میں آرام کے لیے پڑاؤ ڈالا تو حضرت عائشہؓ قضائے حاجت کے لیے قافلےسے الگ ہوئیں اسی اثنا میں کوچ کا حکم ہوا۔ آپؓ کا ہودج اٹھانے والوں نے خیال کیا کہ آپؓ اندر ہیں کیونکہ اس زمانے میں آپؓ کا وزن ہلکا تھا اس لیے ان کو آپؓ کے نہ ہونے کا گمان نہ ہو سکا۔چنانچہ وہ ہودج اٹھا کر چل پڑے۔ جب حضرت عائشہؓ واپس لوٹیں تو قافلہ جا چکا تھا۔ آپؓ ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ گئیں کچھ دیر بعد نیند نے غلبہ پا لیا۔ نبی کریمﷺ نے حضرت صفوان بن معطلؓ کو قافلے کے پیچھے پیچھے آنے کا حکم دیا تھا تاکہ پیچھے سے کوئی حملہ آور ہو تو اطلاع ہو سکے یا قافلے کی کوئی چیز راستے میں گر جائے تو وہ اٹھا لی جائے۔ انہوں نے جب حضرت عائشہؓ کو سوئے دیکھا تو انا للّٰہ پڑھا۔ آپؓ بیدار ہو گئیں انہوں نے اپنا اونٹ بٹھایا اور آپؓ کو سوار کروا کر قافلے سے جا ملے۔ جب منافقین نے یہ منظر دیکھا تو ان کو بہتان تراشی کا موقع ہاتھ آگیا۔ وہ منافق جو پہلے ہی مسلمانوں کی فتوحات اور ترقیات سے جل بھن رہے تھے بھلا اس موقع کو کب ہاتھ سے جانے دیتے۔ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس واقعہ کو حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے کا ذریعہ بنا لیا اور اس کا خوب چرچا کیا اور مدینہ میں اس منافق نے اس شرمناک تہمت کو اس قدر اچھالا اور اتنا شور و غل مچایا کہ مدینہ میں ہر طرف اس افترا اور بہتان کا چرچا ہونے لگا اور بعض سادہ لوح صحابہ مثلاً حسان بن ثابتؓ، مسطح بن اثاثہؓ اور حمنہ بنت جحشؓ بھی اس کی زَد میں آ گئے۔ ہمارے آقا و مولیٰ فداہ ابی وا میﷺ کو اس شر انگیز تہمت سے بے حد رنج و صدمہ پہنچا۔اس موقع پر عبد اللہ بن ابی نے کئی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف ام المومنین حضرت عائشہؓ کی عصمت پر حملہ کیا۔دوسری طرف رسول اللہﷺ اور ابو بکر صدیق ؓ کی عزت پر حملہ کیا۔ تیسری طرف اس نے مومنوں کے بلند اخلاق کو گرانے کی ناپاک کوشش کی۔بہرحال اس واقعہ پر ایک ماہ گزر گیا اور یہ شور و غوغا بڑھتا ہی چلا گیا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس عرصے میں ہمارے آقا و مولیٰ سید المعصومین حضرت اقدس محمد مصطفی ٰﷺ کا قلب مطہر کس قدر غم و الم میں مبتلا ہوا ہو گا۔ اور سیدۃ النساء ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے پاک دل پر کتنے ہی دکھ اور الم کے پہاڑ ٹوٹے ہوں گے اور ان دنوں مسلمانوں کا کیا حال ہو گا۔ مگر ان وفا شعار وں کے صبر و استقامت میں کوئی کمی نہ آئی۔ دشمنوں کے دلآزار استہزاپر الاستقامۃ فوق الکرامۃ کے خوب خوب جوہر دکھائے اور صبر و رضا کا پیمانہ لبریز نہ ہونے دیا۔ بہرحال کچھ روز بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہؓ کی براءت نازل فرما دی تا رہتی دنیا تک مومنوں کو یہ سبق ملتا رہے کہ بعض بدبخت جب ایسی تہمتیں لگائیں تو تم نے کیا نمونہ دکھانا ہے۔
واقعہ افک کے نہایت اہم سبق
یاد رہے کہ واقعۂ افک میں حضرت عائشہؓ کی براءت کی وحی قرآن کریم کی سورت نور آیات 12 تا 21 میں نازل ہوئی۔ اس کا حضرت عائشہؓ کو بھی گمان نہ تھا۔وہ سمجھتی تھیں کہ عام روز مرہ کی وحی میں ان کی براءت نازل ہو گی لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ان آیات کو نازل کیا تاکہ مسلمان اس کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جب کبھی دوبارہ ایسا واقعہ پیش آئے تو ٹھوکروں سے بچ جائیں۔ اپنا ایمان بچانے والے ہوں اور شر پسند شریر منافقین کی باتوں میں ہرگز نہ آئیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں نہایت اہم سبق مومنین کی جماعت کو دیے جو درج ذیل ہیں۔
• فرمایا
إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ
یعنی جب ایسی بہتان درازی ہو اور ا س کو پھیلایا جائے تو یہ ایک فرد کا کام نہیں بلکہ اس کے پیچھے کچھ اور بھی چہرے ہیں جو منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
• فرمایا
لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ
اگرچہ دشمن نے تمہارے لیے شر انگیز ماحول پیدا کیا ہے لیکن تم اس کو شر نہ سمجھو اس میں اللہ نے تمہارے لیے کئی قسم کے خیر رکھ دیے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اس واقعہ کے نتیجے میں منافقین ممتاز کر دیے گئے ہیں۔ اور مومنوں کے دلوں کے زخم اللہ کے حضور عجز و نیازی،مناجات اور دعاؤں میں ڈھل گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ایمانوں کو نئی حرارت ملی ہے اور اس فتنے کے بعد اللہ اور زیادہ کامیابیاں عطا کرنے والا ہے۔
• فرمایا
لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ
یہ سخت تنبیہ ہے ان لوگوں کے لیے جو ان شر انگیز باتوں کو آگے پھیلاتے ہیں اور امام وقت اور اس کے ساتھیوں کے خلاف دلوں میں وسوسے پیدا کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں کہ وہ سخت گناہ گار ہیں اور اللہ کی پکڑ کے نیچے ہیں۔
• فرمایا
لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا
یعنی جب تم نے یہ ناپاک پراپیگنڈا سنا تو کیوں نہ تم نے اپنے مومن بھائی بہنوں کے بارے نیک گما ن کیا اور کہہ دیا کہ یہ سراسر ناپاک بہتان ہے۔
• فرمایا
لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ
یعنی جب کوئی بدکاری کا الزام لگاتا ہے تو اس کو چار گواہ لانے چاہئیں اگر وہ چار گواہ نہیں لائے تو پھر یقیناً وہ جھوٹے اور ناپاک لوگ ہیں۔یاد رہے گناہ کرنے سے زیادہ بڑا گناہ اس کی تشہیر کرنا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ گار کو بالآخر معاف فرما دے گا سوائے ’مجاہرین‘ کے۔ صحابہؓ نے عرض کی ’مجاہرین‘ کون ہیں؟ فرمایا وہ لوگ ہیں جنہوں نے کوئی گناہ کیا اور پھر ا س کی تشہیر کی۔ یہ تو ان کا ذکر ہے جو گناہ کر کے ا س کی تشہیر کرنے والے ہیں لیکن اس آیت میں تو ان کا ذکر ہے جو معصوم لوگوں پر ناپاک بہتان باندھتے ہیں اور بغیر گواہوں یا ٹھوس ثبوت کے پھر ا س کی تشہیر کرتے ہیں۔ یہ تو مجاہرین سے بھی زیادہ گناہ گار اور گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو فرمایا ا ن کو عَذَابٌ عَظِيمٌ یعنی بہت بڑا عذاب ملے گا۔
• فرمایا
إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ
یعنی جب تم ایسی باتوں کو ایک دوسرے سے لے کر پھیلانے لگے اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کی حقیقت کا تم کو علم نہیں تھا اور تم نے اسے معمولی اور ہلکا سمجھا۔ تو تمہارا یہ فعل اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت نے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ خیر کی بات پھیلاؤ اور شر کی بات مت پھیلاؤ تاکہ معاشرے میں امن برقرار رہے۔ بہتان طرازی اور بدکاری کا الزام کو پھیلانا بہت بڑا گناہ ہے اس سے حیا اور پاکیزگی کا ماحول متاثر ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سختی سے اسے منع کیا ہے۔ آج کل موبائل کا دَور ہے بغیر سوچے سمجھے کہ یہ پیغام آگےپہنچانا کس قدر تباہ کن ہے اور اللہ کے حضور مجرم بنانے والا ہے۔ اس کو معمولی سمجھ کر اپنے آپ کو گناہ گاروں کی فہرست میں داخل کیا جاتا ہے۔
• فرمایا
وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
یعنی جب تم نے یہ سنا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم اس موضوع پر گفتگو کریں۔ہمارا رب پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ یہ ہے مومنین کا کردار جن سے اللہ اور اس کا رسول راضی ہیں اور ایسے فتنوں میں ان کے درجات بلند ہوتے ہیں اور وہ اللہ کے قرب میں مزید ترقی کرتے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔
• فرمایا
يَعِظُكُمُ اللّٰهُ أَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ
یعنی یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی بھی اس قسم کی حرکت نہیں کرنی اگر تم مومن ہو اور سچی توبہ کر لی ہے تو آئندہ ہرگز ان ناپاک سازش کا حصہ نہیں بننا۔ کیونکہ ایسی ناپاک سازشیں مومنوں کے جماعت میں بےحیائی کی فروغ کے لیے بنائی جاتی ہیں۔
• فرمایا
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ
یعنی جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایسی افواہیں اور بہتان درازی کو ہوا دے کر مومنوں کی پاک جماعت میں بے حیائی پھیلائی جائے ان کے لیے دردناک عذاب ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ پس ان باتوں کو معمولی خیال نہ کرو۔
• فرمایا
وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
کہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ پھر ایک بار اس مضمون کی سنگینی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم ایسی باتیں کرنے اور آگے پھیلانے کو معمولی نہ جانو بلکہ ایسا کرنےو الوں کے لیے یہ سخت مہلک ہے جس کا تم کو اس وقت علم نہیں۔ تم سمجھ رہے ہو کہ ایک میسج آگے بھیجنے میں کیا ہرج ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ اس کے نتیجے میں تمہارا ایمان سلب ہو سکتا ہے اور تم خدا کے غضب کے نیچے آ کر اس کے سخت عذاب میں گرفتا ر ہو سکتے ہو۔
• فرمایا
وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللّٰهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
ایسے بہتان پھیلانے میں حصہ لینے والے یقیناًسب کے سب ہلاک کیے جاتے۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی جس نے تم کو توبہ کی توفیق دی اور تم کو بچا لیا۔ پس ایسے موقع پر اگر کسی سے دانستہ یا نادانستہ غلطی ہو گئی ہو اور وہ اشاعتِ فحشاء کا کسی بھی پہلو سے ارتکاب کر چکا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ توبہ و استغفار سے اللہ سے معافی کا خواستگار ہو اور اس کی رحمت اور فضل کے سائے میں آنے کی کوشش کرے۔ تا بچ سکے۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے
آج بھی بعض مخالفین اور شر پسند عناصر وہی پرانی تاریخ دہرا رہے ہیں۔خلافت جیسی عظیم الشان نعمت سے بعض کمزوروں کو دور کرنے کی ناپاک جسارت کر رہے ہیں۔ مومنوں کی جماعت میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے اپنے مذموم ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ یقیناً اس سے ان کے اندرونی خبث نکل کر سامنے آ جائیں گے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو وہ کاٹے جائیں گے۔مومنوں کے ایمان مزید تقویت پائیں گے کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے جس کی تاریخ وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو دہراتی ہے اور ناپاک دلوں کو اور منافقین کو ممتاز کرنے کاوقت آ گیا ہے۔پس وہ نظام جماعت سے مزید تعلق جوڑیں گے اور اپنے امام کی محبت اور وفا میں مزید قدم آگے بڑھائیں گے۔ خلافت ہمیشہ کی طرح مزید مستحکم اور ترقیات کی منازل طے کرے گی اور ساری جماعت کا خلافت سے رشتہ اور زیادہ مضبوط اور مستحکم ہو گاکیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں خلیفہ خدا بناتا ہے اور جس پاک وجود کے سر پر اللہ کا ہاتھ ہو اس کے بارے میں اگر دل میں معمولی سا بھی خلل آجائے تو یہ سلب ایمان کا موجب ہے۔پس نادانی میں ایسے لوگوں کی ناپاک باتیں سننے اور ا ن کی ناپاک پوسٹیں دیکھنے سے یقیناً ایمان خطرے میں پڑ سکتا ہے اس لیے ان دنوں ہمیں استغفار اور دعاؤں کی طرف بہت زور دینا چاہیے تاکہ ہمارے کمزور ایمان والے کہیں ٹھوکر نہ کھا جائیں جیسے واقعہ افک میں بعض صحابہ بھی ٹھوکر کھا گئے تھے اور منافقین کی باتوں میں آ گئے تھے۔ چنانچہ روایات کے مطابق نبی کریمﷺ نے ان کو تہمت لگانے کے جرم میں کوڑوں کی سزا دلوائی۔
ثباتِ قلب کی دعا
ہدایت پر قائم رہنا اللہ کے فضل پر موقوف ہے۔ کیونکہ دل اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔اس لیے ایمان کے قائم رہنے دلوں کے سیدھا رہنے اور ثبات قدم کے لیے ایک مومن ہمیشہ اللہ کے حضور دعا کرتا رہتا ہے۔شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام سلمہؓ سے عرض کی کہ اے ام المومنین! جب نبی کریمﷺ آپ کے ہاں ہوتے تھے تو کونسی دعا کثرت سے کیا کرتے تھے ؟اس پر آپؓ نے فرمایاکہ آپﷺ اکثر یہ دعا کرتے
يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ
کہ اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رکھنا۔ حضرت ام سلمہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! آپ اکثر یہ دعا کیوں کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اے ام سلمہ کوئی بھی آدمی نہیں مگر اس کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے۔ جس کو چاہے وہ ایمان پر قائم رکھتا ہے اور جس کو چاہے ٹیڑھا کر دیتا ہے۔گویا انگلیوں کی ایک جنبش سے دل ہدایت پر قائم رہتے ہیں یا گمراہ ہو جاتے ہیں۔حضرت معاذؓ نے یہ سن کر قرآن کریم کی یہ دعا پڑھی۔
رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا۔ (جامع ترمذی ابواب الدعوات )
دو دعاؤں کی تحریک
آج کل ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی ہمیں دو دعاؤں کی تحریک فرمائی ہے کہ ہر احمدی کثرت کے ساتھ یہ دعائیں کرے۔ ان میں سے پہلی دعا یہی ہے کہ
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آلِ عمران :9)
اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا کر یقینا ًتو بہت عطا کرنے والا ہے۔ دوسری یہ دعا ہے
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ(آل عمران :148)
اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے اعمال میں ہماری زیادتیاں ہمیں معاف کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہماری کافر قوم کے مقابل پر مدد فرما۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی تنبیہ
مورخہ 19؍ فروری 1995ء کو درس القرآن میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے معترضین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ کیوں شکوک و وہموں میں مبتلا ہو کر تم اپنی عاقبت کے درپے ہوتے ہو۔ لیکن اگراپنے عہد بیعت خالص ہو اور خدا کی تائیدیں تمہیں یقین دلا رہی ہیں کہ یہ بیعت کا فیصلہ درست تھا، تو پھر اپنے طرزِ عمل میں وہ ادب اختیار کرو جو لازم ہے۔ میرے جیسے کمزور انسان کے لیے نہیں بلکہ نفخِ روح کے تقاضے کی وجہ سے۔ کیونکہ جس خلیفہ کو خدا بناتا ہے، جو اس کے مسند پر بیٹھتا ہے وہ اسی نفخ روح سے برکت پاتا ہے۔ نئی نفخ روح پر نہیں ہے بلکہ اسی نفخ روح سے برکت پاتا ہے۔اس لیے اس مقام کو کبھی نظر سے ہٹانا نہیں۔ اور ذاتی طور پر میں اپنے آپ کو جو سمجھتا ہوں مجھے بہتر پتہ ہے …مگر خدا کی تائید بہرحال میرے ساتھ ہے،رہے گی اور ہر خلیفہ کے ساتھ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلیٰ مقاصد پورے نہیں ہوتے اسی طرح جاری رہے گی۔ جو شخص اس سے تعلق کاٹے گا اس کا خدا سے تعلق کاٹا جائے گا۔اس بات میں کچھ شک نہیں ہے۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اپنی وفا کے تقاضوں کو کما حقہ ادا کر یں۔آمین اللھم آمین۔(ماخوذ از درس القرآن 19؍فروری1995ء)
٭…٭…٭