پاکستانی آئین احمدیوں کو آزادئ مذہب کی ضمانت دینے سے قاصر کیوں؟
٭…ریاستی سطح پر احمدی مخالف پرسیکیوشن کو قانونی شکل دی جا چکی ہے
٭…سیاسی جماعتیں بھی احمدیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتی ہیں اور مذہبی شدت پسند اشتعال دلاتے ہیں۔ ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے یا اس کا حصہ بن جاتی ہے۔
٭…احمدی ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں۔ محفوظ نہیں۔
٭…جو جان سے گئے، وہ بھی اسی نفرت سے محفوظ نہیں۔
تحریک پاکستان اور پھراس کے استحکام کی خاطر قربانیوں میں پیش پیش رہنے والی کلمہ گو احمدیہ کمیونٹی کو اس ملک میں طویل عرصہ سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ گذشتہ چند دہائیوں سےاس کے خلاف منافرت اور تشدد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
ان روز افزوں منفی رجحانات اور جارحانہ رویوں کے محرکات اور ان کے پس منظر کا جائزہ لینے کے لیے بی بی سی اردو کے مقبول پروگرام ’’سیربین‘‘ کی طرف سے مورخہ 26؍جنوری 2022ء کو ایک تحقیقی و تجزیاتی رپورٹ نشر کی گئی۔
پروگرام کے آغاز میں میزبان عالیہ نازکی نے انتہائی فکر انگیزاور اہم سوالات اٹھائے ہیں:
’’پاکستانی آئین اقلیتوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دیتا ہے۔ کیا یہ ضمانت احمدیوں کے لیے نہیں؟‘‘
اور یہ کہ ’’ریاست اس اقلیت کی جان، مال اور بنیادی حقوق کا تحفظ کیوں نہیں کر پا رہی؟‘‘
آپ نے بتایا کہ ’’[احمدی] کمیونٹی کے لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ سوچیں جس محلے، جس شہر، جس ملک میں آپ پیدا ہوئے ہوں آپ پلے بڑھے ہوں وہاں آپ گھر سے نکلیں تو یہ طعنے اور حملے، گھر کے اندر رہیں تب بھی جان کو خطرہ۔ یہ صرف ایک دو نہیں، ہزاروں کی کہانی ہے۔ اور احمدیوں کے خلاف یہ تعصب اور نفرت آج کی بات نہیں۔ مگر یہ حالات یہاں تک پہنچے کیسے؟
ان سوالات کے جوابات کی کھوج لگاتے ہوئےبی بی سی کے رپورٹرکریم الاسلام نے 28؍مئی 2010ء کو لاہور کی احمدیہ مساجد پر ہونے والے بدترین سفاکانہ دہشت گرد حملوں کا حوالہ دیا جس میں 86؍احمدی موقع پر شہید اور 120؍سے زائد شدید زخمی کر دیے گئے تھے۔
رپورٹر کے مطابق بڑھتی نفرت کی وجہ سے احمدی اب ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بھی بن رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اب احمدیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتی ہیں اور مذہبی شدت پسند اشتعال دلاتے ہیں۔ نتیجۃً مشتعل ہجوم کھلے عام ان کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے یا اس کا حصہ بن جاتی ہے۔
ریاستی سطح پر اس پرسیکیوشن کو اس وقت قانونی شکل ملی جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ءمیں آئینی ترمیم کر کے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ جنرل ضیاء نے احمدیوں کے خلاف مزید قوانین بنائے۔ اس کے بعد ان کے خلاف کیسز میں اضافہ ہوا اور معاشرتی سطح پر نفرت بڑھی۔
ہر شعبے میں احمدیوں کو امتیازی سلوک (DISCRIMINATION)کا سامنا ہے۔ چاہے وہ پاکستان کے پہلے نوبیل انعام یافتہ پروفیسر سلام جیسے سائنسدان ہی کیوں نہ ہوں۔
احمدیوں کی جان و مال ملک کے کسی حصے میں بھی محفوظ نہیں اور بہت سے ہجرت کر چکے ہیں۔ جو ملک میں ہیں ان کے سر پر خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔
احمدیوں کی قبروں کی بے حُرمتی اور توڑ پھوڑ کے تصویری شواہد پیش کرتے ہوئے رپورٹر نے کہا کہ جو جان سے گئے وہ بھی اس نفرت سے محفوظ نہیں۔
پروگرام کی میزبان نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: نتیجۃً بہت سے احمدی صرف اپنے عقائد کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔
اس طرح کا خوف اور معاشرےکی طرف سے نفرت اور تعصب پاکستانی احمدیوں کو بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور کر رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1998ءسے 2017ء تک پاکستان میں احمدیوں کی تعداد میں 35 فیصد کمی ہوئی۔ بعض انٹرنیشنل اداروں کے مطابق کچھ لوگ خوف کی وجہ سے خود کو احمدی ظاہر کرنے سے کتراتے ہیں۔ بہت سے احمدیوں کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف ہونے والے مظالم پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں وہ محفوظ نہیں۔
پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مرکز ربوہ ہے جو بظاہر اکثریتی احمدی آبادی پر مشتمل شہر ہے لیکن وہاں کے ایک باسی جو کہ صدر انجمن احمدیہ کے پریس سیکشن کے انچارج بھی ہیں، بی بی سی کے نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’’پاکستان میں احمدیوں کو کسی بھی جگہ تحفظ حاصل نہیں ہے احمدی خود کو عدم تحفظ کا شکار محسوس کر رہےہیں۔ ربوہ میں بھی احمدیوں کو ٹارگٹ بنا کر قتل کیا گیا ہے۔ احمدیوں کو مقدمات میں الجھایا گیا ہے۔ نہ صرف عام احمدیوں کو بلکہ احمدیوں کی قیادت کو بھی۔ مخالفین کی پوری کوشش ہے کہ ان کو مقدمات میں الجھائیں۔
آپ نے کہا کہ اسی طرح نہ ربوہ میں مذہبی آزادی ہے احمدیوں کو، نہ اجتماع کی آزادی ہے۔ نہ صرف پاکستان (بھر)میں بلکہ خاص طور پر ربوہ میں بھی احمدیوں کو حاصل نہیں ہے۔
گفتگو جاری رکھتے ہوئے آپ نے مزید بتایا کہ جو سوسائٹی کا ایک خاص طبقہ ہے وہ احمدیوں کے خلاف اس وقت بہت زور سے نفرت پھیلا رہا ہے۔ بہت قوت سےوہ یہ کام کر رہا ہے کہ احمدیوں کے خلاف واجب القتل ہونے کے فتوے دے رہا ہے، وہ احمدیوں کو بائیکاٹ کی ترغیب دے رہا ہے۔ احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے۔
پروگرام کی میزبان نے بتایا کہ انہوں نے حکومت پاکستان سے اس بارے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن تاحال انہوں نے کوئی رسپانس (response)نہیں دیا۔
حکومت عموماً احمدیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کی سرپرستی کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ احمدی پاکستانی آئین کے تحت اپنے عقائدپر عمل کرنے کے لیے آزاد ہیں [جبکہ]اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے مطابق سوسائٹی کے جارحانہ رویے کی ایک وجہ ریاست کی خاموشی بھی ہے۔
چنانچہ پاکستان میں انسانی حقوق کی معروف کارکن اور صحافی منیزے جہانگیر نے، جو پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی سرگرم ممبر اور اپنی والدہ کے نام سے منسوب انسانی حقوق کی تنظیم عاصمہ جہانگیر فائونڈیشن کی بورڈ ممبر ہیں، نےپروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر سال ہم دیکھتے ہیں کہ [احمدی] اَور بھی غیر محفوظ ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اگر آپ دیکھیں کہ پنجاب کے اندر انہوں نے جو نکاح نامے کے اندر ایک شق ڈالی، حال ہی میں، وہ کس کے لیے ڈالی ہے؟ وہ انہوں نے احمدیوں کے خلاف امتیازی سلوک کرنے کے لیے ڈالی۔ اگر آپ قانون بنانا شروع کر دیں تاکہ ایک اقلیت کے خلاف امتیازی سلوک ہو تو پھر تحفظ فراہم کرنا تو بہت دور کی بات۔ آپ اس کو اَور بھی غیر محفوظ کر رہے ہیں۔
اب یکساں قومی نصاب( Single National Curriclum)آیا ہے وہ اَور بھی سہمے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اگر ایک احمدی بچہ کلاس میں قرآن شریف پڑھ لے تو اس کو …آرڈیننس کے تحت جرمانہ ہو سکتا ہے، تین سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
جو جنرل ضیاء نے آرڈی نینس جاری کیا تھا، اس کے تحت اگر ایک احمدی براہ راست یا بالواسطہ اپنے آپ کو مسلمان دکھانے کی کوشش کرتا ہےتو اس کو سزا ہو سکتی ہے۔ تو ان کے لیے یہاں پہ جگہ اَور تنگ ہوتی جا رہی ہے اور اس کے اندر ریاست کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح تحریک لبیک (.T.L.P)کا یہاں پہ دھرنا ہوا وہ اپنی کچھ وجوہات کی وجہ سے ہوا تھا۔ تو اسی لیے جب ریاست اپنا وزن مذہبی جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیتی ہے جو احمدیوں کو پرسیکیوٹ کرتی ہے تو ظاہر ہے احمدیہ کمیونٹی یہاں پہ خود کو غیرمحفوظ سمجھے گی۔‘‘
پاکستان کی احمدی کمیونٹی اتنی ہی پاکستانی ہے جتنی کوئی اَور برادری۔ ان کی جان اور مال کی حفاظت کرنا ریاست کا اتنا ہی فرض ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر پاکستانی احمدی کے خلاف حملوں پر قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ نہ تو عدالتوں پر دبائو ہونا چاہیے اور نہ ہی احمدیوں کے لیے آواز اٹھانے والوں کو کوئی خطرہ۔
سوال شاید یہ ہے کہ احمدیوں کے لیے اپنا ہی ملک پھر ایک بار محفوظ بن سکتا ہے؟
’’سیربین‘‘ کی میزبان کی طرف سے پوچھے گئے مندرجہ بالا سوال کے جواب میں منیزے جہانگیر نے کہا: ’’اگر ریاست کا یہ مائنڈ سیٹ (mind set)ہے کہ وہ ہر قانون بنا رہی ہے ان [احمدیوں ] سے امتیاز برتنے کے لیے، ان کو نیچا کرنے کے لیے، تو پھر بہت مشکل ہے۔ اگر ان کو تحفظ دینا چاہتے ہیں تو پھر ان کا رویہ اور ان کی پالیسیاں کچھ اَور ہونی چاہئیں۔ لیکن اگر ان کو تحفظ نہیں دینا چاہتے، تو پھر جو آج کا پاکستان ہے، احمدیوں کے لیے وہی ہوگا۔
پاکستان میں احمدی برادری کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب اور نفرت کے بارے میں تیارکردہ ’’سیربین‘‘ کے اس پروگرام میں احمدی شہداء کے لواحقین کے انٹرویو بھی شامل ہیں۔
مکمل پروگرام دیکھنے اور سننے کے لیے بی بی سی اردو کی ویب سائٹ سے استفادہ فرمائیں۔